Tag: کلائمٹ چینج

  • کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اسکولوں میں موسموں میں ہونے والے تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کے حوالے سے تعلیم دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    یہ اقدام وزارت برائے کلائمٹ چینج اور وزارت تعلیم کی مشترکہ کوششوں سے اٹھایا جارہا ہے جس میں انہیں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور کلائمٹ چینج ماہرین کی معاونت حاصل ہے۔

    منصوبے کے تحت وفاقی دارالحکومت کے 400 اسکولوں میں کلائمٹ چینج کے حوالے سے تعلیم دی جائے گی جبکہ مختلف تربیتی ورکشاپس اور ٹریننگز کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔

    ترجمان برائے محکمہ کلائمٹ چینج محمد سلیم کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے انسانی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب سے بہترین جگہ اسکول ہیں جہاں سے اس تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

    محمد سلیم کے مطابق یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے شروع کیے گئے پروگرام کلین گرین پاکستان موومنٹ کا حصہ ہے۔

    مذکورہ پروگرام کے تحت وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسکولوں میں کلائمٹ چینج، تحفظ ماحولیات، پانی کے بچاؤ اور صفائی ستھرائی کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ اس پروگرام سے ایک لاکھ کے قریب بچے کلائمٹ چینج کے بارے میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

    ترجمان کے مطابق مذکورہ پروگرام کو بہت جلد پورے ملک میں شروع کیا جائے گا اور ملک کے تمام اسکولوں میں کلائمٹ چینج کی تعلیم دی جائے گی۔

  • ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    کیا آپ اکثر و بیشتر فضائی سفر کرنے کے عادی ہیں؟ تو پھر آپ کو شرم آنی چاہیئے کیونکہ شہر کے اس قیامت خیز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک ذمہ دار آپ کا فضائی سفر بھی ہے۔

    ایوی ایشن انڈسٹری یعنی ہوا بازی کی صنعت اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت سے جتنا کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سفر میں نہیں ہوتا۔

    ایک ہوائی جہاز اوسطاً ایک میل کے سفر میں 53 پاؤنڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتا ہے اور اس وقت جن انسانی سرگرمیوں نے عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) میں اضافہ کیا ہے، ہوا بازی کی صنعت کا اس میں 2 فیصد حصہ ہے۔

    تو پھر جب ہم تحفظ ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنے فضائی سفر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    فلائٹ شیم کی تحریک

    فضائی سفر کرنے پر شرمندہ کرنے یعنی فلائٹ شیم کی تحریک کا آغاز سنہ 2017 میں سوئیڈن سے ہوا جب سوئیڈش گلوکار اسٹافن لنڈبرگ نے فضائی سفر کے ماحول پر بدترین اثرات دیکھتے ہوئے، آئندہ کبھی فضائی سفر نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    ملک کی دیگر کئی معروف شخصیات نے بھی اسٹافن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، جن میں ایک کلائمٹ چینج کی 16 سالہ سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ کی والدہ اور معروف اوپرا سنگر میلینا ارنمن بھی شامل تھیں۔

    جی ہاں وہی گریٹا تھنبرگ جس نے ایک سال تک ہر جمعے کو سوئیڈش پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور جس کی یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں اشکبار تقریروں نے دنیا بھر کے بااثر افراد کو مجبور کیا کہ وہ اب کلائمٹ چینج کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔

    گریٹا کی انہی کوششوں کی وجہ سے اب ہر جمعے کو دنیا بھر میں کلائمٹ اسٹرائیک کی جاتی ہے۔ خود گریٹا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی تو اس نے فضائی سفر کے بجائے 14 روز کے بحری سفر کو ترجیح دی۔

    متبادل کیا ہے؟

    اس تحریک سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فضائی سفر نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دنیا نہ گھومیں یا سفر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرا ذریعہ سفر اپنائیں جیسے ٹرین کا سفر۔

    ٹرین سے جتنا کاربن اخراج ہوتا ہے وہ فضائی سفر کے کاربن اخراج کا صرف دسواں حصہ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ممالک میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین نئی ماحول دوست ٹرینیں بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جو عام ٹرین کے کاربن اخراج سے 80 فیصد کم کاربن کا اخراج کرتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ٹرین سے سفر کرنا نہایت پرلطف تجربہ ہے، اس سفر میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو فضائی سفر کے دوران ہرگز نظر نہیں آسکتے۔

    ذاتی کاربن بجٹ

    اقوام متحدہ کی جانب سے ہر شخص کا ایک ذاتی کاربن بجٹ مختص کیا گیا ہے، یعنی کسی شخص کے لیے جب مختلف ذرائع سے کاربن اخراج ہوتا ہے، یعنی رہائش، سفر، غذا اور دیگر سہولیات تو اس کاربن کی مقدار 2 سے ڈیڑھ ٹن سالانہ ہونی چاہیئے۔

    لیکن جب آپ فضائی سفر کرتے ہیں تو آپ کا یہ کاربن بجٹ ایک جھٹکے میں بہت سا استعمال ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر لندن سے ماسکو کی فلائٹ لی جائے جس کا فاصلہ 2 ہزار 540 کلومیٹر اور دورانیہ ساڑھے 3 گھنٹے ہے، تو آپ اس فلائٹ میں اپنے کاربن بجٹ کا پانچواں حصہ استعمال کرلیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس تحریک میں شیم کا لفظ تو منفی ہے تاہم اس کا مقصد اس سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہے۔ آپ جتنا زیادہ ماحولیاتی نقصانات کے بارے میں سوچیں گے، فضائی سفر کرتے ہوئے اتنی ہی زیادہ شرمندگی محسوس کریں گے۔

    سوئیڈن کے تحفظ ماحولیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف سوئیڈن کے مطابق یہ تحریک اتنی پراثر ثابت ہورہی ہے کہ سنہ 2018 میں سوئیڈن میں فضائی سفر کرنے والوں کی تعداد میں 23 فیصد کمی آئی۔ یہ تحریک اب کینیڈا، بیلجیئم، فرانس اور برطانیہ میں بھی زور پکڑ رہی ہے۔

    کیا آپ اس تحریک کا حصہ بننا چاہیں گے؟

  • کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    یورپی ملک آئس لینڈ میں ایک 700 سال قدیم گلیشیئر پگھل کر مکمل طور پر ختم ہوگیا، اس موقع پر مقامی افراد کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور افسوس کا اظہار کیا جس کے بعد یہ اجتماع گلیشیئر کی آخری رسومات میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ گلیشیئر جسے ’اوکجوکل‘ کا نام دیا گیا تھا 700 برس قدیم تھا اور ایک طویل عرصے سے مقامی افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کر رہا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں کمی دیکھی جارہی تھی تاہم چند روز قبل یہ گلیشیئر مکمل طور پر پگھل کر ختم ہوگیا جسےالوداع کہنے کے لیے سینکڑوں لوگ امڈ آئے۔

    گلیشیئر کے خاتمے پر مقامی انتظامیہ نے اس کا باقاعدہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جبکہ اس مقام پر ایک یادگار بھی بنا دی گئی ہے۔

    اس موقع پر جمع ہونے والے شرکا نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں کلائمٹ چینج سے نمٹنے اور زمین سے محبت کرنے کے اقوال درج تھے۔ شرکا نے گلیشیئر کی موت پر چند منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مزید 400 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آئس لینڈ سمیت دنیا بھر میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اگر ان کے پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 200 برس میں آئس لینڈ کے تمام گلیشیئرز ختم ہوجائیں گے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ایک اور برفانی علاقے گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف بھی نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    دوسری جانب قطب شمالی کے برفانی رقبہ میں بھی 6 لاکھ 20 ہزار میل اسکوائر کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

  • ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    افریقی ملک ایتھوپیا نے ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگا کر سب سے زیادہ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرلیا، اس سے قبل ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ بھارت کے پاس تھا۔

    ایتھوپیا نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے تاریخ ساز قدم اٹھاتے ہوئے صرف 12 گھنٹوں میں 35 کروڑ پودے لگائے ہیں۔ اس شجر کاری مہم کا افتتاح ایتھوپین وزیر اعظم ابی احمد نے کیا۔

    ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ اس سے قبل بھارت کے پاس تھا جس نے سنہ 2017 میں ایک دن میں ساڑھے 6 کروڑ پودے لگائے تھے۔

     

    ایتھوپیا رواں برس اکتوبر تک 4 ارب پودے لگانے کا عزم رکھتا ہے تاکہ ملک میں سبزے میں اضافہ کیا جاسکا اور کلائمٹ چینج کے نقصانات میں کمی کی جاسکے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 19 ویں صدی کے آخر تک ایتھوپیا میں جنگلات کے رقبے میں 30 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، ملک میں موجود جنگلات کو بڑے پیمانے پر کاٹا گیا تاکہ جلانے کے لیے لکڑی اور زراعت کے لیے زمین حاصل کی جاسکے۔

    اس وقت ایتھوپیا کے 4 فیصد سے بھی کم رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنگلات میں کمی کے باعث ایتھوپیا سمیت دیگر افریقی ممالک میں خشک سالی اور قحط کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

  • کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے اپنے علیحدہ جغرافیائی عوامل اور مظاہر رکھتے ہیں جو کم ہی دنیا کی سامنے آتے ہیں۔ ان ہی میں اسے ایک برف کا سونامی بھی ہے۔

    ہم نے اب تک سونامی کے بارے میں سنا ہے جو نہایت خوفناک قسم کا سیلاب ہے، یہ اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے اور میلوں تک تباہی و بربادی کی داستان چھوڑ دیتا ہے۔

    برفانی سونامی بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات رکھتا ہے تاہم یہ کم رونما ہوتا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کا دائرہ کار بھی کم ہوتا ہے۔

    برف کا سونامی اس وقت آسکتا ہے جب تیز ہوائیں چل رہی ہوں یا برفانی سمندر کے کرنٹ میں تبدیلی پیدا ہو۔ اس وقت سمندر پر موجود برف کے بڑے بڑے تودے تیزی سے ساحل کی طرف آنے لگتے ہیں۔

    برف تیزی سے زمین سے ٹکراتی ہے اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، اس دوران اس کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ سونامی اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو باآسانی تباہ کرسکتا ہے۔

    یہ سونامی ساحل پر برف کی 12 میٹر تک بلند دیواریں کھڑی کرسکتا ہے۔ برف کا یہ سونامی عموماً سخت سردی کے دوران آسکتا ہے جب تیز ہوائیں یا معمول سے زیادہ برف باری موسم کی شدت میں اضافہ کردیں۔

    برفانی سمندر کے علاوہ یہ ان علاقوں میں بھی رونما ہوسکتا ہے جہاں موسم سرما کے دوران شدید برف باری ہوتی ہو اور دریا اور سمندر برف بن جاتے ہوں۔

    زیر نظر ویڈیوز رواں برس موسم سرما کی ہیں جب یہ انوکھا منظر برفانی علاقوں کے شہریوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    دنیا بھر میں اس وقت کاربن اخراج ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم امریکی محکمہ دفاع کے بارے میں حال ہی میں جاری ہونے والی ایک تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    امریکا اس وقت سب سے زیادہ کاربن اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی محکمہ دفاع کا ہیڈ کوارٹر پینٹاگون، اس وقت صنعتی ممالک جیسے سوئیڈن اور پرتگال سے زیادہ کاربن اخراج کر رہا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ پینٹاگون نے سنہ 2017 میں 59 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مختلف گرین ہاؤس (نقصان دہ) گیسز خارج کیں۔ یہ مقدار سوئیڈن اور پرتگال جیسے کئی چھوٹے ممالک کے کاربن اخراج سے زیادہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اسلحے کے استعمال اور اس کی نقل و حرکت میں اس ادارے کی 70 فیصد توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا زیادہ حصہ جیٹ اور ڈیزل فیول پر خرچ ہوتا ہے۔

    پینٹاگون کی جانب سے تاحال اس تحقیق پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

    اس سے قبل پینٹاگون بذات خود موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفانوں اور سطح سمندر میں اضافہ فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4، جن میں کی ویسٹ کا نیول ایئر اسٹیشن، اور جنوبی کیرولینا میں میرین کورپس ڈپو شامل ہیں، صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھو دیں گے۔

  • صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’مستقبل کو مل کر اگائیں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    اسلام آباد: رواں برس پیش کیے جانے والے 70 کھرب 22 ارب کے بجٹ 20-2019 میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بجٹ 20-2019 میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت کلائمٹ چینج ڈویژن کے لیے 7 ارب 57 کروڑ 90 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو ملک میں جاری مختلف اسکیمز اور منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    اس رقم میں سے 7 ارب 51 کروڑ کی رقم نئے منصوبوں کے لیے رکھی گئی ہے جبکہ 6 کروڑ کی رقم پہلے سے جاری منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق وزارت کلائمٹ چینج میں ڈیڑھ کروڑ کی لاگت سے کلائمٹ چینج رپورٹنگ یونٹ قائم کیا جائے گا جبکہ ساڑھے 7 کروڑ روپے کی رقم دس ارب درخت منصوبے کے لیے رکھی گئی ہے۔

    2 کروڑ روپے ماحولیات سے مطابقت رکھنے والی اربن ہیومن سیٹل منٹس کے لیے، 32 لاکھ روپے جیومیٹک سینٹر فار کلائمٹ چینج کے قیام کے لیے اور 1 کروڑ 60 لاکھ روپے پاکستان واش اسٹریٹجک پلاننگ اینڈ کوآرڈینیشن سیل کے قیام کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    زمین کو صحرا زدگی سے روکنے کے لیے سسٹین ایبل لینڈ میجمنٹ پروجیکٹ کے لیے بھی ڈھائی کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ 2 روز قبل پیش کیے جانے والے بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے ہے۔

    بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560 ارب روپے ہوگا۔