Tag: کلاسیکی ادب

  • شیریں کا حسنِ‌ عالم افروز اور فرہاد کی دیوانگی

    شیریں کا حسنِ‌ عالم افروز اور فرہاد کی دیوانگی

    شیریں فرہاد کی لوک داستان کو قدیم ایران سے جوڑا جاتا ہے اور بعض اس خیال کو درست نہیں‌ سمجھتے۔ سینہ بہ سینہ صدیوں سے منتقل ہوتی اس مشہور لوک داستان کو منظوم بھی کیا گیا اور اسے نثر میں بھی پرویا گیا ہے۔

    عبدالغنی صبرؔ لکھنوی کی کتاب افسانۂ عاشقِ دلگیر شیریں فرہاد کلاسیکی ادب کا حصّہ ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ شیریں فرہاد کا قصہ نظم میں موجود تھا۔ میں نے بعض احباب کے اصرار سے اس کو سلیس اردو میں نثر کیا ہے۔

    کئی ابواب پر مشتمل اس داستان میں اردو کے قدیم الفاظ پڑھنے کو ملیں گے اور طرزِ بیان قصّے کا ہے۔ اس داستانِ عشق پر ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں‌ بھی بنائی جاچکی ہیں، ہم مصنّف کی کتاب سے یہ دو ابواب فرہاد اور شیریں‌ کی پہلی ملاقات اور نہر کھودنے سے متعلق نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    فرہاد کا آنا اور تیرِ عشق کھانا، نہرِ شِیر شیریں کے حکم سے بننا
    شیریں کا نام اس لیے شیریں مشہور تھا کہ اُس کی غذا شِیر تھی۔ اتفاقاً ایک دن شِیر کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی، شیریں ملول اور دل گیر ہوئی۔ کنیزوں سے اس کا تذکرہ کیا، بیانِ ماجرا کیا۔

    خیال تھا کہ کوئی ایسی صورت ہوتی کہ چرا گاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہوتی، ہر وقت شِیر خواری ہوتی۔ اتنے میں شاپور عاقل دستور بھی آیا۔ شیریں کو ملول دیکھ کر بدحواس ہوا، گھبرایا۔ پوچھا: ملکہ! خیر ہے، کیا فکر ہے، کس بات کا خیال ہے، کیوں دل نڈھال ہے؟

    شیریں نے کہا: یہاں ہر طرح کی راحت ہے مگر ایک حیرانی ہے۔ شِیر وقت پر نہیں ملتا، یہی پریشانی ہے۔ یہاں سے چراگاہ دور ہے۔ پہاڑ بیچ میں حائل ہے۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ چرا گاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہو تاکہ شِیر ملنے میں مجھے ہر وقت آسانی ہو۔ مجھے غذا نہ ملنے سے دشواری ہوتی ہے۔ شِیر ہی میری غذا ہے۔ اُس کی تاخیر سے حیرانی ہوتی ہے۔ شاپور بصد ادب گویا ہوا: یہ کوئی مشکل نہیں۔ حضور کے حکم کی دیر تھی، نہر جلد تیار کراتا ہوں۔ میرا ایک پیر بھائی فرہاد نامی ہے، اُس کو بلاتا ہوں۔ وہ فنِ ریاضی میں طاق شہرۂ آفاق ہے۔ رمل، ہندسہ، نجوم خوب جانتا ہے۔ تقدیر یاوری نہیں کرتی اس لیے افلاس میں پھنسا ہے۔ وہ کوہ کو دم بھر میں کاہ کر دے گا۔ دامن گوہرِ مقصود سے بھر دے گا۔

    شیریں نے حکم دیا اُس کو جلد بلا کر حاضر کرو۔ شاپور وہاں سے اُٹھا، چین کے ملک میں جہاں فرہاد رہتا تھا، لوگوں کو بھیجا۔ وہ شاہی طلب کو قسمت کی یاوری سمجھ کر فوراً آیا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ بدقسمتی سے اور آفت میں پھنسوں گا، تمام عمر کا غم مول لوں گا۔

    فرہاد کا آنا اور شیریں پر عاشق ہو کر نہر کھودنا
    جس قدر فرہاد کے آنے میں تاخیر ہوتی، شاپور پریشان ہوتا، فکر دامن گیر ہوتی۔ غرض کچھ عرصہ کے بعد فرہاد آیا۔ شاپور سے ملا۔ شاپور اپنے ساتھ لے کر شیریں کے محل کے دروازے پر آیا۔ عشق نے اپنی صورت دکھائی، نئی رنگت جمائی۔ یہ خانہ خراب اپنی فکر میں لگا، فرہاد پر قبضہ کیا۔ سایہ کی طرح ساتھ ہوا، ہاتھ میں ہاتھ ہوا۔ اسی نے زلیخا کو یوسف پر مائل کیا۔ اپنا مطلب حاصل کیا۔ نل دمن(ایک عاشق اور معشوقہ کا نام) کا قصہ مشہور عالم ہے۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں ہر ایک مبتلائے غم ہے۔ لیلی مجنوں کو کون نہیں جانتا، درد کی طرح دل میں گھر کرتا ہے۔ دکھلائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کو زیر و زبر کرتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا درد ہے جس سے کسی کو ہوتی شفا نہیں۔ وامق و عذرا کی محبت بلبل و گل کی الفت سب پر عیاں ہے۔

    غرض جب شاپور فرہاد کو لے کر در دولت پر حاضر ہوا، عرض بیگی نے ملکہ کو خبر دی۔ خواصوں کو حکم ہوا: جاؤ پس پردہ کرسی پر اُس کو بٹھاؤ۔ اور خود بھی نہایت ناز و ادا سے پردے کے قریب جلوہ فرما ہوئی۔ دہنِ شیریں سے کلام کر کے فرہاد کے عیش کو تلخ کام کیا۔ شیریں کے حسنِ عالم افروز کی جھلک دیکھ کر فرہاد دیوانہ تو ہو ہی چکا تھا۔ کلام سُن کر بے ہوش از خود فراموش ہوا۔ چکر کھا کر زمین پر گرا۔ کوہ کن کے بدن میں رعشہ پڑا۔ خواصوں کو ہوش میں لانے کا حکم ہوا۔ خود بھی اس کی خبر گیر ہوئی۔

    بدقت ہوش آیا۔ شیریں نے اِدھر اُدھر کے فرح آمیز تذکرے چھیڑ کر نہایت انداز سے دلی مقصد کا اظہار کیا۔ فرہاد کو اور زیادہ بے قرار کیا۔ یوں گویا ہوئی: میں نے سُنا ہے کہ تو سنگ تراشی میں استاد ہے۔ اپنا مثل نہیں رکھتا ہے۔ مجھے ایک نہر بنوانا ہے، جس میں پانی کے بدلے شِیر لہریں مارے۔ چراگاہ سے میرے محل تک آوے۔ اگر یہ کام تجھ سے ہو جائے گا، منہ مانگا انعام پائے گا۔ خوش ہو جائے گا۔

    فرہاد نے کہا: جو حکم ہو بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ بہت جلد چراگاہ سے یہاں تک نہر پہنچاؤں گا۔ ایک مہینہ کی مہلت ملے۔ اسی میعاد میں نہر تیار کر کے شِیر بہا دوں گا، اس کام میں جان لڑا دوں گا۔ فرہاد یہ وعدہ کر کے وہاں سے چلا اور چراگاہ کا پتا لگا کر وہاں تک پہنچا۔ ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ آسانی سے نہر کھودنے کی ترکیبیں نکالنے لگا۔ کسی طرف فاصلہ زیادہ تھا، کسی جانب پہاڑ اونچا نظر آتا تھا۔ ریاضی کے اصول پر نظر کر کے پیمائش کی، آخر کار ایک سمت ڈوری ڈالی اور تیشہ ہاتھ میں لے کر الا اللہ کہہ کر کوہ پر مارا۔ عشق میں دیوانہ تھا۔ اس کے تیشہ سے کوہ میں لرزہ پڑا۔ جس سنگ پر پڑتا پارہ پارہ کرتا۔ اسی طرح اپنے وعدہ کے اندر اُس نے پہاڑ کو کاٹ کر نہایت عمدگی سے راہ صاف کی اور شیریں کے محل تک نہر پہنچا دی۔ تمام ملک میں خبر ہوئی۔

    تماشائیوں کا ہر وقت مجمع ہونے لگا۔ جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا۔ شدہ شدہ شیریں بھی آگاہ ہوئی۔ انیسوں جلیسوں کو ساتھ لے کر دیکھنے آئی۔ نہر دیکھ کر بحرِ حیرت میں ڈوبی۔ فرہاد کی تعریف کی۔ بہت کچھ انعام و اکرام دینے کا حکم دیا، مگر وہ الفت کا دیوانہ تھا، کچھ نہ لیا۔

  • میں نے کیا دیکھا؟

    میں نے کیا دیکھا؟

    ​کل میرے پوتے امین کے بچّے کا عقیقہ تھا۔ جب تمام مہمان جمع ہوگئے تو بچّوں کو یہ خبط ہوا کہ دادی اماں کی تصویر اُتاری جائے۔

    مجھ سے آکر کہا تو میں نے ایک سرے سے سب کو جھڑک دیا، مگر ضدی بچّے کیا ماننے والے تھے، اس صلاح میں ماؤں کو شریک کیا اور ان نیک بختوں نے اپنے اپنے شوہروں کو بھی راضی کر لیا۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ مجھ کو بھی ماننا پڑا اور تصویر اترنی شروع ہوئی۔ بیچ میں مَیں بیٹھی، دائیں بائیں بہوئیں، اُن کے پیچھے اُن کے شوہر اور ان سے ذرا بلندی پر اُن کے بچّے۔ اس قطار میں بیچوں بیچ میاں امین اپنے بچے کو لیے ہوئے۔

    اس تصویر کی غرض تو صرف یہ تھی کہ میں نہایت خوش نصیب عورت ہوں، جس کے اللہ رکھے اتنے سارے بچّے آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ تصویر اُتر گئی اور سب نے ایک ایک کر کے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ ایمان کی بات یہ ہے میں بے حد خوش تھی۔ خدا نے مجھ کو یہ دن دکھایا۔ میری عمر اس وقت ایک سو دس برس کی تھی، مگر جب مجھ کو یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کیا کیا کام کیے، دیکھا تو ایک سناٹا سا آگیا۔ میں خاموش اپنے دالان میں چلی آئی۔ افسوس صد افسوس میں نے کوئی کام بھی ایسا نہ کیا تھا، جس کو آج فخر سے بیان کروں۔ البتہ بہوؤں پر ظلم میں نے کیے، ایک کو طلاق تک دلوائی۔ کنبے والوں کو ذلیل مَیں نے کیا اور بیوہ بھاوجوں سے ماماؤں کا کام میں نے لیا۔ غرض کرنے میں تو میں بد ترین عورت تھی، ہاں دیکھنے میں دو واقعے دیکھے جو مُدّتیں گزر جانے پر بھی میری آنکھ کے سامنے تھے۔

    میں دو بچّوں کی ماں تھی۔ ہماری دیوار کے اُس پار رسالدار صاحب رہتے تھے۔ اُن کی بیوی نمازی پرہیزگار کہ اللہ سب لڑکیوں کو ایسا کرے۔ ان کی ماما کی نواسی کی ایک لڑکی شکورن تھی، جس کو وہ اپنے بچّوں سے زیادہ اس لیے چاہتی تھیں کہ وہ بن ماں باپ کی تھی۔ جب رسالدار صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی آمدنی برائے نام رہ گئی، پھر بھی انھوں نے اس لڑکی کو اس طرح بیاہا کہ ایک میں کیا، سارا شہر تعجب کرتا تھا۔ خدا کی شان ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کی بیوی کے پاس دانت کریدنے کو تِنکا تک نہ رہا۔ آن بان کی عورت تھیں، تمام تکلیفیں گوارا کیں، مگر گھر کی ہَوا نہ بگڑنے دی۔ خدا جانے رسالدار صاحب کی زندگی کا یا بعد کا، ایک بنیے نے اٹھارہ روپے کی نالش کی اور محلہ بھر میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ وہ قُرقی لے کر آیا ہے۔ میں بھی گئی، وہ دہاڑوں رو رہی تھیں۔ میں نے کہا، آپ کی کنیز شکورن کا خاوند ڈیڑھ سو روپے کا داروغۂ جیل ہے۔ اس کو اطلاع دیجیے۔ اٹھارہ روپے کی رقم ایسی نہیں ہے کہ وہ نہ دے سکے۔ آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے کہ وہ آج بیگم بنی بیٹھی ہے۔ فرمانے لگیں خیر، مگر جس کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا اب اُس کے آگے ہاتھ پھیلانے کو جی نہیں چاہتا۔ میرے زیادہ اصرار سے بہ مشکل رضامند ہوئیں اور میں اُن کو ڈولی میں بٹھا کر شکورن کے گھر لے چلی۔

    موسم گرم تھا، دوپہر کی دھوپ چھٹ چکی تھی، مگر ہم مصیبت کے مارے اس حالت میں وہاں پہنچے۔ ڈولی سے اتر کر کوٹھی کے برآمدے میں کھڑے ہو گئے۔ ہماری اطلاع ہوئی اور ایک ماما نے آ کر کہا ”بیگم صاحب رسالدارنی کو سلام کہتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ ٹھہریے میں چار بجے کے بعد آپ سے مل سکوں گی۔

    ماما یہ کہہ کر چلی گئی، قیامت خیز دھوپ ہمارے سر پر تھی۔ کہار مزدوری کے واسطے ہم کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ رسالدارنی واپسی کا تقاضہ کر رہی تھیں، مگر میں اُن کو سمجھا بجھا کر ٹھہرا رہی تھی۔ مجھ پر تمام عمر ایسی مصیبت کبھی نہیں گزری۔ لُو کے جھکڑ ہمارے سر پر تھے۔ خدا خدا کر کے چار بجے، مگر کیسے چار اور کس کے پانچ۔ چھ بجے کے قریب جب میں نے دوبارہ اطلاع کروائی تو ہم کو اندر آنے کی اجازت ملی۔ شکورن سر سے پاؤں تک سونے میں ٹوٹ رہی تھی۔ میں نے اُس سے اٹھارہ روپے کی التجا کی جس کو سُن کر اُس نے ایک قہقہہ مارا اور کہا، ”بے شک میرا بچپن رسالدارنی کے پاس گزرا، ممکن ہے انھوں نے میری خدمت بھی کی ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ میں ان کو اٹھارہ روپے مفت میں دے دوں۔ اچھا میں جاتی ہوں آپ مجھ کو پھر یاد دلائیے گا۔“

    وہ ایسا نازک وقت تھا کہ میں شکورن کو دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔ اُسی شام کو رسالدار صاحب کے مکان پر قرقی آئی اور تھوڑی دیر کے بعد ہم نے سنا کہ اسباب قرق ہونے سے پہلے رسالدارنی افیون کھا کر اس دنیا سے رُخصت ہوگئیں۔

    آج رسالدارنی اور شکورن دونوں گزر چکے ہیں، مگر میں نے یہ وہ واقعہ دیکھا کہ اب بھی جب کبھی خیال آتا ہے اور شکورن کی صورت نظر آتی ہے تو مَیں بَید کی طرح کانپ جاتی ہوں۔ امیری میں نخوت اور غرور کی ایسی مثال اور احسان فراموشی کی ایسی نظیر شاید کوئی اور نہ ملے۔

    دوسری مثال مفلسی کی ہے اور اس طرح شروع ہوتی ہے جب سردار ابنِ علی صاحب کا انتقال ہو گیا تو ان کی جائیداد بھی قرضہ کو کافی نہ ہوسکی۔ بیگم بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی، میرے سامنے چھوٹی سے بڑی ہوئی، امیری اس کی ہر بات سے ٹپکتی تھی اور غربا پروری جو امارت کا اصلی جوہر ہے اس کا خاص شیوہ تھا۔ زمانے نے اس کو یہ وقت دِکھایا کہ محلوں میں بسر کرنے والی بیگم ایک ٹوٹے سے مکان میں ڈیڑھ روپیہ مہینہ پر آکر رہی۔ دو برس کی بچی گود میں تھی، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ کبھی لالہ کی ٹوپیاں سیتی اور کبھی درزی کے کرتے۔ بدنصیب بیگم کے بنے ہوئے زمانہ کی ایک نامعلوم انّا تھی یا کھلائی، رحمت نامی عورت ہر وقت ساتھ لپٹی رہتی تھی۔

    عید سے ایک روز قبل کا ذکر ہے کہ صُبح ہی صبح ہم نے بیگم کے دروازے پر غُل غپاڑے کی آواز سُنی۔ مَیں کوٹھے پر چڑھی، دیکھتی کیا ہوں کہ دو مسٹنڈے لڑکے باہر کھڑے ہیں۔ بیگم جا نماز پر خاموش بیٹھی تھی اور رحمت للکار للکار کر کہہ رہی تھی کہ چاہے تم بھیک مانگو، چوری کرو، برتن بھانڈا بیچو، مگر میرے ساڑھے نو روپے اِس وقت دَھر دو۔ میں نیچے اُتری، پردہ کروا کر اندر گئی اور کہا، ” کیا معاملہ ہے۔‘‘

    بیگم نے کہا، کیا عرض کروں۔ میں نے تو ان سے کبھی قرض نہیں لیا جو خُدا دیتا ہے ان کی خدمت کر دیتی ہوں۔ اب یہ فرماتی ہیں کہ میرے ساڑھے نَو روپے ابھی دو، نہیں تو میں اپنے مَردوں کو بُلا کر یہ سب چیزیں اٹھوا لوں گی۔‘‘

    رحمت نے کہا، ہاں سچ ہے، تم کیوں لینے لگیں، تمہارے باوا آ کر یہ خرچ اٹھاتے ہوں گے ۔ تمہاری آمدنی کیا ہے ، دنیا بھر سے قرض لائیں اور تم دونوں ماں بیٹیوں کا پیٹ پالا۔ اب میں جھوٹی اور میرے باپ داد جھوٹے۔ کل شام کا وعدہ تھا ۔ میرے بچوں کی عید اینڈ ہو رہی ہے۔ سیدھی طرح دیتی ہو تو دو نہیں تو ہم گُھس کر لے لیں گے۔‘‘

    بیگم نے پھر کہا، مجھے تو تمہارا ایک پیسہ بھی دینا نہیں ہے، نہ میں نے کوئی وعدہ کیا۔ میرے پاس یہ دو برتن ہیں ایک پتیلی اور پانی پینے کا کٹورا، تم شوق سے لے جاؤ۔“ رحمت نے کہا، یہ دو برتن تو آٹھ آنے کے بھی نہیں ہیں، بچی کے ہاتھ میں چاندی کی چوڑیاں بھی تو ہیں وہ دے دو۔“

    یہ سن کر میں نے کہا، بُوا رحمت! تم قسم کھا سکتی ہو کہ تمہارے روپے بیگم پر ہیں۔“

    سو دفعہ، مسجد میں رکھ دو، قرآن پر رکھ دو ، دیکھو اٹھا لیتی ہوں یا نہیں، قرضہ نہ سہی تنخواہ سہی، میں جو ان کے ہاں روز سوتی تھی تو کیا مفت سوتی تھی۔ ان کے باوا دادا کی نوکر تھی “رحمت نے اتنا کہہ کربچی کو ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور بلکتی ہوئی بچی کی چُوڑیاں اُتار لیں، ہر چند بیگم نے ہاتھ جوڑے اور میں نے خوشامد کی، مگر وہ سنگدل نہ پسیجی اور چُوڑیاں لے کر چلتی بنی۔ میں بھی اس کے بعد تھوڑی دیر بیگم کے پاس بیٹھی ۔ اُس کی آنکھ سے کسی طرح آنسو نہ تھمتا تھا۔ دنیا کا جو دستور ہے اُس کے موافق میں بھی سمجھا بُجھا کر اپنے گھر چلی گئی۔ شام کے وقت جب میں بیٹا بیٹیوں، بہوؤں اور دامادوں کے سلام سے فارغ ہوگئی تو بیگم کے پاس پہنچی۔

    جاڑوں کے دن تھے اور مَلمل کے اکہرے دوپٹہ میں بیگم اپنی بخار زدہ بچی کو لیے اندھیرے گھپ میں بیٹھی سکڑ رہی تھی۔ میری آواز سنتے ہی بچی دوڑی ہوئی آئی، پاؤں سے لپٹ گئی اور کہنے لگی،

    ”اچھی اماں! میری چوڑیاں دے دو۔“

    بچی کا کہنا میرے کلیجے میں تیر کی طرح گُھس گیا۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھا لیا ، تو وہ بخار میں بُھن رہی تھی۔ میں اُس معصوم کو گود میں لئے ہوئے اپنے گھر آئی ۔ لالٹین لے کر بیگم کے یہاں پہنچی تو وہ عِصمت کی دیوی حسرت سے میرا منہ تکنے لگی ۔ برس کا برس دن تھا اور یہ قدرت کا بہترین نمونہ جس کی عُمر اکیس بائیس برس سے زیادہ نہ ہوگی، خود غرض مردوں کی جان کو بیوگی کے آنسوؤں سے رو رہی تھی۔ معصوم بچی رہ رہ کر بخار میں اچھل رہی تھی اور اپنی چوڑیوں کو یاد کر رہی تھی۔

    اس بچی پر جو کچھ ستم ایک ظالم عورت کے ہاتھ سے ٹوٹے، مَرنے کے بعد بھی اس کو نہ بُھولوں گی۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میری عمر کے یہ دونوں واقعے عورت کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیسا مبارک ہو گا وہ وقت جب ہم میں وہ عورتیں پیدا ہوں گی جو احسان فراموشی کی جانی دشمن اور اپنی بہنوں کی سچی خدمت گزار ہوں گی۔

    ​(مصورِ غم علامہ راشدالخیری کے قلم سے)

  • ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کرّار نوری کا یومِ وفات ہے وہ 1990ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    کرّار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ جے پور، دہلی کرار نوری کا وطن تھا جہاں انھوں نے 30 جون 1916ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کرلی۔ بعد ازاں کراچی چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

    کرّار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری بھی کی اور ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے نعتیہ کلام ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

    کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔

    ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
    ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

    مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
    مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا

    دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
    پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    آج اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم منظور حسین شور کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 8 جولائی 1994ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کا خاندانی نام منظور حسین اور تخلّص شور تھا۔ وہ 15 دسمبر 1916ء کو امراوتی (سی۔ پی) ہندوستان میں پید اہوئے۔ میٹرک اور ایم اے کرنے کے بعد قانون کی سند حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔

    تعلیمی مراحل طے کرنے بعد ناگپور کے شعبہ ادبیات فارسی اور اردو میں بطور ریڈر ملازم ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج، گجرات پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج، لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے جہاں جامعہ کراچی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

    شور صاحب بنیادی طور پر نظم گو شاعر تھے، لیکن غزل بھی کہا کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’نبضِ دوراں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد کے مجموعے بالترتیب ’دیوارِ ابد‘، ’سوادِ نیم تناں‘، ’میرے معبود‘ ، ’صلیبِ انقلاب‘ ، ’ذہن و ضمیر‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کا تمام کلام رفعتِ خیال اور غزل و نظم کی تمام تر نزاکتوں اور لطافتون سے آراستہ ہے۔

    شور صاحب نے چار کتابیں ’حشرِ مرتب‘ ، ’انگشتِ نیل‘ ، ’افکار و اعصار‘ ،’اندر کا آدمی‘ مرتّب کیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
    میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے

  • کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    اردو ادب، ریختہ اور کلاسیکی دور کے مختلف ادبی تذکروں میں سیادت حسن سیّد جلال الدین حیدر خاں کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے جن کی عرفیت آغا حجو تھی اور شرف ان کا تخلص۔ شاعری ان کا میدان تھا جس میں‌ انھیں آتش جیسا استاد نصیب ہوا۔

    آغا حجو کا درست سنِ پیدائش تو معلوم نہیں‌، لیکن ادبی محققین کا خیال ہے کہ وہ 1812ء میں پیدا ہوئے۔ وطن ان کا لکھنؤ تھا۔ اپنے دور کے نام ور شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگردوں میں‌ سے ایک تھے۔

    آغا حجو غدر سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ آغا حجو شرف کی تین تصانیف ’’شکوۂ فرنگ‘‘، ’’افسانۂ لکھنؤ‘‘ اور ’’دیوانِ اشرف‘‘ دست یاب ہوئیں۔ آج رفتگاں کے باب سے اسی شاعر کا کلام آپ کی خدمت پیش ہے۔

    غزل
    جب سے ہوا ہے عشق ترے اسمِ ذات کا
    آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا

    الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
    اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا

    سرخی کی خطِ شوق میں حاجت جہاں ہوئی
    خونِ جگر میں نوک ڈبویا دوات کا

    اے شمعِ بزمِ یار وہ پروانہ کون تھا
    لَو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا

    اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
    دَم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا

    قدسی ہوے مطیع، وہ طاعت بشر نے کی
    کُل اختیار حق نے دیا کائنات کا

    ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
    قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا

    رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو؟
    مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا

    دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
    خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا

    شاعر: آغا حجو شرف

  • معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان کے معروف شاعر، مضمون نگار اور مترجم عرش ملسیانی کا یومِ وفات ہے۔ ان کا خاندانی نام بال مکند تھا اور عرش تخلص جنھیں‌ دنیائے ادب میں عرش ملسیانی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ملسیان ان کا آبائی علاقہ ہے اور یہ ان کے نام سے جڑا رہا

    ستمبر 1908ء میں‌ جالندھر کے ایک قصبے ملسیان میں آنکھ کھولنے والے بال مکند کے والد بھی شعروسخن کی دنیا میں ممتاز تھے۔ ان کے والد جوش ملسیانی اپنے وقت کے نام ور اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ یوں‌ شاعری اور لکھنے پڑھنے کا شوق عرش ملسیانی کو گویا ورثے میں ملا۔

    عرش پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور محکمۂ نہر سے وابستہ رہے۔ بعد میں لدھیانہ کے ایک اسکول میں ملازم ہوئے۔ عرش کو افتادِ طبع دہلی لے آئی جہاں وہ ادبی رسالے ’’آج کل‘‘ کے نائب مدیر بنے۔

    اس ادبی پرچے کو جوش جیسے شاعر اور بڑے لکھاری نے سنبھال رکھا تھا اور یوں کوئی سات سال وہ جوش ملیح آبادی کے رفیقِ کار کی حیثیت سے جمع و تدوین اور ادارت کا کام دیکھتے رہے۔ جوش نے تقسیم کے بعد پاکستان کا رخ کیا تو عرش ملسیانی آج کل کے مدیر بنائے گئے۔

    عرش ملسیانی تخلیقات میں شاعری کے علاوہ تراجم اور مزاحیہ مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے عمر خیّام کی رباعیوں کا ترجمہ کیا اور یہ ہست و بود کے نام سے شایع ہوا۔

    ’ہفت رنگ‘ اور ’رنگ و آہنگ‘ کے نام سے عرش کے شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے جب کہ ان کے مزاحیہ مضامین ’پوسٹ مارٹم‘ کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

    عرش کی ایک غزل دیکھیے۔

    دل میں ہر وقت یاس رہتی ہے
    اب طبیعت اداس رہتی ہے

    ان سے ملنے کی گو نہیں صورت
    ان سے ملنے کی آس رہتی ہے

    موت سے کچھ نہیں خطر مجھ کو
    وہ تو ہر وقت پاس رہتی ہے

    دل تو جلووں سے بد حواس ہی تھا
    آنکھ بھی بد حواس رہتی ہے

    دل کہاں عرشؔ اب تو پہلو میں
    ایک تصویرِ یاس رہتی ہے

    عرش ملسیانی 1979ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شعر و سخن کی دنیا میں مرزا رفیع سودا کو ان کے قصائد اور شہر آشوب کی وجہ سے خوب شہرت ملی۔ انھوں‌ نے اردو شاعری کی محبوب صنف غزل میں‌ بھی زور مارا، لیکن بعض ناقدین کہتے ہیں کہ پیچیدہ اور مشکل زمینوں کے ساتھ ان کی غزل پر جو رنگ غالب تھا، اس نے ہم عصروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت و مرتبہ گھٹایا ہے، لیکن ان کی کچھ غزلوں کے اشعار مشہور بھی ہیں۔ اس ضمن میں‌ یہ واقعہ باذوق قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    فخرِ شعرائے ایران، شیخ علی حزیں ہندوستان آئے اور پوچھا! شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحبِ کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا۔ سودا نے سنا تو خود ملاقات کو پہنچ گئے۔ شیخ صاحب کی نازک مزاجی اور عالی دماغی مشہور تھی۔ سودا سے کلام سنانے کو کہا تو انھوں‌ نے اپنا یہ شعر سنایا۔

    ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
    تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

    شیخ نے شعر سنا اور پوچھا کہ تڑپے کا معنیٰ کیا ہے۔ سودا نے جواب میں‌ کہا کہ ہند میں ’طپیدن‘ کو تڑپنا کہتے ہیں۔ شیخ نے ان سے دوبارہ شعر سنا اور زانو پر ہاتھ مارکر کہا! مرزا رفیع سودا، تم نے قیامت کردی۔ ایک مرغ قبلۂ نماز باقی تھا، تم نے تو اسے بھی نہ چھوڑا۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور بغل گیر ہوکر ساتھ بٹھا لیا۔

    1713 کو مغل دور میں‌ پیدا ہونے والے مرزا رفیع‌ سود 1781 میں‌ راہی ملکِ عدم ہوئے تھے۔

  • مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    عبدالحلیم شرر کا مقبول ترین ناول "فردوسِ بریں” تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح کے نام سے جانتے ہیں۔

    شرر کو ان کی تاریخی داستان اور ‌ناولوں کی وجہ سے خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔

    یہاں‌ہم ان کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں یہ 1899 میں شایع ہوا تھا اور حسن بن صباح وہ کردار ہے جس کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنّت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا۔ اس ناول میں‌ شرر نے اسی جنت کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔

    اس ناول کو جہاں‌ اردو قارئین نے بہت شوق سے پڑھا اور اس کا چرچا ہوا، وہیں‌ شرر کا نام مغرب اور یورپ تک بھی پہنچا۔

    اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کے علاوہ پچھلے چند برسوں‌ میں یورپ میں اس ناول کی کہانی کو تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ اس ناول کے دو پارے آپ کی توجہ کے لیے پیش ہیں جو شرر کی خوب صورت نثر اور ان کے فنِ ناول نگاری کا نمونہ ہیں۔

    "حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔”

    "لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔”

    عبدالحلیم شرر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور جب تاریخی ناول نگاری کی طرف توجہ دی تو اپنے ناولوں کے ذریعے مغرب کی اسلام دشمنی اور بیزاری کا خوب جواب دیا۔ وہ اصلاحی اور بامقصد تخلیق کے قائل تھے۔

    فردوسِ بریں کو ایک تخلیقی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد دوسرے ناول اور ڈرامے بھی پسند کیے گئے۔