Tag: کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان

  • ہاؤسنگ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے ہوشیار ہوجائیں‌!‌

    ہاؤسنگ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے ہوشیار ہوجائیں‌!‌

    اسلام آباد : ہاؤسنگ منصوبوں میں سرمایہ کاری والے ہوشیار ہوجائیں‌!‌ صارفین کو گمراہ کرنے پر نجی ہاوسنگ سوسائٹی کو 15 کروڑ روپے جرمانہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے کنگڈم ویلی پرائیویٹ لمیٹڈ پر اس کے ہاوسنگ منصوبے سے متعلق گمراہ کن اشتہارات دینے پر 15 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔

    کمپٹیشن کمیشن کے مشاہدہ میں آیا تھا کہ صارفین کو گمراہ کرنے کے لئے نجی ہاوسنگ سوسائٹی نے اشتہارات میں حکومت سے منظور شدہ اور نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں رجسٹرڈ ہونے کا غلط دعوی کیا۔

    کمیشن کے ازخود نوٹس کے تحت کی گئی تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ کمپنی نے اپنے رہائشی منصوبے کو "کنگڈم ویلی اسلام آباد” کے طور پر مشتہر کیا، حالانکہ یہ منصوبہ درحقیقت موضع چھورہ، تحصیل و ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔

    مزید تحقیقات کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ کنگڈم ویلی نے اپنے منصوبے کو غلط طور پر نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے وابستہ ظاہر کر کے صارفین کو گمراہ کیا ۔

    اس کے علاوہ، کمپنی نے اپنے منصوبے کو "این او سی منظور شدہ قرار دیا ، جبکہ مشروط منظوری کی شرائط کی وضاحت نہیں کی گئی۔

    https://urdu.arynews.tv/dollar-currency-rate-pakistan-today/

    کیس کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن کے ممبران جناب سعید احمد نواز اور جناب عبدالرشید شیخ پر مشتمل بینچ نے قرار دیا کہ کمپنی نے مسابقتی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صارفین کو جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کی فراہم کئیں اور انہیں گمراہ کیا۔

    کمپٹیشن کے قانون کی اس خلاف ورزی مجموعی طور پر 15 کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔

    مزید ازاں کمیشن نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کنگڈم ویلی پرائیویٹ لمٹیڈ نے کمپنی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں کئی سالوں سے مالیاتی حسابات اور گوشوارے جمع نہیں کروائے، جو اس کی شفافیت اور مالیاتی گورننس پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔

    صارفین کے مفادات کے تحفظ اور خصوصاً ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر میں درست فیصلے کرنے میں مدد دینے کے لئے ضروری ہے کہ کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ اور اشتہارات میں درست اور سچائی پر مبنی معلومات فراہم کریں۔

    کمپٹیشن کمیشن کی عوام سے اپیل ہے کہ گمراہ کن اشتہارات یا مارکیٹ میں مسابقت مخالف سرگرمیوں جیسے کی قیمتوں کو گٹھ جوڑ بنا کو فکس کرنا اور کارٹل کی شکایات اور اطلاع ہمارے واٹس ایپ 0304-0875255 پر دیں۔

  • دودھ کی قیمتیں کیسے بڑھیں؟ سی سی پی انکوائری میں بڑا انکشاف

    دودھ کی قیمتیں کیسے بڑھیں؟ سی سی پی انکوائری میں بڑا انکشاف

    کراچی: کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی انکوائری کے دوران ڈیری سیکٹر میں کارٹیلائزیشن اور پرائس فکسنگ کا انکشاف ہوا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے ڈیری سیکٹر میں ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز کی مبینہ کارٹیلائزیشن اور کمپٹیشن مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔

    انکوائری رپورٹ میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی 3 بڑی ڈیری ایسوسی ایشنز بادی النظر میں گٹھ جوڑ اور پرائس فکسنگ میں ملوث ہیں۔

    انکوائری کمیٹی نے کمیشن کو سفارش کی ہے کہ وہ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی)، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) کے خلاف ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت کارروائی شروع کرے۔

    انکوائری کا آغاز

    ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی ایف اے) کے مبینہ گٹھ جوڑ سے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک مشہور کنزیومر ایسوسی ایشن کی طرف سے کمیشن کو لکھے گئے خط اور میڈیا کی رپورٹس کی روشنی میں یہ انکوائری شروع کی گئی تھی۔ شکایت میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ڈی ایف اے کراچی کے صد ر نے شہر میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا، اور دودھ اب کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ 94 روپے کے مقابلے میں 120 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے۔

    ایسوسی ایشن کی ملی بھگت سے مہنگا دودھ فروخت ہونے کے نتیجے میں صارفین کو روزانہ تقریباً 130 ملین روپے اور سالانہ 47 ارب روپے کا نقصان ہوا، دوسری طرف قیمتوں پر کوئی کمپٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ کو متاثر کیا گیا اور صارفین کو دودھ کے معیار سے قطع نظر غیر منصفانہ قیمتوں کی ادائیگی کرنا پڑی۔

    دودھ کی قیمتیں کیسے طے ہوتی ہیں؟

    کمیشن نے ان الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس کے مطابق دودھ کی سپلائی چین 3 مراحل پر مشتمل ہے، جس میں ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز شامل ہیں، ریٹیلرز کو دودھ سالانہ ’باندھی‘ کے نام سے معاہدے کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے، جس میں دودھ کی خریداری کے لیے شرح اور مقدار کو مختلف ایسوسی ایشنز مقرر کرتے ہیں۔

    انکوائری کمیٹی کے مطابق کمشنر کراچی ڈویژن دودھ سپلائی چین کے تمام مراحل پر قیمتوں کو نوٹیفائی کرتا ہے، اور اس طرح کا آخری نوٹیفکیشن 14 مارچ 2018 کو جاری کیا گیا تھا، جس میں ڈیری فارمرز کے لیے 85 روپے فی لیٹر، ہول سیلرز کے لیے 88.75 روپے، اور ریٹیلرز کے لے 94 روپے فی لیٹر پرائس کو فکس کیا گیا تھا۔ تاہم، ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کے ڈیٹا سے یہ پتا چلتا ہے کہ دودھ کی سپلائی چین میں شامل مختلف ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز کے کردار کی وجہ سے نوٹیفائی پرائس پر عمل درامد نہیں کیا گیا۔

    ثبوت

    فروری 2021 میں ایک انفارمنٹ نے کمیشن کے ساتھ کچھ ویڈیو فوٹیجز بطور ثبوت اور کراچی میں تازہ دودھ کی قیمتیں طے کرنے میں ملوث ’کارٹیل‘ کے وجود کے دیگر ثبوتوں کو شیئر کیا، مبینہ کارٹیل ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی)، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور ملک ریٹیلر ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔

    ریٹیلرز اور ڈیری فارمرز کے نمائندوں کے بیانات کے مطابق ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کراچی، ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی، کراچی ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن، اور آل کراچی فریش ملک ہول سیلرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندے فارم گیٹ پرائس، ہول سیل پرائس اور ریٹیل پرائس کو بھی طے کرتے ہیں۔ اگر کوئی ریٹیلر باندھی کے مقررہ کردہ نرخ پر دودھ خریدنے سے انکار کرتا ہے تو، ایسوسی ایشن اسے دودھ کی فراہمی بند کر دیتی ہے، اور لی مارکیٹ میں واقع منڈی میں دودھ فروخت کر دیتی ہے۔

    مزید برآں، کمیشن نے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے مابین دودھ کے نرخوں کا بھی جائزہ لیا، جس سے یہ پتا چلا کہ صرف کراچی میں دودھ کی قیمتیں یکساں طور پر بڑھی ہیں، جب کہ دیگر تمام شہروں میں قیمتیں مختلف ہیں، قیمتوں میں یہ یکسانیت مختلف ڈیری ایسوسی ایشنز کی جانب سے پرائس فکسیشن کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ہے۔

    نتیجہ

    شواہد کی روشنی میں انکوائری کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جولائی 2020 اور فروری 2021 میں متعلقہ مارکیٹ میں پرائس فکس کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی) نے لیا۔

    اس کے فوراً بعد دو دوسری ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز، جس میں ڈی ایف اے سی، اور کے ڈی ایف اے شامل ہیں، نے بھی پرائس فکس کر دی، جس سے متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

    انکوائری کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ تینوں ڈیری ایسوسی ایشن کی ملی بھگت کے بغیر متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کے نرخوں میں اضافہ ممکن نہیں تھا، لہٰذا، متعلقہ مارکیٹ میں پرائس فکس کرنے کا فیصلہ کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 (1) اور سیکشن 4 (2) (a) کی خلاف ورزی ہے۔

    ان نتائج کی روشنی میں، انکوائری کمیٹی نے کمیشن کو سفارش کی ہے کہ وہ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی)، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) کے خلاف ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت کارروائی شروع کرے۔