Tag: کلاسیکی موسیقی

  • ہیرا بائی: موسیقی اور گائیکی کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    ہیرا بائی: موسیقی اور گائیکی کی دنیا کا بھولا بسرا نام

    فنِ موسیقی کی کئی اصناف آج ناپید ہوچکی ہیں اور وہ سنگیت کار بھی نہیں رہے جو راگ راگنیوں اور سُروں کے عاشق تھے۔ یہ گلوکار نہ صرف موسیقی کے اسرار و رموز جانتے تھے بلکہ گلوکاری کے فن میں بھی بے مثال تھے۔ ہندوستان کی بات کریں تو کلاسیکی گائیکی کی مقبولیت کے زمانہ میں خیال، ٹھمری، غزل، بھجن و دیگر اصنافِ موسیقی کو پسند کیا جاتا تھا اور ہیرا بائی نے انہی اصناف میں خوب نام کمایا۔

    آج ہیرا بائی کو کوئی نہیں جانتا اور موجودہ نسل کلاسیکی موسیقی سے بہت دور ہے، لیکن یہ فن اور اس سے جڑے ہوئے کئی نام آج ہمارے فن و ثقافت کی ایک تاریخ ہیں۔ ہیرا بائی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بھارت کی پہلی خاتون گلوکارہ تھیں جن کو سننے کے لیے باذوق افراد نے باقاعدہ ٹکٹ خریدے۔ ہیرا بائی نے مختلف فلموں میں بھی کام کیا جن میں سورن مندر، جاناں بائی اور میونسپلٹی شامل ہیں۔

    ہیرا بائی بڑودکر 30 مئی 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقہ مراج میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق اس وقت کے مشہور کیرانہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام چمپا کلی تھا۔ 20 نومبر 1989ء کو ہندوستانی کلاسیکی گلوکارہ ہیرا بائی انتقال کرگئی تھیں۔ ہیرا بائی کے والد استاد عبد الکریم خان تھے۔ انیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں استاد عبد الکریم خان ریاست وڈودرا کے شاہی موسیقار و گلوکار تھے۔ عبدالکریم خان کو ہندوستان میں سنگیت رتن کا خطاب دیا گیا تھا اور وہ کیرانہ گھرانے کی پہچان تھے۔ ہیرا بائی کو موسیقی کی ابتدائی تعلیم تو استاد عبدالوحید خان نے دی تھی، لیکن بعد میں خالص کلاسیکی موسیقی کی تعلیم اپنے والد عبدالکریم خان سے حاصل کی۔ کہتے ہیں‌ کہ 1920ء یا 1921ء میں ہیرا بائی نے پہلی بار عوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہیرا بائی کی موسیقی اُن کے فن کے ابتدائی دور میں ہی ریکارڈ کی جانے لگی تھی۔ وہ عاجزی و انکسار کا پیکر تھیں۔

    اعزازات کی بات کی جائے تو ہیرا بائی کو موسیقی اور گلوکاری کے فن میں کمال کی بنیاد پر 1965ء میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور 1970ء میں بھارتی حکومت نے ایک شہری اعزاز پدم بھوشن بھی دیا۔ ہیرا بائی کا انتقال ممبئی میں ہوا تھا۔

  • کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    کلاسیکی موسیقی میں پہچان بنانے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

    دس برس کی عمر میں اسد امانت علی خان نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ پٹیالیہ گھرانے کے فرد اور استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ اسد امانت علی نے 1970ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد ساز اور آواز کی دنیا سے ناتا جوڑا اور بعد کے برسوں‌ میں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اس نام ور فن کار کی برسی ہے۔

    اسد امانت علی نے اپنے والد کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں انہی کے انداز میں اس طرح پیش کیں کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسد امانت علی مشہور ہوگئے۔ اس گلوکار کی وجہِ شہرت ‘عمراں لنگھیاں‘ کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے۔۔۔ جیسا کلام بنا۔ اسد امانت علی نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ ان فن کاروں نے پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    اسد امانت علی خان کے والد کی آواز میں انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ایک مقبول ترین غزل تھی اور اسی کلام کو ان کے بیٹے نے دوبارہ گایا اور بہت داد و تحسین سمیٹی۔ اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ریکارڈ ہوئے۔ انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • عامر خان کلاسیکی موسیقی سیکھنے میں مصروف، روزانہ ریاض کرنے لگے

    عامر خان کلاسیکی موسیقی سیکھنے میں مصروف، روزانہ ریاض کرنے لگے

    عامر خان ویسے تو بلا کے اداکار ہیں ہی مگر اب وہ گلوکاری میں بھی مہارت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ اس کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

    بالی وڈ پر تین دہائیوں سے راج کرنے والے عامر خان ان دنوں کلاسیکی موسیقی سیکھنے میں مصروف ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مسٹر پرفیکشنسٹ کی عرفیت سے مشہور اداکار روزانہ کی بنیاد پر موسیقی کی ایک گھنٹے مشق کررہے ہیں۔

    اس سے قبل عامر خان مراٹھی زبان بھی سیکھ چکے ہیں جبکہ مراٹھی اسپیکنگ میڈیا اور فوٹوگرافرز سے وہ مراٹھی میں بھی بات کرتے نظر آئے ہیں۔

    ذرائع نے انکشاف کیا کہ کلاسیکل موسیقی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے عامر خان نے موسیقی کے استاد کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں اور وہ روزانہ ریاض بھی کرتے ہیں۔

    عامر خان ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ سیکھنے کی جستجو میں رہتے ہیں وہ کئی برسوں سے متعدد مشغلے اپنا چکے ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔

    جنوری کی تین تاریخ کو عامر خان کی بیٹی ایرا کی شادی ہے، عامر خان اس سلسلے میں بھی مصروف ہیں۔ اداکار حال ہی میں اپنی بیمار ماں کی دیکھ بھال کے لیے چنئی بھی گئے تھے۔

  • تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسد امانت علی کی آواز میں‌ کئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھول رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے۔ اس فن کار کی آواز کو دنیا بھر میں سنا گیا اور ان کے فن کو بہت سراہا گیا۔ آج اسد امانت علی کی برسی ہے۔

    راگ اور کلاسیکی موسیقی سے شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور و معروف گلوکار استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ یہ وہ نام ہیں‌ جن کا ذکر نہ ہو تو پاکستان میں کلاسیکی گلوکاری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔

    اسد امانت علی نے آنکھ کھولی تو راگ راگنیوں، سُر تال اور ساز و انداز کے ساتھ آلاتِ‌ موسیقی کو دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دس برس کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور بعد کے برسوں میں اس فن کار کی آواز لوگوں کی سماعتوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ اسد امانت علی نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور ان کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں محافل میں‌ پیش کرکے خوب داد پائی۔

    انہیں اصل شہرت "گھر واپس جب آؤ گے تم…کون کہے گا، تم بِن ساجن یہ نگری سنسان…” جیسے کلام سے ملی۔ اس گلوکار کی آواز میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مشہور شعرا کا کلام ریکارڈ کرکے پیش کیا گیا جب کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں‌ 8 اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال ہوگیا۔

  • آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    پاکستان میں کلاسیک کا درجہ رکھنے والی فلم ‘امراؤ جان ادا’ 1972ء میں‌ آج ہی کے دن شائقینِ سنیما کے لیے بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔

    یہ مرزا ہادی رسواؔ کے ناول پر مبنی ایسی فلم تھی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی جذباتی اور رومانوی کہانی کے ساتھ درد بھرے گیتوں نے سنیما بینوں کو بہت متاثر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی مظلوم خاندان، ایک ستم رسیدہ ماں کی کہانی، یا کم عمری میں حادثاتی طور پر بہن بھائیوں کے بچھڑ جانے اور برسوں بعد ان کا ملاپ سنیما بینوں کو جذباتی کر دیتا تھا۔ یہ بھی ایسی ہی فلم تھی جس میں ایک مجبور اور بے بس لڑکی مقدر کے لکھے کو قبول کرلیتی ہے۔

    مرزا ہادی رسوا نابغۂ روزگار تھے۔ ان کے چند ناولوں میں سب سے زیادہ امراؤ جان ادا مقبول ہوا جس پر اردو ادب میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور مصنّف کے ادبی مذاق اور ان کے فنِ تخلیق کو موضوع بنایا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ رُسوا ان کا تخلّص تھا۔ مرزا صاحب فلسفہ، منطق، ریاضی، طب، مذہبیات، کیمیا، موسیقی اور نجوم میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔

    مرزا ہادی رسوا کا یہ ناول 1905ء میں منظرِ عام پر آیا تھا جس کی فنی عظمت اور مقبولیت نے اسے ان گنت قارئین دیے اور تعلیمی نصاب کا حصّہ بننے کے بعد اسے طالبِ علم بھی پڑھتے رہے۔ اس ادبی تخلیق کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے، اور ان برسوں میں اس کے مختلف ابواب کی نصابی ضرورت کے تحت قسم قسم کی تشریحات بھی کی گئی ہیں۔

    یہاں ہم فلم کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپنے قارئین، بالخصوص نئی نسل کی دل چسپی کے لیے اس ناول کی کہانی بیان کرتے ہیں:

    یہ امیرن نام کی ایک آٹھ سالہ بچّی کی کہانی ہے جسے اس کے آبائی علاقے (گاؤں) سے اغوا کرکے فروخت کرنے کے لیے لکھنؤ پہنچا دیا جاتا ہے۔ یوں وہ خانم نامی عورت کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہے اور اسی کے زیرِ سایہ تربیت پاتی ہے، وہ شعر و ادب سے شغف رکھنے والی باذوق لڑکی کے طور پر عمر کے مدارج طے کرتی ہے اور اسے رقص بھی سکھایا جاتا ہے۔ لڑکی اپنے کوٹھے پر آنے والوں کے ذوقِ موسیقی اور رقص دیکھنے کے شوق کی تسکین کے لیے ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے تیّار رہتی ہے۔ وہ باذوق افراد کو موسیقی اور رقص سے بہلانے کے ساتھ شعر بھی سناتی ہے۔

    اسی کوٹھے پر ایک نوجوان نواب سلطان کا آنا جانا بھی ہوتا ہے جس کے آگے امراؤ دِل ہار بیٹھی ہے اور ایک جذباتی موڑ اس وقت کہانی میں آتا ہے جب نواب صاحب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے سوال پر اسے گھر والوں کی رضامندی سے مشروط کردیتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘خاندانی بہو’ لانے والے ہیں۔

    اب کہانی وہ ڈرامائی موڑ لیتی ہے جو ہندوستان پر برطانوی راج قائم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشوں، مفاد پرستی اور لڑائی کے ساتھ آزادی کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں اور جان و مال کی قربانیوں تک تاریخ کا حصّہ ہے۔ جس وقت لکھنؤ پر انگریز فوج کا حملہ ہوتا ہے تو کہانی کے مطابق خانم کے ڈیرے سے بھی سب راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امراؤ اپنے ساتھیوں سمیت لکھنؤ سے باہر نکل پڑتی ہے اور یہ لوگ ایک قصبے میں قیام کرتے ہیں۔ وہاں امراؤ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی اس کا آبائی علاقہ ہے جہاں سے وہ اغوا ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد واپس پہنچ گئی تھی

    ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے تو ایک موقع پر اس کی اہلِ خانہ سے ملاقات کا انتہائی جذباتی منظر پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خاندان ایک طوائف کو قبول کرلے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے سے معذوری ظاہر کردیتے ہیں۔ امراؤ آنسوؤں خود کو ایک طوائف کے طور پر دوبارہ خانم کے ڈیرے پر کھینچ کر لے آتی ہے اور رقص و موسیقی میں ڈوب جاتی ہے۔ یوں ایک مظلوم اور مجبور عورت پہلے طوائف کے روپ میں اپنی محبّت کو پانے میں ناکام ہوتی ہے اور بعد میں ایک بیٹی اور بہن کے طور پر اپنے ہی اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ گہرے دکھ اور کرب سے گزرتی ہے۔

    برصغیر میں اس ناول پر متعدد فلمیں بنائی گئیں اور اس میں فلم کی ضرورت کے مطابق کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ اب بات کرتے ہیں فلم کی جسے پاکستان میں حسن طارق نے کمرشل ضروریات کے تحت تبدیلیوں کے ساتھ پردے پر پیش کیا تھا۔

    اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا جس میں اسکرپٹ رائٹر اور مشہور شاعر سیف الدّین سیف بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی کا بھی فلم کی کام یابی میں‌ بڑا کردار رہا۔ اداکاروں میں رانی اور شاہد نے مرکزی کردار نبھائے جب کہ خانم کا مشہور کردار نیّر سلطانہ نے ادا کیا تھا۔

    اس فلم کا مشہور ترین نغمہ ” آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں” رانی پر فلمایا گیا تھا جس نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ پاکستان میں فلم کی کام یابی کو دیکھ کر بھارتی ہدایت کار مظفر علی اور جے پی دتہ نے بھی اس ناول پر فلمیں بنائی تھیں۔

    پاکستان میں بننے والی امراؤ جان ادا کے گیتوں میں ‘جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں’ اور ‘کاٹے نہ کٹے رے رتیاں’ نے بھی مقبولیت حاصل کی اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

  • نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 14 جولائی 1983ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    استاد نزاکت علی خان 1932ء میں ضلع ہوشیار پور کے موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے مشہور قصبے چوراسی میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دربارِ اکبری کے نامور گائیک اور میاں تان سین کے ہم عصر تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھیں دھرپد گائیکی میں کمال حاصل تھا۔ استاد نزاکت علی خان اور ان کے چھوٹے بھائی استاد سلامت علی خان نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی اور کم عمری میں اپنی گائیکی کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور ملتان آبسے جہاں سے بعد میں لاہور کا رخ کیا اور اپنی وفات تک یہیں رہے۔ لاہور میں انھوں نے فنِ گائیکی میں بڑا نام اور مقام پایا۔ استاد نزاکت علی خان کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گلوکار استاد سلامت علی خان 2001ء میں آج ہی کے دن اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ انھیں اپنے کمالِ فن کی بدولت کم عمری ہی میں ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔

    استاد سلامت علی خان 12 دسمبر 1934ء کو شام چوراسی، ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ساتھ اپنے والد استاد ولایت علی خان سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ان کے فن اور اندازِ‌ گائیکی نے کم عمری میں‌ انھیں‌ ہندوستان بھر میں‌ پہچان عطا کردی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سلامت علی خان نے ملتان ہجرت کی اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔

    استاد سلامت علی خان کا گھرانہ دھرپد گائیکی کے لیے مشہور تھا لیکن استاد سلامت علی خان نے خیال گائیکی میں اختصاص کیا۔ 1983ء میں ان کے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان وفات پاگئے اور استاد سلامت علی خان نے بھی گائیکی کے حوالے سے خود کو محدود کرلیا تھا۔ پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کی شان اور اس کا وقار بڑھانے والے سلامت علی خان کو پنج پٹیہ گلوکار کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ استاد سلامت علی نے کلاسیکی گائیکی کی مختلف جہتوں میں کامیاب تجربات کرکے خود کو یکتا ثابت کر دیا

    پاکستان میں‌ فنِ موسیقی اور گائیکی میں باکمال اور استاد کا مرتبہ حاصل کرنے والے سلامت علی خان کو لاہور کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    حکومتِ‌ پاکستان کی جانب سے استاد سلامت علی خان کو دو مرتبہ صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا گیا۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کا تذکرہ

    ملکۂ موسیقی روشن آرا بیگم کی زندگی کا سفر 6 دسمبر 1982ء کو تمام ہوا تھا اور گویا ان کے ساتھ ہی پاکستان میں‌ کلاسیکی گائیکی کا باب بھی بند ہوگیا۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، نیلا پربت سمیت کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں لازوال گیت ریکارڈ کروائے۔

    روشن آرا بیگم 1917 میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں اور تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی جہاں گلوکاری کے میدان میں انھوں نے نام و مقام بنایا۔ کلاسیکی موسیقی کی اس نام ور گلوکارہ نے اس فن کی تربیت اپنے قریبی عزیز اور استاد عبدالکریم خان سے لی تھی۔

    انھوں نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کردیا۔ ان میں انیل بسواس، فیروز نظامی اور تصدق حسین کے نام شامل ہیں۔

    پاکستانی فلمی صنعت اور کلاسیکی موسیقی کے دلداہ روشن آرا بیگم کا نام بے حد عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔

    پاکستان بننے سے پہلے بھی وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے لاہور کا سفر کیا کرتی تھیں، جب کہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی انھیں فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

    روشن آرا بیگم کی تان میں اُن کے کیرانا گھرانے کا رنگ جھلکتا ہے۔ کہتے ہیں ‌اُن کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

    آج جہاں‌ کلاسیکی موسیقی کو فراموش کیا جاچکا ہے، بدقسمتی سے اس فن میں نام ور اور باکمال گلوکاروں کو بھی بھلا دیا گیا ہے اور ان میں سے اکثر کا ذکر بھی نہیں‌ کیا جاتا۔

    روشن آرا بیگم نے کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ایک پولیس افسر احمد خان سے شادی کی تھی اور لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

  • کلاسیکی موسیقی کے نام وَر استاد شرافت علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی کے نام وَر استاد شرافت علی خان کی برسی

    پاکستان میں‌ سُر اور آواز کے ساتھ ساتھ ساز اور آلاتِ موسیقی بجانے میں‌ مہارت رکھنے والے نام ور فن کاروں کا تعلق مختلف ایسے گھرانوں‌ سے رہا ہے جو تقسیم ہند سے قبل بھی کلاسیکی موسیقی اور فنِ گائیکی میں نام و مقام رکھتے تھے۔

    انہی میں سے ایک شام چوراسی گھرانا بھی ہے جس میں استاد شرافت علی خان جیسے فن کار پیدا ہوئے۔ آج اسی مشہور موسیقار اور گلوکار کی برسی ہے۔ وہ 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    استاد شرافت علی خان 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ نام ور موسیقار استاد سلامت علی خان کے فرزند اور شفقت سلامت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد انھوں نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنے والد اور اسی فن سے وابستہ بھائیوں کے ساتھ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین و قدردانِ فن سے خوب داد سمیٹی۔ بیرونِ ملک انھیں باقاعدہ دعوت دے کر پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ انھیں بیرونِ ملک کئی جامعات میں کلاسیکی موسیقی پر لیکچر بھی دینے کا موقع بھی ملا تھا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس نام کو حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔