Tag: کلائمٹ چینج

  • ہیٹ ویو آپ کو کند ذہن بنا سکتی ہے

    ہیٹ ویو آپ کو کند ذہن بنا سکتی ہے

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ جاری ہے اور ہیٹ ویو معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو آپ کو کند ذہن بھی بنا سکتی ہے۔

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کی لہر یعنی ہیٹ ویو نہ صرف مجموعی انسانی صحت کےلیے شدید خطرناک ہے بلکہ اس کے منفی اثرات دماغ کو بھی کمزور بناتے ہیں اور نوجوانوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق 2016 کے موسم گرما میں ایسے 44 رضا کار طالب علموں پر کی گئی جن کی عمریں تقریباً 18 سال سے 24 سال کے درمیان تھیں۔

    ان میں سے 20 ایسے تھے جو پرانی طرز پر بنی ہوئی، کم اونچائی والی عمارتوں میں رہائش پذیر تھے جن میں ایئر کنڈیشنر نصب نہیں تھے۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    مزید 24 نوجوان کثیرالمنزلہ اور سینٹرل ایئر کنڈیشننگ والی عمارتوں میں رہ رہے تھے۔

    ہر طالب علم کے کمرے میں درجہ حرارت، کاربن ڈائی آکسائیڈ، شور اور ہوا میں نمی پر مسلسل نظر رکھنے والے سینسرز نصب کیے گئے تھے جبکہ ہر رضا کار کے چلنے پھرنے اور سونے جاگنے کے روزمرہ معمولات کی نگرانی کےلیے انہیں مخصوص قسم کے ہلکے پھلکے آلات بھی پہنائے گئے۔

    12 روز تک جاری رہنے والے اس مطالعے میں پہلے 5 دنوں میں گرمیوں میں عمومی درجہ حرارت رہا جس کے بعد والے 5 دنوں میں ہیٹ ویو کی وجہ سے شہر کا درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ہوگیا، آخری 2 دنوں میں درجہ حرارت بتدریج کم ہوتے ہوئے معمول پر آتا گیا۔

    اس دوران رضا کار طالب علموں کے اسمارٹ فونز پر انسٹال کی گئی ایپس کے ذریعے ان کی ذہنی آزمائشیں کی گئیں تاکہ ان میں یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیتیں جانچی جاسکیں۔

    مزید پڑھیں: اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    مطالعے میں طالب علموں کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا گیا اور معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو ایئر کنڈیشنر والی عمارتوں میں رہائش پذیر تھے، انہوں نے مذکورہ آزمائشوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ بغیر ایئر کنڈیشنر والی، گرم عمارتوں میں مقیم طالب علموں کی ذہنی کارکردگی، ان کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم رہی۔

    طالب علموں کی ذہنی کارکردگی میں یہ فرق اوسطاً 13 فیصد سے زیادہ رہا جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    خیال رہے کہ بوسٹن کا شمار امریکا کے سرد شہروں میں ہوتا ہے جہاں ہیٹ ویو کے دوران بھی درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سخت گرمی میں اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    اس کے برعکس ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج کو روکنے کےلیے ٹھوس، مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات نہ کیے گئے تو جسمانی امراض کے ساتھ ساتھ ہماری آئندہ نسلوں کو ذہنی کمزوری اور دماغی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    پیرس: فرانس میں زمین کو توانائی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سبز کائی سے بنائے گئے بلب تیار کیے گئے ہیں۔ یہ بلب ماحول سے کاربن کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ الجی لیمپس فرانسیسی حیاتیاتی کیمیا دان پیئر سیلجا نے تیار کی ہیں جو ایک عرصے سے خورد بینی مخلوق پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    algae-3

    ان کے مطابق ان کی اس تخلیق سے ہمارے گھروں میں موجود تیراکی کے پول مضر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ پانی کے ذخیرے جیسے سوئمنگ پول، تالاب وغیرہ سبز کائی کی افزائش کے لیے بہترین جگہیں ہیں۔

    پیئر کے مطابق یہ لیمپ دوہرا کام کرسکتے ہیں۔ ایک تو ایسی روشنیوں کی فراہمی جو زمین اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی کسی گیس یا توانائی کا اخراج نہیں کرتیں، دوسرا فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم کرنا۔

    algae-4

    انہوں نے بتایا کہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کم کرنے کا کام درخت سر انجام دیتے ہیں لیکن سبز کائی میں یہی کام کرنے کی 150 گنا زیادہ صلاحیت موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق دن کی روشنی میں ان لیمپوں کو اگر دھوپ میں رکھا جائے تو یہ دھوپ سے اپنی توانائی حاصل کریں گی جو فوٹو سینتھسس کا عمل کہلاتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کے ذریعہ پودے اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں۔

    algae-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ماحول دوست ایجاد ہے لیکن اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک بجلی سے روشن ہونے والے بلب جتنی روشنی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کائی کے خلیات کی ضرورت ہے اور فی الحال جو لیمپ تیار کیے گئے ہیں وہ بہت مدھم روشنی فراہم کر رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جسے روکنے یا اس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین سے انسانوں کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ یا درجہ حرارت میں اضافہ ہمارے معاشرتی رویوں سے لے کر معیشتوں اور بین الاقوامی تعلقات تک کو متاثر کرے گا۔ درجہ حرارت بڑھنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوجائے گی جس سے پینے کا پانی کمیاب، اور زراعت کے لیے پانی نہ ہونے کے سبب قحط و خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    دوسری جانب بڑھتا ہوا درجہ حرارت برفانی پہاڑوں یعنی گلیشیئرز کو پگھلا دے گا جس سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آجائے گا اور یوں سمندر کی سطح بلند ہو کر قریبی ساحلی علاقوں کو تباہ کرنے کا سبب بن جائے گی۔

    مزید پڑھیں: سخت گرمی میں ان طریقوں سے اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    اس فہرست میں کراچی کا نام بھی شامل ہے جو پاکستان کا ساحلی شہر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2025 تک کراچی کے مکمل طور پر ڈوبنے کا خدشہ  ہے۔ شہر قائد اس وقت ویسے ہی قیامت خیز گرمی کی زد میں ہے جس کے بعد اسے کم کرنے کے لیے اقدامات بے حد ضروری ہوگئے ہیں۔

    لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ اقدامات کے ذریعہ ہم درجہ حرات کو بہت زیادہ بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔


    کاربن کا کم استعمال

    چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کوئلے کو توانائی حاصل کرنے کے لیے جلایا جاتا ہے اور یہ گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    کوئلہ جلنے کے بعد کاربن گیس کا اخراج کرتا ہے جو ماحول میں حد درجہ آلودگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فضا میں کاربن کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چین سمیت کئی ممالک کوئلے کے استعمال کو کم کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اس کی جگہ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ شمسی توانائی مہنگی تو ضرور ہے مگر پائیدار اور ماحول دوست ہے۔


    برقی گاڑیاں

    گاڑیوں کا دھواں ماحول کی آلودگی اور درجہ حرات میں اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ تیز رفتار ترقی اور معاشی خوشحالی نے سڑکوں پر کاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پائیدار روڈ انفرا اسٹرکچر تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم کر کے ان کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بسوں، ریل گاڑیوں اور سائیکلوں کو فروغ دیا جائے۔ یہ دھواں اور آلودگی کم کرنے میں خاصی حد تک مددگار ثابت ہوں گے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت برقی گاڑیوں کا ہے جو ری چارج ایبل ہوں گی اور ان میں پیٹرول اور گیس کی ضرورت نہیں ہوگی۔


    جنگلات و زراعت

    گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہے۔ کسی علاقے کے طول و عرض میں جنگلات لگانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم رکھنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹر پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اگر درختوں اور جنگلات کی کٹائی اسی طریقے سے جاری رہی تو ہم صرف اگلی ایک صدی میں زمین پر موجود تمام جنگلات سے محروم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب زراعت نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے بلکہ کسی علاقے کی غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ ماہرین اب شہری زراعت پر زور دے رہے ہیں جس میں شہروں میں عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر زراعت کی جائے۔

    اس سے ایک طرف تو اس عمارت کے درجہ حرات میں کمی آئے گی جس سے اس کے توانائی (اے سی، پنکھے) کے اخراجات میں کمی آئے گی دوسری طرف انفرادی طور پر اس عمارت کے رہائشی اپنی غذائی ضروریات کے لیے خود کفیل ہوجائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    کیا آپ نے کبھی آسمان سے درختوں کو برستے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ شاید یہ سننے میں آپ کو عجیب لگے لیکن سری لنکا میں ایسا ہو رہا ہے جہاں آسمان سے درخت ’برستے‘ ہیں۔

    سری لنکا میں مختلف خالی مقامات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد کے ایسے گولے برسائے جارہے ہیں جو کچھ عرصے بعد اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا کو یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ صرف گذشتہ چند عشروں میں اس ملک کے آدھے جنگلات کو مختلف مقاصد کے لیے کاٹا جاچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون

    اب سری لنکا کا ارادہ ہے کہ سنہ 2017 تک وہ اپنے اس کھوئے ہوئے اثاثے کو کسی حد تک واپس حاصل کرلے۔

    آسمان سے برسائے جانے والے یہ گولے چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے ہیں جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آتے ہیں۔

    یہ طریقہ کار جاپانی کسانوں کا ایجاد کردہ ہے جنہوں نے کاشت کاری میں انسانی محنت کم کرنے کے لیے اسے ایجاد کیا۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 3 کھرب درخت موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے، صرف وہاں رہنے والے مقامی افراد ہی ان درختوں سے واقف ہیں جو جدید سہولیات سے عاری زندگی جی رہے ہیں۔

    ان میں سے کئی درخت ایسے ہیں جو اپنے اندر نہایت انوکھی کہانیاں سموئے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کوئی درخت کئی صدیوں سے موجود ہے، اور وقت کی اونچ نیچ کا گواہ بھی، کچھ درختوں نے بڑی بڑی آفتیں، سیلاب، زلزلے، طوفان، ایٹمی دھماکے سہے لیکن پھر بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    سنہ 1999 میں بیتھ مون نامی ایک فوٹوگرافر نے ایسے ہی نایاب لیکن گمنام درختوں کی تصاویر کھینچ کر انہیں دنیا کے سامنے لانے کا سوچا۔

    اس نے ایسے درختوں کی تلاش شروع کردی جو تاریخی یا جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے۔

    ان درختوں کی تلاش کے لیے اس نے طویل تحقیق کی، ملکوں ملکوں کی سیاحت کرنے والوں سے گفتگو کی، لوگوں سے پوچھا۔

    بالآخر اس نے اپنے منفرد سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں وہ پہلے برطانیہ گئی، پھر امریکا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا سفر کیا جہاں اس نے دور دراز علاقوں میں موجود قدیم اور انوکھے درختوں کی تصاویر کھینچی۔

    یہ درخت طویل عرصے تک موجودگی کے باعث مقامی قوم کے لیے ثقافتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے درختوں کی کئی اقسام خطرے کا شکار اقسام کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: طویل ترین درختوں کی کلوننگ

    بیتھ مون نے ان درختوں کی تصاویر کو ’ قدیم درخت: وقت کی تصویر‘ کے نام سے پیش کیا۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر درخت کی اپنی الگ ’زندگی‘ ہے۔ ہر درخت کئی عشروں سے موجود ہے اور اس نے وقت کے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان نایاب اور انوکھے درختوں سے ملتے ہیں۔


    ڈریگن بلڈ ٹری

    یمن کے جزیرہ سکوترا میں پائے جانے اس درخت کی عمر 500 سال ہے۔ یہ درخت ہر قسم کے حالات اور موسموں سے لڑنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    شاخ در شاخ پھیلا ہوا یہ درخت ایک چھتری جیسا ہے جو بے شمار زندگیوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔

    سال میں 2 بار گاؤں والوں کو ان درختوں کے تنے کا کچھ حصہ کاٹنے کی اجازت ہے جس سے یہ سرخ رنگ کا قیمتی محلول حاصل کرتے ہیں جو نہایت بیش قیمت ہوتا ہے اور دوائیں بنانے کے کام آتا ہے۔


    صحرا کا پھول

    ڈیزرٹ روز نامی یہ درخت بھی جزیرہ سکوترا میں ہی واقع ہیں۔ انہیں بوتل نما درخت بھی کہا جاتا ہے۔

    جس مقام پر یہ درخت موجود ہیں وہ علاقہ اپنے منفرد اور انوکھے پس منظر کی وجہ سے اس دنیا سے الگ ہی کوئی مقام معلوم ہوتا ہے۔


    اڈنسونیا گرنڈیڈر

    مشرقی افریقی ملک مڈغا سکر کے ساحلی شہر مورندوا میں پائے جانے والے ان درختوں کی لمبائی 100 فٹ تک ہوتی ہے۔ ان درختوں کو جنگل کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔

    ان درختوں کی اوسط عمر 800 سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے درختوں کی یہ نایاب ترین قسم اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اس قسم کے صرف 20 درخت باقی رہ گئے ہیں۔

    صرف مڈغا سکر میں پائے جانے والے ان درختوں کا یہاں پورا جنگل موجود تھا۔


    کاپوک درخت

    امریکی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ پر پایا جانے والا کاپوک درخت دیکھنے میں نہایت منفرد ہیئت کا حامل ہے۔

    فوٹوگرافر نے اس درخت کو سنہ 1940 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں دیکھا تھا۔ ’60 سال میں یہ درخت عظیم بن چکا ہے‘۔

    اس درخت کی جڑیں زمین کے اوپر 12 فٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔


    افٹی ٹی پاٹ

    مڈغاسکر میں ہی موجود یہ درخت چائے دان جیسا ہے لہٰذا مقامی افراد نے اسے یہی نام دے ڈالا۔

    یہ درخت 12 سو سال قدیم مانا جاتا ہے۔ اس کا تنا 45 فٹ کے پھیلاؤ پر مشتمل ہے اور اس کے اندر 31 ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔


    تیر کے ترکش

    جنوبی افریقی ملک نمیبیا میں پائے جانے والے درختوں کی اس قسم کو زمین پر موجود تمام درختوں میں نایاب اور غیر معمولی ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درخت صدیوں پرانے ہوسکتے ہیں۔

    یہ درخت 33 فٹ بلندی تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان درختوں کی کھوکھلی شاخیں کاٹ کر ان سے تیروں کے ترکش بناتے ہیں۔

    سنہ 1995 میں ان درختوں کے جنگل کو نمیبیا کی قومی یادگار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔


    رلکیز بائیون

    کمبوڈیا میں موجود 12 ویں صدی کے ایک بودھ مندر میں موجود یہ درخت کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کا ہی حصہ لگتا ہے۔ درخت کی شاخیں اور مندر کے در و دیوار آپس میں پیوست ہیں۔

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدیم وجود کو سہارا دیے کھڑے ہیں اور صرف مندر کو گرانا یا درخت کو کاٹنا نا ممکن لگتا ہے۔

    مندر کے پیچھے ان درختوں کا جنگل موجود ہے جس نے انسانوں کی جانب سے اس مندر کو ترک کیے جانے کے بعد اس پر ’قبضہ‘ کرلیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • غیر ضروری روشنیاں بجھا کر زمین کو آرام دیں

    غیر ضروری روشنیاں بجھا کر زمین کو آرام دیں

    زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے آج علامتی طور پر ارتھ آور منایا جائے گا۔ آج شب 8 سے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بند کر کے زمین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں کو آرام دیا جائے گا۔

    زمین کے لیے ایک گھنٹہ یا ارتھ آور کو منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔

    earth-hour-3

    earth-hour-4

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    ارتھ آور منانے کا مقصد اس طرف بھی توجہ دلانا ہے کہ دنیا میں آبادی میں تیزی سے اضافہ اور توانائی کے وسائل میں کمی آرہی ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے توانائی کی بے تحاشہ پیداوار سے ماحول اور زمین پر شدید منفی نقصانات مرتب ہورہے ہیں۔

    اگر ہم خلا سے زمین کی طرف دیکھیں تو ہمیں زمین روشنی کے ایک جگمگاتے گولے کی طرح نظر آئے گی۔ یہ منظر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت لگتا ہے، مگر اصل میں روشنیوں کا یہ طوفان زمین کو بیمار کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

    earth-2

    nasa

    ماہرین ان روشنیوں کو برقی یا روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دبیز دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاؤں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    galaxy

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    دوسری جانب برطانوی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن (طریقہ کار) میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار ایک ہفتہ جلد آرہا ہے جس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    تو پھر آج شب 8 سے 9 بجے کے درمیان غیر ضروری روشنیوں کو بجھا دیں اور زمین سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز میٹھے پانی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں جہاں سے گرمیوں میں برف پگھل کر دریاؤں میں آتی ہے۔ ہر سال برفباری میں ان گلیشیئرز پر برف جمنا، اور پھر گرمی کے موسم میں اس برف کا پگھل کر نیچے آںا دنیا بھر میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    تاہم اب درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کے 2 نقصانات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ جب ان پگھلتے گلیشیئرز سے بہت سارا پانی دریاؤں میں آئے گا تو دریا کی سطح بلند ہوجائے گی جس سے آس پاس کی آبادیوں کو سیلاب کا سامنا ہوگا۔

    یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہے گا، آہستہ آہستہ گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے جس کے بعد دریاؤں میں پانی آنا بند ہوجائے گا اور یوں پانی کی قلت واقع ہوتی جائے گی۔ یہ ان گلیشئرز کے پگھلنے کا دوسر اور خطرناک نقصان ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    ایک اور وجہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سردیوں کے موسم کی مدت میں کمی ہے۔ اب دنیا بھر میں گرمیاں جلدی آجاتی ہیں، دیر تک رہتی ہیں، اور بہت شدید ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سردیوں کا موسم مختصر وقت کے لیے آتا ہے۔

    گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیئروں کی برف بھی زیادہ مقدار اور رفتار سے پگھل جاتی ہے۔

    جن مقامات پر گلیشیئرز موجود ہوتے ہیں وہ علاقے دوسرے علاقوں کی نسبت ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اس مقام پر رہنے والے انسان اور جنگلی حیات اس ٹھنڈے موسم کے عادی ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    تاہم اب ان مقامات کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور یہاں معمول سے زیادہ گرمی ہو رہی ہے جس سے یہاں کے رہنے والے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

    اس مشکل سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ہمالیائی خطے میں رہنے والے ایک سائنسدان سونم ونگ چک نے ایک انوکھا طریقہ نکالا۔

    لداخ میں واقع ان کے گاؤں میں اب گلیشیئرز سے اتنا پانی نہیں آتا جس سے ان کی زمینیں سیراب ہوں یا پانی کی ضروریات پوری ہیں۔

    چنانچہ انہوں نے گاؤں والوں کی مدد سے مصنوعی گلیشیئرز تخلیق کرنا شروع کردیے۔

    ice-2

    اس کے لیے وہ سخت سردیوں کے موسم میں کسی مقام پر کچھ برف جما کر اس کے اندر ایک پائپ نصب کردیتے ہیں۔ اس پائپ کے ذریعے سے پانی نکل نکل کر گلیشیئر کے اوپر جمتا جاتا ہے جس سے مصنوعی گلیشیئر کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    ice-4

    ice-3

    آہستہ آہستہ یہ ایک تکون پہاڑی کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ اسے برفانی اسٹوپا کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ مہاتما بدھ کی دفن شدہ راکھ کے مقام اسٹوپا کے مماثلت سے رکھتے ہیں۔

    یورپی جیو سائنس یونین کا کہنا ہے کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ کے 70 فیصد برفانی گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں چترال اور گلگت بلتستان میں واقع 5000 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گزشتہ برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز سے بہنے والے پانی کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح میں اضافہ ہوا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات دن بدن سامنے آتے جارہے ہیں اور حال ہی میں ایک تحقیق میں متنبہ کیا گیا کہ کلائمٹ چینج کے باعث مستقبل کے فضائی سفر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج مستقبل میں فضائی سفر کو بے حد غیر محفوظ بنا دے گا جس کے بعد پروازوں کے نا ہموار ہونے کے باعث مسافروں کے زخمی ہونے اور دوران سفر ان میں بے چینی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: فضائی حادثے کی صورت میں ان اقدامات سے جان بچانا ممکن

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان ناہموار پروازوں کی وجہ سے جہازوں کو نقصان پہنچنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد جہازوں کی مینٹینس پر اضافی رقم خرچ ہوگی، یوں فضائی سفر، سفر کا مزید مہنگا ذریعہ بن جائے گا۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے شمالی بحر اقیانوس کے اوپر فضائی گزرگاہ کا مطالعہ کیا۔ ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ پروازوں کی رفتار اور ہمواری پر منفی اثر ڈالے گا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کلائمٹ چینج کے ان منفی اثرات کی وجہ سے فضائی سفر کی خطرناکی میں 59 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر کے دوران پرواز کا معمولی سا ناہموار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متلی اور گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    تاہم مستقبل کی جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق فضائی سفر میں مسافروں کو گہرے زخم لگنے کا خدشہ ہوگا۔

    ان کے مطابق فضائی سفر کی یہ ناہمواری اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں سوار تمام مسافروں کو اسپتال منتقل کرنا ہوگا تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

    تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ اثرات صرف بحر اقیانوس کے اوپر پروازوں پر مرتب ہوں گے یا دیگر خطوں میں بھی ایسی صورتحال پیش آئے گی۔

    تاہم ماہرین نے یہ ضرور کہا کہ جس علاقے میں موسمیاتی تغیرات کے جتنے زیادہ نقصانات مرتب ہوں گے، وہاں فضائی سفر اتنا ہی خطرناک ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔