Tag: کلائمٹ چینج

  • زمین کا دن: گوگل ڈوڈل کس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے؟

    زمین کا دن: گوگل ڈوڈل کس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے؟

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    گوگل ڈوڈل میں چھپا خطرہ

    رواں برس یوم ارض کے موقع پر ایک خاص گوگل ڈوڈل پیش کیا گیا ہے۔

    گوگل ڈوڈل پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوگل ارتھ سے لی گئی ٹائم لیپس تصاویر جاری کی گئی ہیں۔

    اس ڈوڈل میں موجود تصاویر میں 4 مقامات پر کلائمٹ چینج سے ہونے والے اثرات کو دکھایا گیا ہے۔

    پہلی تصویر افریقی ملک تنزانیہ کے پہاڑ ماؤنٹ کلی منجارو کی سنہ 1986 سے 2020 تک کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ برف سے ڈھکے گلیشیئر کا حجم کس طرح کم ہوتا گیا۔

    دوسری تصویر گرین لینڈ کی ہے جہاں کی برف سنہ 2000 سے 2020 کے دوران خطرناک حد تک پگھلی۔

    تیسری تصویر آسٹریلیا میں واقع دنیا کے سب سے بڑے مونگے کے چٹانی حصے گریٹ بیریئر ریف کی ہے جس میں سنہ 2016 کے صرف 3 ماہ میں چٹانوں کو بے رنگ ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، اس عمل کو بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ سمندری پانی کا گرم ہونا ہے جو سمندری حیات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    آخری تصویر جرمنی کے ہرز جنگلات کی ہے جہاں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور خشک سالی کی وجہ سے سنہ 1995 سے 2020 کے دوران جنگلات کے رقبے میں تشویشناک کمی واقع ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے ہولناک خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کام شروع کرنا ہوگا ورنہ ہماری زمین رہنے کے لیے ناقابل ہوجائے گی۔

  • دریاؤں کی آلودگی ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا جائے: وزیر اعظم کی ہدایت

    دریاؤں کی آلودگی ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا جائے: وزیر اعظم کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کلائمٹ چینج کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے آبی آلودگی کے خاتمے کے لیے 4 ماہ میں جامع حکمت عملی پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کلائمٹ چینج کمیٹی کا اجلاس ختم ہوگیا، اجلاس میں پنجاب، پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا، معاون خصوصی ملک امین اسلم، ورلڈ بینک حکام اور اقوام متحدہ کے نمائندے شریک ہوئے۔

    اجلاس میں دریائی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اہم فیصلے کر لیے گئے۔ معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے شرکا کو گلاسکو کانفرنس کوپ 26 پر بریفنگ بھی دی۔

    اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی پر مربوط حکمت عملی پر مبنی جامع پلان بھی پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ملکی دریاؤں کو بچانے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ہدایت کی اور معاون خصوصی ملک امین اسلم کو 4 ماہ میں مکمل پلان پیش کرنے کا کہا۔

    وزارت موسمیاتی تبدیلی اور اقوام متحدہ کی ایجنسیز مشترکہ پلان تیار کریں گی۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بقا کے لیے دریا زندگی کا بڑا ذریعہ ہیں، دریاؤں کو آلودگی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کا اہم مسئلہ ہے مگر افسوس اس پر سابقہ حکومتوں نےتوجہ نہ دی۔

    اجلاس میں ورلڈ بینک کی پاکستان کو آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے کی تجویز بھی منظور کرلی گئی۔ ورلڈ بینک حکام کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی شعبے میں پاکستان کو آسان شرائط پر قرض دیں گے، 1 ارب ڈالرز کا قرض دیا جاسکتا ہے۔

    ورلڈ بینک کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان کی کلائمٹ چینج حکمت عملی متاثر کن ہے۔

    وزیر اعظم نے کلائمٹ چینج وژن میں ملک امین اسلم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملک امین نے دیے گئے اہداف پر زبردست انداز میں پیش رفت دکھائی۔

    وزیر اعظم نے گلاسکو میں نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) پالیسی کے لیے وزارت ماحولیات کو رابطہ کار باڈی بھی نامزد کر دیا۔

  • ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا

    ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا

    نیویارک: ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا ہے، اقوام متحدہ کی تازہ کلائمٹ چینج رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں شدید موسم اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایشیا میں نہ صرف ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ لاکھوں لوگ بے گھر بھی ہوئے۔

    منگل کو سالانہ رپورٹ ’اسٹیٹ آف دی کلائمٹ چینج ان ایشیا‘ میں اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اس خطے کا ہر حصہ متاثر ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ایشیا کو 2020 میں ریکارڈ گرمی کا سامنا رہا، یہ گرم ترین سال تھا، اس برس سیلاب اور طوفان کی وجہ سے تقریباً 5 کروڑ افراد متاثر اور 5 ہزار افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر اور ماحولیاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

    چین کو اس سال 238 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، بھارت کو 87 ارب ڈالر، جاپان کو 83 ارب ڈالر اور جنوبی کوریا کو 24 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    قدرتی آفات کا خطرہ، گرین ہاؤس گیسز کی کثافت میں خطرناک اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا اور اس کے اردگرد سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت اور سمندر کی حدت عالمی اوسط سے زیادہ بڑھ رہی ہے، 2020 میں بحر ہند، بحرالکاہل اور آرکٹک میں سمندر کی سطح کا درجہ حرارت ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچا۔

    ڈبلیو ایم او کے سربراہ پٹیری تالس نے بتایا کہ سیلاب، طوفان اور خشک سالی نے ایشیا کے بہت سے ممالک پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کے کانفرنس کاپ 26 سے قبل سامنے آئی ہے۔

  • وزیر اعظم اور امریکی صدر کا آج ورچوئل اجلاس میں آمنا سامنا متوقع

    وزیر اعظم اور امریکی صدر کا آج ورچوئل اجلاس میں آمنا سامنا متوقع

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر کی آج ورچوئل اجلاس میں ایک ساتھ شرکت متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج سیشن میں شریک ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں امریکی صدر کی شرکت بھی متوقع ہے۔

    اجلاس آج شام 6 بجے سے 8 بجے تک جاری رہے گا، ذرائع کے مطابق اجلاس میں 45 سربراہان مملکت شریک ہوں گے، کلائمٹ چینج پر جی ایٹ کا یہ اجلاس یو این سیکریٹری جنرل نے بلایا ہے۔

    اجلاس کی میزبانی حکومت برطانیہ اور اقوام متحدہ مل کر کریں گے، جی 8 ممالک کے علاوہ 15 ممالک کے سربراہان بھی مدعو ہیں، پاکستان، بھارت اور انڈونیشیا کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی مدعو ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں عمران خان 10 بلین ٹری، کلین گرین پاکستان،  متبادل توانائی، الیکٹرک وہیکلز، اور ویسٹ مینجمنٹ پر بات کریں گے، اپنی تقریر میں عمران خان آبی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے اقدامات اجاگر کریں گے، اس دوران معاون خصوصی ملک امین اسلم وزیر اعظم کی معاونت کریں گے۔

  • امریکی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگیں، ماہرین حیران

    امریکی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگیں، ماہرین حیران

    آسٹریلوی طوطوں سے لے کر امریکی پرندوں تک کئی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگی ہیں، ماہرین نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہو سکتے ہیں۔

    ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع شدہ ریسرچ اسٹڈی کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے انسان ہی نہیں جانور اور پرندے بھی متاثر ہوتے ہیں، عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ برداشت کرنے کے لیے گرم خون والے کئی جانور اپنی ہیئت تبدیل کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 جانوروں میں سب سے زیادہ جسمانی تبدیلیاں آسٹریلوی طوطے میں دیکھی گئی ہیں، ان طوطوں کی چونچ 1871 کے بعد سے اب تک 4 سے 10 فی صد تک بڑھ چکی ہیں، یورپی خرگوش کے کان اور دیگر جانوروں کے دُم میں تبدیلی آ رہی ہے۔

    شاہ طوطے (کنگ پیروٹ) کا تھرمل امیج، جس میں طوطے کی چونچ سے حرارت نکلتی دکھائی دے رہی ہے، چند جانور جسم کی اضافی حرارت دموں، کانوں اور چونچوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس ارتقائی تبدیلی کے حیاتیاتی نتائج کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے، بلکہ ایسا کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ اس کے پیچھے صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے عوامل ہیں، سائنس دان یہ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ یہ تبدیلیاں جانوروں کے لیے مثبت ہیں یا منفی یعنی نقصان دہ۔

    گالاپگوس جزائز کا سمندری شیر، جو اپنے سامنے کے فلپرز کے ذریعے حرارت خارج کر رہا ہے

    یاد رہے کہ چند ماہ قبل قازقستان میں جھیلوں اور قدرتی آثار پر مشتمل سیاحتی مقام پر ایک چٹان دریافت کی گئی تھی، جس سے 50 لاکھ سال کا موسمیاتی احوال معلوم کیا جا سکتا ہے، سوئٹزرلینڈ کی لیوزین یونیورسٹی کے شارلوٹ پروڈ ہوم نے دعویٰ کیا تھا کہ چارین گھاٹی کے مقام پر 80 میٹر طویل پتھریلا سلسلہ ہے، جہاں کلائمٹ چینج کا پانچ کروڑ سالہ ریکارڈ موجود ہے۔

  • کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کینبرا: آسٹریلوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہماری زمین سے مینڈک کی نسل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی ماہرین نے مختلف بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلوں کے باعث مینڈک کی مختلف نسل کے معدوم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے آسٹریلوی حکام کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ مینڈکوں کی 26 اقسام سنہ 2040 تک دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی، 4 اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر گریم گلیسپی کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں کے محکمہ ماحولیات نے سالوں کے مطالعے کے بعد مینڈک کی ختم ہو جانے والی اقسام کی نشاندہی کی ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ مینڈک جلد ہی آسٹریلیا کے رینگنے والے جانوروں، ممالیہ جانوروں، پرندوں اور پودوں کی کئی اقسام کی طرح معدوم ہو سکتے ہیں جس سے فوڈ سائیکل متاثر ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی کے مطابق مینڈکوں میں جلد کی بیماری کے ساتھ ایک اور بیماری بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے مینڈک کی 4 اقسام معدوم ہوچکی ہیں۔

    ان نئی اقسام کی بیماریوں کے ساتھ تیزی سے بدلتی موسمیاتی تبدیلیاں بھی خطرے کا سبب بن رہی ہیں، جنہیں محفوظ کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  • زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کے ایسے مقام پر تاریخ میں پہلی بار بارش ہوئی جہاں آج تک بارش نہیں ہوئی تھی، اس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین کے ایسے مقام پر جہاں آج تک (1950 سے جب سے ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے) بارش ریکارڈ نہیں ہوئی تھی وہاں آسمان سے پانی برسنے نے سائنسدانوں کو حیران اور پریشان کردیا۔

    گرین لینڈ کی سطح سمندر سے 2 میل بلند چوٹی پر موجود وسیع و عریض پٹی پر بارش کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا تنیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

    اس 3216 میٹر بلند چوٹی پر عموماً درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے مگر حال ہی میں وہاں گرم ہوا کے نتیجے میں شدید بارش ہوئی اور 7 ارب ٹن پانی برفانی پٹی پر برس گیا۔

    یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے موسمیاتی اسٹیشن نے 14 اگست کو اس مقام پر بارش کو برستے دیکھا مگر ان کے پاس جانچ پڑتال کے یے پیمانہ ہی نہیں تھا کیونکہ انہیں اس کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

    یہ بارش اس وقت ہوئی جب گرین لینڈ میں 3 دن درجہ حرارت اوسط سے 18 سینٹی گریڈ زیادہ رہا اور اس کے نتیجے میں گرین لینڈ کے بیشتر علاقوں میں برف پگھلتے ہوئے دیکھا گیا۔

    کولوراڈو یونیورسٹی کے نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے سائنسدان ٹیڈد اسکمبوز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، ہم نے کچھ ایسا دیکھا وہ ایک شاید صدیوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ حالات میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کرلیتے جو ہم نے فضا کے ساتھ کیا۔

    گرین لینڈ میں جولائئی میں بھی بڑے پیمانے پر برف پگھلی تھی اور 2021 گزشتہ صدی کا چوتھا سال بن گیا جب اس طرح بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔ اس سے قبل 1995، 2012 اور 2019 میں ایسا ہوا تھا۔

    14 سے 16 اگست کے دوران بارش اور برف پگھلنا اس سال کے موسمیاتی اثرات کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ جولائی اور اگست میں برف پگھلنے کی وجہ ایک ہی ہے یعنی گرم ہوا اس خطے میں اوپر کی جانب پھیلی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ایسے نہیں جو کبھی نہ ہوئے ہوں مگر ان کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سمندری سطح میں 6 میٹر تک اضافہ ہوجائے گا، اگرچہ ایسا ہونے میں صدیاں لگ سکتی ہیں، مگر 1994 سے گرین لینڈ سے کھربوں ٹن پگھل چکی ہے جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سمندری سطح میں ابھی تک 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوچکا ہے اور آئی پی سی سی کے مطاب اس میں مزید 28 سے 100میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے جہاں کئی خطرات کو جنم دیا ہے، وہیں ایک بہت بڑا خدشہ ساحلی علاقوں کو بھی لاحق ہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی حدت بڑھنے کی وجہ سے سنہ 2040 تک سمندر کی سطح میں 2 فٹ کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا کے کئی ساحلی شہر زیرِ آب آجائیں گے۔

    بظاہر تو 2 فٹ کا اضافہ بہت زیادہ نہیں لگتا، لیکن در حقیقت اس کے اثرات بہت گمبھیر ہوں گے۔ مثلاً امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی علاقوں کی میٹھے پانی کے ذخائر تک رسائی ختم ہو جائے گی، نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ایک بہت بڑا علاقہ مستقل سیلابی پانی کی زد میں ہوگا۔

    اس کے علاوہ میامی کے مشہور ساحل اور کئی جزائر کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ چین، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں جہاں بہت بڑے دریائی ڈیلٹا موجود ہیں، وہاں سطح سمندر میں محض دو یا تین فٹ کے اضافے کا نتیجہ کروڑوں افراد کی نقل مکانی اور بہت بڑے پیمانے پر زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

    یعنی مستقبل بہت بھیانک ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو اس صورتحال کا نہ صرف سامنا کر چکا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر اب تک خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے، یہ ہے شمالی یورپ کا ملک نیدرلینڈز، جسے ہم ہالینڈ بھی کہتے ہیں۔

    جنوری 1953 میں بحیرہ شمال میں مد و جزر کی وجہ سے خطرناک لہروں نے نیدر لینڈز کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔ تقریباً 2 ہزار افراد کی جانیں گئیں لیکن اس واقعے کے تقریباً 54 سال بعد جب ایک مرتبہ پھر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو نیدر لینڈز پہلے سے تیار تھا۔

    نومبر 2007 میں ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں جیسے ہی سطحِ سمندر میں اضافہ ہوا، جدید کمپیوٹر سنسرز کی قبل از وقت اطلاعات مل گئی اور ہنگامی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ صرف 30 منٹ میں 240 میٹرز کے دو بہت بڑے آہنی دروازے آپس میں مل گئے اور یوں اس آبی راستے کو طوفانی لہروں سے بچا لیا گیا جس سے نیدر لینڈز کے اندرونی علاقوں میں سیلاب آنے کی توقع تھی۔ صبح تک طوفان ختم ہو چکا تھا اور اس غیر معمولی طوفان سے بہت معمولی سا سیلاب آیا۔

    یہ سب ایک عظیم بند کی وجہ سے ممکن ہوا جو 680 ٹن کے بال جوائنٹ کی مدد سے حرکت کرتا ہے اور لہروں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ یہ اس بند کا پہلا عملی تجربہ تھا جس میں وہ بھرپور کامیاب بھی ہوا۔

    یہ انسان کا تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا حرکت پذیر ڈھانچا ہے اور بلاشبہ انجینیئرنگ کا ایک شاہکار بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1998 میں مکمل ہونے والا بند سیلابی پانی پر قابو پانے کے لیے ایک عظیم انٹرلاکنگ سسٹم کا محض ایک حصہ ہے۔ اس پورے نظام کو ڈیلٹا ورکس کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سیلاب سے بچنے کا سب سے پیچیدہ نظام ہے۔

    دراصل نیدر لینڈز یورپ کے تین بڑے دریاؤں رائن، شیلٹ اور میوز کے ڈیلٹا پر واقع ہے اور ملک کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سطح سمندر میں معمولی سے اضافے سے بھی یہاں سیلاب کا خدشہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

    سنہ 1953 میں جب سمندری طوفان اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لہروں نے ملک کے بڑے علاقے میں تباہی مچائی تو حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ڈیلٹا کمیشن تشکیل دیا، جس کا ہدف تھا کہ ملک کے جنوب مغربی علاقے کو تحفظ دینا۔

    اس کمیشن کی توجہ گنجان آباد شہروں میں سیلاب کے خدشات کو 10 ہزار میں سے 1 تک لانا تھا، یعنی ایک اوسط ساحلی شہر کے مقابلے میں بھی 100 گنا محفوظ بنانا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جنوب مغربی ساحلوں کے ساتھ بڑے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے پہلی دفاعی لائن سمندری کھاڑیوں پر بند باندھنا تھی، جو سب سے زیادہ سیلاب کی زد میں ہوتی تھیں۔

    انہی کھاڑیوں سے دریاؤں کا پانی بحیرہ شمال میں گرتا ہے، لیکن سمندر میں طوفان کی صورت میں سیلابی پانی زمینی علاقوں میں داخل ہو کر تباہی مچا دیتا تھا۔ اس لیے ڈیلٹا کمیشن نے مختلف ڈیموں کے ذریعے ان کھاڑیوں کو وسیع و عریض جھیلوں میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ پشتے، خندقیں اور کنکریٹ کی سمندری دیواریں بھی مختلف مقامات پر کھڑی کی گئیں بلکہ ڈیلٹا ورکس پروجیکٹ کا بیشتر حصہ انہی پر مشتمل ہے۔

    اگلی دہائیوں میں ڈیلٹا ورکس کو بہتر بنانے کے لی مزید اقدامات بھی اٹھائے گئے اور اندرونی علاقوں کو بھی سیلاب سے محفوظ بنانے کے لیے کام کیا گیا۔ ان میں سے ایک منصوبہ روم فار دا ریور تھا، جس کے تحت کھیتوں اور پشتوں کو ساحل سے دور نئی جگہ پر منتقل کیا گیا۔ یوں پانی کو مزید جگہ دی گئی کہ سیلابی صورت میں وہ نشیبی علاقوں میں جمع ہو جائے۔ یوں کئی آبی ذخائر نے جنم لیا اور مقامی جنگلی حیات کو نئے مساکن ملے۔ یوں نہ صرف سیلاب کا خطرہ گھٹ گیا بلکہ شہریوں کی منتقلی کی بدولت زیادہ گنجان اور پائیدار آبادیاں بنیں۔ ان میں سب سے شاندار شہر روٹرڈیم ہے۔ یہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پورا شہر کی سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔

    جب طوفان اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے تو شہر کے انتہائی گنجان آباد پرانے علاقے کو روایتی پشتوں سے تحفظ ملتا ہے۔ جبکہ نئے علاقوں تو مصنوعی طور پر اونچے کیے گئے علاقوں پر بنے ہوئے ہیں۔ بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے بیشتر گھروں کی چھتوں پر باغ بنائے گئے ہیں جبکہ شہر میں کئی عمارات کو بھی پانی محفوظ کرنے والی تنصیبات میں تبدیل کیا گیا ہے، مثلاً پارکنگ گیراج اور پلازے۔ اس کے علاوہ شہر کے ساحلوں کے ساتھ ایسے عوامی مقامات بنائے گئے ہیں جو پانی کی سطح پر تیرتے ہیں۔ ان میں شمسی توانائی اور پانی کی صفائی کے نظام بھی لگائے گئے ہیں۔

    یہ سب مل کر نیدرلینڈز کو دنیا کا جدید ترین واٹر مینجمنٹ سسٹم رکھنے والا ملک بناتے ہیں۔ البتہ یہ ملک اب بھی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنے شہروں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر کے ساحلی نشیبی علاقے خطرے کی زد میں آرہے ہیں، نیدرلینڈز ایک عملی مثال ہے کہ کس طرح ارادہ، عزم اور ساتھ ہی انجینئرنگ انسانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی جینے کے راستے دکھاتی ہے۔

  • کرونا وائرس کے بعد ایک اور قاتل انسانوں کا شکار کرنے کو تیار

    کرونا وائرس کے بعد ایک اور قاتل انسانوں کا شکار کرنے کو تیار

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ سے اربوں انسانوں کو درپیش سنگین خطرات سے آگاہ کر رہی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والی ہیٹ ویوز قاتل ثابت ہوں گی جو لوگوں کی جانیں لینے کو کافی ہوں گی۔

    کلائمٹ چینج کے ابتدائی ماڈلز نے تجویز کیا تھا کہ اگر آلودگی بلا روک ٹوک اسی رفتار سے جاری رہی تو تقریباً 100 سال بعد گرمی کی ایسی
    غیر معمولی لہریں یعنی ہیٹ ویوز پیدا ہوں گی جو انسان کی برداشت سے باہر ہوں گی، اب مزید تحقیق کہتی ہے کہ گرمی کی ایسی غیر معمولی اور قاتل لہروں کا سامنا پہلے ہی ہوگا۔

    4 ہزار صفحات پر مشتمل انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج کی یہ رپورٹ فروری 2022 میں ریلیز کی جائے گی البتہ اس کے کچھ مندرجات جاری کردیے گئے ہیں۔

    یہ رپورٹ ایک مایوس کن اور ہلاکت خیز تصویر پیش کرتی ہے جس کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں اوسط 1.5 درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوتا ہے تو اس سے دنیا کی 14 فیصد آبادی کو ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ گرمی کی شدید لہر کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر مزید نصف ڈگری کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کا دائرہ 1.7 ارب افراد تک پھیل جائے گا۔

    اس سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہر متاثر ہوں گے یعنی کراچی سے کنشاسا، منیلا سے ممبئی اور لاگو سے ماناؤس تک۔

    یہ محض تھرما میٹر پر نظر آنے والا نتیجہ نہیں ہے جو حالات کو خراب کرے گا، بلکہ گرمی کے ساتھ نمی کا زیادہ تناسب ہے جو اسے مہلک بنا دیتا ہے۔ یعنی اگر ہوا خشک ہو تو زیادہ درجہ حرارت میں بھی دن گزارنا آسان ہوگا، لیکن ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو کم درجہ حرارت میں بھی زندگی بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

    اس کو ویٹ بلب ٹمپریچر کہتے ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ویٹ بلب ٹمپریچر 35 درجہ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے تو ایک صحت مند بالغ انسان کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے، باوجود اس کے کہ اگر اسے سایہ اور پینے کا پانی بھی دستیاب ہو۔

    خلیج میں گرمی کی لہروں پر حالیہ تحقیق کے نمایاں مصنف کولن ریمنڈ کہتے ہیں کہ جب ویٹ بلب ٹمپریچر بہت زیادہ ہو تو ہوا میں نمی کے تناسب کی وجہ سے پسینے کا عمل جسم کو ٹھنڈا کرنے میں غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ یوں 6 گھنٹوں بعد جسم کے اعضا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اور ٹھنڈ حاصل کرنے کے مصنوعی ذرائع مثلاً ایئر کنڈیشنر تک رسائی نہ ہو تو موت یقینی ہوگی۔

    اس ہلاکت خیز گرمی کا سامنا پہلے بھی ہوچکا ہے، سنہ 2015 میں پاکستان اور بھارت میں گرمی کی ایسی ہی ایک لہر میں 4 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تب ویٹ بلب ٹمپریچر صرف 30 درجہ سینٹی گریڈ تک ہی پہنچا تھا۔ اس سے پہلے 2003 میں مغربی یورپ میں گرمی کی لہر میں 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں حالانکہ ویٹ بلب ٹمپریچر 30 درجہ سینٹی گریڈ تک بھی نہیں پہنچا تھا۔

    زیادہ تر اموات لو لگنے، دل کے دورے پڑنے اور بہت زیادہ پسینہ بہہ جانے سے جسم میں نمکیات کی کمی کی وجہ سے ہوئیں، یعنی ان میں سے کئی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2080 تک ہر سال تقریباً 30 ہیٹ ویوز آئیں گی۔ ان علاقوں میں شہروں کی آبادیاں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ہلاکت خیز گرمی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ شہروں کی اپنی گرمی بھی انہیں ارد گرد کے علاقوں سے اوسطاً 1.5 درجہ سینٹی گریڈ گرم کر دیتی ہے۔ گرمی کو جذب کرنے والا سڑکوں کا تارکول اور عمارتیں، ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والی گرمی اور شہروں کی گنجان آبادیاں بھی اس دباؤ کو بڑھا رہی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ گرمی کی شدید لہریں بالواسطہ طور پر بھی انسانی زندگی کو متاثر کریں گی کیونکہ زیادہ درجہ حرارت سے امراض میں اضافہ ہوگا، فصلوں کی پیداوار گھٹ جائے گی اور ان کی غذائیت میں بھی کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر محنت مشقت کا کام اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی حدت کو پیرس معاہدے کے عین مطابق 1.5 درجہ سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے تو بدترین اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی کئی علاقے ایسے ہوں گے کہ جہاں عالمی اوسط سے کہیں زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور اس کے انتہائی سنگین اثرات سامنے آئیں گے۔