ہزاروں سال سے دریاؤں کا ایک مخصوص راستے پر بہنا ایک قدرتی عمل ہے، اور اس راستے میں تبدیلی آنا، یا پلٹ کر مخالف سمت میں بہنا بھی کسی حد تک قدرتی عمل ہے، لیکن اس کی وجہ جغرافیائی عوامل ہوتے ہیں۔
تاہم کینیڈا کا یوکون دریا صرف چند ماہ کے اندر اپنا رخ مکمل طور پر تبدیل کر چکا ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ہے۔
اس دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی تبدیلی اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئی جب اس کا منبع جو کہ ایک گلیشیئر تھا، اپنی جگہ سے کھسک گیا جس کے بعد گلیشیئر سے بہنے والا پانی دوسرے دریا میں گرنے لگا۔
اس سے یوکون کی سب سے بڑی جھیل کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی اور سارا میٹھا پانی اب سمندر کی بجائے الاسکا کے جنوب میں بحرالکاہل میں گرنے لگا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس گلیشیئر سے پگھلنے والی برف کا بہاؤ شمال کی جانب ہوتا تھا مگر موسمیاتی تغیرات کے سبب برف کی تہہ پگھل کر کم ہوئی اور اب یہ پانی جنوب کی جانب بہنے لگا ہے۔
اب اس مقام پر، جہاں دریا کا بہاؤ نہیں ہے، پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور دریا کی تہہ میں پڑے پتھر اور پتھریلی زمین ظاہر ہورہی ہے۔
سائنسدانوں نے اسے دریا کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے ایک دریا کا دوسرے دریا کے پانی اور بہاؤ پر قبضہ کر لینا۔
دریا کے بہاؤ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اب دریا کا بہاؤ ہمیشہ اسی صورت رہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر کسی دریا کے پانی کے بہاؤ کا رخ بدلنے کا عمل ہزاروں لاکھوں سال میں انجام پاتا ہے اور اس کی وجہ زیر زمین پلیٹوں کی تبدیلی یا ہزاروں لاکھوں برس تک زمین کا کٹاؤ رونما ہونا ہے۔
تاہم یوکون دریا کے بہاؤ میں تبدیلی صرف چند ماہ میں رونما ہوئی ہے جو تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
جاپان کے شہر توکا ماچی کا شمار دنیا کے برفیلے ترین مقامات میں سے ایک ہوتا ہے۔ البتہ اس مقام کے قریب ایک اور چھوٹا سا گاؤں ہے جو اس شہر سے بلندی پر واقع ہے، اور وہاں کس قدر برف پڑتی ہے؟ آج تک اس کی پیمائش نہیں کی گئی۔
جاپان کے شہر توکا ماچی سے 15 سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاؤں تاکا کرا کہلاتا ہے۔
توکا ماچی میں تو سالانہ 460 انچ برف پڑتی ہے، البتہ تاکا کرا میں کتنی برف پڑتی ہے اس کا تعین آج تک نہ کیا جاسکا، البتہ سطح سمندر سے مزید بلند ہونے کے باعث یہاں توکا ماچی سے کہیں زیادہ برف پڑتی ہے۔
جاپان کے نوبل انعام یافتہ مصنف نے ایک بار اس جگہ کا دورہ کیا تو انہوں نے لکھا، ’تاروں بھری رات میں زمین سفید لبادہ اوڑھے لیٹی نظر آتی ہے‘۔
تاہم اب ماہرین موسمیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کو متاثر کرنے والا کلائمٹ چینج اس مقام پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور اب یہاں برفباری کی اوسط میں کمی آرہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاکا کرا کی آبادی صرف 14 افراد پر مشتمل ہے جبکہ توکا ماچی میں 54 ہزار کے قریب لوگ مقیم ہیں، یہ تمام لوگ اس برفانی موسم کے عادی ہیں اور اس کے مطابق اپنا طرز زندگی تشکیل دے چکے ہیں۔
تاہم اب یہاں کا درجہ زیادہ ہونے کے باعث انہیں طبی مسائل پیش آسکتے ہیں جبکہ اس سخت موسم کے مطابق بنایا گیا ان کا ذریعہ روزگار بھی خطرات کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے برفانی مقامات شدید خطرات کا شکار ہیں اور یہاں رہنے والی جنگلی و آبی حیات کو بھی معدومی کا خدشہ ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں جس کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافے کا امکان ہے اور یوں تمام دنیا کے ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔
عالمی خلائی ادارےناساکے مطابققطب شمالی کی برفبھی پگھل رہی ہے اور گزشتہ سال صرف مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔
قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔
جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔
برف کے اس قدر پگھلاؤ کے بعد اب ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔
راولپنڈی: صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں انوائرنمنٹ میلہ منعقد کیا گیا جس میں طلبا اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
یہ میلہ نیشنل کلینر پروڈکشن سینٹر کی جانب سے طالب علموں اور عام شہریوں میں ماحول کو لاحق خطرات اور ان میں کمی اور بچاؤ کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے منعقد کیا گیا۔
میلے کا افتتاح ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف نے کیا۔
میلے میں طلبا نے ماحولیات اور زمین کی حفاظت سے متعلق ٹیبلوز پیش کیے۔
انہوں نے سائنس و آرٹ پروجیکٹس کے ذریعے ماحولیاتی خطرات میں کمی کے لیے مختلف آئیڈیاز بھی پیش کیے۔
طلبا نے ان پروجیکٹس کے ذریعے بتایا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے خطرناک نقصانات سے باخبر ہیں اور اپنے ماحول، زمین اور قدرتی وسائل کے تحفظ کا عزم رکھتے ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کا عالمی تنظیم نے آڈٹ کروایا اور اسے 83 فیصد تک کامیاب قرار دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری منصوبے کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا بلین ٹری سونامی منصوبے کا عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے آڈٹ کروایا اور کہا کہ یہ منصوبہ 83 فیصد تک کامیاب ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر بلین ٹری اور ماحولیاتی بہتری کے لیے صوبے کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ نے درخت لگا کر دیگر صوبوں کے لیے مثال قائم کی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے 5 سال میں 1 ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہم اس وقت کامیاب ہوگی جب لوگ آپ کے ساتھ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں 80 کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں جن کی کسی بھی طرح تصدیق کی جاسکتی ہے۔ سال کے آخر تک ایک ارب درختوں کا ہدف پورا کرلیں گے۔
عمران خان نے بتایا کہ صوبے میں 22 ارب روپے کی 60 ہزار کنال زمین ٹمبر مافیا سے واپس لی گئی۔ زمینیں وا گزار کروانے کے دوران گولیاں بھی چلیں لیکن اہلکار کھڑے رہے۔
پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثر ملک
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی درجہ حرات میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ملک ہے۔ جیسے جیسے گرمی برھے گی، بارش کم ہوتی جائے گی۔ ایسے میں مجھےخوشی ہے خیبر پختونخواہ حکومت نے ماحولیات سے متعلق اقدامات کیے۔
ان کے مطابق اس مہم کا پورے ملک میں بہت اچھا اثر پڑے گا، اور مستقبل کی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاسکیں گی۔
یاد رہے کہ سنہ 2015 میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں ماحولیاتی آلودگی اور کلائمٹ چینج جیسے بین الاقوامی خطرات سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت صوبے بھر میں ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تھا۔
یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔
لاس اینجلس: امریکا میں ماحولیات کے لیے سب سے زیادہ سرگرم ریاست کیلی فورنیا ٹرمپ انتظامیہ کی ماحولیاتی پالیسیوں کے سبب قانونی کارروائی کا ارادہ کر رہی ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان جاری کشمکش کو امریکی صدر کے اس فیصلے سے ہوا ملی، جس کے تحت اوباما دور میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ اس نئے فیصلے سے امریکا کے مزدوروں کو فائدہ ملے گا اور بالخصوص کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور اس سے مستفید ہوں گے۔
گورنر اور میئر کے پیغامات
امریکی صدر کے اس فیصلے کو کیلی فورنیا کے ماحولیاتی گروپس اور سرکاری عہدیداران کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر جیری براؤن نے بھی اس کی مخالفت میں ٹویٹ کیا ہے۔
Gutting #CPP is a colossal mistake and defies science itself. Erasing climate change may take place in Donald Trump’s mind, but nowhere else
اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کوششوں کو ختم کرنے کا خیال سوائے ڈونلڈ ٹرمپ کے کسی اور کے دماغ میں نہیں آسکتا ہے۔
لاس اینجلس کے میئر نے بھی اس مہم میں شریک ہوتے ہوئے امریکی صدر کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اس نئے فیصلے پر سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کچھ بھی فیصلہ کرے لیکن ہم 2050 تک گرین ہاؤس گیسز کو 80 فیصد کم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا رہیں گے اور دنیا کو ایک صاف ستھرا اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کا مشن جاری رکھیں گے۔
ٹرمپ کی ماحول کے لیے دشمن پالیسیاں
اپنی انتخابی مہم کے دوران سے صدر ٹرمپ اپنے مختلف بیانات کے ذریعے ماحولیات اور سائنس کے شعبے کے لیے اپنی غیر دلچسپی ظاہر کر چکے تھے۔
اپنی انتخابی مہم میں کئی بار ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دیا۔
ٹرمپ کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔
یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔
ٹرمپ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ گزشتہ برس اقوام متحدہ میں ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے طے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل سے بھی علیحدہ ہوجائیں گے جس کے بعد دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہننے کا اندیشہ ہے۔
صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر
اس سے قبل سابق صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جو ٹرمپ انتظامیہ ختم کرنے کے درپے ہے۔
صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی اور اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے بھی کیے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکنز بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔
صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔
رواں برس یہ دن جنگلات اور توانائی کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ جب ہم جنگلات اور توانائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا خیال درختوں کی لکڑی کا آتا ہے جسے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، معیشت، شہری ترقی اور وہاں رہنے والے انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔
جنگلات ماحول کی آلودگی میں کمی کرتے ہیں جبکہ درختوں پر لگے پھلوں کی تجارت کسی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔
کراچی میں جنگلات اور درختوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 2015 میں قیامت خیز گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئی جس نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔
وزیر اعظم کا پیغام
جنگلات کے عالمی دن پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آئندہ نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آئندہ نسلوں کو سر سبز مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔
پاکستان کے 2 نایاب جنگلات
پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔
صنوبر کے جنگلات
بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کویونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔
یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔
اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔
تیمر کے جنگلات
کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔
پاکستان میں درختوں کی کٹائی
وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔
ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔
وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔
اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟
اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے شدید ترین اور نہایت تشویشناک پہلو سے آگاہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگلے چند سالوں میں پاکستان سے موسم بہار کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ چند دن قبل محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا تھا کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا اور اگلے 10 سے 15 روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔
اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور بہت جلد پاکستان سے بہار کا موسم ختم ہوجائے گا۔
محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے پاکستان کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا ہے۔ اب موسم سرما کے بعد فوراً بعد موسم گرما زور پکڑ جائے گا، یوں دونوں موسموں کے درمیان کا وقفہ جسے بہار کا موسم کہا جاتا ہے بہت مختصر سا ہوگا جو نہ ہونے کے برابر ہوگا۔
ماہرین کے مطابق موسم بہار میں پھولوں کے کھلنے اور ان کے افزائش پانے کی مخصوص مدت مختصر ہوجائے گی یوں ہم آہستہ آہستہ کھلتے ہوئے پھولوں اور موسم بہار کا جوبن دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے۔
ماہرین نے اس کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کلائمٹ چینج کے نقصانات کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے۔ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔
تاہم اب اس کی وجہ سے کسی ایک موسم کا سرے سے ختم ہوجانا نہایت تشویشناک امر ہے۔
موسمیاتی تغیر کی وجہ سے موسموں کے طریقہ کار (پیٹرن) میں تبدیلی کا عمل سہنے والا پاکستان واحد ملک نہیں۔ گزشتہ برس ایک امریکی تحقیق کے مطابق امریکا میں موسم خزاں کا دورانیہ بھی کم ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جبکہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔
یوں امریکی عوام خزاں کی سحر انگیزی اور سنہری پتوں کے گرنے اور راستوں کے ان سے بھر جانے کے خوبصورت نظاروں سے محروم ہوجائے گی۔
دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔
سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد منظور کی۔ رواں برس یہ دن ’نوجوانوں کی آواز سنو‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ اس کا مقصد نئی نسل اور نوجوانوں کو جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششوں میں شامل کرنا ہے۔
جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔
لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔
اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔
اسلام آباد: محکمہ موسمیات پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا اور اگلے 10 سے 15 روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط تک درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔ مارچ کے اختتام تک اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے ماہ یعنی اپریل میں مختصر دورانیے کی ہلکی بارشوں کا بھی امکان ہے، تاہم اسی ماہ سندھ کے جنوبی حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔
ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے۔ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔
فراہمی آب کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فی الحال دریاؤں میں آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ منظر نامے میں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ رواں برس ملک میں شدید برفباری ہوئی ہے۔ اپریل میں شمالی علاقوں میں جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائے گی جس کے باعث دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ رواں برس ملک میں پانی کی کمی واقع نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور سال 2016 تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔
یہی نہیں یہ متواتر تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2014 اور 2015 میں بھی معمول سے ہٹ کر درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔
امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد سے متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔
رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔
ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔
یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔
مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔
لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔
یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔
:کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک
کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔
سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
:پانی کی شدید قلت
ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔
ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔
ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
:زراعت میں کمی
پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔
پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔
:شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک
پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔
ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔