Tag: کلائمٹ چینج

  • چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت جہاں ایک طرف تو بے شمار مسائل کھڑے کر رہا ہے وہیں چوہوں کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافے کا خطرہ ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق دنیا بھر میں مختلف شہروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت انہیں چوہوں کی افزائش کے لیے ایک آئیڈیل مقام بنا سکتا ہے۔

    اس وقت بے شمار امریکی شہر جیسے نیویارک، شکاگو اور بوسٹن چوہوں میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان سے نجات پانے کی مہمات پر لاکھوں ڈالر کی رقم خرچ کر رہے ہیں۔

    کارنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق ایک چوہیا اپنی پیدائش کے صرف ایک ماہ کے بعد بچے پیدا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے، جبکہ اس کے حمل کا عرصہ 14 دن ہوتا ہے۔ یعنی ایک چوہیا سال بھر میں 15 ہزار سے 18 ہزار چوہے پیدا کر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ کو چوہوں سے ڈر لگتا ہے؟

    ایک سروے کے مطابق بوسٹن میں پانی کے ہر ذخیرے میں 25 سے 30 چوہے موجود ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی بڑی تعداد ہاؤسنگ کمیونٹیز اور مختلف عمارتوں میں رہائش پذیر ہے۔

    بوسٹن کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے چوہوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ انسانوں سے ڈر کر بھاگنا بند کردیتے ہیں کیونکہ یہ ان سے مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ ’یہ خوفناک بات ہے کہ وہ انسانوں سے ڈرتے بھی نہیں‘۔

    امریکا کے ایک پیسٹ کنٹرول ادارے کے مطابق صرف گزشتہ برس چوہوں کی آبادی میں شکاگو میں 61 فیصد، بوسٹن میں 67 فیصد، سان فرانسسکو میں 174 فیصد، نیویارک میں 129 فیصد اور واشنگٹن میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کی آبادی میں اس بڑے اضافے سے پرندوں کو بھی خطرہ لاحق ہے جو آسانی سے بڑے چوہوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

  • جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی؟

    جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی؟

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج تیزی سے واقع ہورہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، کاروں اور صنعتوں سے دھویں کا اخراج اور آلودگی میں اضافے نے دنیا بھر کے موسم کو گرم کردیا ہے۔

    کلائمٹ لیب امپیکٹ نے ایک انٹر ایکٹو وضع کیا ہے جو آپ کو بتائے گا کہ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے شہر میں کتنی گرمی پڑتی تھی اور اب اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

    یہ دیکھنے کے لیے آپ کو دیے گئے لنک پر جا کر اپنے شہر کا نام اور سنہ پیدائش لکھنا ہوگا جس کے بعد مختلف سالوں میں ہونے والا آپ کے شہر کا درجہ حرارت آپ کے سامنے آجائے گا۔

    یہاں کلک کریں

    اس انٹر ایکٹو کو دیکھنے کے بعد یقیناً آپ پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہوں گے کیونکہ آپ کے شہر کا درجہ حرارت آپ کے سنہ پیدائش کے مقابلے میں اس وقت بہت بڑھ گیا ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ کاربن کے اخراج میں کمی کی جائے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن نہایت ہی معصوم سا پرندہ سمجھا جاتا ہے، لیکن جب بات آتی ہے اپنی بقا اور بہتری کی، تو معصوم سے معصوم سے جانور بھی چالاکی دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    بی بی سی ارتھ نے پینگوئن کی چالاکی کی ایسی ہی ایک ویڈیو عکسبند کی جسے دیکھ کر آپ بے اختیار ہنس پڑیں گے۔

    برفانی زمین سے محفوظ رہنے کے لیے پینگوئن پتھروں کو جمع کر کے اپنے بیٹھے اور سونے کے لیے جگہ تعمیر کرتے ہیں۔

    اس دوران وہ دور و قریب سے چن چن کر ایسے پتھر جمع کرتے ہیں جو انہیں اور ان کے بچوں کو تکلیف سے بچائیں۔

    تاہم پینگوئنز کے گروہ میں ایک ایسا شرارتی پینگوئن ضرور ہوتا ہے جو اس قدر محنت کرنے کے بجائے دوسرے پینگوئنز کے جمع کردہ پتھروں سے اپنا گھر بناتا ہے۔

    یہ چالاک پینگوئن چونکہ خود دوسروں کے پتھر چراتا ہے لہٰذا اس بات سے بھی ہوشیار رہتا ہے کہ کوئی دوسرا پینگوئن اس کے پتھر چرا کر نہ لے جائے۔

    ایسے میں جب وہ پینگوئن دیکھ لیتا ہے جس کے پتھر چرائے جارہے ہوتے ہیں، تو وہ اسے مار کر دور ہٹا دیتا ہے۔

    خیال رہے کہ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹار کٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    بنکاک: تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں ایسا پارک بنایا گیا ہے جو کسی متوقع سیلاب کی صورت میں شہر کو کم سے کم نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنوب مشرقی ایشائی شہروں میں خطرناک بارشوں کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں بھی خوفناک زلزلہ آیا جس کے بعد سونامی نے بھی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    بنکاک میں قائم اس پارک میں ایسے زمین دوز ٹینک بنائے گئے ہیں جن میں بارشوں کا اضافی پانی محفوظ ہوسکتا ہے۔ یہ ٹینک 38 لاکھ لیٹر پانی محفوظ کر سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سنہ 2040 تک عالمی درجہ حرارت میں 2 فیصد اضافہ نہ بھی ہوا تب بھی سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوجائے گا جس سے دنیا کے ہر خطے میں سیلابوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلابی پانی سے بھرے ہوئے شہر ایک معمول کی صورتحال بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

    دوسری جانب بنکاک کے غرق آب ہوجانے کا خدشہ بھی ہے جس کی وجہ سطح سمندر میں اضافے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے زیر زمین پانی کا استعمال کیا جانا بھی ہے جس سے شہر کے دھنسنے کے امکانات ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق سنہ 2050 تک بنکاک میں سیلاب کا خطرہ 4 گنا بڑھ جائے گا۔

  • صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    دنیا کا تیسرا اور براعظم افریقہ کا سب سے بڑا صحرا سنہ 2050 تک نصف سے زائد دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی سرسبز ہوسکتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ صحارا میں بڑی تعداد میں شمسی توانائی کے پینلز اور ہوا سے توانائی بنانے والی پن چکیاں نصب کردی جائیں تو یہ آدھی دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    ایک زیر غور منصوبے کے مطابق 35 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر لگے شمسی توانائی کے پینلز اور پن چکیاں 79 ٹیرا واٹس بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ اس بجلی سے 4 گنا زیادہ ہے جو صرف 2017 میں پوری دنیا میں استعمال کی گئی یعنی 18 ٹیرا واٹ۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا میں برف باری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ تکمیل پا گیا تو ہوا سے توانائی بنانے والی ٹربائنز گرم ہوا کو نیچے کی جانب کھینچیں گی۔ اس عمل سے بارشوں میں اضافہ ممکن ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس منصوبے سے صحارا میں ابھی ہونے والی بارشیں دگنی ہوسکتی ہیں جس سے صحرا کے سبزے میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا کی شادابی، بارشوں میں اضافہ، اور ساتھ ساتھ ماحول دوست تونائی کی فراہمی ایسے عوامل ہیں جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی معیشت، زراعت اور سماجی ترقی میں اضافہ کریں گے۔

    خیال رہے کہ صحرائے صحارا کا کل رقبہ 92 لاکھ کلو میٹر ہے جو امریکا کے رقبے سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ صحرا غیر فطری پھلاؤ کی وجہ سے انسانی سرگرمیوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صحرا جنوب کی جانب حرکت کرتے ہوئے سوڈان اور چاڈ کی حدود میں داخل ہو رہا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے سرسبز علاقے خشک ہو رہے ہیں اور فصل اگانے والی زمینیں بھی بنجر ہوتی جارہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    جنرل آف کلائمٹ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران صحارا کے رقبے میں ہونے والا اضافہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرائے اعظم میں اضافے کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔

  • پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    بدلتے موسموں اور گرم ہوتے درجہ حرارت نے جہاں انسانوں کی زندگی دشوار بنا دی ہے وہیں جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی بے شمار خطرات پیدا کردیے ہیں۔

    اس میں بڑا حصہ انسانوں کا ہے جو ان جانوروں کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں جس کے باعث مختلف اقسام کے جانداروں کی معدومی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

    حال ہی میں ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ رواں دہائی میں پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    برڈ لائف انٹرنیشل کی جانب سے کی جانے والی تجزیاتی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس دہائی کے اندر براعظم امریکا میں پائے جانے والے پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    اس فہرست میں مکاؤ، پوالی، ایک قسم کا الو اور کرپٹک ٹری ہنٹر نامی پرندے شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض پرندے اس لیے بھی معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی آبادی کم ہوجاتی ہے اور بڑے پرندے انہیں کھا لیتے ہیں تاہم اس فہرست میں کچھ پرندے ایسے بھی شامل ہیں جو جنگلات کے خاتمے کی وجہ سے معدوم ہورہے ہیں۔

    فہرست میں اس کے علاوہ بھی 26 ہزار پرندوں و جانوروں کی اقسام ایسی ہیں جو معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کے لیے تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تاہم دیگر خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔

  • اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    ناروے کے برفانی علاقے میں ایک برفانی ریچھ کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جب اس نے وہاں آنے والے ایک سیاحتی بحری جہاز کے گارڈ کو زخمی کردیا۔

    ریسکیو ادارے کا کہنا ہے کہ واقعہ قطب شمالی اور ناروے کے درمیانی حصے میں پیش آیا۔ یہ علاقہ اپنے گلیشیئرز، برفانی ریچھوں اور قطبی ہرنوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

    ادارے کے مطابق یہاں کی مقامی حیات کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں کی کشش کا مرکز ہے اور واقعے کا باعث بننے والا جہاز بھی سیاحوں کو ہی لے کر آیا تھا۔

    دوسری جانب جہاز کی انتظامیہ نے وضاحت پیش کی ہے کہ ریچھ نے ایک گارڈ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دوسرے گارڈ نے دفاع میں گولی چلائی۔

    گارڈ کی گولی سے برفانی ریچھ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

    تاہم سوشل میڈیا پر انتظامیہ کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا اور لوگوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔

    ایک ٹویٹر صارف نے کہا کہ، ’پہلے آپ ان ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہ میں ان کے بہت قریب چلے جائیں، اور جب وہ آپ کے قریب آئیں تو انہیں مار ڈالیں‘۔

    برفانی ریچھ کی موت کو ماحولیات اور جنگلی حیات پر کام کرنے والے حلقوں میں بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: لاغر بھالو نے دنیا کے خوفناک مستقبل کی جھلک دکھا دی

    اپنے گھروں کو لاحق خطرات کی وجہ سے برفانی ریچھ کو معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے جنہیں قطبین (قطب شمالی اور قطب جنوبی) کہا جاتا ہے دنیا کے سرد ترین برف سے ڈھکے ہوئے مقامات ہیں۔

    عموماً منفی 57 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے یہ علاقے زمین کے درجہ حرارت کو بھی اعتدال میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی گلوبل وارمنگ نے ان علاقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان مقامات کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

    حال ہی میں چند سائنسدانوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 4 میل طویل ایک برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا اور سمندر پر بہنے لگا۔

    برفانی تودہ ٹوٹنے کی یہ ویڈیو بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔

    گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ پہلے ہی ایک بلند و بالا برفانی تودے کے آگے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آپ نے ہالی ووڈ کی معروف فلم ٹائی ٹینک تو ضرور دیکھی ہوگی جس میں ہزاروں مسافروں سے لدا بحری جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا جاتا ہے۔

    فلم کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ عرشے پر موجود ہیرو اور ہیروئن کو اچانک آئس برگ دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کے اندر کمروں میں موجود لوگوں کو بھی اپنی کھڑکی سے آئس برگ نظر آتا ہے۔

    ایک بلند و بالا برفانی تودے کو اپنے سامنے دیکھنا یقیناً ایک دل دہلا دینے والا منظر ہوسکتا ہے، وہ بھی کسی ایسے مقام پر جہاں اس کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔

    ایسا ہی ایک منظر اب گرین لینڈ کے ایک گاؤں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔

    بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ اس وقت نہایت غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں میں 169 افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے کچھ کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر برفانی تودے کی براہ راست زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    یہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں رہنے کی وجہ سے ایسے برفانی تودوں کا یہاں سے گزرنا عام سی بات ہے تاہم اس تودے کی جسامت یقیناً خوفزدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    خیال رہے کہ گرین لینڈ دنیا کے برفانی خطے یعنی قطب شمالی میں واقع ہے۔ قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔

    اس کا رقبہ 1 کروڑ 40 لاکھ 56 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ اس کی برف تیزی سے پگھلنے شروع ہوگئی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں یہاں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔