Tag: کم عمری کی شادی

  • شادی کی عمر 18 سال رکھنے والے انڈونیشیا اور ترکی کیا مسلمان نہیں؟ بلاول بھٹو

    شادی کی عمر 18 سال رکھنے والے انڈونیشیا اور ترکی کیا مسلمان نہیں؟ بلاول بھٹو

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ سندھ میں قانون نے بالغ شخص کو 10 سال کی لڑکی سے شادی سے روک دیا۔ عرب امارات، انڈونیشیا اور ترکی میں بھی شادی کی عمر 18 سال ہے۔ کیا یہ مسلمان ممالک نہیں؟

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ عرب امارات، انڈونیشیا اور ترکی میں شادی کی عمر 18 سال ہے۔ کیا یہ مسلمان ممالک نہیں؟

    بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سندھ میں جہاں شادی کی عمر کی کم سے کم حد 18 سال ہے، ہم نے دیکھا کہ کس طرح سندھ میں قانون نے بالغ شخص کو 10 سال کی لڑکی سے شادی سے روک دیا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر 20 منٹ میں کم عمری میں حاملہ ہونے والی ایک لڑکی موت کا شکار ہوجاتی ہے۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل قومی اسمبلی میں کم عمری کی شادی کا ترمیمی بل پیش کیا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کے وفاقی وزرا بل کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے تھے۔

    وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان اور وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بل کی مخالفت کی جب کہ شیریں مزاری نے حمایت کی۔

    قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے حمایت اور مخالفت کا ملا جلا رجحان دیکھ کر بل پر ووٹنگ کروا دی جس پر بل کے حق میں 72 اور مخالفت میں 50 ارکان نے ووٹ دیے۔

    وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرد واحد کو اسلام کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں، اس سلسلے میں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سپریم ہے، وہ فیصلہ کر سکتی ہے۔ شادی کے لیے 18 سال کی عمر کا تعین ترکی اور بنگلہ دیش میں بھی ہے، ایسا ہی فتویٰ جامع الازہر نے بھی دیا، کیا وہ خلاف اسلام تھا؟

    قومی اسمبلی کی جانب سے ترمیمی بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا تھا۔

  • کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل: قومی اسمبلی میں اکثریت نے حمایت کردی، بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا

    کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل: قومی اسمبلی میں اکثریت نے حمایت کردی، بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا

    اسلام آباد: قومی اسمبلی نے کم عمری کی شادی پر پابندی کے ترمیمی بل کی حمایت کر دی، اکثریت کی حمایت کی بنیاد پر پابندیٔ ازدواج اطفال کا ترمیمی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اکثریت نے اقلیتی رکن رمیش کمار کے پیش کردہ پابندیٔ ازدواج اطفال کے ترمیمی بل کی حمایت کر دی، یہ بل گزشتہ روز سینیٹ میں شیری رحمان نے پیش کیا تھا جہاں سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

    پی ٹی آئی کے وفاقی وزرا بل کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان اور وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بل کی مخالفت کی جب کہ شیریں مزاری نے حمایت کی۔

    قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے حمایت اور مخالفت کا ملا جلا رجحان دیکھ کر بل پر ووٹنگ کرا دی جس پر بل کے حق میں 72 اور مخالفت میں 50 ارکان نے ووٹ دیے۔

    وزیر مذہبی امور نے کہا کہ موجودہ شکل میں بل قبول نہیں، بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ بل اسلام اور سنت سے متصادم ہے، اسلام کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی، ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل اس بل کی مخالفت کر چکی ہے۔

    تاہم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ فرد واحد کو اسلام کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں، اس سلسلے میں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سپریم ہے، وہ فیصلہ کر سکتی ہے، شادی کے لیے 18 سال کی عمر کا تعین ترکی اور بنگلہ دیش میں بھی ہے، ایسا ہی فتویٰ جامع الازہر نے بھی دیا، کیا وہ خلافِ اسلام تھا؟

    یہ بھی پڑھیں:  پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش کی گئی تھی، سینیٹر شیری رحمان نے بل کے حوالے سے کہا کہ ہم معاشرے میں مغربی اقدار نہیں لا رہے، ہر 20 منٹ میں زچگی میں کم عمری سے اموات ہو رہی ہیں، سعودی شوریٰ کونسل نے شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔

    دوسری طرف جمعیت علماے اسلام (ف) نے پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل کے لیے بنائی گئی کمیٹی پر اعتراض کیا تھا، عبد الغفور حیدری نے کہا کہ کمیٹی نے ہمیں نہیں بلایا، بل نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے تھا۔

    سینیٹر عطا الرحمان نے بھی کہا کہ ترمیمی بل کو نظریاتی کونسل میں بھیج دیا جائے، کونسل سے اس پر شرعی رائے لی جائے، اسلام کے مطابق تو بلوغت کے بعد شادی کر دینی چاہیے۔

    جب کہ علی محمد خان نے بھی بل کے نظریاتی کونسل بھیجے جانے کی حمایت کی، اور کہا کہ آئین پاکستان ہمیں شرعی رائے لینے کا پابند کرتا ہے، تاہم انھوں نے بلوغت کے حوالے سے کہا کہ اسلام میں بچے کی بلوغت کا تعلق عمر سے نہیں ہے۔

  • پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش

    پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش

    اسلام آباد: پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش کر دی گئی، تحریک سینیٹر شیری رحمان نے پیش کی۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس کے دوران آج پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے بچوں کی شادی پر پابندی کا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا۔

    [bs-quote quote=”میری بھی زبردستی شادی کروا ئی گئی۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”شبلی فراز” author_job=”سینیٹر، قائد ایوان”][/bs-quote]

    سینیٹر شیری رحمان نے بل کے حوالے سے کہا کہ ہم معاشرے میں مغربی اقدار نہیں لا رہے، ہر 20 منٹ میں زچگی میں کم عمری سے اموات ہو رہی ہیں، سعودی شوریٰ کونسل نے شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔

    جمعیت علماے اسلام (ف) نے پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل کے لیے بنائی گئی کمیٹی پر اعتراض کیا، عبد الغفور حیدری نے کہا کہ کمیٹی نے ہمیں نہیں بلایا، بل نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے تھا۔

    سینیٹر عطا الرحمان نے بھی کہا کہ ترمیمی بل کو نظریاتی کونسل میں بھیج دیا جائے، کونسل سے اس پر شرعی رائے لی جائے، اسلام کے مطابق تو بلوغت کے بعد شادی کر دینی چاہیے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل منظور کرلیا

    وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بھی بل کے نظریاتی کونسل بھیجے جانے کی حمایت کی، اور کہا کہ آئین پاکستان ہمیں شرعی رائے لینے کا پابند کرتا ہے، تاہم انھوں نے بلوغت کے حوالے سے کہا کہ اسلام میں بچے کی بلوغت کا تعلق عمر سے نہیں ہے۔

    پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے قائد ایوان شبلی فراز نے کہا ’میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کا طریقۂ کار دیکھا جو واضح نہیں تھا، کونسل ارکان کبھی ایک طرف کی بات کرتے کبھی دوسری طرف کی، ہم نہیں چاہتے کہ نکاح کے وقت پولیس آ ئے اور شناختی کارڈ چیک کرے، زبردستی شادی کا عمر سے تعلق نہیں، میری بھی زبردستی شادی کروا ئی گئی۔‘

    سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ 18 سال سے قبل شادی پر پابندی غیر شرعی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ زچگی میں اموات کم عمری کی وجہ سے نہیں بلکہ طبی سہولیات نہ ہونے سے ہو رہی ہیں۔

    بل کے نظریاتی کونسل بھیجے جانے پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ماضی کا پابندیٔ زدواج اطفال بل بھی نظریاتی کونسل میں پڑا ہوا ہے، کونسل بھیجنے سے معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جائے گا، عمر مقرر کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ عمان، ترکی اور یو اے ای میں بھی شادی کی عمر 18 سال مقرر ہے۔

    وفاقی مذہبی امور برائے بین المذاہب ہم آہنگی نور الحق قادری نے کہا کہ ماضی میں قومی اسمبلی میں پابندیٔ ازدواج اطفال بل پیش کیا گیا تو نفیسہ عنایت اور ماروی میمن کا بل نظریاتی کونسل نے غیر شرعی قرار دیا، اور قومی اسمبلی میں بھی بل واپس لیا گیا۔

  • سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل منظور کرلیا

    سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل منظور کرلیا

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے چائلڈ میرج بل منظور کرلیا جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے دوران چائلڈ میرج بل پر بحث ہوئی۔ بل کو اس سے قبل مزید بحث اور سفارشات کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا۔

    پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بل کا مقصد بچوں کی شادی روکنا ہے، سندھ میں ایسا بل منظور ہوچکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بلوغت کی عمر 18 سال متعین ہونی چاہیئے، لفظ بچے کی تعریف میں وضاحت کی ضرورت ہے۔

    سینیٹر نے کہا کہ بچوں کی 21 فیصد شرح اموات کی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں، بچپن میں شادیوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 18 سال سے کم عمر والوں کو بچہ تسلیم کیا جائے۔

    شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیئے، 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔

    وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی بل کی حمایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

    کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بل کو منظور کرلیا۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے 2020 تک دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14 کروڑ ہوگی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں 21 فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

  • پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی جبری شادی کا شکار

    پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی جبری شادی کا شکار

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے۔

    عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے 2020 تک دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد 14 کروڑ ہوگی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

    کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں 75 فیصد بچیوں اور 25 فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں 99 فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہوا ہو، بچوں اور بچیوں دونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 50 لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

  • نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کھٹمنڈو: نابالغ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ انہیں شمار طبی و نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ نیپال میں بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ ہندو پجاری اپنی مذہبی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کم عمر بچیوں کی شادی نہ کریں۔

    نیپال میں کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے مطابق ملک میں 38 سے 50 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ شادیاں لڑکی کے خاندان والوں کی خواہش پر ہوتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو انتخاب کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ نیپال میں گزشتہ 54 سالوں سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد ہے لیکن دور دراز دیہاتوں کے لوگ اب بھی اپنی لڑکیوں کی شادیاں جلدی کردیتے ہیں۔ یہ ان کی قدیم خاندانی ثقافت و روایات کا حصہ ہے اور ان دور دراز علاقوں میں قانون بھی غیر مؤثر نظر آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    دوسری جانب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی لڑکیوں کو بے شمار طبی مسائل میں مبتلا کردیتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔

    کم عمری کے حمل میں اکثر اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے نیپال کے مغربی حصے میں واقع ایک گاؤں میں ہندو مذہبی رہنماؤں اور پجاریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

    ان ہی میں سے ایک پجاری 66 سالہ دیو دت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک نو عمر لڑکی کے والدین اس کی شادی کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے آئے۔ اس لڑکی کی عمر صرف 16 برس تھی۔

    nepal-3

    دیو دت نے ان پر زور دیا کہ وہ کم از کم اپنی لڑکی کو 20 سال کی عمر تک پہنچنے دیں اس کے بعد اس کی شادی کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ اکثر والدین ان کے پاس آکر اپنی لڑکی کی عمر کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، جس کے بعد وہ اس لڑکی کا پیدائشی ’چینا‘ دیکھتے ہیں جس سے انہیں اس کی صحیح عمر کے بارے میں علم ہو جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    نیپالی زبان میں چینا دراصل ماہرین نجوم کی جانب سے بنایا گیا مستقبل کی پیش گوئی کرتا چارٹ ہے جو نیپالی ثقافت کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کا بنایا جاتا ہے۔ اس چارٹ میں درج کی جانے والی معلومات بشمول تاریخ پیدائش اور سنہ بالکل درست ہوتا ہے جس سے کسی کی بھی درست عمر کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

    دیو دت نے بتایا کہ وہ اکثر والدین کو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی لڑکیوں کا رشتہ طے کردیں مگر شادی کو چند سالوں کے لیے مؤخر کردیں۔

    اس کام میں دیو دت اکیلے نہیں ہیں۔ گاؤں میں ان جیسے کئی مذہبی پجاری ہیں جو اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

  • بنگلہ دیشی طالبات کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے متحرک

    بنگلہ دیشی طالبات کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے متحرک

    ڈھاکہ: کم عمری کی شادیاں ترقی پذیر ممالک کا ایک عام رواج ہے تاہم یہ لڑکیوں اور ان کی آئندہ نسل پر نہایت خطرناک طبی اثرات مرتب کرتی ہے اسی لیے دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی جاتی ہے۔

    بنگلہ دیش میں بھی نو عمر طالبات کا ایک گروہ اس سماجی برائی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    گو کہ بنگلہ دیش میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے تاہم ملک بھر میں 65 فیصد لڑکیاں اس عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 29 فیصد لڑکیاں 15 سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    ان میں سے ایک تہائی لڑکیاں جن کی عمریں 15 سے 19 برس کے درمیان ہے، حاملہ ہوجاتی ہیں اور یہیں سے ماں اور بچے کے لیے تشویش ناک طبی خطرات سامنے آتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔

    کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    انہی خطرات سے آگاہی کے لیے بنگلہ دیش میں اسکول کی کچھ کم عمر طالبات نے شورنوکشوری (سنہری لڑکیاں ۔ بنگلہ زبان کا لفظ) نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔

    یہ تنظیم انفرادی طور پر نہ صرف کم عمری کی شادیوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ وہ مختلف اسکولوں میں طالبات کو طبی معلومات و رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    اس تنظیم کی بانی لڑکیوں انیکا اور اویشکا کا کہنا ہے کہ ہماری کتابیں صحت سے متعلق آگاہی تو دیتی ہیں لیکن یہ زیادہ تر لڑکوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ ’ہماری کتابوں میں کم عمری کی شادی اور اس سے ہونے والے خطرات کے بارے میں نہیں بتایا جاتا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے تاکہ شادی کے بعد وہ اپنا اور اپنے بچے کا خیال رکھ سکیں۔

    یہ تنظیم اب خاصی منظم ہوچکی ہے اور یہ ملک بھر کے 64 اسکولوں میں بچیوں کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسکول کے ساتھیوں نے کمسن دلہن کو جبری شادی سے نجات دلا دی

    اسکول کے ساتھیوں نے کمسن دلہن کو جبری شادی سے نجات دلا دی

    نئی دہلی: بھارت میں جبری شادی کا شکار ایک 16 سالہ دلہن کو اس کے اسکول کے ساتھیوں نے ڈھونڈ نکالا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔

    بھارت کے شہر جے پور کے ایک چھوٹے سے قصبے کی رہائشی 16 سالہ لڑکی کو اسکول سے زبردستی اٹھا کر دگنی عمر کے ایک شخص سے بیاہ کر قریبی گاؤں بھیج دیا گیا تھا۔

    جب اس کے اسکول کے ساتھیوں کو اس کی شادی کا علم ہوا تو انہوں نے اس کے گھر والوں سے اس کا پتہ پوچھا، تاہم ان کے انکار پر وہ خود ہی کسی طرح ڈھونڈ کر اس کے گھر پہنچ گئے۔

    وہاں اس لڑکی نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے بعد بچوں کا ہجوم اسے اپنے ساتھ شہر لے گیا۔

    مزید پڑھیں: نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کمسن طالب علموں نے پولیس کو شکایت درج کروانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ان کی بات سننے سے نکار کردیا۔ بعد ازاں ایک تنظیم کی مدد سے یہ بچے فیملی کورٹ جا پہنچے جہاں لڑکی نے اپنی شادی کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کردی۔

    اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی منقطع تعلیم کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کردیا اور اسکول واپسی پر اس کا پرجوش استقبال کیا گیا۔

    یاد رہے کہ بھارت میں قانونی طور پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال ہے تاہم ہر سال لاکھوں لڑکیاں اس عمر سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں کم عمری کی شادیاں لڑکیوں میں بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہے جو تاحیات ان کے ساتھ رہتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نوجوانوں کا عالمی دن: بیروزگاری اور تعلیم کی عدم فراہمی سب سے بڑے مسائل

    نوجوانوں کا عالمی دن: بیروزگاری اور تعلیم کی عدم فراہمی سب سے بڑے مسائل

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم نوجوانان منایا جا رہا ہے۔ رواں برس اس دن کا موضوع ’روڈ ٹو 2030 ۔ غربت کا خاتمہ اور پائیدار تخلیق‘ ہے۔

    اس موضوع کا تعلق 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے سے ہے۔ اس ایجنڈے میں دنیا سے غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے نوجوانوں کے مرکزی کردار پر زور دیا گیا ہے۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا میں اس وقت 8.1 بلین نوجوان موجود ہیں۔ ان کی عمر 10 سے 24 سال کے درمیان ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ یعنی 754 ملین نوجوان موجود ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے۔

    yd-3

    اگر ان نوجوانوں کو بہتر رہنمائی اور تعلیم ملے تو یہ دنیا کو بدلنے کے لیے ایک بڑی طاقت ثابت ہوسکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے 1998 میں پہلی بار نوجوانوں کا عالمی دن منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سے اسے ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاہم عالمی سطح پر نوجوانوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔

    اقوام متحدہ ہی کے مطابق دنیا بھر میں موجود نوجوانوں کی 12.6 فیصد آبادی، یعنی 75 ملین نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہیں لیکن ان کے پاس اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے کوئی مواقع نہیں۔

    دوسری جانب نوجوان لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی عدم فراہمی اور کم عمری کی شادیاں ہیں۔

    yd-2

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    ان دونوں مسائل کی وجہ جنگیں، امن و امان کی ابتر صورتحال، قدیم رسم و رواج اور نام نہاد معاشرتی اقدار ہیں۔ جب لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں تو وہ مالی طور پر خود کفیل نہیں ہوسکتیں جس کے بعد وہ لازماً اپنے خاندان کے لیے ایک بوجھ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ چنانچہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر کے اس ’بوجھ‘ سے جان چھڑائی جاتی ہے۔

    yd-4

    تعلیم سے محرومی کے باعث نوجوان لڑکیوں کو اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رواں برس نوجوانوں کے لیے پیغام دیا، ’جب ہم نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یہ نئی تجارتوں، ملازمتوں، پائیدار ترقی، پائیدار انفراسٹرکچر اور دیگر کئی شعبوں پر مثبت طور سے اثر انداز ہوتے ہیں جو اس زمین اور زمین پر بسنے والے لوگوں کے فائدے کا سبب بن سکتی ہے‘۔

  • افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    افریقی ممالک گیمبیا اور تنزانیہ میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔

    گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع نے پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص 20 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہوا پایا گیا اسے 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا جائے گا۔

    africa-3

    دوسری جانب تنزانیہ کی سپریم کورٹ نے تاریخی قانون کو نافذ کرتے ہوئے اسے 18 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے غیر قانونی قرار دیا۔

    واضح رہے گیمبیا میں کم عمری کی شادیوں کا تناسب 30 جبکہ تنزانیہ میں 37 فیصد ہے۔ تنزانیہ میں اس سے قبل اگر والدین چاہتے تو وہ اپنی 14 سالہ بیٹی کی شادی کر سکتے تھے۔ لڑکوں کے لیے یہ عمر 18 سال تھی۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    گیمبیا کے صدر نے اس قانون کا اعلان عید الفطر کے موقع پر ہونے والی تقریب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون شکنی میں جو والدین اور نکاح خواں ملوث ہوں گے انہیں بھی سزا دی جائے گی۔ انہوں نے تنبیہہ کی کہ اگر کوئی اس قانون کو غیر سنجیدگی سے لے رہا ہے تو وہ کل ہی اس کو توڑ دے، اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

    africa-2
    گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع

    خواتین کے حقوق اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس قانون کا خیر مقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ مقامی کمیونٹیز کو آگاہی دی جائے تاکہ وہ اس فعل سے خود بچیں۔

    ایسی ہی ایک تنظیم وومینز ایجنڈا کی کارکن استو جینگ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’والدین کو سزائیں دینا مناسب قدم نہیں۔ یہ آگے چل کر بغاوت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مقامی لوگوں کو اس کے بارے تعلیم و آگاہی دی جائے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ فیصلہ نہ کریں‘۔

    گیمبیا کے صدر اس سے قبل بھی لڑکیوں کی ’جینیٹل میوٹیلیشن‘ کے عمل پر پابندی لگا چکے ہیں جس میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کو مسخ کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس فعل کو اپنانے والوں کے لیے 3 سال سزا بھی مقرر کی تھی۔ انہوں نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔