Tag: کلاسیکی ادب

  • روز ایک افسانہ…

    روز ایک افسانہ…

    کرشن چندر کا یہ قاعدہ تھا کہ جب بھی انھیں کہانی کے لیے کوئی پلاٹ سوجھتا، وہ فوراً اس کے بنیادی خیال کو قلم بند کر کے محفوظ کر لیتے تھے تاکہ وہ ان کے ذہن سے نہ اُتر جائے۔

    اس طرح انھیں پلاٹ سوجھتے رہتے اور وہ انھیں نوٹ کرتے رہتے۔ جس خیال کو وہ کہانی کی شکل میں ڈھال دیتے، اُسے اپنی اس فہرست میں قلم زد کر دیتے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک رجسٹر بنا رکھا تھا۔

    محمد طفیل، جو مدیر ”نقوش“ لاہور تھے، انھو‌ں نے جب اُن کا یہ رجسٹر دیکھا تو ابھی ایک سو کے قریب کہانیوں کے بنیادی خیالات کو افسانوں کی شکل دینا باقی تھا۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اس قدر زرخیز ادیب شاید ہی کوئی دوسرا ہوا ہو۔ اس بارے میں محمد طفیل لکھتے ہیں:

    ”میں نے ان سے پوچھا: آپ روز ایک سے ایک موضوع کس طرح لکھ لیتے ہیں؟ ”میرے پاس رجسٹر ہے….رجسٹر۔ جب کوئی پلاٹ ذہن میں آتا ہے تو اُسے یہاں نقل کر لیتا ہوں۔“

    ذرا دیکھوں!۔۔۔ میں نے رجسٹر دیکھا۔ اس میں تین تین چار چار سطروں میں افسانوں کے بنیادی خیال لکھے ہوئے تھے۔

    کچھ یاداشتوں کے آگے اس قسم کے (x) نشان پڑے ہوئے تھے اور کچھ یاداشتوں پر کوئی نشان نہ تھا۔ میں نے پوچھا ”یہ نشانات کیسے ہیں؟“

    کہنے لگے: ”جن پر اس قسم کے (x) نشانات ہیں، وہ افسانے تو لکھے جا چکے ہیں۔ باقی لکھے جانے والے ہیں۔“

    میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح تو وہاں بھی ایک سو کے قریب لکھے جانے والے افسانوں کی یاداشتیں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ایک افسانہ لکھ لیتے تھے۔“

    (ادب اور ادیبوں کے تذکروں سے انتخاب)

  • پیاری ڈکار……

    پیاری ڈکار……

    کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ کوئی خطاب درکار نہیں۔ موٹر، اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔ میں توخدا سے اور اگر کسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہو تو اس سے بھی صرف ایک ”ڈکار“ طلب کرتا ہوں۔

    چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کو حلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑا کے دار ڈکار لوں۔ پَر کیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھے زور سے ڈکار لینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینا بڑی بے تہذیبی ہے۔

    مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش، یو پی کے لفٹیننٹ گورنر علی گڑھ کے کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے میز پر زور سے ڈکارلے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقانی کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظرِ حقارت سے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اور اس کو بغوردیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابر میں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار سوال کیا۔

    ”جناب کیا وقت ہے۔“ شریر فیشن پرست بولا۔ ”گھڑی شاید غلط ہے۔ اس میں نو بجے ہیں، مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیوں کہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔“ بیچارہ ڈکار لینے والا یہ سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکار کو توپ سے تشبیہہ دی گئی۔

    اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ ہندوستانیوں کو عام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو تو انگریزی سرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا۔ خوشامد سے مانگوں گا۔ زور سے مانگوں گا۔ جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پُر زور تقریریں کروں گا۔ کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھاڑ سے اونریبل ممبروں کا دم ناک میں کر دوں گا۔

    لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکار کو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا، مگر کم بخت دماغ میں الجھ کر رہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔

    ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑ لیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے، مگر ایسی بد ذات ہے، نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔

    کیوں بھائیو! تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس ایکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔

    تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا۔ کیسے خوش قسمت لوگ ہیں، دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔

    پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ صبر بڑی چیز ہے۔

    (معروف ادیب اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کا شگفتہ شکوہ)