Tag: کمہار

  • ماہر ہاتھ مٹی کے برتن کیسے بناتے ہیں؟ اس ویڈیو میں دیکھیں

    ماہر ہاتھ مٹی کے برتن کیسے بناتے ہیں؟ اس ویڈیو میں دیکھیں

    کراچی میں شدید سردی میں سخت محنت کے بعد مٹی کے برتن تیار کرنے والے ان ہنرمندوں سے ملیے۔

    مٹی کو دھونا اور گوندھنا پھر سانچے میں ڈھالنا، یہی نہیں بلکہ کٹھن مرحلہ یعنی بھٹی میں بھی پکایا جاتا ہے، بہ ظاہر آسان نظر آنے والا یہ کام اتنا بھی آسان نہیں، اور چوں کہ اس کا تعلق کاریگری سے ہے، اس لیے خوب مہارت بھی درکار ہوتی ہے۔

    60 سالہ کمہارن فاطمہ بی بی سے ملیے، جو کپکپاتے ہاتھوں سے مٹی کے شاہکار بناتی ہیں، بارش ہو یا تپتی دھوپ، فاطمہ بی بی مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کما رہی ہیں۔

    میگھواڑ قبیلے کا حیرت انگیز ہنر نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے، ویڈیو رپورٹ

    حالات کے ستائے 40 سالہ کمہار محمد حنیف سے ملیے، جو چک میل گھما گھما کر مٹی کو خوب صورت سانچے میں ڈھالتا ہے۔ محنت کشوں کی اس کہانی میں ایک کردار رحمان کا بھی ہے، جو بھٹی میں برتن پکا کر مضبوط بناتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے مشکل لمحات ان محنت کشوں کو سخت بنا رہے ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • مٹی کے برتن بنانے کا فن قصّہ پارینہ بنتا جارہا ہے

    مٹی کے برتن بنانے کا فن قصّہ پارینہ بنتا جارہا ہے

    گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتن بنانے کا ہنر اب دم توڑتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دھات،پلاسٹک اور دیگر مٹیریل سے بنے بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے برتنوں نے لے لی ہے۔

    چک کو پاؤں سے گھما کر گوندھی ہوئی مٹی کو انگلیوں کی پور سے بڑی مہارت کے ساتھ برتنوں میں ڈھالنے والا یہ فن کار کمہار کہلاتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز ٹنڈو الہیار کے نمائندے امان اللہ کھوکھر کی رپورٹ کے مطابق کمہار اپنے ہاتھوں سے بڑی مہارت اور نفاست کے ساتھ کچی مٹی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

    اس حوالے سے ایک کاریگر کا کہنا تھا کہ یہ کام پہلے بہت ہوتا تھا لیکن اب لوگ اس کا کو چھوڑ کر دوسرے کاموں کی جانب راغب ہورہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق کسی زمانے میں ٹنڈو الہیار کے اندر مٹی کے برتن بنانے کے کئی کارخانے ہوا کرتے تھے، لیکن اب اس کی پذیرائی نہ ہونے سے یہ کام دن بہ دن کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

    کچے برتن بنانے کیلیے سب سے پہلے مٹی کو گوندھا جاتا ہے، جس کے بعد اس سے گھڑے، دیگچیاں، پیالے، گل دان اور بےشمار چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔

    ان کچے برتنوں کو پکانے کیلئے استعمال ہونے والی بھٹی کو آوی کہتے ہیں، آوی سے نکلنے کے بعد برتنوں کو رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور کمہار اپنی تخلیق پر مزید خوبصورت اور دیدہ زیب نقش و نگار بناتا ہے۔ آ

  • ہنڈیا، صراحی، مٹکا، ڈولا، گلک اور مٹی کا کٹورا یاد ہے؟

    ہنڈیا، صراحی، مٹکا، ڈولا، گلک اور مٹی کا کٹورا یاد ہے؟

    حضرت انسان نے روئے زمین پر جب گزر بسر شروع کی تو اسے رہنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا کو سنبھالنے کے لیے برتنوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔

    نجانے کب اور کیسے اس نے اپنی ضروریات کا حل نکالا اور درختوں‌ کی چھال، پتوں، پتھروں کو برتن کے طور پر یا کسی کھانے پینے کی چیز کو سنبھالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہو گا، لیکن جب وہ صنعت گری کی طرف مائل ہوا اور ضرورتوں‌ نے اسے ایجاد کا راستہ سجھایا تو ہر طرح‌ کے برتن بنائے اور رفتہ رفتہ اپنی سہولت اور آسانی کے مطابق انھیں‌ مختلف سانچوں‌ میں‌ ڈھال لیا۔

    جب انسان نے اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے، اسے کچھ روز محفوظ رکھنے اور کھانے پینے کا طور طریقہ جان لیا تو باقاعدہ برتن سازی کی طرف متوجہ ہوا۔ تاریخ‌ نویسوں اور محققین کا اندازہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ سے دس ہزار سال پرانا ہے۔

     

    ابتدائی دور میں ہی انسان نے مٹی کے برتن بنانا اور انہیں آگ میں پکا کر مضبوط کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعض محققین کے مطابق چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا اور کوزہ گری کو ایک ہنر تصور کیا جانے لگا۔ محققین کے نزدیک مسلمانوں‌ نے رنگ دار مٹی سے برتن بنانے کی ابتدا کی اور کاری گروں نے مراکش سے لے کر اندلس تک اور پھر برصغیر میں بھی اس فن کو دوام دیا۔

    آج ظروف سازی کا فن گویا دَم توڑتا نظر آرہا ہے۔ لوگ مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ترک کرچکے ہیں، لیکن پہلے گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتن ہی استعمال ہوتے تھے۔

     

    ان میں پانی محفوظ رکھنے کے لیے گھڑے، پکوان کی ہنڈیا، کھانا پروسنے کے لیے پیالے اور اچار ڈالنے کے مرتبان کے علاوہ کئی اور برتن شامل تھے۔ پہلے مٹی کے پیالے سے پانی پیا جاتا تھا، لیکن آج پلاسٹک اور شیشے کے گلاس موجود ہیں۔ مٹی کے برتن صرف ضرورت نہیں‌ تھے بلکہ یہ ہماری رنگا رنگ ثقافت کا حصہ بھی رہے جو اب دم توڑتی جارہی ہے۔

     

    پاکستان کی بات کی جائے تو کبھی ظروف سازی کی صنعت دیہی علاقوں اور شہری مضافات کے لاکھوں‌ باسیوں کا روزگار رہی ہے، لیکن اب مٹی کے برتن بنانے کا سلسلہ محدود ہو گیا ہے۔