Tag: کلائمٹ چینج

  • کلائمٹ چینج سے کافی کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    کلائمٹ چینج سے کافی کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    میلبرن: ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کافی اگانے والے علاقوں کو متاثر کر سکتا ہے جس کے باعث 120 ملین افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔

    آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مشترکہ کلائمٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج دنیا بھر کی زراعت کو متاثر کر رہا ہے جن میں سے ایک کافی کے بیجوں کی فصل بھی ہے۔ کافی کی پیداوار متاثر ہونے سے 120 ملین افراد کا روزگار متاثر ہوگا جو اس زراعت سے وابستہ ہیں۔

    coffee-2

    یہ افراد وسطی امریکا کے غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کا واحد ذریعہ روزگار کافی کے بیچوں کو اگانا اور ان کی تجارت کرنا ہے۔

    کافی کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والے ممالک میں سے ایک تنزانیہ میں 2.4 کروڑ افراد اس روزگار سے وابستہ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گرمی کے موسم میں یہاں درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کے بعد کافی کی فی ہیکٹر پیداوار میں 137 کلو گرام کمی آئی ہے۔

    اس لحاظ سے سنہ 1960 سے اب تک کافی کی پیداوار میں نصف کمی آچکی ہے۔

    یہی صورتحال وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں بھی ہے جہاں 2012 میں سخت گرمی سے کافی کے پتے خراب ہونے کے باعث اس کی پیداوار میں 85 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

    coffee-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وسطی امریکی ملک نکارا گوا 2050 تک اپنی کافی کی فصل مکمل طور پر کھو سکتا ہے جبکہ تنزانیہ میں 2060 تک کافی کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی آجائے گی۔

    اسی طرح کافی کی ایک قسم ’جنگلی کافی‘ کی پیداوار 2080 تک مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ یہ قسم جینیاتی طور پر کافی میں مختلف ذائقے پیدا کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کافی کو کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ کافی کی فصلوں کو خط استوا سے دور ان علاقوں میں اگایا جائے جہاں کلائمٹ چینج اتنی شدت سے اثر انداز نہیں ہورہا۔ لیکن چونکہ کافی کے پودے بڑے اور پھلدار ہونے میں کافی عرصہ لیتے ہیں لہٰذا فی الحال یہ تجویز قابل عمل نظر نہیں آتی۔

    coffee-4

    واضح رہے کہ تیزی سے بدلتا دنیا کا موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے اور اس سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات بھی 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ سے متعلق مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں *

  • قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں قطب شمالی کی برف گلابی ہورہی ہے؟

    گلابی یا شربتی رنگ کی ’واٹر میلن سنو‘ کہلائی جانے والی یہ برف آنکھوں کو تو بے حد خوبصورت لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

    قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    pink-1

    یہ عمل اونچائی پر واقع علاقوں جیسے قطب شمالی اور گرین لینڈ میں پیش آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل ایک سنگین صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ قطب شمالی کی برف کا گلابی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گلیشیئرز کا ’البیڈو‘ اثر اپنی صلاحیت کھو رہا ہے۔

    البیڈو افیکٹ کا مطلب گلیشیئرز کا سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنا ہے۔ سخت برف سے بنے ہوئے گلیشیئرز پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ اس سے ٹکرا کر واپس آسمان کی طرف پلٹتی ہے۔ اگر یہ عمل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ گلیشیئر ان شعاعوں کو جذب کر رہا ہے۔

    pink-2

    اس کے کئی نقصانات ہیں۔ ایک یہ گلیشیئرز پگھل کر عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ کریں گے جس سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ دوسرا سورج کی روشنی   کے واپس آسمان میں نہ جانے سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور دنیا کے مختلف ممالک میں گرمی بڑھے گی۔

    دوسری جانب برف پگھلنے سے یہاں موجود جانور جیسے برفانی ریچھ، برفانی لومڑی وغیرہ کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    یہ عمل گلیشیئر میں ’سرخ کائی‘ کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ گلیشیئر میں جتنی زیادہ سرخ الجی یا کائی موجود ہوگی اتنا ہی وہ گلیشیئر سورج کی روشنی جذب کرے گا۔

    اس کی مثال ہم یوں لیتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ گہرے رنگ سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرتے ہیں نتیجتاً پہننے والے کو شدید گرمی لگنے لگتی ہے۔

    arctic-3

    اس کے برعکس ہلکے رنگ کے کپڑے سورج کی شعاعوں کو روک کر اسے منعکس کرتے ہیں یعنی واپس پھینک دیتے ہیں۔

    اسے ہم ایک سائیکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ سورج کی روشنی گلیشیئرز میں جذب ہوکر سرخ الجی پیدا کرے گی اور سرخ الجی سورج کی مزید روشنی کو اپنے اندر جذب کرے گی یوں گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث قطب شمالی کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    pink-4

    پاکستان بھی کلائمٹ چینج کے شکار ممالک میں سے ایک ہے جہاں موجود 5000 گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث شمالی علاقوں کو شدید سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے۔

  • قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا ہے۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    ماہرین کے مطابق 2016 ایک گرم سال تھا۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے بقیہ ماہ 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    درجہ حرارت میں اس اضافہ کا اثر قطب شمالی پر بھی پڑ رہا ہے جہاں موجود برف تیزی سے پگھلنی شروع ہوگئی۔

    قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔ یہاں آبی حیات بھی کافی کم ہیں جبکہ نمکیات دیگر تمام سمندروں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔

    arctic-2

    اس کا رقبہ 14,056,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے۔ شدید گرمی کے باعث اس کے گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔ یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    arctic-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں نصب یہ نظام گلیشیئرز کے پگھلنے کی صورت میں سیلابوں سے قبل از وقت آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً 5000 گلیشیئرز موجود ہیں اور یہ 15 ہزار اسکوئر کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    gl-3

    محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق صرف پچھلے عشرے میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ پوری دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔

    گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے مشاہداتی نظام (مانیٹرنگ سسٹم) کو وسعت دینے کے لیے 892.5 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔

    اس 4 سالہ منصوبے کے ذریعہ وہاں کے درجہ حرارت، نمی، بارشوں کے موسم میں تبدیلی اور ہوا کی رفتار کے بارے میں زیادہ درست معلومات حاصل کی جاسکیں گی تاکہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی اصل رفتار، اس کے نقصانات اور اس کے بچاؤ کے اقدامات کیے جاسکیں۔

    گلیشیئرز پگھلنے کا سب سے بڑا خطرہ سطح سمندر میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ اضافہ سیلاب کی شکل میں کنارے بسی ہوئی آبادیوں، دیہاتوں اور قصبوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    gl-6

    اس مشاہداتی نظام کے ذریعہ سیلاب سے 60 سے 90 منٹ قبل اس سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یوں کنارے بسی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچنے کا وقت مل سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی ایک وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا بھی تھا۔ اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبہ اور 1.4 کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا جبکہ اس کے باعث 1600 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں سیلاب سے قبل از وقت آگاہی کے لیے ایس ایم ایس سروس اور دیگر کئی وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے 16.6 بلین روپے کا منصوبہ بھی وفاقی حکومت کو بھجوایا ہے جو منظوری کا منتظر ہے۔

    اس سے قبل ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

    gl-2

    ماہرین کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برف باری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی اور یوں دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    نیویارک: اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں خشک سالی کی صورتحال جنگلات میں آتشزدگی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے جو آگے چل کر عالمی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے بچاؤ کے اقدامات کے ادارے یو این آئی ایس ڈی آر کے سربراہ رابرٹ گلاسر نے کہا کہ گذشتہ برس تاریخ کا ایک گرم ترین سال رہا اور رواں برس بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ان 2 برسوں میں جگلات میں آگ لگنے کے کئی واقعات دیکھے گئے جو دن گزرنے کے ساتھ مستقل اور تباہ کن ہوتے گئے۔

    wildfire-2

    انہوں نے واضح کیا کہ اس کی وجہ شہروں کا بے تحاشہ پھیلنا اور اس کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی، اور جنگلات کا عدم تحفظ ہے۔ جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث قریبی شہروں اور آبادیوں کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    کیلیفورنیا: جنگل میں لگنے والی آگ بے قابو *

     کینیڈا کے جنگل میں آتشزدگی *

    جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ *

    واضح رہے کہ رواں برس کینیڈا، اسپین، پرتگال، فرانس اور امریکا کے کئی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں جس سے ایک طرف تو بے شمار گھر تباہ ہوئے، دوسری طرف آگ بجھاتے ہوئے کئی فائر فائٹرز بھی ہلاک یا شدید زخمی ہوگئے۔

    wildfire-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات میں آتشزدگی سے آکسیجن فراہم کرنے والا ذریعہ (درختوں) کا بے تحاشہ نقصان ہوتا ہے جو وہاں کے ایکو سسٹم، کاربن کو ذخیرہ کرنے کے ذرائع اور پانی کو محفوط کرنے کے ذرائع کو تباہ کردیتے ہیں جبکہ ان کے باعث مٹی کے کٹاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں یا کلائمٹ چینج کے اثرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان آتشزدگیوں کے باعث عالمی معیشتوں کو سالانہ 146 سے 191 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

  • ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    اوسلو: ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    یہ فیصلہ عالمی حدت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پورے ملک میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ حکومت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات پر پابندی پر بھی غور کر رہی ہے۔

    norway-2
    برازیل کے شمالی حصہ میں پارہ نامی علاقہ ۔ کبھی اس پورے رقبہ پر جنگلات تھے

    نارویئن پارلیمنٹ نے پابندی کے بل کے مسودے میں شامل اس شق کی بھی منظوری دی جس کے تحت ناروے ان غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہیں۔

    یہ اقدام اس معاہدے کی ایک کڑی ہے جو ناروے نے 2014 میں نیویارک میں ہونے والے کلائمٹ سمٹ میں کیا تھا جس میں ناروے، جرمنی اور برطانیہ نے ایک مشترکہ معاہدے کے تحت قومی سطح پر جنگلات کی کٹائی میں کمی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: میکسیکن اداکار کی ماحولیاتی آگاہی کے لیے درخت سے شادی

    ناروے نے اس پابندی کو اپنی قومی پالیسی کا بھی حصہ بنالیا ہے جس کے تحت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات کی جگہ متبادل مصنوعات اور ان کی صںعتوں کو فروغ دینے پر کام کیا جائے گا۔

    ناروے اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست اقدامات اٹھا چکا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت ناروے میں پچھلے 7 سالوں میں جنگلات کی کٹائی میں 75 فیصد کمی آچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    ناروے جنگلات کو بچانے کے لیے لائبیریا اور انڈونیشیا کو بھی امداد دے چکا ہے۔ 2008 میں ناروے نے برازیل کو 1 بلین ڈالر امداد دی جس کے تحت اب برازیل ایمیزون کے جنگلات کو تباہی سے بچانے کے لیے کام کرہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    واشنگٹن: ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 2016 کی شدید گرمی کے بعد 2017 نسبتاً ایک سرد سال ہوگا۔

    رواں برس جولائی کے مہینے کو گرم ترین مہینہ قرار دیا جاچکا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2016 کا سال 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ال نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    رواں سال ایل نینو کا سال ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    برطانیہ کی ایسٹ اینجلا یونیورسٹی کے کلائمٹ ریسرچ یونٹ کے پروفیسر کے مطابق امکان ہے کہ آنے والا سال رواں سال کے مقابلہ میں کچھ سرد ہوگا۔

    تاہم ماہرین کے مطابق اگلے سال ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    واضح رہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے دنیا کو کلائمٹ چینج سے مطابقت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    واشنگٹن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث آنے والی قدرتی آفات مستقبل قریب میں مختلف ممالک میں مسلح تصادم کو فروغ دے سکتی ہیں اور پہلے سے جاری تصادموں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی جانب سے کی گئی۔ ماہرین نے اس کے لیے دنیا بھر میں جاری جنگ زدہ علاقوں کی صورتحال، ان کی وجوہات، اور مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں / تنازعوں کی وجوہات کا جائزہ لیا۔

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟ *

    تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں جاری خانہ جنگیوں میں سے ایک تہائی کی بنیادی وجہ وہاں ہونے والے موسمی تغیرات اور ان کے باعث ہونے والی ہجرتیں ہیں۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو)، سیلاب اور طوفان مستقبل میں جنگوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ امکان ان مقامات پر زیادہ ہے جہاں آبادی زیادہ اور کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں *

    کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق کلائمٹ چینج قدرتی آفات جیسے زلزلہ، سیلاب، طوفان اور قحط یا خشک سالی کی وجہ بن رہا ہے۔ ان آفات کے باعث بہتر طرز زندگی کے حامل پورے پورے شہر اجڑ سکتے ہیں ا ور ان میں رہنے والے افراد بھوک، پیاس، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    نتیجتاً وہ شدت پسند رویوں کا شکار ہو کر شدت پسندی، مسلح لڑائیوں، جرائم اور دہشت گردی کی جانب متوجہ ہوں گے۔

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ *

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسندی اور مسلح تصادم افریقہ اور جنوبی ایشیا کو خاص طور پر متاثر کریں گے۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے ہونے والے مختلف مسائل کے باعث جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    اس تحقیق میں پانی کی کمی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا جس کے باعث پانی کے حصول کے لیے تینوں ممالک آپس میں برسر پیکار ہوسکتے ہیں۔

  • کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    ہم سب ہی نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی سنی ہے جس میں کچھوا اپنی مستقل مزاجی کے باعث خرگوش سے ریس جیت جاتا ہے اور خرگوش پیچھے رہ جاتا ہے۔ مگر یہ کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ اس کہانی کو اگر آج کے دور میں ڈھالا جائے تو اس بار کچھوا لازماً یہ ریس ہار جائے گا، کیونکہ اس بار اس کا مقابلہ اپنے جیسے کسی جنگلی جانور سے نہیں بلکہ چالاک و عیار انسان سے ہوگا، جو پیسوں کی خاطر اسے دنیا سے ختم کرنے پر تلے ہیں۔

    شاید کبھی کچھوا یہ ریس جیت جائے، کیونکہ بقا کا مقصد بہرحال سب سے عظیم ہوتا ہے اور جان بچانے کا مقصد کسی کو بھی اس کی استعداد سے بڑھ کر جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن فی الحال جو منظر نامہ ہے اس میں کچھوے کو شکست کا سامنا ہے، اور اس کے مقابل انسان فتح یاب ہورہا ہے۔

    پاکستان ایک زرخیز ملک؟

    پاکستان جغرافیہ کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

    اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے خزانے کی صحیح سے حفاطت نہیں کر پارہے۔ جانداروں کی کچھ اقسام معدوم ہوچکی ہیں، کچھ خطرے کا شکار بین الاقوامی جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دو چار ہیں۔

    گذشتہ 4 سو سال میں پاکستان (برصغیر) کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر)، دلدلی ہرن اور شیر شامل ہیں۔ چیتا سندھ کے علاقوں سےمعدوم ہوچکا ہے۔ مزید 2 اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا اور کالی بطخ کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ایشیاٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔

    ہمارے ملک میں معدومی کے خطرے کا شکار ایسا ہی ایک جاندار کچھوا بھی ہے، اور شاید لوگوں کو علم نہیں کہ یہ جاندار ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔

    معدومی کے خطرے سے دو چار ۔ کچھوا

    پاکستان میں کچھوے کی میٹھے پانی کی 8 انواع ہیں جبکہ 3 سمندری (نمکین) پانی میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے جو زمین سے مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اسی طرح کچھوا یہی کام پانی میں سرانجام دیتا ہے۔

    کچھوے پانی میں موجود مردہ اجسام کو کھاتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اس بارے میں سندھ وائلڈ لائف کے کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق یہ بات اب تصدیق شدہ ہے کہ کراچی میں اچانک پیدا ہونے والا نیگلریا وائرس کچھوؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ نیگلیریا وائرس میٹھے پانی جیسے دریاؤں، جھیل اور پینے کے پانی کے ذخائر میں پیدا ہوتا ہے اور یہاں کا محافظ یعنی میٹھے پانی کا کچھوا اپنی بقا کے مسئلہ سے دو چار ہے۔

    کچھوے اکثر ان فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یا لا کر چھوڑے جاتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے جیسے چاول کی فصل۔ وہاں بھی کچھوے پانی کو صاف رکھتے ہیں اور فصل کو آبی خطرات سے بچاتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق اصل خطرہ ۔ اسمگلنگ

    پاکستان میں کچھوؤں کی اسمگلنگ ایک عام بات بن چکی ہے۔ اس حوالے سے کئی قوانین منظور کیے جاچکے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے چنانچہ کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے کئی واقعات منظر عام پر آئے۔

    عدنان حمید کے مطابق اسمگل کیے جانے والے کچھوؤں کی پہلی کھیپ 1998 میں کراچی ائیرپورٹ سے پکڑی گئی۔ وہ اس وقت کراچی ائیر پورٹ پر کام کرتے تھے۔

    سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر 3650 کلو گرام کچھوے کا گوشت ضبط گیا جو ملزمان کے مطابق بھینسوں کا گوشت تھا۔ یہ گوشت ویتنام اسمگل کیا جارہا تھا۔

    سنہ 2007 میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر کچھوے کے جسم کے خشک کیے ہوئے 700 کلو گرام حصے چین لے جاتے ہوئے ضبط کیے گئے۔ اسے مچھلی کی خشک جلد بتائی جارہی تھی۔ 2007 ہی میں پشاور سے اسی طرح 300 کلو گرام کچھوے کے جسم کا خشک کیا ہوا حصہ پکڑا گیا۔

    اس کے بعد 2008 میں بھی اتنی ہی مقدار سے لاہور سے بھی کچھوے کا گوشت اسمگل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔سنہ 2015 میں 5 کھیپوں سے 1,345 زندہ کچھوے پکڑے گئے جو مختلف مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب اسمگل کیے جارہے تھے جبکہ 1.9 ٹن ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے گوشت ہڈیاں وغیرہ پکڑی گئیں۔

    اپریل 2015 میں 200 سے زائد میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

    اس کے چند روز بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل پر 4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زائد کچھوؤں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔

    فروری 2016 میں کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھوؤں کی غیر قانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔

    مارچ میں کراچی کرائم برانچ پولیس نے ڈالمیا شانتی نگر میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر اسمگل کے لیے جانے والے نایاب نسل کے کچھوے برآمد کرلیے۔ واقعے میں ملزمان فرار ہوگئے۔

    اسمگلنگ کی وجہ کیا ہے؟

    کچھوے کے گوشت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک 340 ڈالر فی کلو میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس میں حصے دار ہیں وہ چند سالوں میں بڑی بڑی لینڈ کروزرز اور وسیع و عریض بنگلوں کے مالک بن گئے۔

    ان کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔

    عدنان حمید کے مطابق پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اتنا با اثر نہیں چنانچہ اکثر پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھؤے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔

    قوانین کیا ہیں؟

    پاکستان میں 1972 سے 1974 کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے گئے جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔

    پاکستان نے خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن ’سائٹس‘ پر 1975 میں دستخط کیے تھے جس کے تحت ان کچھوؤں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق غیر قانونی طور پر کچھوؤں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔

    دوسری جانب اپریل 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ دیا اور واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹہرا کر کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہلکار و افسران، تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں اور سائٹس معاہدے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھوؤں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بلکہ انہیں صوبے میں نافذ کر کے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔

    اگرچہ اب بھی پاکستان میں سائٹس معاہدے پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا تاہم اس پابندی سے خطرے سے دو چار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔

    عدنان حمید نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف سے متعلق کیسوں کی سماعت میں جنگلی حیات کے فوائد، اس کی معدومی سے ہونے والے خطرات، اور اس کے متعلق قوانین کے بارے میں ججوں کو سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج سرمد عثمان جلالی خود بھی شکاری تھے اور جنگلی حیات کے اہمیت کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ مؤثر فیصلے دیا کرتے تھے۔

    عدنان حمید کے مطابق سخت قوانین کے باعث اب کسٹم حکام نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے واقعات کی اطلاع دینی شروع کی ہے تاہم اب بھی کسٹم حکام اس کام میں ملوث ہیں۔

    اسمگلنگ کے علاوہ مزید کیا خطرات درپیش ہیں؟

    اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلو میٹر ہے جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر کچھوؤں کی افزائش کے لیے موزوں ہے۔ یعنی ایک صوبے کی 300 کلو میٹر ساحلی پٹی میں سے صرف 15 سے 16 کلومیٹر میں کچھوے افزائش نسل کر سکتے ہیں۔

    مگر اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ عدنان حمید کے مطابق ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے ہوتی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ یعنی نیسٹنگ سائٹس کم ہو رہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی اس عمل میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔

    عدنان حمید نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر کچھوؤں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کے نیسٹنگ سیزن میں بھی تبدیلی آئی۔

    بعض اوقات سمندر میں موجود کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں جس کے باعث وہ مر جاتے ہیں۔ کچھوے سمندر میں بچھائے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ یہ کچھوے جب سطح سمندر پر آتے ہیں تو بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے چھڑا کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گاؤں والوں کی تفریح کا باعث بن جاتے ہیں اور یوں سمندر میں جانے سے قبل مر جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بڑے بڑے جال بچھا دیے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو سطح سمندر پر کچھ دیر بعد آ کر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ پاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979 سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھوؤں کے تحفظ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کرہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھوؤں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھوؤں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق 2014 سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھوؤں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اس ضمن میں ماہی گیروں اور مچھیروں کو تربیت اور کچھوؤں، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے تاکہ ان کے جال میں پھنسنے کی صورت میں وہ ان جانداروں کو آزاد کردیں۔

    عدنان حمید کے مطابق قانون پر عملدرآمد اور میڈیا کی بدولت آگہی کے سبب کچھوؤں کے لیے اب صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم ان کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

  • ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گوبل وارمنگ جہاں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں وہیں جنگلی حیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلی حیات کی کئی نسلوں کو ان عوامل کے باعث معدومی کا خدشہ ہے، تاہم امریکا میں ایک معدومی کے خطرے کا شکار لومڑی خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔

    اس بات کا اعلان امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے کیا۔ حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی اس قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    حکام کے مطابق یہ بحالی امریکا کے ’خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت کے ایکٹ‘ کی 43 سالہ تاریخ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنی تیزی سے کوئی اور ممالیہ جانور خود کو خطرے کی زد سے باہر نہیں نکال پایا۔

    واضح رہے یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے کہ ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔