Tag: کلائمٹ چینج

  • تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    مٹھی: ڈپٹی کمشنر تھرپارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی لگا دی۔

    محکمہ اطلاعات سندھ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے درختوں کو زمین کا حسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو اس حسن کو برباد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    مزید پڑھیں: عامر خان کا تھر کے پیاسوں کی امداد کے لیے میچ

    انہوں نے کہا ہے کہ تھر کے صحرا میں ان درختوں کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ جانوروں کے چارے کا ذریعہ ہیں لہٰذا یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ درختوں کی حفاظت کی جائے۔

    مزید پڑھیں: چنار کا ڈھائی ہزار سال قدیم درخت دریافت

    تھر میں یہ پابندی دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت لگائی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایبٹ آباد میں 200 سال قدیم درخت برفباری کی نذر

    ڈپٹی کمشنر نے ایس ایس پی تھر کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ درختوں کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں اور ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں جو درختوں کی کٹائی میں ملوث پائے جائیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے 2030 تک کم از کم 2 کھرب پاؤنڈز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ، اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثر پڑے گا۔

    lanour-new

    رپورٹ کے مطابق مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سالانہ اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 43 ممالک جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔

    ان 14 سالوں میں چین اور بھارت کو سالانہ تقریباً 340 بلین پاؤنڈز جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو 188 بلین اور تھائی لینڈ کو 113 بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا ہوگا۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ *

    رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ٹورڈ کیلسٹورم کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا۔ ’جتنی زیادہ گرمی ہوگی، ہمارے کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ کئی ممالک میں صرف چند روز کے لیے ہیٹ ویو آئی اور اس سے ان ممالک کی معیشتوں کو اربوں کا نقصان پہنچا‘۔

    global-warming

    تاہم دیگر ماہرین کی طرح انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم ہنگامی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کریں تو ہم اس نقصان میں کسی حد تک کمی کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں۔ ’یہ اقدامات ابھی بھی کم ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب سے 40 سال بعد اس کے لیے اقدامات کریں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں‘۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج اور اس کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اس وقت دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

    گلوبل وارمنگ: شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

  • مشہور شہروں میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلیاں

    مشہور شہروں میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلیاں

    پچھلی ایک صدی میں دنیا اس قدر تیزی سے تبدیل ہوئی ہے جس کا تصور بھی ناممکن تھا۔ خصوصاً اکیسویں صدی کے آغاز سے ترقی کا پہیہ مزید تیز ہوگیا ہے اور جتنی ترقی پچھلے 2 عشروں میں ہوئی اتنی پچھلی کئی صدیوں میں نہیں ہوئی۔

    تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ترقی یافتہ ہونے کی دوڑ میں دنیا کی شکل ہی بدل گئی۔ درختوں، پھولوں اور فطرت کی جگہ بلند و بالا عمارتوں نے لے لی۔ آبادی کی رہائش و ملازمت کی ضروریات نے شہروں کو بھی وسیع و عریض کردیا اور ان کی ہئیت بدل دی۔

    ہم نے کچھ شہروں کے ماضی و حال کی تصاویر اکھٹی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف چند عشروں قبل وہ شہر کیسے تھے۔ یہ تصاویر آپ کی معلومات میں بھی اضافے کا باعث بنیں گی۔

    :دبئی ۔ متحدہ عرب امارات

    1

    :سیئول ۔ جنوبی کوریا

    2

    :ابو ظہبی ۔ متحدہ عرب امارات

    3

    :سنگاپور

    4

    :ریو ڈی جنیرو ۔ برازیل

    6

    :شنزے ۔ چین

    7

    :برلن ۔ جرمنی

    10

    :ایتھنز ۔ یونان

    9

    :جکارتہ ۔ انڈونیشیا

    11

    :نیویارک ۔ امریکا

    12

  • شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    اسلام آباد: وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    وزارت برائے کلائمٹ چینج کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سلیم شیخ کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوا۔ ’یہ بہت واضح ہے کہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں‘۔

    g2

    شمالی علاقوں میں ہنزہ، گوپس، اسکردو، گلمت اور بگروٹ کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب سردیوں میں بھی گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا ہے اور انہوں نے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔

    ایک مقامی شخص کے مطابق پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن اب یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے قطب شمالی میں پیانو کی پرفارمنس

    محمد سلیم نے یہ بھی بتایا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برفباری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی۔

    g3

    محمد سلیم کے مطابق ’ان دونوں موسموں میں تبدیلی شدید سیلاب کا بھی باعث بن رہی ہے جس کی وجہ سے ان ترقی پذیر علاقوں کو بے تحاشہ مالی نقصانات کا سامنا ہے‘۔

    اس سے قبل پاکستانی سائنسدانوں نے ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے واقع قراقرم پہاڑی سلسلہ کے گلیشیئرز مستحکم ہیں اور ان کی برف میں اضافہ ہورہا ہے تاہم سائنسی بنیاد پر کیے جانے والے مشاہدوں سے پتہ چلا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشیئرز کی بڑی تعداد تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    واضح رہے کہ گذشتہ برس کلائمٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پیرس میں ایک تاریخ ساز معاہدے پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔ اس معاہدے کو پیرس کلائمٹ ڈیل کا نام دیا گیا ہے۔

    g5

    اس کے تحت 195 ممالک نے عہد کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی کے باعث عالمی درجہ حرات میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ ہو۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

  • کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    لندن: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ موسم میں تغیر یا کلائمٹ چینج کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرناک وبائی امراض کی پہلے سے پیشگوئی کر سکتے ہیں۔

    ان امراض میں ایبولا اور زیکا وائرس جیسے امراض شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ماڈل بیماریوں کے پھوٹنے سے قبل انہیں سمجھنے، اور حکومتوں کو ان کے مطابق طبی پالیسیاں بنانے میں مدد دے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بیماریاں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ چمگاڈر خاص طور پر ایسی جاندار ہیں جو کئی چھوت کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر *

    واضح رہے کہ ایبولا اور زیکا وائرس جیسے جان لیوا امراض بھی جانوروں سے انسانوں میں پھیلے۔

    سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے مغربی افریقہ کے ان حصوں کا انتخاب کیا جہاں 1967 سے 2012 کے دوران ’لاسا بخار‘ پھیلا تھا۔ ماہرین نے اس جگہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں، فصلوں کی پیدوار میں تبدیلی، درجہ حرارت اور بارشوں کے سائیکل کا مطالعہ کیا۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    ماہرین نے اس بخار کا سبب بننے والے چوہوں اور ان کے جسمانی ساخت پر اثر انداز ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی مطالعہ کیا۔

    اس تحقیق میں مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیوں، آبادی، اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کے بارے میں معلومات کو بھی شامل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے تحقیق میں ان عوامل کو بھی شامل رکھا جن کے باعث انسان جانوروں سے رابطے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم *

    ماڈل کے ابتدائی نتائج کے مابق ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاسا بخار 2070 تک شدت اختیار کرلے گا اور اس کے متاثرین کی تعداد دو گنا بڑھ جائے گی۔

  • بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    نئی دہلی: بھارت میں حکومت ایسے زراعتی آلات بنانے پر غور کر رہی ہے جو استعمال میں ہلکے پھلکے ہوں اور خواتین خاص طور پر اسے بہ آسانی استعمال کرسکیں۔

    یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ بہتر ذرائع آمدنی کی تلاش میں مرد شہر چلے جاتے ہیں اور خواتین گاؤں میں رہتی ہیں۔ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ انہیں فصل کی دیکھ بھال اور کاشت کاری بھی کرنی ہوتی ہے۔

    گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    یونین منسٹری برائے زراعت کے جوائنٹ سیکریٹری آر بی سنہا نے اس بارے میں بتایا، ’کلائمٹ چینج کی وجہ سے قحط اور دیگر قدرتی آفات کے باعث زراعت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ مرد بہتر طور پر کمانے کے لیے شہر چلے جاتے ہیں پیچھے ان کی عورتیں رہ جاتی ہیں۔

    وہ زراعت کے بھاری بھرکم آلات استعمال نہیں کر سکتیں جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔

    india-women-2

    انہوں نے بتایا کہ کلائمٹ چینج، ملک کی آبادی میں اضافہ اور خوراک کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ معاشی میدان میں مردوں کے ساتھ کھڑی ہوسکیں۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    سنہا کے مطابق بھارتی کونسل برائے زراعتی ریسرچ نے اس حوالے سے کام شروع کردیا ہے۔ وہ خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جو نہ صرف خواتین بلکہ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گے۔

    سنہا نے یہ بھی بتایا کہ حکومت ان خواتین دوست آلات پر سبسڈی بھی فراہم کرے گی۔

    قدرتی آفات میں جان بچانے والا کیپسول تیار *

    عالمی ادارہ برائے تحفظ پہاڑ آئی سی موڈ کے مطابق ہمالیائی علاقے میں لوگوں کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ کلائمٹ چینج، آبادی میں اضافے، دیہاتوں سے شروں کی طرف ہجرت اور دیگر معاشرتی عوامل سے زراعت پر منفی اثر پڑا ہے۔

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

  • برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی نے بحر منجمد میں گلیشیئر کے سامنے اپنی سحر انگیز پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔

    پیانو کی یہ پرفارمنس عالمی ادارے گرین پیس کی بحر منجمد کی حفاظت کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہے۔ عالمی پیانو نواز نے اپنی دھن ’الجی فار دا آرکٹک‘ ایک سمندر میں ایک تیرتے ہوئے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر پیش کی۔

    cc-5

    انہوں نے اپنی پرفارمنس ویلن برگ برین گلیشیئر کے سامنے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی موسیقی کے ذریعے انہوں نے ان 8 ملین افراد کی حمایت کی ہے جو بحر منجمد کے ماحول کو بچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    cc-2

    بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔ یہاں آبی حیات بھی کافی کم ہیں جبکہ نمکیات دیگر تمام سمندروں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔

    cc-3

    اس کا رقبہ 14,056,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    cc-4

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے۔ شدید گرمی کے باعث اس کے گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

  • جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    امریکا میں واقع عالمی خلائی ادارے ناسا نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف حصوں میں جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    ناسا جنگلات میں لگنے والی آگ کے کرہ ارض کی آب و ہوا پر اثرات کے بارے میں تحقیق کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات میں آگ: بھارتی ریاست بہار میں کھانا پکانے پر پابندی عائد

    واضح رہے کہ رواں برس مئی میں کینیڈا کے شمال میں واقع جنگلات میں آگ لگ گئی تھی جس کے باعث 88 ہزار افراد کو فورٹ مک مرے سے منتقل ہونا پڑا۔ اسی طرح کی شدت والی آگ دیگر کئی ممالک میں بھی لگ چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    سخت موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنا معمول کی بات ہے۔ یہ آگ آس پاس کی آبادیوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے جبکہ کئی ایکڑ کے درخت جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اور قیمتی زمینی مٹی بھی ضائع ہوجاتی ہے۔

    ناسا کے کاربن سائیکل اور ایکو سسٹم آفس کے بانی ڈائریکٹر پیٹر گرفتھ کا کہنا ہے، ’جنگلات کی آگ گرین ہاؤس گیسز کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ

    کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ

    برسلز: سابق فوجی افسران نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر جنوبی ایشیا میں مختلف تنازعوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں، دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    report-3

    یہ رپورٹ گلوبل ملٹری ایڈوائزری کونسل آن کلائمٹ چینج کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مصنفین پاکستان کے لیفٹننٹ جنرل (ر) طارق وسیم غازی، بنگلہ دیش کے میجر جنرل (ر) اے این ایم منیر الزماں اور بھارت کے ایئر مارشل (ر) اے کے سنگھ ہیں۔

    report
    رپورٹ کے مصنفین

    رپورٹ کے مطابق مشترک آبی ذخائر کی تقسیم اور گلیشیئرز پر سے اپنی افواج ہٹانا پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان موجود کئی تنازعوں سے بچاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کا رقبہ دنیا کے کل رقبہ کا 4 فیصد ہے جبکہ اس کی 1.7 آبادی دنیا کی کل آبادی کا 20 فیصد حصہ ہے۔ یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کا کمزور ترین اور شدید خطرات میں گھرا ہوا خطہ ہے۔

    یہ خطہ سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہی نہیں اس خطہ میں علاقائی تناؤ بھی پائے جاتے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت سرفہرست ہیں۔

    report-4

    رپورٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایئر مارشل (ر) اے کے سنگھ نے بتایا، ’جنوبی ایشیا میں آنے والے حالیہ سیلاب صرف ایک مثال ہیں کہ کلائمٹ چینج کس طرح جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشتوں کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اس کا سب سے واضح اثر تو بے روزگاری کی صورت میں سامنے آیا ہے‘۔

    ان کے مطابق یہ اثرات آگے چل کر شدت پسندی اور منظم جرائم کا سبب بنیں گے جس سے موجودہ تنازعوں میں اضافہ ہوگا، جبکہ دیگر کئی نئے تنازعہ پیدا ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبی ذخائر کو مناسب طریقے سے تقسیم کرنا جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم رکھنے کا واحد حل ہے۔ پاکستان چند ہی عشروں میں پانی کی کمی کا شکار ممالک میں شامل ہوچکا ہے، جبکہ بھارت کی کئی ریاستوں میں اچانک پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

    flood-2

    پاکستان کے لیفٹننٹ جنرل (ر) طارق وسیم غازی نے اس رپورٹ کو ’افواج کی جانب سے امن کے لیے ایک کوشش‘ کا نام دیا ہے۔

    اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔