Tag: کلاسیکی گائیکی

  • معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    6 جون 2003ء کو پاکستان کے معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا تعلق موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور شام چوراسی گھرانے سے تھا۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    استاد ذاکر علی خان نے بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ پرفارمنس دی۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں فن کا مظاہرہ کرنے پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ دنیائے موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے شہرت پانے والے استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی جو بہت مشہور ہے۔

    استاد ذاکر علی خان لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ اسد امانت علی خان 8 اپریل 2007ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    وہ 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اسد امانت علی خان نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ اس جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

    اسد امانت علی خان نے اپنے والد کے گائے ہوئے کلام کو ان کی وفات کے بعد اپنے انداز میں دوبارہ گا کر شائقین و سامعین سے خوب داد وصول کی۔ خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے انھیں بہت شہرت اور پذیرائی ملی۔

    اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ہر خاص و عام میں‌ پسند کیے گئے۔

    انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ وہ ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔