Tag: کلائمٹ چینج

  • آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    آج کے دن ایک گھنٹہ زمین کے نام کریں

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج ارتھ آور منایا جائے گا۔ آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بند کر کے زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیا جائے گا۔

    ارتھ آور پہلی بار 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کر کے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    اسے منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    درجہ حرارت بڑھنے کا ایک سبب بجلی کا بہت زیادہ استعمال بھی ہے۔ بجلی مختلف ذرائع جیسے تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے، اور ان چیزوں کو ہم جتنا زیادہ جلائیں گے اتنا ہی ان کا دھواں فضا میں جا کر آلودگی پھیلائے گا اور درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    تو پھر آئیں آج شب ساڑھے 8 سے ساڑھے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

  • کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں آج بچے اسکول سے چھٹی پر

    کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں آج بچے اسکول سے چھٹی پر

    اسٹاک ہوم: دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے بچوں نے آج اسکول سے چھٹی کرلی ہے، اس اسکول اسٹرائیک کا آغاز سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی بچی گریٹا تھنبرگ نے کیا ہے۔

    15 سالہ گریٹا تھنبرگ نے کلائمٹ چینج کے خلاف ٹھوس پالیسی اپنانے پر مجبور کرنے کے لیے گزشتہ برس اگست سے اپنا احتجاج شروع کیا تھا۔ وہ 3 مہینے تک اپنا اسکول چھوڑ کر روزانہ پارلیمنٹ بلڈنگ کے سامنے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کرتی رہی۔

    انتخابات کے بعد بھی اس کا احتجاج ختم نہیں ہوا، اب وہ ہر جمعے کے روز اسکول سے چھٹی کر کے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتی دکھائی دیتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارا مستقبل اسکول نہیں، اگر زمین کو نہ بچایا گیا تو نہ اسکول رہیں گے اور نہ اسکول جانے والے۔

    آہستہ آہستہ گریٹا نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی اور زمین سے محبت کرنے والے بچے اور بڑے اس کے ہم آواز ہوگئے۔

    گریٹا کا نام نوبیل انعام کے لیے تجویز

    گزشتہ روز نارویئن حکام نے گریٹا کو نوبیل انعام دینے کی تجویز بھی پیش کردی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ناروے کے ایک رکن پارلیمنٹ فریدی اینڈرے کا کہنا تھا کہ اگر ہم کلائمٹ چینج کو نہیں روکیں گے تو یہ جنگوں، تنازعوں اور لوگوں کو بے گھر کرنے کا سبب بنے گی۔ گریٹا نے دنیا کے امن کو قائم رکھنے کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کی لہٰذا وہ امن کے نوبیل انعام کی حقدار ہے۔

    گریٹا کے ساتھ ہم آواز ہو کر آج تقریباً 100 سے زائد ممالک میں اسکول اسٹرائیک کی جارہی ہے۔ مختلف ممالک کے بچے پالیسی ساز عمارتوں کی طرف مارچ کر رہے ہیں تاکہ پالیسی سازوں کو ٹھوس ماحولیاتی اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔

    اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے بھی ننھے مظاہرین سے ملاقات کی اور ماحول دوست اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔

  • خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    دنیا بھر میں بدلتا ہوا موسم اور عالمی حدت زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ایسے میں ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    ایک طویل عرصے سے ماہرین اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہورہی ہیں، تاہم بدقسمتی سے ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے خواتین کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    تاریخ میں دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی کسی خطے میں جنگ ہوتی ہے تو خواتین اس کے بدترین نقصانات سے متاثر ہونے والا پہلا شکار ہوتی ہیں۔

    خواتین سے زیادتی اور ان پر تشدد کو جنگوں میں ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک خواتین مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے بدترین ظلم کا شکار یزیدی خاتون

    اب جبکہ ہم خود ہی اپنے ماحول کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ چکے ہیں تو اس بگاڑ سے بھی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے جب بھی کوئی آفت آتی ہے جیسے زلزلہ یا سیلاب، تو ایسے میں خواتین حفاظتی اقدامات سے بے خبر ہونے کے باعث خطرے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    ایسے حالات میں خواتین کبھی بھی اکیلے اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ساتھ بچوں اور دیگر افراد کی بھی جان بچانے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں گاؤں دیہات پانی کی سہولت سے محروم ہیں، وہاں خواتین ہی گھر کی ضروریات کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ گھر سے میلوں دور سفر کرنا اور پانی بھر کر لانا ایک اذیت ناک داستان ہے جس کا مرکزی کردار صرف خواتین ہیں۔

    ایسے میں کلائمٹ چینج اور پانی کی عدم دستیابی ان خواتین کی تکلیف میں مزید اضافہ کردے گی۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کیڑے مار زہریلی ادویات سے نہ صرف خود بھی متاثر ہوتی ہیں، بلکہ ایسے میں حاملہ خواتین کے وہ بچے جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے وہ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق میں کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے دودھ میں بھی زہریلی کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے گئے جو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ماحول کے حوالے سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی جائے تو اس میں خواتین کو شامل رکھا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے، اس طرح ہم ان نقصانات کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں گے جو نہایت نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور جس سے ایک گھریلو خاتون متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہ عمل آگے چل کر اس منصوبہ بندی اور پالیسی کو کئی نسلوں تک قابل عمل اور کارآمد بناسکتا ہے۔

  • برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی علاقوں میں رہنے والے سفید برفانی بھالو کا آج عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد برفانی ریچھوں کی نسل کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے اور تبدیلیوں یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں موجود برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    اس وقت دنیا بھر میں 20 سے 25 ہزار برفانی بھالو موجود ہیں۔ یہ قطب شمالی دائرے (آرکٹک سرکل) میں پائے جاتے ہیں۔ اس دائرے میں کینیڈا، روس اور امریکا کے برفانی علاقے جبکہ گرین لینڈ کا وسیع علاقہ شامل ہے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔

    برف پگھلنے کے علاوہ ان بھالوؤں کو ایک اور خطرہ برفانی سمندروں کے ساحلوں پر انسانوں کی نقل و حرکت اور شور شرابے سے بھی ہے جو انہیں منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ان ریچھوں کو لاحق ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی یوں ان بڑی مچھلیوں کے لیے ان ریچھوں کا شکار آسان ہوجائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں قطب شمالی سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا جس سے برفانی بھالوؤں سمیت دیگر برفانی جانوروں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

  • سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2018 جدید تاریخ کا ایک اور گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل چوتھا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن (نووا) کی جاری کردہ رپورٹ میں سنہ 1880 سے موسم اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1880 سے اب تک درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 2 ڈگری فارن ہائیٹ یا 1 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا، 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا جبکہ 2017 اور اس کے بعد اب 2018 ایک اور گرم ترین سال ثابت ہوا۔

    رپورٹ کے مطابق رواں برس برفانی خطوں اور قطبین کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کے مطابق گرین لینڈ کی برف جسے قطبین کی سب سے فرسودہ اور پرانی برف کہا جاتا ہے وہ بھی پگھلنا شروع ہوگئی۔

    رپورٹ کی تیاری میں شامل محققین کا کہنا ہے کہ متواتر 4 سال تک درجہ حرارت میں اضافہ برفانی خطوں، سمندروں، آبی ذخائر اور زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    خیال رہے کہ 3 دن قبل ہی انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش خطے کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

  • صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    کھٹمنڈو: دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ایک تہائی برف سنہ 2100 تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

    یہ انکشاف انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہ رپورٹ 5 سال کے اندر تیار کی گئی جس میں 22 ممالک اور 185 اداروں کے 350 سے زائد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    خیال رہے کہ کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا یہ خطہ انٹار کٹیکا اور آرکٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔ یہ خطہ 3 ہزار 5 سو کلو میٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

    مذکورہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہے جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی بہت سی چوٹیوں کو ایک صدی میں چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سنہ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھائے جائیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی، اور اگر ہم رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔

  • زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ایک طرف تو زمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے کھڑا ہے، تو دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی زمین پر برفانی دور یعنی آئس ایج کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

    لندن کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے جس میں زمین کے تمام بڑے دریا منجمد ہوجائیں گے۔

    یہ پیش گوئی سورج کی مقناطیسی توانائی کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    سنہ 1645 سے 1715 کے درمیان منجمد دریائے ٹیمز

    آسٹرو نومی اینڈ جیو فزکس نامی رسالے میں شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور دہائی کے آخر تک زمین برفانی دور کا سامنا کرے گی۔

    ماہرین کی یہ تحقیق اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ گزشتہ تحقیق میں سورج کی دو مقناطیسی لہروں کی حرکت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

    حالیہ تحقیق کے مطابق ان مقناطیسی لہروں میں تیزی سے کمی واقع ہوگی جس کا آغاز سنہ 2021 سے ہوگا اور یہ 33 سال تک جاری رہے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے پہلے بھی ایک مختصر آئس ایج رونما ہوا تھا جو سنہ 1646 سے 1715 تک رہا تھا۔ اس دوران لندن کا دریائے ٹیمز منجمد دریا میں تبدیل ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی یہ لہریں اور ان کی حرکت ماضی میں تو برفانی دور کا باعث بنیں، تاہم اب یہ عمل کس قدر اثر انگیز ہوسکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت حائل ہے۔

    ان کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنے گا یا گلوبل وارمنگ کا اثر زیادہ ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اگر اب بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنتا ہے تو یہ زمین کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ کا عمل سست یا رک سکتا ہے۔

    ’30 سال کے اس عرصے میں یقیناً ہم گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے عوامل کو کم کرسکتے ہیں اور اس کا مستقل حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کے بعد جب زمین معمول کی حالت پر لوٹ آئے گی تو ہمارے پاس موقع ہوگا کہ ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول میں رکھ سکیں‘۔

  • وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    اسلام آباد: وزیر مملکت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) زرتاج گل کا کہنا ہے کہ وزارت کلائمٹ چینج نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت زرتاج گل کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر جلد ٹیکس عائد کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک تھیلی پر 1 سے 2 روپے کا ٹیکس زیر غور ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صوبوں سے رابطہ کیا جارہا ہے اور مشاورت کے بعد ٹیکس کو ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں بلکہ زمینی و آبی حیات کے لیے بھی خطرناک ہیں، ہم اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی جگہ تلف ہوجانے والے (بائیو ڈی گریڈ ایبل) یا کاغذ کے تھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ ملک میں پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے پر تشویش تو ظاہر کی جارہی ہے تاہم ابھی تک اس سے چھٹکارے کے لیے کوئی حتمی قانون نہیں بنایا جاسکا۔

    مختلف صوبوں میں پلاسٹک پر پابندی کی تجاویز پیش کی گئیں تاہم تاحال ان پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    دنیا بھر میں رونما ہوتے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج نے جہاں بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں وہیں قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں بھی برف پگھلنے کی رفتار 6 گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف سنہ 1979 سے 2017 تک نہایت تیزی سے پگھلی ہے، اس عرصے میں پگھل جانے والی برف اس سے قبل پگھلنے والی برف سے 6 گنا زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1979 سے 1990 تک انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی مقدار سالانہ 40 ارب ٹن رہی۔

    سنہ 1990 کے بعد سے اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور اب انٹارکٹیکا میں سالانہ 250 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے۔ ان اعداد و شمار کے لیے سائنسدانوں نے سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا۔

    مزید پڑھیں: آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    اس سے قبل ایک اور تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

  • درخت بھی باتیں کرتے ہیں

    درخت بھی باتیں کرتے ہیں

    آپ نے درختوں کے زندہ ہونے اور ان کے سانس لینے کے بارے میں تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں درخت آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں؟

    دراصل درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔

    ان جڑوں کے ساتھ زیر زمین خودرو فنجائی بھی اگ آتی ہے جو ان درختوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔

    یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔

    درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔

    ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔

    اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔

    اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔

    نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا یہ کام پورے جنگل کے درختوں کے درمیان انجام پاتا ہے۔

    بڑے درخت ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟

    اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔

    اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔