Tag: کلائمٹ چینج

  • پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    نیویارک: پاکستان اور بھارت میں غیر معمولی موسم گرما اب عام بات بن گیا ہے تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے خاتمے تک اس خطے میں ایسی ہیٹ ویوز آئیں گی جو نہایت خطرناک، جان لیوا اور ناقابل برادشت ہوں گی۔

    امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والے تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2100 تک جنوبی ایشیا قیامت خیز گرمیوں کی زد میں آجائے گا۔

    تحقیق کے مطابق پاکستان کا جنوبی علاقہ، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ شدت اس قدر ہوگی کہ گھر سے باہر دھوپ میں نکلنا ایک نا ممکن عمل بن جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس جان لیوا گرمی سے دریائے سندھ کا زرخیز علاقہ اور بھارت میں دریائے گنگا بھی متاثر ہوں گے جو دونوں ممالک میں غذائی پیداوار کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو کو ہوّا مت بنائیں

    ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق یہ صرف ہیٹ ویو نہیں ہوگی جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے گی، بلکہ اس کے باعث ہونے والی قلت آب، خشک سالی اور غذائی پیداوار میں کمی لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ اگلی آنے والی دہائیوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اور رواں صدی کے اختتام تک یہ گرمیاں ناقابل برداشت صورت اختیار کرلیں گی۔

    یاد رہے کہ قیامت خیز ہیٹ ویوز پاکستان کے لیے نئی نہیں، اور سنہ 2015 میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کر چکا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    اس ہیٹ ویو نے بھارت کو بھی متاثر کیا تھا اور دونوں ممالک میں تقریباً ساڑھے 3 ہزار افراد شدید گرمی کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    صحرا میں رہنے والے افراد ‘ یا وہ لوگ جنہوں نے صحرا کا مشاہدہ کیا ہو‘ جانتے ہیں کہ صحرا کا آسماں دن میں خوبصورت نیلا اور رات میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ ریت کے سنہرے ذروں کی طرح یہ آسمان بھی اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ کے سبب صحرائے تھر کے رہنے والے بہت جلد اپنے اس حسین آسمان سے محروم ہونے والے ہیں۔

    سندھ حکومت‘ اینگرو انرجی ‘ اورچین کے اشتراک سے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے عظیم ذخائرکو زمین کی تہہ سے باہر نکال لانے کے منصوبے پرگزشتہ سال اپریل سے زورو شور سے کام جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ کی تعمیر بھی اپنے عروج پر ہے جہاں سے2019  کے وسط تک کل 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ 2025 تک یہ پراجیکٹ چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہوجائے گا۔

    سائٹ پر جاری کام کے مناظر

    اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب تھر کاخوبصورت آسمان کوئلے کے دھویں سے گہنا کر بہت جلد سرمئی رنگت اختیار کرنے والا ہے تو دوسری جانب کوئلے کی کانوں سے خارج ہونے والی میتھین گیس بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کو پر تول رہی ہے جس میں سب سے پہلےتھر کی پہلے سے تباہ شدہ زراعت سرفہرست ہے۔

    تھرکول انرجی اورماحولیاتی آلودگی کا خطرہ


    گزشتہ دنوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں تھر کول فیلڈ کا دورہ کیا اور کمپنی کےترجمان سے ملاقات کی جس کے دوران کئی اہم امور زیرِگفتگو آئے جنہیں تلخیص کے ساتھ آپ کی خدمت میں گوش گذار کیا جارہا ہے۔

    سندھ اینگرو کول انرجی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پلانٹ کی تعمیر میں نہ صرف یہ کہ حکومتِ پاکستان کے بنائے ہوئے تمام تر معیارات کی پاسداری کی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔

    کوئلے کی کان کا فضائی منظر
    کوئلے کی اسی نوعیت کی ایک اور کان – فائل فوٹو

    کمپنی کے ترجمان کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ سب سے پہلے تو ملین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت سائٹ کی زد میں آنے والے ایک درخت کے بدلے 10 مقامی درخت لگائیں جائیں گے ۔

    گیس کے اخراج کے لیے 180 میٹر بلند ایک اسٹیک تعمیر کی جارہی ہے جو کہ ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ کے طے کردہ معیار یعنی 120 میٹر سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا یہ زہریلا دھواں بہت اوپر جا کر خارج ہوگا تاہم تب بھی یہ فضا میں موجود رہے گا۔

    یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گیس کو خارج کرنے سے پہلے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے گا اور میتھین گیس جو کہ ماحول کے لیے سخت تباہ کن گیس ہے، کے خطرات کو چونے کے استعمال سے کم سے کم کیا جائے گا۔

    اقدامات اوران پرخدشات


    اوپر بیان کیے گئے اقدامات سن کر ایک جانب تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئلے کا یہ پلانٹ ماحول کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہوا میں میتھین کی مقدار ایک فیصد کے اندر ہی رہے گی جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہے تاہم جب ان سارے معاملات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ممکن نہیں ہو پائے گا جیسا کہ بتایا جارہا ہے۔

    Thar coal climate change impacts
    دھیں کے اخراج کے لیے بنایا گیا اسٹیک

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آسیب


    سب سے خطرناک بات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے جس کے حوالے سے تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک اسے یونہی ہوا میں کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے طریقے ڈھونڈر ہے ہیں۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں شامل ہورہا ہے – فائل فوٹو

    اس سلسلے میں ایک تجربہ امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں کیا گیا جہاں کاربن سے کنکریٹ تیار کر کے اسے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اس کو ’سی او ٹو کریٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    سی او ٹو کریٹ سے تیار کردہ ٹھوس جسم

    دوسری جانب آئس لینڈ کے ہیل شیڈی پلانٹ میں کچھ سال قبل ’کارب فکس‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا گیاجس کے تحت کاربن کو سفید ٹھوس پتھر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ پلانٹ آئس لینڈ کےدارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہےاورسالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیاگیا اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    ملین ٹری پراجیکٹ


    اب ایک نظر ڈالتے ہیں ملین ٹری پراجیکٹ پر۔ تھر کول منصوبے پر گزشتہ 16 ماہ سے کام جاری ہے لیکن شجر کاری کے لیے درخت محض چند دن قبل ہی لگائیں گئے ہیں یعنی کہ جس وقت پلانٹ دھواں اگلنا شروع کرے گا اس وقت تک یہ درخت اس قابل نہیں ہوں گے کہ ہوا میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔

    دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ ایک کے بدلے جو 10 درخت لگائیں جارہے ان کی بھرپور نگہداشت کی جائے گی اور وہ صحرا کی موسمی سختیوں اور خشک سالی کا شکار ہوکر محض کاغذوں کا حصہ بن کر نہیں رہ جائیں گے۔

    Thar coal climate change impacts
    چینی تھر کے ملین ٹری منصوبے میں شجر کاری کرتے ہوئے

    میتھین گیس: ہوا میں موجود بم


    کوئلے کے بند کان میں اگر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاحدِ نظر وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی کوئلے کی کان جو کہ 86 میٹر گہرائی تک کھودی جاچکی ہے اور اسے 140 میٹر گہرائی تک جانا ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اس کا جواب فی الحال کمپنی کے ترجمان اور سائٹ پر کام کرنے والے مقامی انجینئر کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم اسے لائم اسٹون (چونے ) سے ٹریٹ کرکے ہوا میں چھوڑیں گے۔

    یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پلانٹ کی کولنگ اور گرین ہاؤس گیسز کی ٹریٹمنٹ کے لیے پانی کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک نہر بھی تھر تک لائی      جارہی ہے اور اس پر تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق میتھین گیس پانی پر اس صورت اثرانداز نہیں ہوتی کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنے یا اس کے استعمال سے انسانی جسم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔

    لیکن امریکی ریاست مینی سوٹا کے محکمہ صحت کی جانب سےشائع کردہ معلوماتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ اب تک کی تحقیق کے مطابق میتھین انسانی جسم کو کسی قسم کا فوری یا دور رس نقصان نہیں پہنچاتی تاہم اس سلسلےمیں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استعمال شدہ پانی کے بعد کے استعمال پر نظرررکھی جائے اور اگر اس سے مقامی آبادی یا ماحول کو کسی بھی صورت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کا فی الفور سدِ باب کیا جائے۔

    Thar coal climate change impacts
    زیرِ تعمیر پاور پلانٹ کی عمارت

    ماہرانہ رائے


    اس حوالے سے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر معین احمد صدیقی سے رائے لی گئی۔ ڈاکٹر معین کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلائمٹولوجی اور پاکستانی جنگلات پر بے شمار تحقیقاتی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔

    ڈاکٹر معین کے مطابق جدید دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں جن میں میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے درپیش خدشات کا سدِ باب کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں جب کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا تو وہاں زلزلے بھی آئے تھے جن کا سبب بھی زیرِ زمین گرین ہاؤ س گیسز کا اخراج تھا۔ ڈاکٹر معین احمد نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے گیس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے جس کے بعد وہ ماحول اور اوزون کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔

    پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش مسائل


    یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں پاکستان کا حصہ محض 0.43 فیصد ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی‘ حد سے زیادہ بارشیں‘ کچھ علاقوں میں بارش کا بالکل نہ ہونا‘ سیلاب اور سمندروں کی حدود تبدیل ہونا یہ وہ سب عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو پہنچے والا سالانہ 3 فیصد کا نقصان بھی شامل ہے جو کہ دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان یعنی سالانہ 2 فیصد سے زیادہ ہے۔

    لہذا تاریخ کے اس مشکل ترین موڑپرپاکستان کسی بھی صورت اپنے ماحول کو نقصان پہنچانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسی سبب پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030 کا حصہ بھی ہے جس کے طے کردہ کل 17 اہداف میں سے 6 براہ راست ماحولیات سے متعلق ہیں جبکہ باقی بھی کسی نہ کسی صورت ماحولیات تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں۔

    Thar coal climate change impacts
    پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030

    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    برفانی ریچھ انسانوں کے لیے کسی حد تک خطرناک جانور ہیں اور یہ اس وقت جان لیوا حملہ کرسکتے ہیں جب کوئی انسان ان کے ماحول میں مداخلت کرے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ان بھالوؤں کی جارحیت میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔

    عام طور پر برفانی بھالو اس وقت انسانوں پر حملہ کرتے ہیں جب کوئی انسان ان کی رہائش گاہوں میں مداخلت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ایسی صورت میں یہ نہایت خطرناک اور جارح ہوجاتے ہیں۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث بھالوؤں کی رہائش کے علاقوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے جس سے یہ بھالو دباؤ کا شکار ہو کر انسانوں کے لیے مزید خطرناک بنتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث برف پگھلنے کی وجہ سے یہ انسانوں کی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے اور اصل خطرہ اس وقت سامنے آئے گا۔ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ہر وقت کسی خطرناک دشمن کے نشانے پر موجود رہیں‘۔

    ان بھالوؤں کے غصے میں اضافے کی ایک اور وجہ ان کی خوراک میں کمی آنا ہے۔ سمندری آلودگی کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جو ان بھالوؤں کی اہم خوراک ہے۔

    مزید پڑھیں: غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غذائی قلت اور بھوک ان بھالوؤں کو انسانوں پر حملہ کرنے پر مجبور کرے گی اور ماہرین کے مطابق ایک بھوکے بھالو کے حملے سے بچنا نہایت ہی مشکل عمل ہوگا۔

    امریکا کے جیولوجیکل سروے کے ماہر جنگلی حیات ٹوڈ ایٹوڈ کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 کے بعد بھالوؤں کے انسانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک جامع تحقیق کے مطابق سنہ 1870 سے لے کر 2014 تک اس نوعیت کے 73 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بھالوؤں نے برفانی علاقوں میں آنے والے اکیلے سیاحوں یا سیاحتی گروہوں پر حملہ کیا۔

    ان حملوں میں 20 افراد ہلاک جبکہ 63 زخمی ہوئے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور تیزی سے برف پگھلنے کی رفتار جاری رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔

    ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔

    لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔

    کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔

    کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ

    سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    موسم کی پیش گوئی دشوار

    توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔

    یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔

    ایل نینو کا اثر

    توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔

    ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟

    ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔

    لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔

    اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔

    امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔

    سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔

    فطرت کی رفو گری

    کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

    اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔

    شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔

    ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔

  • زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے مطابق اگر اگلے 3 برسوں میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قابو کرنے کے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو 3 سال بعد یہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لے گا اور اس سے بچاؤ نا ممکن ہوگا۔

    اقوام متحدہ کی سابق سربراہ برائے موسمیاتی تغیرات کرسٹینا فگیریس سمیت 6 ماہرین طب و سائنس نے جرنل نیچر میں ایک خط شائع کروایا ہے جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا ہے۔

    ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگلے 3 برس ہمارا اور ہماری زمین کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

    مزید پڑھیں: زمین کی تباہی میں صرف 100 سال باقی؟

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ شروع کیے گئے تو 3 سال بعد یہ ہمیں ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے گا۔

    ان کے مطابق 3 سال بعد خوفناک سیلاب اور شدید موسمی تغریات و تبدیلیاں ہماری زمین کا معمول بن جائیں گے جو دنیا بھر کی زراعت پر بدترین منفی اثرات کریں گے اور اس سے اربوں لوگ متاثر ہوں گے۔

    کرسٹینا فگیریس کے مطابق ’کلائمٹ چینج ایک ایسا عفریت بننے جارہا ہے جس سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماہرین نے 3 سال بعد کلائمٹ چینج کے ممکنہ اقدامات کو ار ریورس ایبل ڈسٹرکشن کے نام سے پکارا ہے یعنی ایسے نقصانات جن کی تلافی، اور ان نقصانات کے وجوہات سے بچاؤ کسی صورت ممکن نہیں۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم سنجیدگی سے پیرس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے سنہ 2020 تک گرین ہاؤس یا زہریلی اور نقصان دہ گیسز کے اخراج میں کمی کر لیتے ہیں تو کلائمٹ چینج تو برقرار رہے گا، تاہم اس سے ہونے والے نقصانات کی شدت کم ہوجائے جن کی تلافی بہر صورت ممکن ہوگی۔

    :ماہرین نے کلائمٹ چینج کو شدید ہونے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے کچھ تجاویز بھی دیں جن کے مطابق

    قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، آبی یا ہوا کی توانائی کے استعمال کو مزید 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔

    دنیا بھر کے مختلف شہروں اور ممالک میں فاسل فیول یعنی تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کا استعمال کم کیا جائے اور اس کے لیے سالانہ 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    الیکٹرانک گاڑیوں کی تیاری و فرخت میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں میں کمی کی جاسکے۔

    جنگلات کی کٹائی میں کمی کی جائے۔

    مختلف پیداواری شعبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول دوست اشیا کی پیداوار کریں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سائنس دانوں کے یہ خط شائع کرنے کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چند روز قبل کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے جس میں انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔

    ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکا کے لیے اقتصادی بوجھ قرار دیتے ہوئے امریکا میں کوئلے کی ڈرلنگ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس سے قبل عہدہ صدارت پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے سابق صدر اوباما کے تمام ماحول دوست منصوبوں کو منسوخ کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا سٹی: وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں اٹسٹمپا نامی خوبصورت جھیل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث بنجر زمین میں تبدیل ہوگئی اور اب خشک پتھریلی زمین وقت کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

    یہ جھیل کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات کا ناقابل تردید ثبوت ہے جو کسی زمانے میں اس علاقے کا حسن تھی۔

    پہاڑوں کے دامن میں پھیلی نیلے پانیوں کی یہ خوبصورت جھیل آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔ اس جھیل میں جن 2 دریاؤں سے پانی آتا تھا وہ دریا سکڑ چکے ہیں جس کے باعث جھیل کو پانی کی فراہمی بے حد کم ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    گوئٹے مالا کا یہ علاقہ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے گزشتہ برس خشک سالی کی زد میں رہا جس نے پانی کے ان ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

    یہ حصہ ایل نینو کی وجہ سے بھی متاثر ہوا جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    گوئٹے مالا اور جنوبی و وسطی امریکا کے کئی ممالک کا ساحل بحر الکاہل سے متصل ہے جس کے باعث یہ ممالک ایل نینو سے خوفناک حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    ذریعہ روزگار بھی تباہ

    گوئٹے مالا کی ان جھیلوں اور دریاؤں نے خشک ہو کر اس علاقے کے ذریعہ روزگار کو بھی ختم کردیا ہے۔ یہاں 3 مرکزی ذرائع روزگار تھے جو براہ راست آبی ذخائر سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ایک ماہی گیری، یہاں کے لوگ ان دریاؤں سے مچھلی پکڑ کر روزگار کماتے تھے۔ دوسرا زراعت، جس کے لیے پانی انہی دریاؤں سے آتا تھا۔

    تیسرا ذریعہ روزگار یہاں کی سیاحت تھا۔ خشک ہونے والی خوبصورت جھیل اپنے مسحور کن محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی جو علاقے کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔

    تاہم کلائمٹ چینج کے ان اثرات نےمقامی آبادی کے ذرائع روزگار کو ختم کر کے انہیں غربت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

    حکومت کی جانب سے مقامی آبادی کو یہاں سے منتقل ہونے پر زور دیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    پاکستان میں ملیریا کا مرض ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ملیریا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ڈینگی اور چکن گونیا بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امراض کے پھیلاؤ کی وجہ کلائمٹ چینج ہے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا عنوان’کلائمٹ چینج کے انسانی صحت پر مضمرات اور زراعت سے اس کا تعلق‘ ہے۔ تحقیق میں طلبا و اساتذہ دونوں نے حصہ لیا۔

    تحقیق کی سربراہ پروفیسر ثوبیہ روز نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرات میں اضافہ پانی کے معیار اور غذا کو متاثر کر رہا ہے جبکہ یہ قدرتی آفات خصوصاً سیلابوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے مختلف امراض جنم لے رہے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    ان کے مطابق ان کی ٹیم نے کلائمٹ چینج اور ملیریا کے درمیان تعلق کی جانچ کے لیے پنجاب کے 15 ضلعوں میں تحقیقی سروے کیا۔

    پروفیسر ثوبیہ روز کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت میں مختلف تبدیلیاں مچھروں کی پیداوار اور نشونما میں اضافے کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ملیریا کے پھیلاؤ میں اضافے کا تعلق کم علمی اور صحت و صفائی کے فقدان سے بھی ہے۔ اس سلسلے میں مظفر گڑھ کا علاقہ ملیریا کا آسان ہدف پایا گیا جہاں صحت کی سہولیات نہایت ناقص اور شرح خواندگی بے حد کم ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظفر گڑھ میں زیادہ تر کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ملیریا کا نشانہ بنتے ہیں جو مختلف ماحول، موسم اور درجہ حرارت میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض موسم مچھروں کے لیے نہایت سازگار ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے حفاظت کریں

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ جو کسان ملیریا کا شکار نہیں ہوئے وہ نسبتاً تعلیم یافتہ تھے، مختلف بیماریوں اور ان کے بچاؤ کے حوالے سے شعور رکھتے تھے جبکہ وہ صحت و صفائی کا بھی خیال رکھتے تھے۔

    ماہرین نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا کہ ہر علاقے کے ماحول اور اس کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے کے لیے علیحدہ طبی پالیسی بنائی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    کراچی: پاکستان کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) سے پہنچنے والے تباہ کن نقصانات کے باجود صوبہ سندھ کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ایک بار پھر شعبہ ماحولیات کو نظر انداز کردیا گیا۔

    رواں سال کے بجٹ میں شعبہ ماحولیات کے لیے صرف 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کی رقم کا صرف 0.11 فیصد حصہ ہے۔

    المیہ یہ ہے کہ ماحولیات کے شعبہ کو نظر انداز کرتا ہوا یہ بجٹ ماحولیات کے عالمی دن یعنی 5 جون کو ہی پیش کیا گیا۔

    گزشتہ برس مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں ماحولیات کے لیے 40 کروڑ 55 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا جس میں سے 10 کروڑ 55 لاکھ روپے ماحولیاتی ترقیاتی پروگرام جبکہ 30 کروڑ روپے ساحلی علاقوں کی ترقی و بحالی کے لیے رکھے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    رواں سال نہ صرف اس رقم میں مزید کمی کردی گئی بلکہ بجٹ میں تحفظ ماحول سے متعلق کسی پروگرام کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔

    یہی نہیں گزشتہ سال جن ماحولیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا وہ بھی تاحال ادھورے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات نے اس امر کو حکومت کی غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے تحفظ ماحول کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر زور دیا ہے۔

    پنجاب میں تحفظ ماحول

    دوسری جانب صوبہ پنجاب کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ماحولیات کا بجٹ گزشتہ برس کے 10 کروڑ 85 لاکھ سے بڑھا کر 50 کروڑ 40 لاکھ روپے کردیا گیا۔

    صوبے میں تحفظ ماحول اور پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 نئی اسکیموں کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    علاوہ ازیں پنجاب میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے کئی نئے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جن میں ایجنسی برائے تحفظ ماحول کے اہلکاروں کی استعداد میں اضافے کے پروگرام، صنعتی آلودگی کی نگرانی، عوامی شعور و آگاہی اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس وفاقی بجٹ 18-2017 میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 81 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    اسلام آباد: پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) نے متنبہ کیا ہے کہ سنہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔

    کونسل کی جانب سے جاری کی جانے والی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی صف میں آگیا تھا جہاں آبادی زیادہ اور آبی ذخائر کم تھے جس کے باعث ملک کے دستیاب آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

    سنہ 2005 میں پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا۔ اب ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں شدید قلت آب پیدا ہوجائے گی جس سے خشک سالی کا بھی خدشہ ہے۔

    یاد رہے کہ یہ کونسل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر سرپرست ہے جو آبی ذخائر کے مختلف امور اور تحقیق کی ذمہ دار ہے۔

    کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضروت ہے۔

    پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک

    واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک یہ 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی بجلی کی کمی سے بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق مالی سال 16-2015 میں زرعی پیدوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی جس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔