Tag: کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

  • آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے۔ بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔

    ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہو لیا۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے، بھئی ہم تو اب چلتے ہیں۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا، آپ خود ہی تشریف لائے ہیں، ذرا اور انتظار کیجیے۔ جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:

    نامناسب ہے خون کھولانا
    پھر کسی اور وقت مولانا

    ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے، آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلا لیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا۔

    فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے، جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے۔ جوش صاحب نے وعدہ فرما لیا، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا، مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفلِ مکتب کی بھی نہیں تھی۔

    اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے، کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کر دو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں، یوں ہی چلے آئے تھے، آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔ اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے، لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کوفت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں، میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت، خود داری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے؟

    جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔ جتنا ذخیرۂ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو، لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ تھے مولانا آزاد اور مولانا عبدالسّلام نیازی۔ ایک روز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسّلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔

    (اردو کے معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے مضمون سے اقتباسات)

  • سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    ”یادوں کا جشن“ اردو کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ہے جس میں اُن کے دور کے معروضی حالات کے ساتھ کئی دل پذیر واقعات اور پُراثر باتیں ہمیں‌‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ کتاب 1983 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تخلّص سحر تھا اور ہندوستان ہی نہیں پاکستان بھر میں انھیں بطور شاعر پہچانا جاتا تھا۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ کنور صاحب کی بذلہ سنجی

    کنور مہندر سنگھ بیدی 1909ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے شہری ہوگئے اور وہیں دہلی میں وفات پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پہلی مرتبہ 1956ء میں کراچی آئے جس کا ذکر انھو‌ں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتے ہیں:

    "جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ کراچی میں پورے سال میں آٹھ، دس انچ بارش ہوتی ہے، اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک استقبال کیا۔

    میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھا مگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا، میں پانچ، چھ دن وہاں ٹھہرا۔ اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    دعوتوں کا یہ عالم تھا کہ صبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد دو، دو تین، تین جگہ کافی، پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں، جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے، جہاں بھی میں جاتا دس، بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں۔ اچھا خاصا جلوس سا دکھائی دیتا تھا۔

    اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے، جس شام مجھے کراچی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا، اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی درخواست کی، یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جاتے تھے اور میرے بیدار ہو نے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے تواضع کرتے۔ ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں جس روز مجھے وہاں سے دہلی واپس آنا تھا، وہ حسبِ دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔آئی۔ ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ میں آپ سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔ اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

    اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔ وہ میرا کراچی میں آخری دن تھا اور مجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھا مگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ تیار ہو کر میں اس کے ساتھ ہو لیا اور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔ جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا۔ اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

    میں دروازے پر رک گیا۔ لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گا، میں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔ اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔

    کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ دعا کیجیے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔ مجھے یہ سن کر اپنے گناہوں کا احساس ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، مگر وہ بضد رہا۔ آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازیٔ عمر اور خوش حالی کی دعا مانگی۔

    اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے رخصت لی۔ میرے دل پر اس واقعے کا بہت دیر تک اثر رہا۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو اس شخض کی فراخ دلی، اعتماد، صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔ مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اس کا ایڈریس نہ لے سکا ورنہ واپس آکر اسے شکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

  • بیدی کی شگفتہ بیانی

    بیدی کی شگفتہ بیانی

    اردو کے مختلف ادیبوں اور مشہور شعرا کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ہمیں‌ ادبی تذکروں‌ میں ان کی ادبی مجالس اور نشستوں کا احوال بھی پڑھنے کو ملتا ہے، اور روداد نویسوں نے ان ادبی شخصیات سے متعلق مختلف سنجیدہ اور بعض دل چسپ واقعات بھی رقم کیے ہیں۔

    ہم اکثر ادبی تذکروں‌ میں مشہور شعرا سے متعلق لطائف پڑھتے رہتے ہیں جو ان کی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی اور ظرافت کے ساتھ ان کی علمیت اور حاضر دماغی کا ثبوت ہیں۔

    کنور مہندر سنگھ بیدی جن کا تخلص سحر تھا، ہندوستان کے مشہور شعرا میں سے ایک ہیں۔ ایک مشاعرے میں‌ ان کی نظامت سے متعلق تذکرہ کچھ یوں‌ کیا گیا ہے۔ چیمسفورڈ کلب میں‌ منعقدہ مشاعرہ میں سینئر اور مشہور شعرائے کرام مدعو تھے اور نظامت کے فرائض بیدی صاحب انجام دے رہے تھے۔

    ایک شاعر اپنا کلام سنا چکے تو کنور صاحب نے عرش ملسیانی کو دعوت دی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور مائیک اٹھانے کے لیے بڑھے تو بیدی صاحب کی آواز شرکا اور سامعین کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ انھوں نے مدعو شاعر کے نام کی رعایت سے شعر پڑھ دیا اور داد سمیٹی۔ شعر یہ تھا۔

    عرش کو فرش پر بٹھاتا ہوں
    معجزہ آپ کو دکھاتا ہوں

    اسی مشاعرے کے دوران ایک اور شاعر کو دعوتِ کلام دینے پہلے سامعین سے مخاطب ہوئے اور شاعر کا تعارف کچھ اس طرح‌ کروایا۔

    کیا ستم ظریفی ہے کہ اب میں ایک ایسے شاعر کو مدعو کررہا ہوں جو ہر طرف سے گھرا ہوا ہے اور قافیہ ردیف کا بھی پابند ہے۔ اس پر ستم یہ کہ سرکاری ملازم بھی ہے اور تخلص ہے ’آزاد۔‘ اس پر معروف شاعر جگن ناتھ آزاد مسکرائے، اپنی نشست سے اٹھے اور کلام پیش کرنے کے لیے مائیک تھام لیا۔