Tag: کلائمٹ چینج

  • موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    کراچی: پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کا پانی روکنے پر تلا ہے جس سے نئے جنگی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

    کراچی کے مقامی ہوٹل میں گرین میڈیا انیشی ایٹو اور فریڈرک نومین فاؤنڈیشن (ایف این ایف ) کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔

    آب و ہوا میں تبدیلی کے ابلاغ کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    اس موقع پر اے آر وائی نیوز کے ویب ایڈیٹر اور ڈیجیٹل میڈیا ماہر فواد رضا نے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ڈیجیٹل میڈیا کی تشکیل کی ہے اور اب عوام اپنے موبائل فون سے خبروں کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں 90 سیکنڈ کی ایک معلوماتی ویڈیو 2 ہزار الفاظ کے کسی مضمون سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیٹا کی کمی سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس اور سروے کو مقامی حالات سے وابستہ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔

    اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور انگریزی بلاگنگ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔

    سندھ سیڈ کارپوریشن کے سربراہ اور ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ کراچی میں مبارک گوٹھ کے قریب چرنا جزیرے کے پانی میں مونگے اور مرجانی چٹانیں ہیں جہاں 80 فیصد آبی حیات رہتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس حساس جگہ پر تفریحی سرگرمیاں بڑھی ہیں، یہاں تک کہ بحری جہاز اور کشتیاں بھی دھوئی جارہی ہیں جس سے وہاں موجود آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    ڈاکٹر اقبال سعید خان نے زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا کی قومی پالیسی اب باضابطہ طور پر منظور ہوچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

    سینیئر صحافی محمود عالم خالد نے کہا کہ بڑے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، ان میں ماحولیات کے معاملے کو ٹائم پاس سمجھا جاتا ہے اور اسے عموماً صحت کی خبروں کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی اشاعت سے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار ہوتا ہے تو دوسری جانب اخباری تراشے اور میڈیا میں تشہیر کے بعد متعلقہ مسئلے کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس لیے ماحولیاتی رپورٹنگ ایک بہت ہی اہم کام ہے۔

    ایف این ایف کے سینیئر پروگرام کو آرڈنیٹر عامر امجد نے کہا کہ ان کی تنظیم گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے وابستہ مسائل اور شعور پر کام کررہی ہے اور اس ضمن میں کئی اداروں اور تنظیموں سے تعاون کیا جارہا ہے۔

    ان کے مطابق پاکستان بھر کے اسکولوں میں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شعور اور توانائی کی بچت کے طریقے بھی بتائے جارہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اسکول ان کی تنظیم سے رابطہ کرسکتا ہے۔

    عامر امجد نے بتایا کہ ایف این ایف جمہوری اقدار، آزادی، خواتین اور نوجوانوں کی بہبود سمیت کئی اہم مسائل پر کام کر رہی ہے تاکہ سول سوسائٹی کو مضبوط کر کے قومی ترجیحات میں ان کی آواز شامل کی جاسکے۔

    سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر ایک نظر

    ورکشاپ کے ایک اور اہم حصے میں تھر پارکر، حیدر آباد اور کراچی سے شامل صحافیوں کے وفود سے ان کے علاقوں میں اہم ترین مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مسائل پر میڈیا کوریج ہونی چاہیئے۔

    تھر پارکر

    تھرپارکر سے آئے مہمان صحافی دلیپ دوشی لوہانو نے کہا کہ تھر پارکر میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔

    تھرکول کی وجہ سے 8 گاؤں کے باسیوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور مویشیوں کی چراہ گاہیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔

    مریم صدیقہ نے کہا کہ تھری نقل مکانی پر مجبور ہیں اور انہیں غذائی تحفظ حاصل نہیں۔

    حیدر آباد

    حیدر آباد سے آئے صحافیوں نے کہا کہ نہر پھلیلی ایک زمانے میں پھولوں کا مرغزار ہوا کرتی تھی اور اب آلودگی اور صنعتی فضلے سے ہلاکت خیز پانی کا جوہڑ بن چکی ہے اور غریب لوگ اس کا پانی پی کر بیمار ہو رہے ہیں۔

    حیدر آباد شہر میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے کھلے عام پھینکا جارہا ہے۔

    حیدرآباد کے شہریوں کو منچھر جھیل کا آلودہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے جو کئی امراض کی وجہ بن رہا ہے۔

    ایک زمانے میں مٹیاری کے جنگلات بہت وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی ذمے دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے۔

    کراچی

    کراچی میں کے ایم سی کے ٹرک مصروف اوقات میں کچرا اٹھا رہے ہیں اور ٹرک بند نہ ہونے کی وجہ سے کچرا روڈ پر گرتا ہے۔

    کراچی میں درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے اور یہ شہر شجر کاری کی ایک بھرپور مہم کا متقاضی ہے۔

    سمندر آلودہ ہو رہے ہیں اور اس پانی میں سیوریج کا گند شامل ہو رہا ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے۔

    سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات اور کلائمٹ چینج کا شعور پہنچانے کی مہم کی ضرورت ہے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی نافذ کردیا گیا ہے تاکہ ملک میں توانائی کے کفایت شعار استعمال اور اس کی بچت کو یقینی بنایا جاسکے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے فعال ہونے والی پارلیمنٹ بن چکی ہے۔

    وفاقی وزیر زاہد حامد نے بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں مضر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، تاہم ان گیسوں سے وقوع پذیر ہونے والے کلائمٹ چینج اور اس کے خطرات سے متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ ’دنیا آگاہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘۔

    زاہد حامد نے مراکش میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی سربراہی بھی کی تھی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ کھڑا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی بھی توثیق کردی ہے۔ انہی ماحول دوست اقدامات کے تحت پرائم منسٹر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں شجر کاری کی جائے گی۔

    زاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بھی تیار کی ہے اور پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کی قومی اسمبلی نے ان اہداف کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے کے بل کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔

  • جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    لندن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام تیزی سے بدلتے ہوئے موسم یعنی کلائمٹ چینج سے مطابقت نہیں کر سکیں گی جس کے باعث ان کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    ایک نئے تحقیقی مقالے میں 50 ایسے جانوروں، پرندوں اور پودوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو تیزی سے بدلتے موسموں سے مطابقت نہیں کرسکیں گے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کئی رینگنے والے جانور، آبی حیات اور پودے کلائمٹ چینج کے باعث خاص طور پر معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ان جانداروں کو ہے جو گرم خطوں کے رہنے والے ہیں۔ کلائمٹ چینج یعنی موسموں میں تبدیلی کا سب سے اہم پہلو گلوبل وارمنگ یعنی دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ ہے جس کے باعث نہ صرف ٹھنڈے علاقوں میں مجموعی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بلکہ گرم علاقوں کا موسم بھی مزید گرم ہورہا ہے۔

    leopard

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انسان کی طرح کئی جاندار بھی ہجرت کر جائیں گے اور نئے ٹھکانے تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن بہت سے ایسے ہوں گے جو اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے کے قابل نہیں ہوں گے نتیجتاً وہ موت کا شکار ہوتے جائیں گے۔

    ماہرین کے مطابق موجودہ درجہ حرات بھی جانداروں کی کئی اقسام کو ان کی جگہوں سے ہجرت پر مجبور کرچکا ہے۔

    مقالے میں شامل ڈاکٹر وائنز کا کہنا ہے کہ پانی میں رہنے والے اور رینگنے والے جانداروں کی نسبت ممالیہ جانور اور پرندوں کا مستقبل کچھ بہتر ہے کیونکہ وہ اپنا جسمانی درجہ حرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دہرا خطرہ ہے، ایک تو موسم میں تبدیلی، جسے ہم بدتر تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری اپنی پناہ گاہوں سے محرومی۔

    birds

    اس سے قبل بھی لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    رپورٹ میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کا مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    :جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ جب کبھی آپ کو سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت ہو، آپ اپنے فلیٹ یا گھر کی چھت پر جائیں اور وہاں اگی ’فصل‘ سے اپنی مطلوبہ شے توڑ کر لے آئیں؟

    یہ بات شاید آپ کو بہت عجیب لگے، لیکن دنیا بھر میں اب یہی رجحان فروغ پا رہا ہے جسے اربن فارمنگ کہا جاتا ہے۔

    شہری زراعت یا اربن فارمنگ کا مطلب شہروں کے بیچ میں زراعت کرنا ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    farming-6

    farming-2

    farming-4

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے افراد کو آخر کس طرح سبزیاں اور پھل فراہم کیے جائیں؟

    اس کا حل ماہرین نے شہری زراعت کے طور پر پیش کیا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عمارتوں کی چھتوں پر مویشی بھی پالے جاسکتے ہیں جو دودھ اور گوشت کی فراہم کا ذریعہ بنیں گے۔

    farming-5

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    یہ طریقہ کئی ممالک میں زیر استعمال ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں بھی متعدد فلک بوس عمارتوں کی چھتوں پر زراعت شروع کردی گئی ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی اجناس کی مقدار 23 ہزار کلو گرام سالانہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

    عالمی رپورٹس کے مطابق زراعت کو ایک اور خطرہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج سے بھی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہر سال بارشوں کی مقدار میں تبدیلی (کسی سال کم اور کسی سال زیادہ بارش ہونا) بھی فصل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس کی سالانہ مقدار میں کمی ہوتی ہے، یوں یہ غذائی اجناس کمیاب اور مہنگی ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر شہری زراعت کے علاوہ انفرادی طور پر بھی گھروں میں زراعت یا چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف سبزیاں اور پودے اگانا کسی خاندان کو اس کی غذائی ضروریات میں خود کفیل کرسکتا ہے۔

  • انسان کی بقا کے لیے ضروری یہ جاندار خود خطرے کا شکار

    انسان کی بقا کے لیے ضروری یہ جاندار خود خطرے کا شکار

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا میں ایک جاندار ایسا ہے جو کسی وجہ سے اگر دنیا میں نہ رہے تو انسانی نسل بھی ختم ہوجائے گی؟

    یہ جاندار شہد کی مکھیاں ہیں۔ جی ہاں، خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    شہد کی مکھیاں کیوں ضروری ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: امریکی نصف غذا ضائع کردیتے ہیں

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں۔

    دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    مکھیاں خطرے کی زد میں

    نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔

  • برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے جس نے ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    greenland-4

    واضح رہے کہ اتنی بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرات میں اضافہ ہے۔

    اس سے قبل بھی عالمی سائنسی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    مزید پڑھیں:

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ناسا کے ماہرین کے مطابق سنہ 2016 ایک گرم سال تھا جس نے دنیا بھر میں اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر برفانی علاقوں پر پڑ رہا ہے۔ شدید گرمی کے باعث یہاں موجود گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    bear-6

    رپورٹس کے مطابق سال 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

  • لیونارڈو ڈی کیپریو کی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے کوشش

    لیونارڈو ڈی کیپریو کی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے کوشش

    ایڈنبرگ: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو نے بے گھر افراد کی حالت زار اجاگر کرنے کے لیے ایک کیفے کا دورہ کیا اور وہاں ظہرانہ تناول کیا۔

    امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ایڈنبرگ میں واقع ’ہوم‘ نامی یہ ریستوران جو اپنے اسکاٹش اور فرانسیسی کھانوں کے لیے مشہور ہے، اپنے منافع کو بے گھر افراد کی بحالی کے منصوبوں پر خرچ کرتا ہے۔

    leo-2

    leo-3

    لیو کی وہاں آمد بھی ریستوران کے مقصد کی حمایت کرنا اور دیگر افراد کو بے گھروں کی حالت زار کی طرف توجہ دلانے کی ایک کڑی تھی۔

    لیو کو دیکھتے ہی وہاں ان کے مداحوں کا ہجوم امڈ آیا جو ان سے ملنا اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا چاہتے تھے۔

    leo-4

    واضح رہے کہ ہالی ووڈ اداکاروں کی ایک بڑی تعداد سماجی خدمات میں مصروف رہتی ہے۔

    اس سے قبل معروف اداکار جارج کلونی بھی ہوم کیفے کے ایک شراکت دار کیفے ’سوشل بائٹس‘ کا دورہ کرچکے ہیں۔ یہ کیفے بھی ہوم کیفے کی طرح اسی مقصد پر اپنا منافع صرف کرتا ہے۔

    leo-5

    دی ریویننٹ فلم میں بہترین اداکاری کے لیے آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والے لیونارڈو ڈی کیپریو اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی بھی ہیں۔

    اپنے سفیر مقرر ہونے کے بعد سے وہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی تغیرات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اس ضمن میں وہ صدر اوباما سمیت متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔

    leo-6

    لیو نے ایک دستاویزی فلم ’بی فور دی فلڈ‘ بھی بنائی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔ اس فلم کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لیے اس فلم کو سوشل سائٹس پر دستیاب کردیا گیا ہے تاکہ اسے کوئی بھی باآسانی اور مفت دیکھ سکے۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے پاکستان کے 3 شہروں کے لیے ایک ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ان شہروں میں موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کی بحالی کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے منظوری دیے جانے والے اس منصوبے میں تکنیکی معاونت شہروں میں موسمیاتی تغیر کے نقصانات سے بحالی کے ٹرسٹ یو سی سی آر ٹی ایف کے حوالے کی گئی ہے۔

    اس منصوبے کے تحت ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور ان کی بحالی کی جائے گی۔ ان نقصانات میں کلائمٹ چینج کے باعث وقوع پذیر ہونے والے واقعات جیسے سیلاب، ہیٹ ویو، یا غذائی قلت سے ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    منصوبے میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت، انڈونیشیا، میانمار، اور ویتنام کے شہروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    اے ڈی بی کے مطابق جن 3 پاکستانی شہروں کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے وہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے نہایت شدید خطرات کا شکار ہیں۔

    منصوبے کے تحت ان شہروں میں مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل کر دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسے انفراسٹرکچر کے قیام پر کام کیا جائے گا جو موسمیاتی  تبدیلیوں کی صورت میں ہونے والے نقصانات کو برداشت کرسکے۔

    اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 1951 سے ان شہروں کی آبادی میں سالانہ 4 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں آبادیوں میں اضافے کا سبب

    اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ سنہ 2060 تک پاکستان کی 60 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوجائے گی جس سے ان شہروں کو انفرا اسٹرکچر، ماحول، معیشت اور امن و امان کے حوالے سے بے پناہ دباؤ اور سنگین خطرات کا سامنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 30 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور

    اے ڈی بی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اربنائزیشن (گاؤں، دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت) کا عمل ایک بدترین صورتحال میں بدل چکا ہے جس کی وجہ مناسب حکمت عملیوں اور منصوبہ بندی کا فقدان، کمزور قوانین، اور سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔

    اے ڈی بی کے منصوبے میں شامل خیبر پختونخوا کے 3 شہر بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں اور وہاں رہائش پذیر بیشتر آبادی کو گھر، روزگار اور بنیادی سہولیات کا عدم فراہمی کا سامنا ہے۔

  • تہران میں بھی اسموگ کا راج، اسکول بند

    تہران میں بھی اسموگ کا راج، اسکول بند

    تہران: ایران کے دارالحکومت تہران میں شدید فضائی آلودگی کے بعد حکام نے اسکولوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

    ایرانی دارالحکومت تہران میں اتوار کے روز دبیز دھند (اسموگ) چھا گئی جس کے باعث حد نگاہ نہایت کم رہ گئی اور شہر کے بیشتر افراد گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: دھند کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    ایرانی حکام کے مطابق شہر میں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کردہ آلودگی کی سطح سے تین گنا بڑھ گئی جس کے بعد تہران کے تمام اور صوبے کے بیشتر کنڈر گارڈنز اور پرائمری اسکولوں کو بند کردیا گیا۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ کے باعث نئی دہلی میں اسکول بند

    حکام نے سڑکوں پر ٹریفک کم کرنے کے لیے ’اوڈ ایون‘ کا اقدام اٹھانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس اقدام کے تحت گاڑیوں کو ان کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں (ایک دن جفت اور ایک دن طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں) سڑک پر لانے کی اجازت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    اس کے ساتھ ساتھ شہر کے آلودہ ترین حصوں میں ایمبولینسوں کو بھی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر تہران کے میئر محمد باقر قالیباف نے عوام میں پبلک ٹرانسپورٹ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے میٹرو میں سفر کیا۔

    واضح رہے کہ تہران سمیت ایران کے کئی شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتحال نہایت خطرناک ہے اور حکام کے مطابق شہر میں ہونے والی 70 فیصد اموات کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ فضائی آلودگی سے ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    ایران کے مختلف شہروں میں قائم بھاری صنعتیں پیداوار کے عمل کے لیے دھاتیں، تیل اور قدرتی گیس کا استعمال کرتی ہیں جس کے بعد ان صنعتوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق تہران کی فضائی آلودگی بڑی تعداد میں شہریوں کو دمہ اور امراض قلب سمیت مختلف امراض میں بھی مبتلا کر رہی ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    مراکش: ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 مراکش میں جاری ہے۔ کانفرنس میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آئے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

    کانفرنس میں پیش کی جانے والی متعدد رپورٹس میں سے ایک کے مطابق سنہ 2011 سے سنہ 2015 کے 5 سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال تھے۔ ماہرین نے واضح طور پر بتایا کہ موسموں کی شدت میں اضافے کے ذمہ دار خود انسان ہیں اور اس شدت میں مزید اضافہ ہوگا جو معیشت سمیت تمام شعبوں پر خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں میں یہ تبدیلی یا کلائمٹ چینج دنیا بھر میں ہیٹ ویو، قحط، شدید بارشوں اور خطرناک سیلابوں کی شرح میں اضافہ کردے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ سنہ 1996 سے 2015 تک دنیا کے مختلف حصوں میں 11 ہزار شدید ہیٹ ویوز آئیں جن کے باعث 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک جبکہ معیشتوں کو مجموعی طور پر 3 کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔

    ان خطرناک ہیٹ ویوز میں پاکستان اور بھارت میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے دنیا کے تمام سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوگا اور اس سے دنیا کے 90 فیصد ساحلی علاقوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 2040 تک ساحلی علاقوں کے ساتھ موجود سمندر کی سطح میں 7 انچ سے زائد اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    ماہرین نے واضح کیا کہ ان خطرات پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے گزشتہ برس پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی معاہدے پر ہنگامی بنیادوں پر عملدر آمد ضروری ہے۔

    اس معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے جن کے باعث زہریلی گیسوں کا اخراج دنیا بھر کے موسموں میں تبدیلی لارہا ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے۔

    رواں برس ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدر آمد کے لیے اقدامات وضع کرنا ہے۔

    :ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیاں باعث تشویش

    کانفرنس کے دوران ہی امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور ڈونلد ٹرمپ امریکا کے نئے صدر منتخب ہوگئے جس نے کانفرنس کے شرکا کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کے ماحول دشمن اقدامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا، لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    trump-2-2

    صرف یہی نہیں ٹرمپ کے انتخابی منشور میں ماحول دشمن اقدامات بھرے پڑے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکا، جو پہلے ہی کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، مزید زہریلی گیسوں کا اخراج کرے گا جس کے بعد دنیا بھر میں ماحول کی بہتری کے لیے جاری اقدامات خطرے کا شکار ہوگئے ہیں۔

    ٹرمپ کے ان اقدامات میں امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی اور صدر اوباما کے شروع کیے گئے تمام ماحول دوست منصوبوں کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔

    پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    دوسری جانب پاکستان اس منصوبے پر عملدر آمد کے حوالے سے نہایت سنجیدہ ہے اور چند روز قبل ہی پاکستان کی جانب سے پیرس معاہدے کی توثیق کی جاچکی ہے۔

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔