Tag: کم عمر لڑکی

  • کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم

    کم عمر لڑکی کی شادی کرانے پر نکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے کم عمرلڑکی کی شادی کرانے پرنکاح خواں کیخلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورہائیکورٹ میں کم عمرلڑکی کی شادی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس انوار الحق پنوں نے حمیرا بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔

    لاہور:دارلاامان سے کم عمر بچی کو عدالت میں پیش کیا گیا، درخواست گزار نے بتایا کہ بچی کو عمر 15 سال ہےزبردستی شادی کرائی گئی ، بچی کے اغواکا مقدمہ شاہدرہ میں درج ہے۔

    جسٹس انوار الحق پنوں نے لڑکی سے استفسار کیا کیا آپ نے شادی اپنی مرضی سےکی ، جس پر حمیرا نے بتایا کہ جی میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا آپ کی عمر کتنی ہے؟ تو حمیرا کا کہنا تھا کہ میری عمر 15 سے 16 سال ہے۔

    عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو مقدمہ پر فیصلہ کرنےکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نکاح خوان کیخلاف استغاثہ فائل کریں ، کیسے کم عمر بچی کی شادی کرادی۔

  • 16سال سے کم عمر  لڑکی کا نکاح کرنا جرم قرار ، عدالت کا ایک اور فیصلہ

    16سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح کرنا جرم قرار ، عدالت کا ایک اور فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے کم سن بچوں کی شادی سے متعلق فیصلے میں کہا ہے کہ 16 سال سے کم عمر کسی لڑکی کا نکاح کرنا جرم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام آباد کے شہریوں کے لئے کم سن بچوں کی شادی کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک اور فیصلہ آ گیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت کسی بھی شخص کے لیے جرم ہے، جو 16 سال سے کم عمر کی کسی لڑکی کا نکاح کرتا ہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مسلم لڑکی 18 سال کی ہو تو ولی کے بغیر معاہدہ کر سکتی ہے سوئی فقہ کا مطلب ہے 18 سال لڑکی جبکہ حنفی مکتبہ فکر کے مطابق لڑکی عمر 17 سال کو پہنچنے پر نکاح کر سکتی ہے جبکہ ڈی ایف مولا کے مطابق لڑکی 15 سال کی عمر میں نکاح کر سکتی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت میں کسی شخص کو نکاح کرنے کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے نہ صرف بلوغت حاصل کرنا ضروری ہے، بلکہ اس کی جلد بازی بھی ضروری ہے، یعنی ایک ایسا شخص جو معقول فیصلہ کرنے کے لیے کافی بالغ ہو۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر مداخلت کرے اور قانون سازی کرے، شریعت کے مطابق اگرچہ نکاح کی عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اس لیے ریاست اس معاملے پر قانون سازی کرنے اور مذکورہ مقاصد کے لیے عمر کا تعین کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جیسا کہ حکومت سندھ نے کیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق لائبہ نور کی عمر متعلقہ وقت پر 16 سال اور 5 ماہ تھی، اس لیے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی طرف متوجہ نہیں کیا گیا، تاہم حنفی مکتبہ فکر کے مطابق معاہدہ کرنے کی اہل نہیں ہے اورسپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ولی کی ضرورت لاگو ہو گی۔

    عدالت نے کہا کہ چونکہ نکاح نامہ اور محترمہ کی طرف سے حلف نامہ موجود ہے، لائبہ نور نے سیکشن 164 سی آر پی سی کے تحت اپنے بیان کے برعکس جہاں اس نے جبر کا الزام لگایا ہے،درخواست گزار کے خلاف مزید انکوائری کے لیے ایک کیس بنتا ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیش مکمل ہو گئی ہے اور درخواست گزار کی مسلسل قید سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا،تاہم پولیس حقائق اور حالات کو بھی مدنظر رکھے گی اور سیکشن 498-B PPC کو حقائق اور حالات میں شامل کرنے پر غور کرے گی،

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق درخواست گزار کو مذکورہ کیس میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر توسیع دی جاتی ہے، جس کے تحت 1,00,000/- روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا جبکہ اتنی ہی رقم میں ایک شخصی ضامن بھی ٹرائل کورٹ میں جمع کرائیں۔

    عدالت نے کہا مشاہدات کی روشنی میں قانون میں ترمیم کرنے کے لیے وزارت قانون و داخلہ، حکومت پاکستان کو فیصلے کی کاپی بھیجا جائے،اس بات کا مشاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مشاہدات عارضی نوعیت کے ہیں۔