Tag: کلائمٹ چینج

  • شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ: شارجہ میں ایک مسجد میں ماحول دوست خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جس کے بعد اب یہ مسجد 37 فیصد توانائی کی بچت کرتی ہے۔

    متحدہ عرب امارات کی 5000 مساجد میں سے ایک مسجد، مسجد التوبہ کو 6 ماہ کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ماحول دوست مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

    اس مسجد میں توانائی کی بچت کرنے والے 5 آلات کو نصب کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2016 تک اس مسجد میں بجلی کے استعمال میں 37 فیصد کمی آئی۔ یہاں پر بجلی کی کھپت میں 778 کلو واٹ کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ تناسب کسی بھی جگہ پر گرمیوں کے موسم میں توانائی کی بچت کی بلند ترین سطح ہے۔

    ماحول دوست پورٹیبل اے سی ’ایوا پولر‘ تیار *

    یہاں پر بجلی کی بچت کے لیے اسمارٹ تھرمو سٹیٹ نصب کیے گئے جو کہ پچھلے 3 سال سے متحدہ عرب امارات میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

    شارجہ کے محکمہ مذہبی امور نے انجینیئرز کو اس پروجیکٹ کی نگرانی و مشاہدے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مساجد توانائی کی بچت کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

    حکومت کا ماحول دوست پیٹرول متعارف کرانے کا فیصلہ *

    مساجد میں اکثر نمازی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نماز کے وقت شدید گرمی ہوجاتی ہے کیونکہ اے سی کو صحیح وقت پر کھولا نہیں جاتا۔ یہ تھرمو سٹیٹ روزانہ کی بنیاد پر نماز کے وقت، اور اے سی کے ٹھنڈا کرنے کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اے سی کو چلا دیتے ہیں جس سے بجلی کی بچت بھی ممکن ہے اور نمازی تکلیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔

    ان تھرمو سٹیٹ کی مؤثر کارکردگی کے لیے انہیں ’آٹو اذان‘ کے آلات سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ اذان کا وقت ہر روز مختلف ہوتا ہے اور روزانہ 7 سے 10 منٹ کا فرق آجاتا ہے تو اسی فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آلات اے سی کو مقررہ وقت پر کھول دیتے ہیں۔

    بجلی سے چلنے والا ماحول دوست رکشہ سڑکوں پر رواں دواں *

    اس پروجیکٹ پر تقریباً 200 ڈالر کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ملک بھر کی تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی مساجد کو ماحول دوست بنائیں۔ البتہ پروجیکٹ شروع کرنے والی تنظیم ہنی ویل انوائرنمنٹ اینڈ انرجی سلوشن کے جنرل مینیجر دلیپ سنہا کے مطابق پروجیکٹ پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بعد 3 ماہ میں ہی وصول ہوجاتی ہے۔

    پروڈکٹ مارکیٹنگ مینیجر محمد التاول کے مطابق کئی مساجد کی انتظامیہ نے اس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ان آلات کی تنصیب کو نہایت سادہ رکھا ہے اوراسے نصب کرنے میں کسی قسم کے تار استعمال نہیں ہوتے۔

    ماحول دوست کاغذ جس پر بار بار لکھا جا سکتا ہے *

    ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت اس قسم کے دیگر کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد ایسے پروجیکٹس شاپنگ مالز اور اسکولوں میں بھی شروع کردیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے گرم موسم سے مطابقت کرتے ہوئے توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت کو ممکن بنایا جا سکے۔

  • جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری

    جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری

    اسلام آباد: وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ وفاق اور صوبے آئندہ مالی سال کے دوران 50، 50 فیصد شراکت داری کے تحت شجر کاری کریں گے۔

    wildlife

    آئی جی فاریسٹ محمود ناصر نے اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزارا فاریسٹ میں بھی حکومتیں سرمایہ کاری کریں گی۔ انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ جنگلات رقبہ کے لحاظ سے سرکاری جنگلات سے بھی زیادہ ہیں جس کے باعث گزارا فاریسٹ میں سرمایہ کاری کی پالیسی بنائی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار

    آئی جی فارسٹ نے بتایا کہ گلوبل انوائرمنٹ فیسلٹی نے پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ کے لیے 46 لاکھ ڈالر سے زائد کی گرانٹ کی بھی منظوری دی ہے۔ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور یواین ڈی پی مشترکہ طور پر اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کریں گے۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جنگلات سے غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا فیصلہ

    انہوں نے بتایا کہ جدید تحقیق کے نتیجے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں برفانی چیتے کی تعداد 200 سے زائد ہے جبکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد 4 سے 6 ہزار کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔

  • مئی کا مہینہ گرم ترین قرار

    مئی کا مہینہ گرم ترین قرار

    واشنگٹن: ماہرین نے رواں برس مئی کو زمین کا گرم ترین مہینہ قرار دیا ہے۔ ناسا کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق کرہ شمالی میں رواں برس گرم ترین موسم بہار ریکارڈ کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق قطب شمالی میں اس بار غیر معمولی گرمی دیکھی گئی جس کے باعث بحر الکاہل اور گرین لینڈ میں برف معمول سے پہلے پگھلنی شروع ہوگئی۔ الاسکا میں گرم ترین موسم بہار ریکارڈ کیا گیا جبکہ فن لینڈ کے موسم میں دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں 3 سے 5 ڈگری اضافہ دیکھا گیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    جنیوا کے ورلڈ کلائمٹ ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ کارلسن کے مطابق موسم میں یہ تغیر ایک الارمی صورتحال ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    ایل نینو اس وقت واقع ہوتا ہے جب بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب آسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    البتہ ماہرین صرف ایل نینو کو اس کی وجہ قرار دینے سے انکاری ہیں۔ ال نینو کے باعث آسٹریلیا کے 53 فیصد حصہ میں گرم ترین موسم خزاں ریکارڈ کیا گیا تاہم سائنسدانوں کے مطابق اس کی بنیادی وجہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہی ہے۔

    اس سے قبل اپریل کو بھی تاریخ کا گرم ترین اپریل قرار دیا گیا تھا۔

  • ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    کینبرا: سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔

    بریمبل کے میلومیز نامی یہ چھوٹا چوہا گریٹ بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ ہے اور انسانی افعال کے باعث موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس کی نسل مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والی پہلا ممالیہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق یہ معدومی صرف ایک آغاز ہے، کلائمٹ چینج اور ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کے ہر جاندار کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہیں۔

    برمبل کے نامی یہ چوہا آسٹریلیا کے کوئنز لینڈ کے شمالی ساحل پر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک کم آبادی والا ممالیہ تھا جبکہ اسے بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ کہا جاتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق اس چوہے کی معدومی کی وجہ سطح سمندر کا بلند ہونا ہے۔ یہ علاقہ سمندر میں پانی میں اضافے کی وجہ سے کئی بار زیر آب آ چکا ہے جس ک باعث کئی چوہے ڈوب کے مر گئے جبکہ ان کے رہنے کے ٹھکانے بھی تباہ ہوگئے۔

    ماہرین نے حتمی طور پر اس نسل کو معدوم قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اب ان کی دوبارہ افزائش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے 1901 سے لے کر 2010 تک سمندروں کی سطح میں 20 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    اتنا اضافہ پچھلے 60 ہزار سال کی تاریخ میں بھی نہیں دیکھا گیا البتہ آسٹریلیا کے ساحلوں پر صرف 1993 سے 2014 تک کے عرصہ میں یہ اضافہ دگنی مقدار میں دیکھنے میں آیا ہے۔

  • قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    اسلام آباد: کلائمٹ چینج کی وزارت نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا ہے۔ کونسل کی منظوری کے بعد پالیسی ملک بھر میں نافذ العمل ہوجائے گی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک میں موجود جنگلات کو بچانے کے لیے صوبائی محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات، متعلقہ وفاقی ادارے، گلگت بلتستان، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور غیر سرکاری تنظیمیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے سے روابط رکھیں گے۔ پالیسی کے تحت مقامی آبادیوں کے ذریعہ جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جنگلات سے غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا فیصلہ

    حکام کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے مئی 2015 میں قومی پالیسی برائے جنگلات تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس شعبہ میں صوبوں کی خود مختاری کے تحت جو پالیسیاں اور منصوبے بنائے گئے ہیں ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ پالیسی زیر تکمیل منصوبوں اور پالیسیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے جنگلات سے متعلق ان بین الاقوامی معاہدوں پر کام کرے گی جن کا پاکستان ایک حصہ ہے۔

    مزید پڑھیں: عمران خان 200 بلین روپے مالیت کے جنگلات کی کٹائی پر برہم

    پالیسی میں تجویز کیے گئے تمام اقدامات اور ہدایات کو آئین کے تحت تیار کیا گیا ہے۔

    پالیسی کا مقصد جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کے لیے صوبوں اور مقامی آبادیوں کو اس سلسلے میں ہر طرح کی قانونی و معاشی معاونت فراہم کرنا ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیر زمین گہرائی میں پمپ کرنے کے بعد اسے پتھر میں تبدیل کر کے کلائمٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔

    یہ تجربہ آئس لینڈ میں کیا گیا جہاں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    co2-1

    تحقیق کے سربراہ جرگ میٹر کے مطابق کاربن کا اخراج اس وقت دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ اسے ٹھوس شکل میں تبدیل کرلیا جائے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس پر زور دے رہے ہیں۔

    اس سے قبل کاربن کو مٹی کی چٹانوں کے نیچے دبانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ وہاں سے کسی بھی وقت لیکج شروع ہوسکتی تھی۔

    co2-2

    آئس لینڈ کے ہیلشیڈی پلانٹ میں شروع کیا جانے والا یہ پروجیکٹ ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلاتا ہے جو آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    co2-3

    تحقیق میں شامل ایک پرفیسر کے مطابق اس کامیابی سے انہیں بہت حوصلہ ملا ہے اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر آب مارٹن اسٹٹ کے مطابق اس طریقہ کار سے کاربن کی ایک بڑی مقدار کو محفوظ طریقہ سے پتھر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

  • سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج سمندروں کا دن منایا جا رہا ہے، آج کے دن کا عنوان ’’’’صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

    سمندروں کاعالمی دن 1992 میں ریوڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہرسال سمندر کے تحفظ کا شعوراجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔

    ocean-post-4

    سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ،اس کی اور انسان کی دوستی ابتدا سے ہے۔ اس دن ساحلوں کی صفائی، تعلیمی پروگرام، تصاویرسازی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذا کے ایونٹس سجانے سمیت دیگر تقاریب منائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانوں میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت ، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کم کرنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندرہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔

    ocean-post-1

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔

    کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔

    ocean-post-3

    اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہےجبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔

    پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔

    ocean-post-2

    پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیرٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔جبکہ تیل کے ٹینکز سے رسنے سے بھی سمندر آلودہ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔

  • پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    کراچی:نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر پاکستان میں گرمی کی شدت کی ایک وجہ ہیں کیونکہ ڈارک کول کی وجہ سے پاکستان کے گلیشیئرز پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں۔

    یہ انکشاف این ڈی ایم اے ڈی آر آر کمیٹی کے ممبر اور اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کے مقررہ افسر احمد کمال نے ایک ورکشاپ کے بعد اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

    3-7

    احمد کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناردرن سرحد کے قریب بھارت 9ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے لیکن ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا کوئلہ پاکستان کے گلیشیئرز کے لیے خطرہ ثابت ہوا ہے،تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک کول کی وجہ سے خطرناک دھواں اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز بھی ڈارک ہو رہے ہیں اور بھارت کی کول امیشن سے ہمارے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمی بھی پڑتی ہے اور موسم کا توازن بھی تبدیل ہور ہاہے ،پاکستان سفارتی سطح پر بھی بھارت سے اس مسئلے پر بات چیت کر رہا ہے۔

    2-7

     اتوار کو مقامی ہوٹل میں این ڈی ایم اے کے ذمے داروں کی کراچی کے صحافیوں سے ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ، وزیر اعظم ہاﺅس میں مقرر این ڈی ایم کے افسر احمد کمال اور این ڈی ایم اے کے ماہر پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کی چونکا دینے والی باتیں ملکی قدرتی آفات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافے کی جانب نشاند ہی کرتی ہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہوا کہ قومی سطح پر یا وفاقی حکومت کی حد تک ابھی تک کوئی بہت بڑی سنجیدگی نہیں نظر آرہی، البتہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

    سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے بتایا کہ سندھ میں سمندری تباہی معمولی نوعیت کی نہیں ہے اب تو کراچی کے ساحل کو بھی خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے سینیٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کراچی کے کلفٹن کے ساحل کے سامنے دیوار تعمیر کی جائے تاکہ سمندر کی سطح میں کوئی اضافہ ہونے کی صورت میں خدانخواستہ فوری طور پر کسی تباہی سے بچا جا سکے۔

    سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹھٹھہ کی کوسٹل بیلٹ پر 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے اور انڈس ڈیلٹا بھیانک دور سے گزر رہا ہے، دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور تمام سمندری کریکس ختم ہو رہے ہیں۔

    4-3

    سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں واقع سرکریک پر بھارت کا دعویٰ غیر منطقی ہے کیونکہ سر کریک سے لے کر کورنگی کریک تک تمام سمندری کریکس تک دریائے سندھ سے میٹھا پانی داخل ہوتا تھا جس کی وجہ سے سمندر کی طغیانی رک جاتی تھی۔

    این ڈی ایم اے کے ماہر اور پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ 2012ءتا 2015ءپاکستان میں سیلاب اور زلزلے دونوں ہی آرہے ہیں، سمندری طوفان اور زمینی طوفان دونوں بڑھ رہے ہیں، چند روز قبل اسلام آباد میں آنے والا طوفان بھی انتہائی خطرناک طوفان تھا جو بڑی تباہی پھیلاتا لیکن جلد طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا اور زور ٹوٹ گیا ،ایسا طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔محکمہ ماحولیات ہو یا این ڈی ایم اے ،دونوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ہمارے پاس اپنا سیٹلائٹ سسٹم بھی نہیں ہے، اب پرانا ری ایکٹر اسکیل بھی استعمال نہیں ہوتا، تربیت کے فقدان کو مد نظر رکھ کر 1092 افسران کو تربیت دی گئی ہے۔

    1-6

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تمام صنعتوں کے نقشے آن لائن ہوتے ہیں، این ڈی ایم اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے نقشے آن لائن ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی فیکٹری میں حادثے یا آفت آنے کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ہمارے ملک میں گرمیوں کی شدت بڑھ رہی ہے، ہیٹ اسٹروک بھی اس کی ایک بڑی علامت ہے، خشک سالی بڑھ رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور بارشیں ایک سو کلومیٹر مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی ہیں لیکن ہم سب قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چار گھنٹے کے اس ڈائیلاگ میں وجیہ احمد اور الوینہ آغا نے بھی حصہ لیا۔ گفتگو کے دوران کراچی کے صحافیوں کے سوالات بھی بڑے تلخ تھے اور جملے بھی تند و ترش لیکن مذکورہ ماہرین بہرحال سرکار نہیں تھے کہ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ پوری گفتگو میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، آئندہ چند برس میں پاکستان کے بھی بھیانک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

  • پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    کراچی : اقوام متحدہ کی اہم سرگرمی ہونے کے ناطے ماحولیات کا عالمی دن دنیا بھر میں ہر سال 5جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور ماحولیات کی بہتری کے لیے سیاسی سطح پر توجہ دلانا اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بناناہے۔

    اس سال عالمی یوم ماحولیات کا موضوع ہے

    ” Go Wild for the life” (جنگلی حیات کا تحفظ ہر قیمت پر) 

    اس موضوع کے انتخاب کا مقصد جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کی نسل ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے مثلا ہاتھی، گینڈا، چیتا، وھیل مچھلی اور کچھوے وغیرہ ۔

    World4

    مزید برآں ، ہرسال 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام الناس میں سمندروں اور ان میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انہیں آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے محفو ظ رکھنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا ہے وہ ہے

    صحت مند سمندر، صحت مند کرہ ارض

    سمندر زمین پرموجو د حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) کا اہم ترین حصہ ہیں اور آلودگی سے پاک سمندر کرہ ارض پر صحت مند ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔

    World2

    ماحولیا ت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث پاک بحریہ ماحول اور سمندر وں کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے دونوں عالمی ایام کو باقاعدگی سے مناتی ہے ۔

    اس سال ماہِ صیام کے آغاز سے قبل پاک بحریہ میں یہ دونوں ایام مشترکہ طور پر 3جون کو منائے گئے ۔ عوام الناس اور متعلقہ ایجنسیوں اور محکموں میں ماحول اور سمندروں کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں ساحلوں کی صفائی کی مہم اور سیمینار اور لیکچرز شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں پاک بحریہ کے تعلیمی اداروں میں معلوماتی مقابلے اور پاکستان میری ٹائم میوزیم میں رنگا رنگ میلے کا انعقاد بھی شامل ہیں۔

    اس موقع پر چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ نے اپنے پیغام میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سمندروں کو مختلف نوعیت کے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے اور ماحولیات بالخصوص سمندری ماحول کی بہتری کے لیے پاک بحریہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔

    انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک بحریہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی خاطر سمندر اور ماحول کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔

     

  • اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    نیروبی: جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلو ڈبلیو ایف) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہاتھیوں کا شکار ایسے ہی جاری رہا جیسے ابھی ہے تو اگلے 6 سال میں تنزانیہ سے ہاتھیوں کا وجود مٹ جائے گا۔

    تنزانیہ میں سیلس گیم ریزرو ہاتھیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ سیلس سفاری پارک ایک سیاحتی مقام بھی ہے جو ہر سال تنزانیہ کی قومی آمدنی میں 6 ملین ڈالر کا اضافہ کرتا ہے۔

    ivory-3

    ivory-4

    سن 1970 میں جب اسے قائم کیا گیا اس وقت یہاں ہاتھیوں کی تعداد 1 لاکھ 10 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 15 ہزار رہ گئی ہے۔ ڈبلو ڈبلیو ایف کے مطابق 2022 تک سیلس سے ہاتھیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس کی واحد وجہ ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کا شکار ہے۔

    افریقہ میں ہر سال اس مقصد کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ تنزانیہ میں پچھلے 5 سال میں ہاتھیوں کی آبادی میں 65 کمی ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: زمبابوے میں 14 ہاتھیوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا گیا

    ماہرین کے مطابق ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

    ivory-2

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر امانی نگوسارو کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کی آبادی کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہاتھیوں کے شکار اور ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس گذشتہ ماہ منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں کینیا کے صدر سمیت افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس کے آخر میں 100 ٹن کے ہاتھی دانت اور 1.35 ٹن کے گینڈے کے سینگ کے ذخیرے کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

    ivory-1

    واضح رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔