اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کوپ 27 میں ازالہ جاتی فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کے ہدف کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کوپ 27 میں ازالہ جاتی فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کے ہدف کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ عبوری کمیٹی پر منحصر ہے کہ وہ اس تاریخی ترقی کو آگے بڑھائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن اور ان کی ٹیم کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔
The establishment of loss & damage fund at the UN climate summit is the first pivotal step towards the goal of climate justice. It is up to the transitional committee to build on the historic development. I appreciate @sherryrehman & her team for their contribution & hard work.
خیال رہے کہ مصر میں ہونے والے ماحولیاتی سمٹ کوپ 27 میں پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں تاریخی معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت ماحولیاتی نقصان سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو معاوضہ دیا جائے گا۔
اس معاہدے سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث تباہی سے نمٹنے اور بحالی میں مدد ملے گی۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کلائمٹ چینج کانفرنس کوپ 27 میں شرکت کے لیے 7 اور 8 نومبر کو مصر کا دورہ کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف 7 اور 8 نومبر کو 2 روزہ دورے پر مصر روانہ ہوں گے، وزیر اعظم 7 نومبر کو شرم الشیخ میں کلائمٹ چینج کی کوپ 27 کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ کوپ 27 کانفرنس میں 197 رکن ممالک شرکت کر رہے ہیں، پاکستان کوپ 27 کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ موسمیاتی انصاف (کلائمٹ جسٹس) کی ضرورت کو اجاگر کیا جائے گا، وزیر اعظم اپنے خطاب میں اہم مسائل پر پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے بھی ملیں گے، وزیر اعظم ناروے کے ہم منصب کے ہمراہ گول میز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
وزیر اعظم 7 نومبر کو مڈل ایسٹ گرین انیشیٹو سمٹ میں بھی شرکت کریں گے، کانفرنس کی میزبانی سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔
وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم اپنے دورے کے دوران متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے، پاکستان کانفرنس میں گروپ آف 77 چائنہ کی سربراہی بھی کرے گا۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاری سے 32 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، سیلاب کی وجہ سے متعدد اضلاع مکمل تباہ ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان واٹر ویک 2022 کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں، پانی کی قلت اور ہیٹ ویوز کا سامنا ہے، یہ تمام تبدیلیاں پاکستان کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاری سے 32 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ متعدد اضلاع سیلاب کی وجہ سے مکمل تباہ ہوگئے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ملک ہے، ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے کلائمٹ چینج کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے نیشنل پلان بنانے کی ہدایت کردی، انہوں نے ہدایت کی کہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے اور بروقت تیاری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی بحالی،موسمی خطرات سے بچاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نیشنل پلان بنانے کی ہدایت کردی۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے حامل گھر اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر نیشنل پلان کا حصہ ہیں۔
وزیر اعظم کی موسمیاتی تبدیلی کونسل کو مکمل فعال ادارہ بنانے کی ہدایات کردی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق تعمیرات کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے اور بروقت تیاری کے لیے اقدامات کیے جائیں، وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کا اشتراک عمل تیار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں موسمیاتی خطرات کی نشاندہی اور قومی سطح پر جامع منصوبہ تیار کیا جائے۔
وزیر اعظم نے جامع پلان کی تیاری کے لیے بہترین ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا بھی حکم دیا، انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں تباہ کن رہی ہیں، سندھ اور بلوچستان میں تباہی تازہ مثال ہے، اس تباہی کو ہمیں بھول نہیں جانا، متاثرین کی بحالی کے ساتھ مستقبل کی تیاری کرنی ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کونسل مرکزی کردار ادا کرے، خطرات کی نشاندہی، وسائل کی فراہمی اور نقصان کا اندازہ لگانے کی صلاحیت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خطرات سے کیسے بچا جائے، انتظامیہ کی کیا تربیت ہونی چاہیئے، اس پر ٹھوس کام کریں، پاکستان کو شدید خشک سالی کے خطرے سے بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے صوبہ سندھ کا ڈیلٹا کا علاقہ خشک ہوگیا ہے، ماہرین کی رائے کی روشنی میں اقدامات تجویز کریں، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات سے بچاؤ کی تدابیر اور 3 گنا زیادہ گلیشیئر پگھلنے اور مون سون بارشوں کی شدت سے بچاؤ کے لیے بھی تجاویز تیار کریں۔
رواں برس مون سون کی بارشوں نے ملک کے بڑے حصے کو سیلابی صورتحال سے دو چار کردیا ہے، ملک کے ہر حصے میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوچکی ہے اور اس بربادی سے المیوں کی داستانیں جنم لے رہی ہیں۔
اس سال ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے سینکڑوں افراد کی جانیں لیں، مکانات، کھڑی فصلیں، انفرااسٹرکچر، مال مویشی سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ لاکھوں لوگ ان قیامت خیز بارشوں میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور اب بے سرو سامانی کی حالت میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک بھر میں مجموعی طور پر 210 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں، سب سے زیادہ بارشیں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوئیں جہاں بارشوں کی شرح بالترتیب 508 اور 506 فیصد زائد رہی۔
گلگت بلتستان میں 148 فیصد، پنجاب میں 86 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔
ملک بھر میں اب تک سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق اب تک 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔
غیر معمولی بارشوں کی وجہ کیا بنی؟
دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والے تبدیلی (کلائمٹ چینج) اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں اسی نوعیت کے شدید موسمی ایونٹس رونما ہورہے ہیں، تاہم ترقی پذیر ممالک ان آفات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو بظاہر تو قدرتی آفات ہیں، لیکن اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق انسانی سرگرمیوں (خاص طور پر صنعتی سرگرمیوں) کی وجہ سے ہماری فضا میں کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج کہیں زیادہ ہوگیا ہے، جو زمین کا مجموعی موسم تبدیل کر رہی ہیں، نتیجتاً قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے۔
اور نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ گئی ہے اور ان سے ہونے والے نقصانات کی شرح بھی کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔
بلوچستان میں 506 فیصد زائد بارشیں ہوئیں
اس وقت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار چین اور امریکا ہیں، چین نے سال 2019 میں 9 ہزار 877 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کیا، امریکا 4 ہزار 745 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مطابق عالمی طور پر خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسز میں چین 27 فیصد اور امریکا 15 فیصد کا حصے دار ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 1 فیصد سے بھی کم صرف 0.6 فیصد ہے، تاہم جب کلائمٹ رسک انڈیکس کی ان ممالک کی درجہ بندی دیکھی جائے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، تو پاکستان وہاں آٹھویں نمبر پر ہے، یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اور صرف پاکستان ہی نہیں، اس فہرست میں شامل تمام ممالک گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے تقریباً نہ ہونے کے برابر ذمے دار ہیں۔ یہ امیر ممالک کی ترقی اور صنعتی سرگرمیاں ہیں جو بڑے پیمانے پر پوری زمین کا موسم تبدیل کر رہی ہیں اور اس کا خمیازہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پرائم منسٹر ٹاسک فورس آن کلائمٹ چینج کے سابق رکن ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مفروضہ نہیں رہا، یہ حقیقت بن چکا ہے اور نہایت خوفناک طریقے سے سامنے آرہا ہے۔
ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہم دہائیوں سے اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کلائمٹ چینج سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بے تحاشہ نقصانات ہوں گے، اور اب یہ خطرات حقیقت بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشیں معمول کی بارشیں نہیں اور یہ مون سون کا پیٹرن بھی نہیں، یہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس قدر غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں کہ سب کچھ بہا کر لے گئیں۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور کئی بین الاقوامی جامعات میں ایٹموسفرک فزکس کی تعلیم دینے والے ڈاکٹر غلام رسول اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ کچھ سالوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو کلائمٹ چینج کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔
ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ بہار کا موسم آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ موسم گرما نے لے لی ہے، موسم گرما کا دورانیہ اور شدت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جو ہماری زراعت کو متاثر کر رہا ہے، آبی ذخائر کو خشک کر رہا ہے، اور گلیشیئرز کو بھی پگھلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شمال مشرق سے شروع ہوتا تھا اور خیبر پختونخواہ اور پھر جنوب کی طرف آتا تھا، لیکن اس سال مون سون شروع ہی جنوب سے ہوا۔
سیلاب سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق اب ان علاقوں میں بھی بارشوں کا سلسلہ دیکھا گیا جہاں مون سون کی بارشیں عموماً نہیں ہوتی تھیں، جیسے گلیشیئرز کے اطراف کے علاقے، اگر یہاں پر بھی بارشیں ہورہی ہیں تو پھر اس کا براہ راست خطرہ گلیشیئرز کو ہے جو پہلے ہی گرمی سے پگھل رہے ہیں، اور اب بارشوں کی وجہ سے مزید پگھلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج نے غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، اب مون سون کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے، اس کی شدت بھی زیادہ ہوسکتی ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ہمیں کس قدر نقصانات سہنے ہوں گے۔
کیا امیر ممالک اس کی ذمہ داری قبول کریں گے؟
گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے بڑے حصے دار اور امیر ممالک کی صنعتی سرگرمیاں کلائمٹ چینج کے ذریعے کس طرح ترقی پذیر ممالک کو متاثر کر رہی ہیں، صرف پاکستان اس کی ایک مثال نہیں، متعدد ایشیائی ممالک گزشتہ کچھ سال سے کم و بیش اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت (بھارت خود بھی گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا ایک بڑا حصے دار ہے) اور دیگر ایشیائی، افریقی اور کیریبیئن ممالک گزشتہ کچھ سالوں سے شدید ہیٹ ویوز، طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں اور ہر سال بے تحاشہ جانی و مالی نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
تو کیا امیر ممالک اس تباہی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان نقصانات کے ازالے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ امیر ممالک ان نقصانات کی بحالی کے لیے دی گئی رقوم کو قرض یا امداد کا نام دینے کے بجائے اسے اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں گے؟
ہر سال ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں جب ماحولیاتی نقصانات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور امیر ممالک کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ دار ان کی صنعتی سرگرمیاں ہیں، تو یہ ممالک کندھے اچکا کر اپنا کاربن اخراج کم کرنے کے وعدے کرلیتے ہیں، لیکن اگر وہ اس وعدے کو وفا بھی کرلیتے ہیں تو یہ کمی اتنی کم ہوتی ہے، کہ اگلے سال تک ہونے والا ماحولیاتی نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
سنہ 2009 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی یونائیٹڈ نیشنز کلائمٹ چینج کانفرنس میں (جسے COP بھی کہا جاتا ہے)، کئی سول سوسائٹی تنظیموں نے مل کر ایک تحقیقی ڈیٹا پیش کیا اور کہا کہ امریکا اور یورپی یونین، افریقہ، ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے آنے والی آفات میں ہونے والے 54 فیصد مالی نقصان کے ذمہ دار ہیں۔
اور پھر اسی سال ایک ازالہ جاتی فنڈ کا قیام عمل میں لانے کی منظوری دی گئی، لیکن اس کے پیچھے ترقی پذیر ممالک کی کئی سالہ کوشش تھی۔
یہ ازالہ جاتی فنڈ کون سا ہے؟
طویل عرصے تک جب اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ وہ امیر ممالک جن کی صنعتی سرگرمیوں سے کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج ہورہا ہے، اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور پھر یہ اضافہ پوری دنیا میں قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، ایسے ممالک کو ان آفات اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اخلاقی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے، تو بالآخر ان امیر ممالک نے ازالے کی رقم دینے کی ہامی بھرلی۔
سنہ 1992 میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی باڈی یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج (یو این ایف ٹرپل سی) کے تحت ایک فنڈنگ ادارہ قائم کیا گیا جسے گرین کلائمٹ فنڈ کا نام دیا گیا۔
سنہ 2010 میں قائم کی جانے والی اس فنڈنگ باڈی کا مقصد ہے، ترقی پذیر ممالک کو گلوبل وارمنگ میں کمی اور اس سے ہم آہنگی کرنے والے اقدامات کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔
یہ فنڈ ترقی یافتہ امیر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کلائمٹ چینج سے متاثر ہونے والے ممالک کے نقصانات کا ازالہ کریں۔
اس فنڈ کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امیر ممالک، غریب ممالک کے ماحول دوست پالیسیز کی طرف منتقل ہونے میں مالی مدد کریں، کیونکہ ماحول دوست ذرائع مثلاً سولر انرجی بنانا، توانائی کے عام ذرائع یعنی کہ پیٹرول یا کوئلے وغیرہ کی نسبت خاصا مہنگا ہے، غریب ممالک مہنگا ہونے کے باعث ماحول دوست ذرائع نہیں اپنا سکتے اور مجبوراً وہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے امریکا، یورپی ممالک اور دیگر امیر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک مقررہ رقم اس فنڈ میں جمع کروائیں۔
پاکستان اس فنڈ کے قائم ہونے سے اب تک اس سے نہایت ہی معمولی سا فائدہ اٹھا سکا ہے۔ گرین کلائمٹ فنڈ کے تحت اب تک پاکستان کو صرف 4 منصوبوں کے لیے فنڈ مل سکا ہے جن کی مالیت 131 ملین ڈالرز ہے، ان 4 منصوبوں میں سے ایک کراچی کا گرین بی آر ٹی منصوبہ بھی ہے۔
شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس حساب سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے نقصانات ہو رہے ہیں، اس حساب سے پاکستان اس فنڈ سے مستفید ہونے میں ناکام رہا ہے۔
کلائمٹ فنانس کی ایکسپرٹ کشمالہ کاکاخیل اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ پروگرام کسی نقصان کی صورت میں فوری ازالہ کرنے والے اقدامات کے لیے نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہمیں متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف کے لیے اب تک جو بھی رقم ملی ہے وہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کے تحت ملی ہے۔
کشمالہ کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی اور پائیدار ترقیاتی منصوبے مکمل جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس فنڈ کے لیے مختلف ممالک اپنے پروجیکٹس پیش کرتے ہیں اور اس میں سے چند پروجیکٹس کو منتخب کر کے انہیں فنڈنگ دی جاتی ہے۔ پروجیکٹ بنانے سے قبل اس کا جائزہ لینا اور تحقیق کرنا، اسے تمام اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، اس میں کمی بیشی کو دور کرنا، اور پھر اس کی منظوری ہونا اور اس کے بعد اس پر کام شروع ہونا، یہ سب سالوں کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔
یہ پروجیکٹس کون سے ہوں گے؟
چنانچہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں، طویل المدتی ہوں، پائیدار ہوں، اور کسی قدرتی آفت کے بعد نقصان کی شرح کم سے کم کرسکیں، کون سے ہو سکتے ہیں؟
اس حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ایسے منصوبے بنانے سے پہلے ملک میں جو مس مینجمنٹ موجود ہے، اسے ٹھیک کیا جانا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’ہم کس منہ سے دنیا سے پیسے مانگیں گے؟ کہ ہم نے دریا کے راستے میں ہوٹل تعمیر کرلیے، سیلاب میں وہ ہوٹل گر گئے، اب ہمارے اتنے لاکھ لوگ بیروزگار اور تباہ حال ہیں، ان کے لیے ہمیں پیسے دیے جائیں تاکہ ہم پھر سے اسی سیلابی راستے میں تعمیرات کریں۔ اس طرح تو ہمیں کوئی پیسے نہیں دینے والا‘۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ بعد کی چیز ہے، پہلے ہمیں دنیا کی طرح ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں تاکہ کسی آفت کی صورت میں ہمارا کم سے کم نقصان ہو۔ لیکن ایسی پالیسیز بنانا ہماری ترجیحات نہیں، البتہ ڈیزاسٹر کے بعد ہم اس کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے ضرور اپنے وسائل استعمال کرلیتے ہیں۔
دریا میں بنایا گیا کالام کا ہوٹل جو سیلاب میں بہہ گیا
ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ ہمارا باقاعدہ کوئی ریسکیو سسٹم ہی نہیں، قدرتی آفات میں خیراتی ادارے ہی ہمارا واحد سہارا ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے۔
وہ کہتے ہیں، کہ ایک تو عالمی طور پر رونما ہونے والا کلائمٹ چینج، پھر ہماری مس مینجمنٹ اور فطرت سے تصادم کا شوق، یہ سب مل کر ہمارے انسانی وسائل کو بے حد نقصان پہنچا رہے ہیں جن کی بڑی تعداد ویسے ہی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
تو کیا پاکستان کے پاس ایسے پائیدار ترقیاتی منصوبے ہیں؟
کشمالہ کاکا خیل کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال 4 سے 5 کلائمٹ ریزیلیئنٹ منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو جلد ہی گرین کلائمٹ فنڈنگ کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے فوری طور پر ریلیف کے لیے تو کئی ممالک کی امداد منظور ہوچکی ہے، اب آگے ہمیں ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ درکار ہے جس سے مستقبل میں ایسے قدرتی آفات کے دوران کم سے کم نقصان ہو، اور اس کے لیے طویل المدتی اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم 2010 کے سیلاب کے بعد ایسے منصوبے بنا لیتے، جن میں قدرتی آفات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیرات اور آباد کاری کی جاتی تو اب شاید ہم اتنا نقصان نہ اٹھاتے۔
کشمالہ کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ سیلاب کے راستے میں تعمیرات نہ کی جائیں، ارلی وارننگ سسٹمز کو مضبوط بنایا جائے، اور فطرت سے تصادم کا راستہ نہ اپنایا جائے، تب ہی ہمارے قیمتی انسانی اور مالی وسائل کی حفاظت ہوسکے گی ورنہ کچھ سال بعد ہم پھر اسی صورتحال سے گزر رہے ہوں گے اور ہمارے کلائمٹ متاثرین میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
دنیا بھر میں ہونے والی موسمی تبدیلیاں یا کلائمٹ چینج اسکن کینسر (جلد کے سرطان) کا سبب بن سکتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ شمالی ممالک میں سورج تلے طویل وقت گزارنے سے کینسر کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل میں کلائمٹ سائنسز کے پروفیسر ڈین مچل نے توجہ مبذول کروائی ہے کہ برطانیہ اور شمال کے دیگر ممالک میں لوگ گرم دنوں میں زیادہ باہر نکلتے ہیں، جنہیں الٹرا وائلٹ شعاعوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں کینسر کا ایک عنصر تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی خاص ہیٹ ویو کسی خاص کینسر کا سبب بنا۔ مچل نے نشاندہی کی کہ کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے کا تعلق موسمیاتی تبدیلی اور بلند درجہ حرارت سے ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمان کا کہنا ہے کہ چکوال میں سالٹ رینج نیچر ریزرو کمپلیکس میں سیمنٹ پلانٹ کی تنصیب سے علاقے میں زیر زمین پانی کے ذرائع بھی کم ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمان نے چکوال میں سالٹ رینج نیچر ریزرو کمپلیکس میں سیمنٹ پلانٹ کی تنصیب کا نوٹس لے لیا۔
وفاقی وزیر نے پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ مجوزہ سیمنٹ پلانٹ کی وجہ سے علاقے میں حیاتیاتی تنوع کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، کسان اور جنگلات کے محافظ سیمنٹ پلانٹ کی تنصیب کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لے، سیمنٹ پلانٹس کے علاوہ مجوزہ پلانٹ زیر زمین پانی کے ذرائع تیزی سے ختم کر رہے ہیں، پلانٹ کی وجہ سے علاقے کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مختلف قسم کے نباتات اور حیوانات موجود ہیں، پاکستان کو پہلے ہی حیاتیاتی تنوع کے نقصان، آلودگی اور ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے، رواں برس گرمی کی شدید لہروں کی وجہ سے کئی ہزار ایکڑ قیمتی جنگلات کو نقصان ہوا، ماحولیات کے ساتھ زیر زمین پانی کا بھی تحفظ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے جنگلات ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے لڑنے کے لیے ناکافی ہیں، قدرتی ذخائر کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے کان کنی کے لیے دوسری جگہیں تلاش کی جائیں۔
’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن ہمیشہ سے پڑھنا چاہتی تھی، شادی ہونے کے بعد اپنے بچوں کو پڑھانا اور انہیں بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی لیکن جیب اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ لیکن اب زندگی نے ایسی کروٹ لی ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے قابل ہوگئی ہوں‘، 35 سالہ جمنا کے چہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی سے بے حد خوش ہیں۔
اور ایک جمنا ہی نہیں، نیپال کے اس گاؤں کی رہائشی درجنوں خواتین بے حد خوش ہیں، 3 سال قبل شروع کی جانے والی باغبانی نے ان کی زندگی پہلے کے مقابلے میں خاصی بہتر کردی ہے۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع گاؤں کوئیکلٹھمکا میں چند سال قبل تک حالات خاصے دگرگوں تھے، معلومات اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گاؤں والے سال بھر میں کوئی ایک فصل اگا پاتے تھے، جس کی فروخت سے وہ جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے۔
اس فصل پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے گاؤں میں مختلف امراض بھی عام تھے جن میں جلدی الرجی سرفہرست تھی، معاشی پریشانی کی وجہ سے بہت کم لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے قابل تھے۔
پھر یہاں ایک انقلاب در آیا، حکومتی سرپرستی کے تحت چلنے والے ایک ادارے نے یہاں گھریلو باغبانی یا ہوم گارڈننگ کا سلسلہ شروع کروایا اور اس کے لیے خواتین کو چنا گیا۔
مختصر تربیت کے بعد خواتین نے اپنے گھروں میں سبزیاں اگانی شروع کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کا نقشہ بدل گیا، وہ گاؤں جہاں پہلے غربت کے ڈیرے تھے، اب وہاں خوشحالی، صحت اور سکون کی فراوانی ہوگئی۔
دنیا بھر میں بدلتے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی کلائمٹ چینج نے زندگی کے مختلف ذرائع پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور زراعت بھی انہی میں سے ایک ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے گزشتہ 60 برسوں میں دنیا بھر کی زراعت میں 21 فیصد کمی آئی ہے۔
کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں سب سے اہم پیداواری موسم میں کمی ہے، یعنی غیر متوقع طور پر ہونے والی بارشیں اور موسم گرما کے دورانیے میں اضافہ فصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔
موسم گرما کے دورانیے میں اضافے سے ایک طرف تو سرد موسم میں پیدا ہونے والی فصلوں کو افزائش کے لیے کم وقت مل رہا ہے، دوسری جانب طویل دورانیے کی گرمی، موسم گرما میں پیدا ہونے والی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
دنیا بھر میں پیدا ہونے والی قلت آب بھی اس کا اہم سبب ہے، علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب فصل بڑھانے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اور زمین کی استطاعت سے زیادہ پیداوار کی جاتی ہے تو زمین جلد بنجر ہوجاتی ہے یوں زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔
مستقبل قریب میں غذائی قلت کے ان خطرناک امکانات کو دیکھتے ہوئے مختلف طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں، اور انہی میں سے ایک طریقہ ہوم گارڈننگ یا گھر میں سبزیاں اگانا بھی ہے۔
نیپال کے ایک گاؤں میں اس ہوم گارڈننگ نے مقامی خواتین کی زندگی بدل دی ہے۔
نیپال ۔ کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ملک
لگ بھگ 2 کروڑ 92 لاکھ آبادی والا جنوب ایشیائی ملک نیپال اپنے 25 فیصد رقبے پر جنگلات رکھتا ہے تاہم یہاں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات نمایاں ہیں۔
زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے سی جی آئی اے آر کے مطابق نیپال میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر پڑنے والے منفی اثرات، ممکنہ غذائی قلت، آبی قلت، اور جنگلات میں کمی کی وجہ سے لاکھوں نیپالی خطرے کا شکار ہیں۔
پہاڑوں سے گھرے اس ملک میں پانی کا اہم ذریعہ گلیشیئرز ہیں تاہم درجہ حرارت میں اضافے سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے، بدلتے موسموں نے خشک علاقوں کی خشکی اور مرطوب علاقوں کی نمی میں اضافہ کردیا ہے اور زراعت کے لیے یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال نیپال کی جی ڈی پی میں کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو رہی ہے، سنہ 2050 تک یہ شرح 2.2 فیصد اور رواں صدی کے آخر تک 9.9 فیصد تک جا پہنچے گی۔
چھوٹی چھوٹی کوششیں جو لوگوں کی زندگی تبدیل کر رہی ہیں
بدلتے موسموں کی وجہ سے زراعت پر ہونے والے نقصانات نئی ترجیحات اور اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں جن میں سب سے آسان گھر میں باغبانی یا ہوم گارڈننگ ہے تاکہ ہر گھر اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکے۔
اس کی ایک بہترین مثال نیپال کے چند گاؤں ہیں جہاں ہوم گارڈننگ نے مقامی افراد کی زندگی بدل دی ہے۔
ہوم گارڈننگ کی وجہ سے جمنا کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوگئے ہیں
35 سالہ جمنا ادھیکاری کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع ایک پہاڑی علاقے کوئیکلٹھمکا کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں، 3 سال قبل جب انہوں نے اپنے گھر میں باغبانی شروع نہیں کی تھی تب وہ اور گاؤں کے دیگر گھرانے مخصوص خوراک کھانے پر مجبور تھے، اس کی وجہ مارکیٹس کا گاؤں سے دور ہونا اور معاشی پریشانی تھی۔
جمنا بتاتی ہیں کہ اس وقت گاؤں میں عموماً سبھی کسان سرسوں اگاتے تھے جسے فروخت کر کے وہ ایک محدود رقم حاصل کر پاتے، اس معمولی رقم سے جیسے تیسے زندگی گزر رہی تھی۔
پھر 3 سال قبل چند اداروں کی مدد سے انہیں گھر میں سبزیاں اگانے کے حوالے سے تربیت دی گئی، اس کا بنیادی مقصد تو گاؤں والوں کی غذائی ضروریات پورا کرنا تھا تاکہ انہیں اپنے گھر میں ہی مختلف سبزیاں حاصل ہوسکیں، ان کی رقم کی بچت ہو جبکہ سبزیاں خریدنے کے لیے گاؤں سے دور آنے جانے کی مشقت بھی ختم ہوسکے۔
لیکن اب تین سال میں گاؤں کی تمام خواتین نے اس باغبانی کو اس قدر وسعت دے دی ہے کہ نہ صرف ان کے گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ اس سبزی کو فروخت بھی کر رہی ہیں۔
’اس سبزی کی فروخت سے ہر گھر کو سالانہ تقریباً 1 لاکھ روپے تک کی آمدن حاصل ہوتی ہے، اتنی بڑی رقم ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی‘، جمنا چمکتی آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں۔
اپنے گھر میں ہونے والی باغبانی کے حوالے سے جمنا بتاتی ہیں کہ وہ دو حصوں میں باغبانی کرتی ہیں، ایک گھر کی ضرورت کے لیے، دوسرا فروخت کے لیے۔ گھر کے لیے وہ 21 قسم کی سبزیاں اگاتی ہیں جن میں پھول گوبھی، بند گوبھی، ٹماٹر، مرچ، بینگن اور گاجر وغیرہ یکے بعد دیگرے اگاتی ہیں۔
تجارتی مقصد کے لیے اگائی جانے والی سبزیوں کی تعداد کم لیکن مقدار زیادہ ہے۔
گاؤں والوں کو تربیت دینے والی نیپال کی ایک مقامی تنظیم CEAPRED کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کرن بھوشل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب اس گاؤں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں والے غذائی عدم توازن کا شکار تھے کیونکہ وہ چند مخصوص غذائیں ہی کھا رہے تھے۔
’اس کی وجہ معاشی طور پر کمزور ہونا اور شہر کی مارکیٹ تک عدم رسائی تھی، ہم نے یہ خیال پیش کیا کہ اگر گاؤں والے اپنے گھر میں ہی سبزیاں اگائیں تو ان کے لیے خوراک کا حصول آسان ہوسکتا ہے، جبکہ اضافی دیکھ بھال سے وہ اس موسم میں بھی سبزیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے جو نسبتاً خشک سالی کا موسم ہوتا ہے اور فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے‘، کرن نے بتایا۔
تاہم اس سے آمدن کا حصول ایک اضافی فائدہ تھا جس نے گاؤں والوں کی زندگی خاصی بہتر بنائی، جمنا بتاتی ہیں کہ ایک غریب خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اسکول نہیں جاسکیں، لیکن اب اس آمدن نے انہیں اس قابل کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہیں۔
نقصان دہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات
نیپال کے ان دیہات میں کاشت کاری اور باغبانی کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد ’جھولمال‘ استعمال کی جارہی ہے، یہ کھاد جانوروں کے گوبر، گلی سڑی سبزیوں پھلوں اور پتوں سے تیار کی جاتی ہے۔
فصلوں پر گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ایک اسپرے بطور کیڑے مار دوا استعمال کیا جارہا ہے۔
کرن بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل تک جب گاؤں والے اپنی فصل پر نقصان دہ کیڑے مار ادویات استعمال کیا کرتے تھے تب وہ مختلف طبی مسائل میں مبتلا تھے، ’اس وقت گاؤں میں اسکن الرجی اور سر درد کی بیماریاں عام تھیں، پھر کیمیکل فرٹیلائزر بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کا مستقل استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، تاہم اب کمرشل فصل اور گھریلو باغبانی دونوں کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد اور اسپرے استعمال کیا جارہا ہے اور لوگوں کے صحت کے مسائل میں خاصی کمی آئی ہے‘۔
امریکی تحقیقاتی ادارے ڈرگ واچر کے مطابق فصلوں پر چھڑکی جانے والی اور زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کی جانے والی کیمیکل ادویات جلد کی الرجی سے لے کر سانس، ہاضمے کے مسائل اور کینسر تک کا سبب بن سکتی ہیں۔
کرن کہتے ہیں کہ گھر میں کی جانے والی آرگینک فارمنگ نے مقامی افراد کو نقصان دہ فرٹیلائزر اور کیڑے مار ادویات سے تحفظ فراہم کردیا ہے۔
پانی کی فراہمی کے لیے مقامی ذرائع
سارا سال سبزیوں کے حصول کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خشک سالی سے نمٹنا تھا، کرن کے مطابق بارشوں کے موسم میں کچھ بھی اگا لینا تو بے حد آسان تھا لیکن مسئلہ تب ہوتا جب بارشیں ختم ہوجاتیں۔
اس وقت پانی کی کمی گاؤں والوں کی تجارتی فصل کی پیداوار کو بھی متاثر کرتی۔
سوائل سیمنٹ ٹینک
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گاؤں میں جگہ جگہ خاص قسم کے ٹینکس بنائے گئے، چکنی مٹی، ریت اور سیمنٹ سے تیار کردہ ان ٹینکس میں بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جو بارش کا سیزن ختم ہوجانے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔
’ہوم گارڈننگ کی وجہ سے ہمارے حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں صحت کا تحفہ بھی ملا ہے، ذرا سی محنت اور معمولی کوشش سے ہماری زندگی اتنی بہتر ہوجائے گی، ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘، جمنا جھلملاتی مسکراہٹ کے ساتھ بتاتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، سنہ 1973 سے یہ دن ہر سال 5 جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این انوائرنمنٹ کے زیر اہتمام اس سال اس دن کا عنوان صرف ایک زمین رکھا گیا ہے جبکہ رواں برس کا میزبان ملک سوئیڈن ہے۔
ماحولیات کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا میں ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کی طرف توجہ دلانا اور ان کے سدباب کے لیے کوششیں کرنا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زمین کے موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔
پاکستان اس وقت کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے، لیکن اب بھی کلائمٹ چینج پاکستان میں ڈسکس کیا جانے والا ایک غیر اہم ترین موضوع ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سنہ 1980 سے لے کر اب تک گزشتہ 42 سال میں پاکستان کے درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.9 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں، جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نتیجتاً آس پاس کی آبادیوں میں سیلاب آجاتا ہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔
یہ گلیشیئرز ملک میں پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں، لیکن جب بہت سا پانی ایک ساتھ آجاتا ہے تو وہ اسٹور نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے پہلے سیلاب آتا ہے، اور بعد میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
اسی صورتحال کی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2040 تک پاکستان کی دو تہائی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہوگی۔
کلائمٹ چینج ہماری زراعت کو بھی بے حد نقصان پہنچا رہا ہے، غیر متوقع بارشوں اور گرمی سردی کے بدلتے پیٹرنز کی وجہ سے ہماری فصلوں کی پیداوار کم ہورہی ہے جس سے ہماری فوڈ چین پر اثر پڑ رہا ہے۔
اس کا نتیجہ ملک میں غذائی قلت کی صورت میں نکلنے کا امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی فہرست اور ان کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کلائمٹ چینج دنیا میں تیسری عالمی جنگ کو بھی جنم دے سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ غذائی قلت اور قحط ہوسکتے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہیٹ ویو اب معمول بن جائے گی، گلوبل وارمنگ کی موجودہ سطح نے گرمی کی ان لہروں کے امکان کو 30 گنا بڑھا دیا ہے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں حالیہ عرصے میں شدید گرمی کی لہر ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اور خطے کے مستقبل کی عکاس ہے۔
ورلڈ ویدر ایٹری بیوشن گروپ نے تاریخی موسمیاتی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جس سے پتہ چلا کہ وقت سے قبل اور طویل گرمی کی لہریں جو بڑے جغرافیائی علاقے کو متاثر کرتی ہیں، پہلے صدی میں ایک بار ہونے والے واقعات تھے۔ لیکن گلوبل وارمنگ کی موجودہ سطح نے گرمی کی ان لہروں کے امکان کو 30 گنا بڑھا دیا ہے۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والی ممبئی کی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک سائنسدان ارپیتا مونڈل نے کہا کہ اگر عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے دو ڈگری سیلسیس زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو اس طرح کی گرمی کی لہریں ایک صدی میں دو بار اور ہر پانچ سال میں ایک بار ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ چیزیں اب معمول بن جائیں گی۔
دوسری جانب گزشتہ ہفتے برطانیہ کے موسمیاتی محکمے کی جانب سے شائع کی گئی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرمی کی لہر یا ہیٹ ویو موسمیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے اور یہ اسی شدت کے ساتھ ہر 3 سال بعد آئے گی۔
ورلڈ ویدر ایٹری بیوشن گروپ کی تحقیق قدرے مختلف ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ موسمیاتی تبدیلی سے گرمی کی لہر کا دورانیہ کتنا ہوگا اور کس خطے پر اثرات ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے سائنسدان فریڈرک اوٹو جو تحقیق کا حصہ رہے، کا کہنا تھا کہ اصل نتائج ہماری تحقیق اور برطانوی محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے نتائج کے درمیان کہیں ہیں کہ گرمی کی اس لہر میں موسمیاتی تبدیلی کا کتنا کردار ہے۔
بھارت میں گزشتہ 120 برس میں مارچ کا مہینہ گرم ترین رہا جبکہ اپریل میں پاکستان اور انڈیا کے کئی حصوں میں گرمی کی شدت نے ریکارڈ قائم کیے۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہیٹ ویو سے پاکستان کے شمال میں گلیشیئر پھٹ گیا جس سے دریا کے کنارے موجود بعض علاقے متاثر ہوئے جبکہ بھارت میں فصل متاثر ہوئی اور حکومت نے گندم کی برآمد پر پابندی عائد کردی۔