Tag: کلائمٹ چینج

  • ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ماحول کو بچانے کے لیے کام کرنے والے افراد بہت سے حیرت انگیز کام سرانجام دیتے ہیں، جس سے ایک طرف تو وہ جدید دور کی انسانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، دوسری طرف وہ ماحول کو بھی حتیٰ الامکان فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش جاپان کے ایک اخبار شائع کرنے والے ادارے نے کی جنہوں نے اپنے اخبار کو ایسے کاغذ پر چھاپنا شروع کیا جو پودے اگا سکتا ہے۔

    آپ کو علم ہوگا کہ کاغذ درختوں میں موجود خاص قسم کی گوند سے تیار کیے جاتے ہیں۔ کاغذوں کا ایک دستہ جس کا وزن ایک ٹن ہو، اسے بنانے کے لیے 12 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی *

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    کاغذوں سے بننے والے اخبارات عموماً ناقابل تجدید ہوتے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل نہیں ہوتے، یوں یہ بے شمار کاغذ ضائع ہوجاتے ہیں۔

    ان تشویش کن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے جاپانی اشاعتی ادارے نے یہ قدم اٹھایا جس کے بعد اب قارئین پڑھنے کے بعد اخبار کو گملوں اور مٹی میں دبا دیتے ہیں اور چند ہی دن بعد وہاں لہلہاتے پھول اگ آتے ہیں۔

    paper-3

    اشاعتی ادارے نے اس خیال پر عملدر آمد کرنے کے لیے اپنے کاغذ کو بنواتے ہوئے اس میں بیجوں کی آمیزش شروع کردی۔

    اخبار کی اشاعت کے لیے جو سیاہی استعمال کی جاتی ہے اس میں سبزیوں کو ملایا جاتا ہے جس کے بعد یہ قدرتی کھاد کا کام انجام دیتی ہیں۔

    paper-2

    اس اخبار کو پڑھنے کے بعد لوگ اپنے گھر میں موجود پودوں اور باغیچوں میں دفن کردیتے ہیں اور چند ہی روز بعد اس اخبار کی بدولت خوشنما پھول اور پودے اگ آتے ہیں۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس خیال کے تحت انہوں نے فطرت کا چکر (سائیکل) قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک چیز جو درختوں سے بن رہی ہے وہ اپنے خاتمے کے بعد دوبارہ درخت بن جائے گی۔

    paper-4

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں تعمیرات کے لیے جنگلات کا بے دریغ صفایا کیا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 18 ملین ایکڑ رقبہ پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

  • پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    نیویارک: پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی ہے جس کے بعد اب پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    آج صبح نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے معاہدے کی توثیقی دستاویز پیش کی۔ پاکستان اس معاہدے کی توثیق کرنے والا ایک سو چوتھا ملک ہے جبکہ اب تک 105 ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    یہ تاریخی معاہدہ سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں طے پایا تھا جس پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    پاکستان سمیت اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں، معاہدے کے تحت امیر ممالک کو اس بات کا پابند بھی کیا گیا ہے کہ وہ ان ممالک کی مالی امداد کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں مضر (گرین ہاؤس) گیسوں خصوصاً کاربن کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں جن میں پہلا نمبر چین اور دوسرا امریکا کا ہے۔ کاربن گیسوں کے اخراج میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ تو نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی شمالی علاقوں میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی تھی، اور رواں برس جب اس معاہدے پر دستخط کیے جارہے تھے تب ویر اعظم اور صدر ممنون کی خصوصی ہدایت کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس پر دستخط کیے تھے۔

  • ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    واشنگٹن: امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلد ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے بیشتر معاہدوں کو منسوخ اور پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے جس سے دنیا بھر میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

    اگر وہ حقیقتاً اپنی اس بات پر عمل کر بیٹھے تو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    یہ معاہدہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا۔ اس تاریخی معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کیے تھے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    امریکا بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب اس معاہدے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کاربن سمیت دیگر نقصان دہ (گرین ہاؤس) گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اچانک اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کی شق کے مطابق 3 سال سے قبل کوئی ملک معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ملک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو اسے کم از کم ایک سال قبل باقاعدہ طور پر اس سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ’گویا ہمارے پاس ابھی 4 سال کا وقت ہے‘۔

    لیکن انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس معاہدے کو تیار کرنے اور پوری دنیا کو ایک صفحہ پر لانے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا، امریکا اس معاہدے سے بآسانی دستبردار ہوجائے گا‘۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس شکست خوردہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ تھیں۔

    ٹرمپ ۔ ماحول دشمن صدر؟

    لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    trump-2

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    :صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کے لیے ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں ختم کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی تاہم اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے کیے تھے۔

    obama-3

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکن بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

    obama-2

    ماہرین کے مطابق امریکا کے علاوہ بھی دنیا بھر میں قحط اور سیلاب کے باعث امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کردے گی جس کے بعد دنیا کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے مسائل کی میزبانی کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے

    امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ایک ماحول دشمن صدر ثابت ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحول اور زمین کا احساس کرنے والے افراد کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

  • مراکش میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی سالانہ کانفرنس کا تصویری احوال

    مراکش میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی سالانہ کانفرنس کا تصویری احوال

    مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوچکا ہے۔ دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے لیے منعقد کی جانے والی یہ کانفرنس ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔

    گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔

    سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں 195 ممالک نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    11

    کانفرنس کا باقاعدہ آغاز فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل نے کیا۔

    10

    انہوں نے رواں برس کی کانفرنس کی نظامت مراکش کے وزیر خارجہ اور کوپ 22 کے صدر صلاح الدین میزور کے حوالے کی۔

    9

    کانفرنس میں فٹبال کھلاڑیوں کا ایک گروہ بھی شرکت کرے گا جس کی سربراہی معروف ارجنٹینی فٹبالر ڈیاگو میراڈونا کریں گے۔

    6

    13

    علامتی طور پر زمین کے تحفظ کا عزم۔

    کانفرنس کے موقع پر شہر کے کئی مقامات کو سبز روشنیوں سے نہلا دیا گیا۔

    17

    18

    19

    کانفرنس کے شرکا کو مختلف انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔

    16

    1
    تصویر: ندیم احمد

    کانفرنس کے اندرونی مناظر۔

    2
    تصویر: ندیم احمد
    3
    تصویر: ندیم احمد
    5
    تصویر: ندیم احمد

    کانفرنس میں قائم پاکستانی پویلین۔

    4
    تصویر: ندیم احمد

    آبی ذخائر کو لاحق خطرات سے متعلق ہونے والا سیشن۔

    8

    شرکا کی تفریح طبع کے لیے مراکش کے ثقافتی رنگ۔

    14

    15

    مراکش میں ہونے والی یہ کانفرنس 18 نومبر تک جاری رہے گی۔

  • زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی

    زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی

    نئی دہلی: بھارت میں تاریخ کی بدترین فضائی آلودگی کے باعث حکومت نے دارالحکومت کے 1800 پرائمری اسکولوں میں 3 دن کی تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔

    دہلی کے پرائمری اسکولوں میں 9 لاکھ کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں، جنہیں بدترین فضائی آلودگی میں اسکول جانے کے باعث صحت کے سنگین اور شدید خطرات لاحق تھے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت گزشتہ ایک ہفتے سے زہریلی دھند یعنی اسموگ میں لپٹا ہوا ہے جس کے اثرات پاکستانی شہر لاہور میں بھی دیکھے گئے۔

    نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی جانب سے کیے گئے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اگلے 5 دن تک دہلی میں ہر قسم کا تعمیراتی کام بھی بند رہے گا تاکہ شہر سے دھویں اور آلودگی کے اثرات میں کچھ کمی آسکے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی ملازمین کی کارکردگی میں کمی کا سبب

    شہری حکومت نے خطرناک فضائی آلودگی کے باعث ہنگامی بنیادوں پر شہریوں کے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

    وزیر اعلیٰ نے سڑکوں پر ٹریفک کا دھواں کم کرنے کے لیے ’اوڈ ایون‘ کا اقدام اٹھانے کا بھی عندیہ دیا۔ اس اقدام کے تحت گاڑیوں کو ان کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں (ایک دن جفت اور ایک دن طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں) سڑک پر لانے کی اجازت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھند کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    یاد رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے دیوالی کے موقع پر کی جانے والی آتش بازی کے بعد دہلی میں فضائی آلودگی میں خطرناک اضافہ ہوگیا اور پورے شہر کو زہریلی دھند یا اسموگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    یہ اسموگ سرحد پار کر کے پاکستانی شہر لاہور بھی آ پہنچی جس کے باعث اب تک کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پورا شہر مختلف امراض کی زد میں آچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسموگ کی ایک وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا بھی ہے جس نے فضا پر خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ فضائی آلودگی سے متاثر بچوں کی بڑی تعداد ایشیائی شہروں میں رہتی ہے۔ فضا میں موجود آلودگی کے ذرات نہ صرف بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

  • ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق حفاظتی اقدامات کی تفصیلات طلب

    ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق حفاظتی اقدامات کی تفصیلات طلب

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ کے روبرو حکومت کی جانب سے اسموگ کا ملبہ بھارت پر ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ عدالت نے حکومتی بیان مسترد کرتے ہوئے سموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریک انصاف کے رہنما ولید اقبال سمیت دیگر شہریوں کی جانب سے اسموگ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسموگ کی وجہ سے لاہور سمیت پنجاب بھر میں بچے، خواتین متاثر ہو رہے ہیں لیکن حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نہ صرف شہری بیمار ہو رہے ہیں بلکہ اسموگ نے لوگوں کو ذہنی طور پر بھی خوفزدہ کر رکھا ہے اور اس پر حکومت کی جانب سے عوام کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسموگ کیا چیز ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔

    زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟ *

    عدالتی حکم پر سیکریٹری صحت ڈاکٹر ساجد، سیکریٹری ماحولیات سیف انجم اور چیف میٹرو لوجسٹ محمد ریاض عدالت میں پیش ہوئے۔ سیکریٹری ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کے علاقے ہریانہ میں 32 ملین ٹن چاول کی فصل کی باقیات کو آگ لگائی گئی جس کا دھواں پاکستانی پنجاب میں دھند کے ساتھ مل کر اسموگ بن گیا۔

    لاہور میں زہریلی دھند کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلانا ہے، ناسا *

    عدالت نے سیکریٹری ماحولیات کے بیان پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بھارت کی بات چھوڑیں، آپ یہ بتائیں کہ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ صرف ہوا میں باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت تب کہاں سوئی ہوئی تھی جب بچے بیمار ہو رہے تھے۔

    سرکاری وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ عوام میں اسموگ سے متعلق آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے کہ اسموگ کے مضر اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے جس پر عدالت نے آگاہی مہم پر مشتمل دستاویزات طلب کیں تاہم حکومتی سیکریٹریز اور سرکاری وکلا کوئی اشتہار پیش نہ کر سکے۔

    زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی *

    عدالت نے ریمارکس دییے کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا۔ عدالت نے سیکریٹری صحت اور سیکریٹری ماحولیات کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اسموگ پر قابو پانے کے لیے عملی طور پر کوئی بھی بات موجود نہیں ہے۔ سب باتیں ہوا میں کر کے محض وقت گزارا جا رہا ہے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری ماحولیات اور سیکریٹری صحت سے اسموگ پر قابو پانے کے لیے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    دھند کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں *

    یاد رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے لاہور زہریلی اسموگ کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث اب تک کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پورا شہر مختلف امراض کی زد میں آچکا ہے۔

  • ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس وقت خوبصورت نظارے دیکھنے میں آئے جب ایفل ٹاور سمیت پیرس کے تاریخی مقامات سبز روشنیوں میں نہا گئے۔

    یہ سبز روشنیاں دراصل اس بات کی خوشی میں روشن کی گئیں کہ گزشتہ برس ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل اب عالمی قوانین کا حصہ ہے۔

    paris-2

    paris-3

    paris-4

    paris-5

    اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ان ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کر کے اسے اپنی پالیسیوں اور قانون کا حصہ بنا لیا ہے جو دنیا میں مضر گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔

    ایفل ٹاور اور پیرس کی یادگار محراب کو سبز رنگ میں روشن کرنا ماحول دوستی اور اور زمین کے تحفظ کی طرف اشارہ ہے۔

    گزشتہ برس پیرس میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں 195 ممالک نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟ *

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہورہے ہیں۔

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ *

    پاکستان بھی اس معاہدے کا دستخط کنندہ ہے۔

    اب تک جن ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے وہ، وہ ممالک ہیں جن کا کاربن اخراج بہت زیادہ ہے۔ اگر وہ معاہدے کے تحت اپنے کاربن اخراج کو کم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نقصانات کو کم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔

  • سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    عالمی اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ عشروں کے ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اس ڈیٹا میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کی جانچ کی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    leopard

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    elephant3

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ صورتحال نسل انسانی کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک زندگی کا دار و مدار دوسری زندگی پر ہے۔ ’ہم بچپن سے یہ بات پڑھتے آئے ہیں کہ ہم ایک لائف سائیکل کے مرہون منت ہیں جو صدیوں سے جاری ہے۔ اس لائف سائیکل یا زندگی کے چکر کے تحت ہر جاندار کسی دوسرے جاندار کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس چکر میں ایک بھی جاندار کم ہوجائے تو اس کا اثر پورے چکر پر پڑے گا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ انسان پوری طرح فطرت کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف ہوا، صاف پانی، غذا اور دیگر اشیا کا حصول فطرت سے ہی ممکن ہے اور جانور ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ جانوروں کی تعداد میں کمی کا مطلب فطرت کو تباہ کرنا ہے اور ہم یہ کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔

    panda-21

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر و سینیٹر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    یہ پہلی رپورٹ نہیں جو جنگلی حیات اور فطرت کو لاحق خطرات کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے ہی تیز رفتار ترقی کے باعث انسانوں، جنگلی حیات اور فطرت کو نقصان پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے جسے اگر روکا نہیں گیا تو شاید یہ زمین پر آباد جانداروں کے خاتمے پر منتج ہو۔

    فطرت اور جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    فطرت کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    جنیوا: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور مضر ہوچکی ہے جس سے زمین اور اس پر رہنے والے افراد کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات کا کہنا ہے کہ ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کی اثر انگیزی کچھ مہینوں اور کچھ مقامات پر بڑھ گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق کاربن کی اثر انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے اور ایسا پچھلی کئی نسلوں میں نہیں ہوا۔ یعنی کاربن گیس اب پہلے سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت بن چکی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ کاربن کی اثر انگیزی میں اضافے کی ایک وجہ رواں برس کا ایل نینو بھی ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایل نینو ختم ہوچکا ہے، لیکن کلائمٹ چینج تاحال جاری ہے۔

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں اور گیسیں جن میں کاربن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے، ایک طرف تو ہماری فضا کو زہریلا اور آلودہ بنا رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم کر رہی ہیں جسے گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اضافہ) کا عمل کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گزشتہ برس پیرس میں منعقد کی جانے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    آج اقوام متحدہ کا دن منایا جارہا ہے۔ آج سے 71 سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا منشور نافذ العمل کیا گیا۔

    رواں برس یہ دن پائیدار ترقیاتی اہداف کے نام کیا گیا ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔

    یہ مدت ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    ان اہداف کو انگریزی حرف تہجی کے 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    اس میں کل 17 اہداف شامل ہیں جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ دیگر اہداف یہ ہیں۔

    بھوک کا خاتمہ

    بہتر صحت

    معیاری تعلیم

    صنفی برابری

    پینے اور صفائی کے لیے پانی کی فراہمی

    قابل برداشت اور صاف توانائی کے ذرائع

    باعزت روزگار اور معاشی ترقی

    صنعتوں، ایجادات اور انفراسٹرکچر کا فروغ اور قیام

    ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ

    sdg
    پائیدار شہری ترقی

    اشیا کا ذمہ دارانہ استعمال

    موسمیاتی (بہتری کے لیے کیا جانے والا) عمل

    آبی حیات کا تحفظ

    زمین پر پائی جانے والی حیات (درخت، جانور، پرندے) کا تحفظ

    امن، انصاف اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات

    اہداف کی تکمیل کے لیے عالمی تعاون

    آج کے دن کا مقصد عام لوگوں میں ان تمام اہداف کے بارے میں آگاہی اور حکومتوں پر ان کی تکمیل کے لیے زور دینا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان کو ان اہداف کی تکمیل کے لیے خطیر سرمایے، ان تھک محنت اور خلوص نیت کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

    اگر صرف پہلا ہدف یعنی غربت کا خاتمہ دیکھا جائے تو پاکستان اب تک اس کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بری طرح ناکام ہے اور ملک کی 38 فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔

    یہی حال تعلیم کا ہے۔ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔

    اسی طرح پاکستان کے نوجوان، جو کہ ملک کی آبادی کا 63 فیصد ہیں، میں سے نصف بے روزگار ہیں جو باعزت روزگار اور معاشی ترقی کے ہدف میں ہماری ناکامی کا ثبوت ہیں۔

    صنفی امتیاز میں بھی پاکستان بہت آگے ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جہاں صنفی بنیادوں پر تفریق اپنے عروج پر ہے۔

    جہاں تک بات ماحولیات اور جنگلی و آبی حیات کے تحفظ کی ہے، خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں تو شامل نہیں جو زہریلی اور مضر صحت گیسوں کا اخراج کر کے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں، البتہ ان 12 ممالک میں ضرور شامل ہے جو اس اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیں تفصیلی رپورٹ

    ملک میں جنگلی حیات کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں تاہم ملک میں سرگرم عمل عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات آئی یو اسی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور حکومتی کوششوں سے اس شعبہ میں کچھ بہتری نظر آتی ہے۔