Tag: کنگ فشر

  • لمبی چونچ والے اس پرندے کو کنگ فشر کیوں کہتے ہیں؟

    لمبی چونچ والے اس پرندے کو کنگ فشر کیوں کہتے ہیں؟

    آج سے کئی سال پہلے جاپان کی بلٹ ٹرین کا ڈیزائن ایسا تھا کہ جب وہ کسی سرنگ سے باہر نکلتی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ایک زبردست گونج یا دھماکے کی آواز سنائی دیتی تھی جو قریبی آبادی اور مسافروں کے علاوہ جنگلی حیات کے لیے بھی پریشان کُن تھی۔ یہی‌ نہیں بلکہ ہوا کا یہ دباؤ ٹرین کی رفتار کو بھی متاثر کرتا تھا۔

    بالآخر جاپانی انجنیئروں کو اس کا حل مل گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں‌ کنگ فشر نامی پرندہ ماہرین کا مددگار ثابت ہوا۔ کہتے ہیں پانی میں خوراک ڈھونڈنے والے کنگ فشر کے جسم اور خاص طور پر اس کی چونچ کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات سامنے آئی جب وہ پانی میں غوطہ لگاتا ہے تو اس کی چونچ کی مخصوص شکل پانی کو گویا کاٹ کر اپنا شکار لے اڑتا ہے۔

    جب یہ غوطہ لگاتا ہے تو پانی اس کی چونچ اور باقی جسم سے دائیں بائیں سے گزر جاتا ہے اور اس طرح پانی کو دباؤ دیے بغیر پرندہ آسانی سے اپنا کام کر جاتا ہے۔ ماہرین نے اپنی نئی بلٹ ٹرین کا ڈیزائن تبدیل کرکے اس کے اگلے حصّے کو کنگ فشر کی "چونچ” کی شکل دے دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرین سرنگ میں سے گزرتے ہوئے ہوا کو دباؤ دیے بغیر تیزی سے کاٹتی ہوئی گزرنے لگی اور سرنگ میں بھری ہوئی ہوا کے خلاف مزاحمت بھی کم ہوگئی۔ اس عمل سے ٹرین کی رفتار پر بھی اثر نہیں‌ پڑا اور گونج یا دھماکے کی آواز پیدا ہونے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔

    کنگ فشر کی متعدد قسمیں ہیں‌ جو ٹراپیکل جنگلات والے علاقوں میں‌ پایا جاتا ہے۔ اس کی بڑی تعداد انڈونیشیا، ملائیشیا اور پاکستان، بھارت میں رہتی ہے۔ یہ پرندہ افریقہ اور آسٹریلیا میں بھی پایا جاتا ہے لیکن یورپ، براعظم شمالی و جنوبی امریکہ میں اس کی کم نسلیں ملتی ہیں۔

    ماہرینِ حیوانات نے اس پرندے کی تین بنیادی اقسام بتائی ہیں جن میں‌ سمندری اور دریائی اور درختوں میں رہنے والا کنگ فشر شامل ہے۔ ہم کنگ فشر کی جس نسل کی بات کررہے ہیں وہ پانی کے آس پاس ہی رہتی ہے اور کسی چٹان یا شاخ پر بیٹھ کر اپنا شکار تلاش کرتا ہے۔

    اس پرندے کو ’’کنگ فشر‘ کہنے کی وجہ تمام آبی پرندوں میں‌ اس کی مچھلیاں پکڑنے میں پھرتی اور مہارت ہے۔ کنگ کے ساتھ فشر کا لفظ اس کی مچھلیاں پکڑنے کی صلاحیت کے لیے جوڑ کر کنگ فشر بنایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس پرندے کی تین سو سے زائد اقسام ہیں۔ یہ خوب صورت پرندہ ہے جس کے پَر رنگ برنگے اور چمک دار ہوتے ہیں۔ اس پرندے کی مادہ اپنے نر کے مقابلے میں‌ زیادہ پرکشش ہوتی ہے۔ کنگ فشر مچھلیاں اور آبی کیڑے مکوڑے کھا کر گزارہ کرتا ہے۔

    آپ تصویر میں‌ دیکھ سکتے ہیں‌ کہ اس پرندے کی چونچ لمبی اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں جو اسے پانی میں غوطہ لگانے اور اپنا توازن قائم رکھتے ہوئے تیزی سے شکار کو دبوچ لینے میں‌ مدد دیتی ہیں۔ کنگ فشر پلک چھپکتے ہی پانی میں غوطہ لگا کر اپنی لمبی چونچ میں‌ مچھلیاں‌ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ مچھلیاں ایک سے زائد بھی ہوسکتی ہیں۔

    کنگ فشر امریکا کے مختلف علاقوں میں عام پائے جاتے ہیں، لیکن سرد موسم میں یہ ہجرت کر کے گرم پانی والے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔

  • ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    یوں تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اسے دیگر تمام مخلوقات سے ذہین اور عقلمند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مواقع ایسے بھی آئے جب انسانوں نے جانوروں اور پرندوں سے کچھ نیا سیکھا۔

    دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم جاپان، جو پوری دنیا کے لیے ترقی اور محنت کی ایک مثال ہے، اس نے بھی ایک نہایت اہم سبق ایک ننھے سے پرندے سے سیکھا۔

    30 سال قبل جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا بھر میں مقبول تھی جو گولی کی رفتار سے سفر کیا کرتی تھی، تاہم یہ ٹرین ایک مقام پر نہایت پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    جب بھی یہ ٹرین کسی سرنگ میں داخل ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا، سرنگ سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین بہت روز دار آواز پیدا کرتی تھی۔ اس شور سے وہاں کی جنگلی حیات، ٹرین کے مسافر، اور آس پاس کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہوتے۔

    دراصل ہوتا یوں تھا کہ جب ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی تو سرنگ میں موجود ہوا پر دباؤ پڑتا، دباؤ سے ایک صوتی لہر پیدا ہوتی، یہ ہوا آگے جاتی اور سرنگ سے باہر نکلتے ہوئے اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے زوردار فائرنگ کی گئی ہو۔ ہوا کے اس دباؤ کی وجہ سے ٹرین کی رفتار بھی ہلکی ہوجاتی۔

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ننھے سے پرندے کنگ فشر نے جاپانی ماہرین کو انوکھا راستہ دکھایا۔

    پانی سے مچھلیوں کا شکار کرنے والے اسے پرندے کی چونچ نہایت نوکدار تھی۔ ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کی چونچ سر کی طرف سے چوڑی تھی اور آگے جا کر نوکدار ہوجاتی۔

    اس کی وجہ سے پرندہ نہایت آسانی اور تیزی سے اپنی چونچ پانی میں داخل کردیتا۔

    جاپانی ماہرین نے بلٹ ٹرین کے لیے بھی یہی تکنیک اپنائی اور ایسی ٹرین بنائی جس کا اگلا حصہ نوکدار تھا۔ یہ ٹرین سرنگ میں ہوا پر دباؤ ڈالے بغیر ہوا کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہتی۔

    کامیاب تجربے کے بعد جاپان میں بلٹ ٹرین کے لیے یہی ماڈل اپنا لیا گیا اور اس کا نام کنگ فشر ٹرین رکھا گیا۔ یہ ٹرین کم آواز میں نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔