Tag: کلاسیکی شاعری

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایت اللہ، حجّام عرف کلّو قوم (پیشے) کے حجّام تھے۔ اسی مناسبت سے تخلّص بھی حجّام رکھا تھا۔ انہیں سودا کی شاگردی پر بہت ناز تھا۔ ان کے سوا کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    مصحفی نے ان کے کلام کی تعریف میں لکھا ہے کہ وہ باوجود کم علم ہونے کے شعر خوب کہتے تھے۔ ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باریک بیں تھے۔ اور ندرتِ مضمون سے کلام کو جِلا دیتے تھے۔ مزاج میں ظرافت تھی۔ غزلوں کے مقطع میں اکثر اپنے پیشے کے رعایت سے مضمون باندھتے تھے۔ جو خوب بامزہ ہوتے تھے۔ میر حسن نے لکھا ہے کہ مدرسہ غازی الدّین خاں کے قریب ان کی شعر و سخن کی محفل جما کرتی تھی۔

    مختلف تذکرہ نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عنایت اللہ حجّام کے مزاج میں شوخی اس قدر تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ چنانچہ ان کی غزلوں کے مقطعے اسی وجہ سے محفلوں میں مزہ دے جاتے تھے اور ان پر خوب واہ وا ہوتی تھی۔ اوّل تو وہ خود قوم کے حجّام اس پر مستزاد یہ کہ تخلّص بھی حجّام۔ پھر اس تخلّص کی رعایت سے اپنے پیشے کی کار گزاریاں۔ یہ کیفیت پوری محفل کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہ اشعار دیکھیے۔

    اس شوخ کے کوچے میں نہ جایا کرو حجّام
    چھن جائیں گے اک دن کہیں ہتھیار تمہارے

    روز رخسار کے لیتا ہے مزے خوباں کے
    بہتر اس سے کوئی حجّام ہنر کیا ہوگا

    حجّام کو ایک طرف تو مشاعروں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔ خواہ اس کی وجہ ان کا ظریفانہ انداز بیان ہو یا اپنے پیشے کے مضامین کا مضحک اظہار۔ دوسرے اس زمانے کے ایک بڑے استادِ فن سے انہیں تلمذ حاصل تھا۔ جو ان جیسے کم علم اور بے رتبہ لوگوں کے لیے فخر کی بات تھی۔ اس کے علاوہ اس زمانے کے بہت بڑے متقی اور پرہیز گار صوفی محمد فخر الدّین سے انہیں بیعت حاصل تھی۔ جس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے محلّے میں اپنی عرفیت کلو سے نہیں بلکہ شاہ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پھر اپنے سامنے کسی کی کوئی حقیقت نہ سمجھی۔

    میر نے نکاتُ الشّعرا میں عنایتُ اللہ حجّام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی مقبولیت کے پیشِ نظر انہیں یہ بات بری لگی ہو اور میر کے مقابلے پر آئے ہوں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے استاد کی حمایت میں انہوں نے بلاوجہ عداوت مول لی ہو۔ جیسا کہ قائم اور مجذوب نے حقِ شاگردی ادا کیا تھا۔

    (ماخوذ از’’اردو کے ابتدائی ادبی معرکے‘‘)

  • یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    آج استاد شاعر حیدر دہلوی برسی ہے۔ ان کا تعلق شعرا کی اُس نسل سے تھا جن کی اصلاح و تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ غزل کے علاوہ کلاسیکی دور کی شاعری میں خمریات کا موضوع بہت پُرلطف رہا ہے۔ حیدر دہلوی اس کی مضمون بندی میں کمال رکھتے تھے اور اسی سبب خیّامُ الہند کہلائے۔

    اردو شاعری میں استاد کا درجہ پانے والے حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور جلد ہی ان کی شہرت ہندوستان بھر میں‌ پھیل گئی۔

    حیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ 10 نومبر 1958ء کو اسی شہر میں حیدر دہلوی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    حیدر دہلوی نے اپنی شاعری میں‌ خمریات کے موضوع کو اپنے تخیّل اور کمالِ فن سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اردو ادب اور شعرا کے مستند اور مشہور تذکروں میں آیا ہے کہ خمریات کے موضوع پر ان کے اشعار خوب صورت و نادر تشبیہات، لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کے ساتھ معنویت سے بھرپور ہیں۔

    ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ استاد حیدر دہلوی کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

    عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یک سَر
    ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے

  • یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔

    ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
    ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

    مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
    مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا

    دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
    پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب

  • مرزا سودا، جس سے خفا ہوجاتے، اس کے لیے مصیبت ہوجاتی تھی

    مرزا سودا، جس سے خفا ہوجاتے، اس کے لیے مصیبت ہوجاتی تھی

    مرزا مُحمّد رفیع سوؔدا کے باپ دلّی میں تجارت کرتے تھے اور اُن کی گنتی وہاں کے دولت مندوں میں ہوئی تھی، اِس لیے سوؔدا نے اچھّی تعلیم پائی۔ اور خوش حال زندگی بسر کی۔

    دلّی کی حالت اچھّی نہیں تھی، مگر سوؔدا کو اتنی پریشانی نہیں تھی۔ ان کے تعلقات بادشاہ سے بھی تھے اور بڑے بڑے امیروں سے بھی، مگر جب دلّی رہنے کے قابل نہیں رہ گئی تو وہ بھی نکلے اور فرخ آباد اور ٹانڈہ کے نوابوں کے یہاں چلے گئے جہاں اُن کی بہت عزّت ہوئی۔

    لکھنؤ میں بھی سوؔدا کی آؤ بھگت ہوئی۔ یہاں کے شاعروں سے اِن کے مقابلے بھی ہوئے اور ایک دوسرے کی ہجویں بھی خوب لکھی گئیں۔ سوؔدا نے لکھنؤ ہی میں 1781 میں انتقال کیا، وہ ہر قسم کی شاعری میں کمال رکھتے تھے۔ غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، ہجو، رُباعی، پہیلیاں، اُن کے دیوان میں سبھی چیزیں موجود ہیں، لیکن اُن کو سب سے زیادہ کمال قصیدہ، ہجو اور مرثیہ لکھنے میں حاصل تھا۔

    ان کی غزلیں بھی بہت اچھّی ہوتی تھیں، لیکن اتنی دل کش نہیں جتنی میرؔ اور دردؔ کی غزل اور اس کے لیے جیسی سادہ زبان، گداز سے بھری ہوئی طبیعت اور عاشقانہ کیفیت کی ضرورت ہے، وہ سوؔدا کے یہاں اتنی نہیں تھی۔ قصیدے البتہ وہ شان دار لکھتے تھے۔ ہجویں زہر میں بُجھی ہوئی ہوتی تھیں جس کے پیچھے پڑ جاتے تھے اس کے لیے مصیبت ہو جاتی تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ ان کا ایک ملازم تھا جس کا نام غنچہ تھا، وہ ہر وقت قلم دان لیے ساتھ رہتا تھا۔ جب کسی سے خفا ہوتے تو کہتے تھے "لانا تو غنچہ میرا قلم دان، ذرا اس کی خبر لے لوں!” مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ان ہجوؤں میں محض لوگوں کی بُرائیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ اس زمانے میں جو پریشانی، بیکاری، بد اخلاقی اور غریبی تھی، ان سب کا بیان بھی دل چسپ مگر غم ناک طریقے پر ہوتا گیا۔ ہنسی ہنسی میں رونے کی باتیں ہوتی تھیں، اِسی طرح ان کے مرثیے بھی بہت اچھّے اور اثر کرنے والے ہوتے تھے۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھا جائے تو یقیناً یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ اردو کے بہت بڑے شاعر تھے۔

    سودا کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

    فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
    اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کِیا کرے

    سوداؔ خدا کے واسطے کر قصّہ مختصر
    اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

    دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
    کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

    گُل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
    اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

  • کیا آپ جوشش ؔ  کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ جوشش ؔ کو جانتے ہیں؟

    اردو شاعری کے کلاسیکی عہد کے کئی نام ایسے ہیں‌ جن کا نہ تو کلام محفوظ رہا اور نہ ہی ان کے حالاتِ زندگی معلوم ہیں۔ چند سوانحی خاکے ہیں‌ بھی تو نامکمل اور اکثر غیرمستند۔ اسی طرح ان کا بہت کم کلام دست یاب ہوسکا ہے

    جوشش سے بھی بہت سے قارئین واقف نہیں‌ ہوں‌ گے، ان کا کلام بہت کم سنا اور پڑھا گیا ہو گا، لیکن انھیں میر تقی میر کا ہم عصر بتایا جاتا ہے۔ دست یاب سوانحی خاکہ بتاتا ہے کہ 1737 میں‌ عظیم آباد میں‌ آنکھ کھولی اور 1801 تک زندگی کا سفر جاری رہا۔ دبستانِ دلّی کے قائل اور اپنے زمانے میں‌ عظیم آباد کے نمائندہ شعرا میں‌ شمار ہوئے۔ ان کا اصل نام شیخ محمد روشن تھا۔ سخن وری میں‌ کمال رکھتے تھے اور علمِ عروض کے ماہر تھے۔ جوشش کی ایک غزل پیشِ‌ خدمت ہے۔

    غزل
    چشمِ خونخوار، ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
    ہیں جدا لیکن بوقتِ کار دونوں ایک ہیں

    باعثِ آرام یہ، نے موجبِ آزار وہ
    چشمِ وحدت میں ہی گل اور خار دونوں ایک ہیں

    التیامِ زخمِ دل کے حق میں گر کیجے نگاہ
    سبزۂ خط مرہمِ زنگار دونوں ایک ہیں

    میرے اس کے گو جدائی آ گئی ہے درمیاں
    جس گھڑی باہم ہوئے دو چار دونوں ایک ہیں

    جو نہ مانے اُس کو عاشق ہو کے اس پہ دیکھ لے
    ابروئے خم دار اور تلوار دونوں ایک ہیں

    یہ نہیں کہنے کا جوشش ؔ ہو گا جو صاحب دماغ
    زلفِ یار و نافۂ تاتار دونوں ایک ہیں

    (شاعر: شیخ محمد روشن جوشش)

  • مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    فانیؔ بدایونی یوں تو مشرقی تہذیب کے بڑے دلدادہ تھے، لیکن انھیں اردو رسمُ الخط سے سخت چڑ تھی۔

    اس کے برعکس وہ رومن رسمُ الخط کے بڑے حامی تھے چنانچہ اپنی غزلیں انگریزی ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتے تھے۔ اس موضوع پر ان میں اور مولوی صاحب (مولانا ابوالخیر مودودی) میں خوب خوب بحثیں ہوتی تھیں۔ مولوی صاحب سے فانی کی دلیلوں کو جواب نہ بن پڑتا تو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتے اور فانی کو جی بھر کر برا بھلا کہتے مگر فانی ہنستے رہتے تھے۔

    فانی کو مولوی صاحب کو چھیڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ چناں چہ مولوی صاحب سے ملنے جاتے تو تین چار غزلیں رومن رسم الخط میں ٹائپ کر کے ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔

    مولوی صاحب فانی سے بڑی محبت سے ملتے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد تان لامحالہ فانی کی شاعری پر ٹوٹتی۔ مولوی صاحب کہتے کوئی نئی چیز لکھی ہو تو سناؤ۔ فانی مسکرا کر ٹائپ شدہ غزلیں جیب سے نکالتے اور مولوی صاحب کی طرف بڑھا دیتے اور مولی صاحب ان کاغذوں کو یوں اٹھا کر پھینک دیتے گویا اچانک بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

    فانی ہنستے ہوئے تمام کاغذ فرش سے اٹھا لیتے اور غزلیں سنانے لگتے۔ غزلیں سن کر مولوی صاحب کا غصہ فرو ہو جاتا تھا۔

    (اقتباس از شہرِ نگاراں مصنف سبطِ حسن)

  • یہ اصل زندگی ہے….

    یہ اصل زندگی ہے….

    اصغر گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ ان کا شمار کلاسیکی دور کے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ 1884 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورکھ پور میں‌ پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ علم و ادب اور مطالعے کے شوق نے شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ منشی جلیل اللہ وجد اور منشی امیر اللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کو سادہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے مضامین کے علاوہ فلسفہ اور تصوف کے موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ وہ 1936 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اصغر گونڈوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    جانِ نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
    جنت ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے

    اس جلوہِ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
    ایسا حجاب، چشمِ تماشا کہیں جسے

    یہ اصل زندگی ہے، یہ جانِ حیات ہے
    حسنِ مذاق شورشِ سودا کہیں جسے

    اکثر رہا ہے حسنِ حقیقت بھی سامنے
    اک مستقل سراب، تمنا کہیں جسے

    اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
    شکلِ صفات معنیِ اشیا کہیں جسے

    زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
    جانِ بہارِ نکہتِ رسوا کہیں جسے

    سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
    اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے

    شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
    وہ ربطِ خاص، رنجشِ بے جا کہیں جسے

    میری نگاہِ شوق پہ اب تک ہے منعکس
    حسنِ خیال، شاہدِ زیبا کہیں جسے

    دل جلوہ گاہِ حسن بنا فیض عشق سے
    وہ داغ ہے کہ شاہدِ رعنا کہیں جسے

    اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
    رازِ حیات، ساغر و مینا کہیں جسے

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔

    کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
    اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا

    کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
    کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا

    بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
    کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا

    ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
    لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا

    کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
    یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا

    پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
    وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا

    نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
    اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا