Tag: کمیونزم

  • کاسترو، جس کی انقلابی جدوجہد اور امریکا کی بے بسی تاریخ کا حصّہ ہے

    کاسترو، جس کی انقلابی جدوجہد اور امریکا کی بے بسی تاریخ کا حصّہ ہے

    یکم جنوری 1959ء کو فیدل کاسترو نے کیوبا کے عوام کے سامنے ایک بالکونی میں کھڑے ہو کر اپنے انقلاب اور اپنی فتح کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد ایک کریبیئن جزیرہ کمیونسٹ ملک میں تبدیل ہو گیا۔

    کیوبا پر اس وقت ایک آمر باتستا مسلط تھا جسے امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ کیوبا وہ ملک ہے جو امریکا سے محض 145 کلومیٹر دور ہے اور فیدل کاسترو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے جنھوں‌ نے امریکا کے حمایت یافتہ باتستا کو زیر کیا۔

    کاسترو کا سنہ پیدائش 1926ء ہے۔ کیوبا کے ایک امیر اور جاگیردار گھرانے کے فرد ہونے کے ناتے اگرچہ ان کی زندگی عیش و عشرت اور ہر سہولت سے آراستہ تھی، لیکن کاسترو نے یہ سب اپنی انقلابی فکر اور جنون پر قربان کر دیا۔ انھوں نے ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ منتخب کیا۔ وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور لوگوں کے مصائب دیکھ کر باغی ہوگئے اور گھر بار چھوڑ کر انقلابی جدوجہد شروع کی جو کام یاب رہی۔

    کیوبا میں باتستا کی حکومت میں عوام کی مشکلات بڑھ گئی تھیں اور بدعنوانی اور عدم مساوات کے علاوہ قانون حکام اور امرا کے تابع تھا جس میں سزا کا تصوّر صرف عوام کے لیے تھا۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جُوا اور منشیات کیوبا کے لیے سرطان بن چکی تھی۔

    کاسترو نے اسے بدلنے کا عہد کیا اور امریکا کی پشت پناہی سے حکومت میں‌ آنے والے کو آمر کہتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کردیا، ان کے ہم خیال اور ساتھی بھی ان کے حکم پر پہاڑوں میں جمع ہوگئے اور بغاوت کردی جس میں‌ ناکامی کے بعد کاسترو کو 1953ء میں جیل بھیج دیا گیا، دو سال بعد انھیں‌ عام معافی دے دی گئی اور ان کی رہائی عمل میں‌ آئی۔

    فیدل کاسترو نے جیل سے باہر آنے کے بعد دوبارہ جدوجہد کا آغاز کیا اور اس بار انھیں‌ اپنے وقت کے گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کا ساتھ اور مدد بھی حاصل تھی۔ 1956ء میں جو گوریلا جنگ انھوں نے شروع کی اس میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کاسترو کیوبا کے حکم راں بنے۔

    1960ء میں کاسترو نے کیوبا میں وہ تمام کاروبار قومی ملکیت میں لے لیے جن سے دراصل امریکا مالی طور پر فائدہ سمیٹ رہا تھا۔ اس اقدام پر کیوبا کو تجارتی و اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فیدل کاسترو پر متعدد قاتلانہ حملے بھی ہوئے، لیکن وہ محفوظ رہے۔

    1960ء میں کاسترو نے اپنے دور میں‌ بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ہونے والی ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کر لیا۔ تاہم بعد میں جہاں ان کے انقلاب کے زبردست حامی اور پرستار کیوبا میں موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی بھی پیدا ہونے لگی۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تو 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہوگئے اور منظرِ عام سے بھی ہٹ گئے۔ کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب کے اس سربراہ کا انتقال 2016 میں آج ہی کے دن ہوا۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی۔

    کاسترو کی نوجوانی کا زمانہ ہنگامہ خیز اور نہایت مصروف گزرا اور بعد کے برسوں میں اپنی حکومت، عوام اور عالمی سطح پر اپنی مخالفت، حمایت اور سازشوں سے نمٹنے رہے، لیکن کاسترو کو جب موقع ملا تو ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب بھی سامنے آئی۔ یہ کیوبا کے عظیم لیڈر اور ایک انقلابی کی وہ داستان تھی جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس میں‌ کاسترو نے کیوبا میں‌ آمر کے خلاف اپنی گوریلا جنگ سے متعلق تصاویر، نقشے اور اپنے لڑائی کے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔

    کاسترو کی کتاب میں ان کے پچپن کی یادداشتیں‌ بھی شامل ہیں جس میں‌ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کیسے گوریلا جنگجو بنے۔ فیدل کاسترو وہ انقلابی لیڈر تھے جن کے بارے میں دنیا بھر میں‌ کتابیں شایع ہوئیں اور مشہور مصنّفین کے لاتعداد مضامین ان کی عام زندگی، انقلابی جدوجہد اور ان کے سیاسی سفر کے علاوہ بالخصوص امریکا اور کاسترو کی وہ کہانیاں سناتے ہیں جن پر ہمیشہ پردہ ڈالنے اور راز رکھنے کی کوشش کی گئی۔

  • انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔

    ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔

    چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔

    اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔

    جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔

    ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔

    اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔

    ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔

    انقلابِ روس (نومبر1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)۔

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا تھا۔

    یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرۂ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار "الہلال” میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں الہلال کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی (جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے۔ اور مولانا حسرت موہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

    عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ ردود کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انہوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔

    کیا اچھا ہو اگر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جو ان کے اخبار ‘روزانہ ہند’ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی اس قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابلِ دید ہوگا جو انہوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب دست یاب نہیں ہوتا۔

    چند سال پیشتر ‘سوویت دیس’ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلابِ روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔

    بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مارکسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرتسر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکارام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشتراکی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے، تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔

    غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن 1945ء یا 1946ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے، اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہوگئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انہوں نے تحریر کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔

    1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ 1935ء میں ‘انجمن ترقی پسند مصنفین’ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے ‘انجمن ترقیٔ اردو ہند’ کے رسالے ‘اردو’ میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظریے کے متعلق اپنا طویل مضمون شائع کیا۔

    اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکسی دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہرحال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اوّلیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔

    لاہور کے رسالے ‘ادبِ لطیف’ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انہوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ 1938ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبطِ حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہنامہ ‘نیا ادب’ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکس ازم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔

    اردو کا شعری ادب تو کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی ادب بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن چندر کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تاہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرزِ فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں جن پر اشتراکی فلسفۂ حیات کا اثر تھا۔

    1942ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ‘قومی جنگ’ (جس کا نام بعد کو ‘نیا زمانہ’ ہو گیا)، شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گو یہ ایک سیاسی پرچہ تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ۔ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی ،سجاد ظہیر وغیرہ)۔

    اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ‘قومی دارُ الاشاعت’ کے نام سے قائم کیا گیا۔

    اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ "کمیونسٹ مینی فسٹو”، "سوشلزم” اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندوستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو 1958ء تک قائم رہا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا۔ اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عارضی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب ‘سرمایہ’ (داس کیپٹل) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشتراکی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہنودستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔

    اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں، مسکیم گورکی شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چنخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہ کار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں، لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئے ہیں، یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہورہا ہے۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ یہ زمانہ گزرنے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرے گا، کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی اور زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔

    (سجّاد ظہیر کی کتاب مضامینِ سجّاد ظہیر سے انتخاب)

  • یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ وسعتِ بیان اور ہمہ گیری عطا کی جس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور دوسری تحریکوں کو بھی متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا۔ ترقّی پسند تحریک اور اس کا فروغ سیّد سجّاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    سیّد سجّاد ظہیر آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ وہ 13 ستمبر 1973ء کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے روس میں موجود تھے جہاں فرشتہ اجل گویا ان کا منتظر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

    ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز اور اعزاز تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔

    یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج کے لیے یہ خطرناک بات تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی شعور سے آگاہی دی۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی ہوگئی۔

    گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کا گھر سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آمدورفت سے گویا بھرا رہتا تھا۔ انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے دوران سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    1928ء میں اوکسفرڈ کے اس طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقّی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا اور ادب کو نئی بلندی اور وسعتوں سے ہم کنار کرتے ہوئے تنوع دیا۔