Tag: کلائمٹ چینج

  • دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    دنیا بھر کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ دنیا کو خطرناک موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات سے کیسے بچایا جائے۔ اس کے لیے نہ صرف مختلف عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں بلکہ دنیا کو اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

    اسی طرح کی ایک کوشش امریکا میں کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے بھی کی جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دنیا کے طویل ترین درختوں پر چڑھے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    ان کا مقصد ان نادر و نایاب درختوں کا کلون تیار کرنا ہے۔

    clone-3

    دنیا کے یہ طویل ترین درخت امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ہیں جنہیں سیکوئیا ریڈ ووڈز کہا جاتا ہے۔ ان کی عمومی قامت 300 فٹ یا 91 میٹرز ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ اپنے اندر بے تحاشہ کاربن جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان درختوں کی عمر بھی کئی ہزار سال ہے اور اس دوران یہ مختلف آتش زدگیوں، خشک سالیوں اور بیماریوں کو جھیل چکے ہیں اس کے باوجود یہ قائم رہے۔

    امریکا میں درختوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والے ادارے ’آرک اینجل اینشینٹ ٹری آرکائیو‘ کے بانی ڈیوڈ کلارک کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ قدم بہت تاخیر سے اٹھایا ہے اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ’ان قدیم اور طویل ترین درختوں کی جینیات اکٹھی کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو محفوظ کیا جائے اور دوبارہ کام میں لایا جائے‘۔

    clone-2

    ادارے کے ایک اور رکن جیکب ملر کا کہنا ہے کہ ان درختوں کی جینیات میں کوئی ایسی خاصیت موجود ہے جو سینکڑوں سال سے موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کے اثرات کو برداشت کر سکتی ہے اور ان کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے۔

    اس پروجیکٹ کے لیے کوہ پیماؤں نے ان درختوں پر چڑھ کر ان کی ٹہنیاں اور پتے حاصل کیے۔ اس کے بعد ان کو مشی گن کی ایک لیبارٹری میں لے جایا گیا اور وہاں ان کو دوبارہ زمین میں بویا گیا۔ یہ پودے اب کچھ ہی عرصہ میں جڑ پکڑ لیں گے اور اس کے بعد ان کی افزائش شروع ہوجائے گی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس درخت کے 3 لاکھ کلون بوئے ہیں اور وہ اس سلسلے کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    clone-4

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے خطرات سے نمٹنے کا آسان حل ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں۔ یہ ان علاقوں کے لیے اور بھی ضروری ہے جو کلائمٹ چینج کے باعث شدید موسموں جیسے ہیٹ ویو کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    پاکستان کی معاشی رگ شہر کراچی پچھلے 2 سال سے ہیٹ ویو برداشت کررہا ہے اور اس کے باعث درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، تاہم ابھی تک شجر کاری کے کسی سنجیدہ اور طویل المدت منصوبے پر کام نہیں کیا گیا جو کراچی کے شہریوں کو شدید گرمی سے بچا سکے۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    آپ کے گھر سے بے شمار ایسی غذائی اجزا نکلتی ہوں گی جو کوڑے کے ڈرم میں پھینکی جاتی ہوں گی۔ یہ اشیا خراب، ضائع شدہ اور پلیٹوں میں بچائی ہوئی ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر میں خوراک کو ضائع کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، ہم اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث 5 سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ضائع شدہ غذا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر کام کیا جارہا ہے اور اس کی ایک بہترین مثال سنگاپور کے ننھے طالب علموں نے دی۔

    singapore-4

    سنگاپور کے یونائیٹڈ ورلڈ کالج آف ساؤتھ ایشیا کے پانچویں جماعت کے طالب علموں نے ڈرموں میں پھینکی جانے والی خوراک کو قابل استعمال بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیے انہوں نے اس پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    یہ بچے ہر روز اپنے اسکول کی کینٹین سے 50 لیٹر کے قریب غذائی اشیا جمع کرتے ہیں۔ ان میں پھلوں، سبزیوں کے چھلکے، ادھ پکی اشیا، بچائی جانے والی چیزیں اور خراب ہوجانے والی اشیا شامل ہیں۔ ان اشیا کو سوکھے پتوں اور پانی کے ساتھ ملایا گیا۔

    singapore-2

    اس کے بعد اس کو اسی مقصد کے لیے مخصوص ڈرموں میں ڈال دیا گیا جس کے بعد 5 ہفتوں کے اندر بہترین کھاد تیار ہوگئی۔ طالب علموں نے اس کھاد کو اسکول کے گارڈن میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ بچی ہوئی کھاد، کسانوں اور زراعت کا کام کرنے والے افراد کو دے دی گئی۔

    منصوبے پر کام کرنے والے بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی خوراک کو ضائع کرنے کے نقصان دہ عمل میں شامل ہیں۔ ’جب ہم اس میں شامل ہوئے تو ہمیں چیزوں کی اہمیت کا احساس ہوا اور اس کے بعد ہم نے بھی کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز، لاکھوں ٹن پھل ضائع

    یہ بچے غذائی اشیا کی اس ناقد ری پر اداس بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کھانے کو ضائع نہ کیا کریں۔

    singapore-3

    اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب پورے سنگاپور کی یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر اسکول ایسے ہی منصوبے شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

  • ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پینے کے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کا منفی اثر زراعت پر بھی ہوگا اور کروڑوں افراد قحط کا شکار ہوجائیں گے۔

    تاہم سائنس دان اب ایسی ایجادات کر رہے ہیں جو مختلف طریقوں سے ہمارے قدرتی وسائل میں اضافہ کرے، ماحول دوست ہوں اور ہماری زمین پر موجود وسائل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے میں مدد دیں۔

    مزید پڑھیں: پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    ایسی ہی ایک ایجاد واٹر سیر نامی ٹربائن بھی ہے جو فضا میں موجود پانی کو پینے کے لیے فراہم کرے گی۔

    دن کے 24 گھنٹے کام کرنے والی یہ ٹربائن فضا میں موجود پانی لے کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے اور اس کے لیے اسے کسی قسم کی بجلی، توانائی، یا کیمیکلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اس کے زمین کے اوپر لگے بلیڈز ہوا کی طاقت سے گھومتے ہیں اور ہوا کو زمین کے اندر نصب چیمبر میں دھکیلتے ہیں۔ یہ چیمبر مٹی میں دبا ہوتا ہے اور ٹھنڈی مٹی کی وجہ سے خاصا سرد ہوتا ہے۔

    water-seer-2

    یہ اپنے اندر موجود گرم ہوا کو بھی ٹھنڈا کردیتا ہے اور اس میں موجود پانی قطروں کی صورت میں چیمبر کی دیواروں پر جم جاتا ہے۔

    یہ ٹربائن ہوا چلنے یا نہ چلنے دونوں صورتوں میں کام کرتی ہے اور روزانہ 37 لیٹرز پانی فراہم کرتی ہے۔

    یہ ٹربائن ان گاؤں دیہاتوں میں نصب کرنے کے لیے بہترین ہے جہاں بچوں اور خواتین کو پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں دور تک چلنا پڑتا ہے۔

    پانی کے حصول کے لیے گاؤں کی خواتین کو کیسے درد ناک سفر طے کرنے پڑتے ہیں، پڑھیں خصوصی رپورٹ

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی کے باعث 2025 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    اس وقت دنیا بھر میں 780 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور گندا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں اور بعض اوقات موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔

  • عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    سیئول: بھارت نے گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں پاکستان کا کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیر) سے متعلق پروجیکٹ مسترد کردیا۔ بھارتی نمائندے نے منصوبے کو ناقص قرار دیتے ہوئے دیگر تمام منصوبوں کے لیے حمایت ظاہر کردی۔

    جنوبی کوریا کے شہر سونگ ڈو میں گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں بھارت نے انتہائی درجے کا تعصب برتتے ہوئے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو مسترد کردیا۔

    گرین کلائمٹ فنڈ اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت امیر ممالک موسمیاتی تغیر کے نقصانات کا شکار ہونے والے غیر ترقی یافتہ ممالک کی مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ امداد موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے والے پروجیکٹ کی فنڈنگ کی صورت میں کی جاتی ہے۔

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام *

    پروجیکٹ کی منظوری دینے والے بورڈ میں ایشیا پیسیفک کی نمائندگی کرنے والے 3 رکن ممالک بھارت، چین اور سعودی عرب شامل ہیں۔ بھارت میں وزارت خزانہ کے معاون خصوصی دنیش شرما اس بورڈ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    دنیش شرما نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو ناقص اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ اس پروجیکٹ پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ہمالیائی علاقے میں عمل درآمد کیا جانا تھا جس میں موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    flood-2

    بورڈ کے سینیئر ارکان کی جانب سے استفسار پر دنیش شرما نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے میں تکنیکی خرابیاں پائیں اور وہ کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مختلف ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے دیگر منصوبوں کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے ان کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی۔

    تاہم بورڈ کے دیگر ارکان نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے کی ضروت ہے۔ ’یہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم سب یہاں دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کے لیے بیٹھے ہیں‘۔

    ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ بھارتی نمائندے بے شک پروجیکٹ پر شرائط عائد کردیتے لیکن اس کی منظوری دے دیتے، بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

    دنیش شرما نے پروجیکٹ میں موجود متعدد تکنیکی خرابیوں کو اپنی مخالفت کی وجہ قرار دیا۔ انہیں پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستانی ماہرین سے مل کر اس پروجیکٹ میں تبدیلیاں کروا کر پروجیکٹ کو قابل عمل بنا سکتے ہیں۔

    تاہم انہوں نے پروجیکٹ کو بالکل ہی ناقابل عمل قرا دے کر جواز پیش کیا کہ وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ متعصب نہیں، پاکستانی ماہرین سے مل سکتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے میں مزید کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    پاکستان کی جانب سے پیش کیا جانے والا پروجیکٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ پروجیکٹ میں آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں شدید سیلابوں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    یہ سیلاب گلیشیئر والی جھیلوں میں اس وقت آتے ہیں جب جھیل میں موجود پانی کو ذخیرہ کرنے والا سسٹم (جو عموماً کوئی ڈیم ہوتا ہے) اسے روکنے میں ناکام ہوجائے اور یہ پانی سیلاب کی شکل میں باہر آ کر قریبی آبادیوں کو نقصان سے دو چار کرے۔

    flood-3

    اس قسم کے سیلابوں کا سلسلہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سارا سال جاری رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ پروجیکٹ منظور ہوجاتا تو 7 لاکھ کے قریب افراد کو آئندہ سیلابوں سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا تھا۔

  • زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    آپ نے اکثر اوقات ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات میں ان عظیم الجثہ سروں کو دیکھا ہوگا۔ یہ سر بحر اقیانوس میں واقع مشرقی جزیرے پر موجود ہیں۔

    یہ علاقہ ملک چلی کی ملکیت ہے۔ یہاں موجود نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں نصب کیے گئے یہ بڑے بڑے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    island-8

    پراسراریت کی دھند میں لپٹے یہ سر دنیا بھر کے تاریخ دانوں اور سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے روزانہ بے شمار لوگ آتے ہیں۔

    تاہم کچھ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ کیا یہ زمین میں نصب صرف سر ہیں یا ان کے نیچے کچھ اور بھی موجود ہے۔

    ایک غیر ملکی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق کچھ عشروں قبل ان سروں کے آس پاس زمین کی کھدائی گئی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان سروں کے نیچے کیا ہے۔

    island-7

    کھدائی کے بعد ماہرین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سروں کے نیچے پورے جسم بھی موجود ہیں جو نہایت طویل القامت ہیں۔

    island-5

    ماہرین نے اندازہ لگایا کہ درحقیقت انہیں اس طرح نصب نہیں کیا گیا جس طرح یہ اب موجود ہیں۔ یہ مکمل مجسمے تھے جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث زمین اور پانی میں دفن ہوتے گئے اور آخر کار صرف ان کا سر دنیا کے سامنے رہ گیا۔

    island-6

    اس تحقیق سے کئی عرصہ قبل ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح اور محقق ہیئردل کہہ چکے تھے کہ ان سروں کا جسم بھی موجود ہوسکتا ہے جو زمین میں دفن ہوگا۔ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ بات مقامی افراد کی لوک داستانوں کی بنیاد پر کہی ہو۔

    island-3

    اس کھدائی کے دوران ماہرین نے وہ تکنیک بھی دریافت کی جس کے ذریعہ آج سے ہزاروں سال قبل ان دیوہیکل مجسموں کو مضبوطی سے نصب کیا گیا۔

    island-4

    حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی دیگر مقامات کی طرح اس تہذیبی ورثے کو بھی سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث خطرہ لاحق ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔

    island-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند عشروں میں یہ مجسمے جو کہ اب صرف سر رہ گئے ہیں، مکمل طور پر زمین برد یا سمندر برد ہوجائیں گے اور اس کے بعد ان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔


     

  • روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    آپ کسی نئی جگہ جاتے ہوئے وہاں موجود چیزوں یا مقامات کو یاد کرلیتے ہوں گے تاکہ دوبارہ وہاں جائیں تو مطلوبہ مقام ڈھونڈنے میں آسانی ہو، لیکن اگر ایسا ہو کہ آپ صبح کے وقت کہیں جائیں اور وہاں موجود کچھ مجسموں کو بطور نشانی یاد رکھیں، لیکن اگر شام میں جائیں تو آپ کو مجسمے وہاں مل ہی نہ سکیں کیونکہ وہ غائب ہوچکے ہوں؟

    یہ بات کافی حیرت انگیز لگتی ہے کہ مضبوطی سے نصب مجسمے اپنی جگہ سے کیسے غائب ہوسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور آرٹ اور تعمیرات کا یہ منفرد نمونہ لندن میں موجود ہے۔

    t6

    برطانوی مجسمہ ساز جیسن ٹیلر نے ان حیرت انگیز مجسموں کو بنایا ہے جو دریائے ٹیمز کے کنارے موجود ہیں۔ یہ دن کے صرف دو حصوں میں مکمل طور پر نظر آتے ہیں جب دریا کی لہریں نیچی ہوتی ہیں۔

    t3

    t8

    t7

    شام میں جب دریا کی لہریں اونچی ہوجاتی ہیں اور پانی کنارے تک آجاتا ہے تب یہ مجسمے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ذرا سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

    t5

    اس کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کے ذریعہ وہ دنیا کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں یعنی کلائمٹ چینج کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ کس طرح ان کے باعث سمندروں کی سطح اونچی ہوجائے گی اور ہم ڈوبنے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

    t2

    یہ مجسمے 4 گھوڑوں کے ہیں جن پر دو صنعت کار اور دو بچے براجمان ہیں۔ گھوڑوں کے منہ آئل پمپس جیسے ہیں جو دنیا میں تیل کے لیے جاری کھینچا تانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مجسمے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آئندہ نسل کے لیے ماحولیاتی طور پرایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانی چاہیئے۔

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    آج دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں کے باعث انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    جانوروں کا دن منانے کا مقصد جانوروں سے محبت کا برتاؤ رکھنے اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق آگاہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ جانوروں کی کھالوں اور دیگر اعضا کے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے باعث ان کے شکار کی وجہ سے مختلف جانور معدومی کے خطرے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

    leopard

    ماہرین کے مطابق برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ادھر افریقہ میں ہاتھی دانت کی تجارت عروج پر ہے جس کے باعث ہاتھیوں اور گینڈوں کی نسل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔

    elephant3

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت ان کی نسل کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔

    ایشیائی ممالک میں غیر قانونی فارمنگ کے باعث چیتوں کی آبادی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    جانوروں کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سے بھی ہے۔ قطب شمالی کے درجہ حرات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے برفانی ریچھ اور پینگوئن کی نسل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    penguin

    تاہم مختلف حکومتوں اور اداروں نے خطرے کا شکار جنگلی حیات کے لیے حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کے باعث کئی جانور معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-21

    امریکا میں بھی کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ لاحق تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    چند روز قبل جانوروں کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیے جانے والے ممالیہ پینگولین کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پینگولین افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پاکستان میں بھی معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات جاری ہیں اور حال ہی میں وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

  • جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جوہانسبرگ: مختلف ممالک کی حکومتوں نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ جنوبی افریقہ میں غیر قانونی تجارت سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں کیا گیا۔

    واضح رہے پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جانے ممالیہ ہے۔ یہ افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پینگولین کا گوشت چین اور تائیوان میں کھانے کے لیے جبکہ اس کی کھال دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ پینگولین کی اسمگلنگ میں تیزی سے ہوتے اضافے کے باعث بر اعظم ایشیا میں اس کی معدومی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

    summit-3

    اجلاس میں 182 ممالک نے اس جانور کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    اسی اجلاس میں عالمی برادری نے روز ووڈ کی لکڑی کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا۔ دنیا بھر کے مختلف گرم حصوں میں پائی جانے والی روز ووڈ دنیا کی سب سے زیادہ اسمگل کی جانے والی لکڑی ہے جو قیمتی و پرآسائش فرنیچر بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔

    چمکدار، خوشبو دار سرخ رنگ کی اس لکڑی کی قیمت ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ، اور شیروں یا چیتوں کی کھال کی مجموعی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کی فرنیچر سازی مارکیٹ میں اس کی بے تحاشہ مانگ ہے۔ اس لکڑی سے تیار شدہ ایک بیڈ 1 ملین ڈالر تک میں فروخت کیا جاچکا ہے۔

    summit-1

    روز ووڈ کی لکڑی کا سالانہ 2.2 بلین تک کاروبار ہوتا ہے۔

    اس کی بے تحاشہ قانونی تجارت و اسمگلنگ کے باعث ایشیا میں اس کے جنگلات کا خاتمہ ہونے جارہا ہے لہٰذا اس کی تلاش کے لیے ٹمبر مافیا نے وسطی امریکہ اور افریقہ سمیت ان حصوں کا رخ کرلیا ہے جہاں اس کی افزائش ہوتی ہے۔

    سنہ 2016 کے صرف ابتدائی 6 ماہ میں افریقہ سے 216 ملین کی لکڑی اسمگل کی جاچکی ہے۔

    summit-5

    اس سے قبل کانفرنس میں ماہرین نے ہاتھیوں کی معدومی سے متعلق بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    یاد رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ کانفرنس اسی معاہدے کے مرکزی خیال پر منعقد کی جارہی ہے۔

  • دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    نیویارک: دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    اس معاہدے پر 191 ممالک نے دستخط کیے جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں صرف 47 فیصد حصہ ہے۔

    paris_accord1

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں فضا میں کاربن گیس کی مقدار بڑھا دیتا ہے جس سے نہ صرف ماحول، انسان اور جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ گیس آسمان میں جا کر عالمی درجہ حرات میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے یعنی دنیا کے اکثر ممالک میں موسم گرم ہوگیا ہے۔

    ان زہریلی گیسوں جسے گرین ہاؤس گیس بھی کہا جاتا ہے کے اخراج میں سب سے آگے چین اور امریکا ہیں جو معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔

    رواں برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 31 مزید ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے بعد دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کی کوششوں کا اعادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔

    global-warming-2

    اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس مراکش میں جب کلائمٹ چینج کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوگی اس وقت تک تمام دستخط کنندہ ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے اور دنیا کو بچانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوجائے گا۔

    ان کوششوں کے تحت کئی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات قدرتی ذرائعوں (سورج، ہوا، پانی) سے پورا کرنے، ماحول دوست بجلی کے آلات متعارف کروانے، ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے، جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کرنے، قدرتی ذرائع جیسے گلیشیئر اور جھیلوں، دریاؤں کا تحفظ کرنے اور مختلف آفات سے متاثر ہونے کے خدشے کا شکار آبادیوں کی تربیت جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

    رواں برس مراکش میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ان امیر ممالک سے جو کاربن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غریب اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کا شکار ممالک کو معاشی طور پر بھی سہارا دیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔