Tag: کلائمٹ چینج

  • بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    اسلام آباد: پاکستان دنیا کے ان 10 سرفہرست ممالک کی صف میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی زد میں سب سے زیادہ ہیں، تاہم حکومت پاکستان اس حوالے سے کس طرح کام کر رہی ہے، یہ گزشتہ روز پیش کیے جانے والے بجٹ سے ظاہر ہے جسے خاصی حد تک خوش آئند قرار دیا سکتا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے خلاف پاکستان اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے۔

    وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ضمن میں ساڑھے 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔

    اس حوالے سے منسٹری آف کلائمٹ چینج کے فوکل پرسن محمد سلیم شیخ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ یہ رقم صرف 10 بلین ٹری پروجیکٹ کے لیے مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ 10 سال پر محیط ہے اور اس کا کل بجٹ 125 ارب روپے ہے جس میں سے 50 فیصد صوبوں کو دینا ہوگا۔

    سلیم شیخ کے مطابق رواں برس ساڑھے 14 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، منصوبے کا کل بجٹ پاکستانی تاریخ میں کسی بھی ماحولیاتی منصوبے کے لیے مختص کیا جانے والا سب سے بڑا بجٹ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 10 بلین ٹری سونامی سمیت حکومت پاکستان اس وقت ماحولیات کے حوالے سے 4 بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو کہ یہ ہیں۔

    ماحول سے مطابقت رکھنے والی انسانی آباد کاری کا منصوبہ
    Climate Resilient Urban Human Settlement Unit
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 15 ملین

    واٹر اینڈ سینی ٹیشن کی بہتری کا منصوبہ
    Establishment of Water Sanitation & Hygiene Strategic Planning and Coordination Cell
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 12 ملین

    پینے کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کا منصوبہ
    Water Quality Monitoring Capacity Building Project
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 30 ملین

    سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 1 فیصد ماحولیات کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات اور منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ماحولیاتی نقصانات کے باعث سالانہ 11 سو سے 12 سو ارب روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے۔

    ان میں سے 400 ارب روپے کا سالانہ نقصان وہ ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں انفرا اسٹرکچر کا تباہ ہونا، صحت اور تعلیم کی سہولیات کا نقصان اور زراعت کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے۔

    علاوہ ازیں ماحولیاتی بگاڑ جسے انوائرمنٹ ڈی گریڈیشن کہا جاتا ہے، پاکستانی معیشت کو ہر سال 700 ارب روپے کا جھٹکا دیتا ہے۔ اس بگاڑ میں فضائی و آبی آلودگی میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی، موسم کے باعث زراعتی زمین کو پہنچنے والا نقصان، جنگلی حیات کو لاحق خطرات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہوں) کو پہنچنے والے نقصانات شامل ہیں۔

    دوسری جانب گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 سے 2019 کے درمیان پاکستان کو مختلف قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے 3 ہزار 771 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق اس عرصے میں پاکستان کو 173 قدرتی آفات نے متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان مختلف ویدر ایونٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

  • 40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے کچھ ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دہائیوں کے دوران ہماری زمین میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے اشتراک کیا ہے جس کا مقصد زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانوں کے مرتب کردہ اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔

    گوگل ارتھ میں اب دیکھا جاسکتا ہے کہ زمین میں گزرے برسوں کے دوران کتنی تبدیلی آئی ہے، اسے گوگل نے گوگل ارتھ کی تاریخ کی سب سے بڑی اپ ڈیٹ بھی قرار دیا ہے۔

    ناسا، یو ایس جیولوجیکل سروے، ورلڈز فرسٹ سویلین ارتھ آبزرویشن پروگرام اور یورپین یونین کے سیٹلائٹس کی مدد سے 1984 سے اب تک کی 2 کروڑ تصاویر کو استعمال کرکے گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس ویڈیوز تیار کی گئی ہیں۔

    ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کیسی ارضیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، یعنی جنگلات کیسے ختم ہوئے، شہر کیسے پھیلے وغیرہ وغیرہ۔

    گوگل کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہمارے سیارے میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں جس کی مثال انسانی تاریخ کے کسی اور عہد میں نہیں ملتی۔

    کمپنی کے مطابق گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس کے ذریعے ہم اپنے بدلتے سیارے کی واضح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جس سے نہ صرف مسائل بلکہ اس کے حل بھی سامنے آسکیں گے۔

    ایسی ایک ویڈیو میں برازیل کے ایمیزون جنگلات میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے جو بہت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

    اسی طرح دبئی کے پھیلاؤ کی ویڈیو بھی دکھائی گئی ہے کہ کس طرح گزشتہ 37 برسوں میں یہ شہر پھیلا ہے اور صحرا نے شہر کا روپ اختیار کرلیا، جبکہ مصنوعی ساحلوں کو بنتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی صحرا کو شہر میں بدلنے کا مسحور کن نظارہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح انسان صحرا میں پھیل گئے۔

    ایک ویڈیو میں زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات سے انٹارکٹیکا کے ایک گلیشیئر کو پگھلتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

  • کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کو مدعو کیا جائے: امریکی رکن کانگریس

    کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کو مدعو کیا جائے: امریکی رکن کانگریس

    واشنگٹن: امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس میں بلانے کا مطالبہ کردیا، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن لی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے نمائندہ خصوصی جان کیری کو خط لکھ کر کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی امریکا میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں مدعو کیا جائے۔

    اپنے خط میں شیلا جیکسن نے کہا ہے کہ پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دریاؤں کو خطرات کا سامنا ہے، پاکستان خطے میں امریکا کا اہم اتحادی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر اسلام آباد کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

    ہیوسٹن سے منتخب ڈیمو کریٹ رکن کانگریس شیلا جیکسن پاکستان کاکس کی بھی چیئر پرسن ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی پر 22 اور 23 کو ایک ورچوئل سمٹ / کانفرنس کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں 40 عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔

    یہ سمٹ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکا دوبارہ پیرس معاہدے میں شامل ہوا ہے اور رواں سال نومبر کے دوران اسی موضوع پر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔

    بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان نے برطانوی اخبار دی ٹائمز میں ایک مضمون لکھ کر نہایت مفصل انداز میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

    وزیر اعظم نے آرٹیکل میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل کو اجاگر کیا، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال گرمیوں میں پاکستان نے صدی کی بدترین بارش کا سامنا کیا جب مون سون بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

    انہوں نے لکھا کہ ماحولیاتی کانفرنس کوپ 26 کو معاشی معاہدے کے بغیر ناکام دیکھ رہا ہوں، میرے نزدیک ماحولیاتی کانفرنس کو معاشی معاہدوں سے جوڑا جانا چاہیئے۔

    وزیر اعظم نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 20 سالوں کے دوران 152 مواقع پر پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر ہوا۔

  • دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    دنیا بھر میں آج شب روشنیاں کیوں بجھائی جائیں گی؟

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا، آج وزیر اعظم آفس میں بھی ایک گھنٹے کے لیے روشنیاں گل کردی جائیں گی۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    وزیر اعظم آفس میں بھی ارتھ آور منایا جائے گا

    ارتھ آور کی مناسبت سے آج وزیر اعظم آفس کی روشنیوں کو بھی ایک گھنٹے کے لیے گل کردیا جائے گا، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بہتری موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

    وزیر اعظم نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صاف اور آلودگی سے پاک ماحول کے لیے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا کر زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • امریکا میں متاثر کن مومی مجسمہ نصب

    امریکا میں متاثر کن مومی مجسمہ نصب

    امریکا میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک متاثر کن مجسمہ نصب کردیا گیا۔

    امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں سٹی ہال کے باہر بینچ پر مومی مجسمہ نصب کیا گیا ہے، مجسمہ دادا اور پوتے کا ہے جو آئسکریم کھاتے ہوئے خوشگوار وقت گزار رہے ہیں۔

    اس مجسمے کا پیغام نہایت واضح ہے، دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مجسمہ پگھلتا جائے گا جس سے اندازہ ہوگا کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے درجہ حرارت میں کس قدر اضافہ ہورہا ہے۔

    یہ مجسمہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے شعور و آگاہی کے لیے کام کرنے والے ایک مقامی ادارے کی جانب سے نصب کیا گیا ہے۔

    ادارے سے وابستہ ڈاکٹر کلارک کا کہنا ہے کہ اورلینڈو شہر میں شدید گرمی کا دورانیہ 22 دن ہوتا تھا لیکن اب کچھ سال میں یہ بڑھ کر 3 ماہ پر محیط ہوجائے گا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج خوفناک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

    خیال رہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ جاری ہے جس سے سطح سمندر بلند ہونے اور کئی شہروں کے زیر آب آجانے کا خطرہ ہے۔

  • ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    ماں دھرتی کی مہربانیوں کے لیے شکر گزار ہونے کا دن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، کلائمٹ ایکشن۔ کلائمٹ ایکشن کا مطلب ہے زمین پر نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی، موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کے خلاف استعداد میں اضافے، کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات میں کمی، اور ماحولیات کے حوالے سے مؤثر حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا۔

    اس سال زمین کا دن منانے کے 50 برس بھی مکمل ہوگئے ہیں اور اس موقع پر گوگل نے بھی اپنا ڈوڈل اسی تھیم پر سجایا ہے۔

    گوگل ڈوڈل میں کیا پیغام چھپا ہے؟

    عالمی یوم ارض کے موقع پر گوگل آج زمین کے سب سے اہم جاندار کو یاد کر رہا ہے جو اس وقت کئی خطرات کا شکار ہے، یہ جاندار ہے شہد کی مکھی۔

    ماہرین کے مطابق خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔

    شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے جبکہ دنیا بھر کے 85 فیصد پھول افزائش کے لیے شہد کی مکھی کے محتاج ہیں۔

    امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں، دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں، جنگلات کی آتشزدگی بھی بڑی تعداد میں مکھیوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔

  • عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، ماہرین کے مطابق موسموں میں تیزی سے رونما ہوتا تغیر یعنی کلائمٹ چینج پانی کی قلت کی وجہ بنے گا۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’پانی اور کلائمٹ چینج‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • دنیا کے امیر ترین شخص نے 10 ارب ڈالرز کس مقصد کے لیے عطیہ کیے؟

    دنیا کے امیر ترین شخص نے 10 ارب ڈالرز کس مقصد کے لیے عطیہ کیے؟

    دنیا کے امیر ترین شخص اور ای کامرس کمپنی ایمیزون کے مالک جیف بیزوس نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے اقدامات کے لیے 10 ارب ڈالرز عطیہ کرنے کا اعلان کردیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے جیف بیزوس کا کہنا تھا کہ وہ بیزوس ارتھ فنڈ کا اجرا کر رہے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Today, I’m thrilled to announce I am launching the Bezos Earth Fund.⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ Climate change is the biggest threat to our planet. I want to work alongside others both to amplify known ways and to explore new ways of fighting the devastating impact of climate change on this planet we all share. This global initiative will fund scientists, activists, NGOs — any effort that offers a real possibility to help preserve and protect the natural world. We can save Earth. It’s going to take collective action from big companies, small companies, nation states, global organizations, and individuals. ⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ I’m committing $10 billion to start and will begin issuing grants this summer. Earth is the one thing we all have in common — let’s protect it, together.⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ – Jeff

    A post shared by Jeff Bezos (@jeffbezos) on

    انہوں نے کہا کہ ان کی فاؤنڈیشن سائنس دانوں، ماحولیاتی کارکنوں، غیر سرکاری تنظیموں اور کوئی بھی ایسی کوشش جس سے دنیا کے قدرتی ماحول کو تحفظ دیا جا سکے، کی مالی امداد کرے گی۔

    بیزوس کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہمارے سیارے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے طریقوں کی تلاش میں لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔

    ایک امریکی اخبار کے مطابق اپنی دولت میں سے 10 ارب ڈالر عطیہ کردینے کے باوجود جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین انسان ہی رہیں گے۔

    گزشتہ برس ان کے اثاثوں کی مالیت میں ایک ارب 120 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی تھی جبکہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کے اثاثے 12 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بڑھ گئے۔ اس کے باوجود جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین افراد میں سرفہرست ہیں۔

  • پاک بھارت پانی کے مسائل کو بات چیت سے حل ہونا چاہیئے: انتونیو گتریس

    پاک بھارت پانی کے مسائل کو بات چیت سے حل ہونا چاہیئے: انتونیو گتریس

    اسلام آباد: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس کا کہنا ہے کہ پاک بھارت پانی تقسیم کے مسائل بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں، پانی کو وجہ تنازع نہیں ہونا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں کلائمٹ چینج سے متعلق تقریب منعقد ہوئی جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ تقریب میں وزیر مملکت برائے کلائمٹ چینج زرتاج گل اور وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم بھی شریک ہوئے۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں پر خطاب میرے لیے اعزاز ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا بڑا ملک ہے، پائیدار ترقی کے اہداف انسانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

    انتونیو گتریس کا کہنا تھا کہ مختلف آفات سے متاثر ہونے والے افراد سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں، ہمارا مشترکہ وژن موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف انسانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ غربت کا خاتمہ پاکستان کی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے، تعلیم، معیشت اور برابری ترقی کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے کاوشیں کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب کے لیے صحت اور سہولت فراہمی کے وژن سے متاثر ہوں۔ پاکستان کو صحت سمیت مختلف شعبوں میں چیلنجز درپیش ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں۔ سیلاب و قدرتی آفات سے پاکستان بہت متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلی سے خطرات لاحق ہیں۔ عالمی قائدین موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔

    سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت میں پانی کے استعمال کا معاہدہ موجود ہے، دونوں ممالک میں عالمی بینک کے تحت پانی کے استعمال کا معاہدہ ہے۔ پانی کو تنازعے کی وجہ نہیں بلکہ حل ہوناچاہیئے۔

  • تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔

    کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔

    اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔

    منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟

    اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی  قائم رہ سکے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔

    ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔

    مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔