Tag: کلاسیکی موسیقی

  • مشہور مغنیہ زاہدہ پروین اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں

    مشہور مغنیہ زاہدہ پروین اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں

    صوفیانہ کلام اور طرزِ گائیکی کے حوالے سے بھی "کافی” مشکل صنف ہے، مگر یہ نہایت مقبول اور عقیدت و اظہار کا ایک خوب صورت ذریعہ ہے۔ پاکستان میں زاہدہ پروین نے اسے کچھ اس طرح نبھایا کہ اس فن کی ملکہ کہلائیں‌۔

    آج پاکستان کی اس مشہور مغنیہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ 1975 میں زاہدہ پروین لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    زاہدہ پروین 1925 میں امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد بابا تاج کپورتھلہ والے سے حاصل کی، استاد حسین بخش خاں امرتسر والے سارنگی نواز سے گائیکی کے رموز سیکھے، اور بعد میں‌ استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں۔ ان کے استادوں میں اختر علی خان بھی شامل ہیں۔

    زاہدہ پروین نے یوں تو سبھی کلام گایا، مگر بعد میں خود کو خواجہ غلام فرید کی کافیوں تک محدود کر لیا۔ وہ ان کے کلام کی شیدا تھیں اور بہت لگائو رکھتی تھیں۔

    زاہدہ پروین کا کافیاں گانے کا منفرد انداز انھیں اپنے دور کی تمام آوازوں میں ممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے کافیوں کو کلاسیکی موسیقی میں گوندھ کر کچھ اس طرز سے پیش کیا کہ یہی ان کی پہچان، مقام و مرتبے کا وسیلہ بن گیا۔

    وہ ‌میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    سُروں کے بے تاج بادشاہ استاد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے آج چوالیس برس بیت گئے، ان کی غزلیں اورگیت آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خان 1922 میں غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوائے، موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

    موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے حصول کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گئی، بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے سُر بکھیرنے لگی اور قبولیت سند عام پائی۔

    خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اورعمدہ آواز سے نوازا تھا انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

    یوں جلد ہی استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی میں اپنے منفرد اندازکے باعث اپنے ہم عصرگلوکاروں جن میں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اوراعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اورشناخت بنائی۔

    آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔

    ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

    استاد امانت علی خان کا انتقال 52 سال کی عمرمیں 1974ء میں ہوا، کیا خبر تھی کہ اُن کا وہ جملہ جو وہ اکثر جنی محافل میں کہا کرتے تھے یوں سچ ثابت ہو جائے گا وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں، تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔