Tag: کنہیا لال کپور

  • ایک شعر یاد آیا!

    ایک شعر یاد آیا!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔

    پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘، فرماتے ہیں،

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا ،کیا جاتا رہا،جاتا رہا

    ’’کہئے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘، ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے،

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجئے‘‘،

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تونے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجئے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات! ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘،

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔ آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔ آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھئے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھئے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘، اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔ ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں‘‘۔ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے،

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے،

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے ،لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فر مایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
    پر کترنے کولگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے،

    کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے،

    ہمیں بھی نامہ بر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے

    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔۔۔ وہ شعر ہے، شعر ہے کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔ ہاں، یاد آ گیا، لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    ایک دن ہماری آنکھیں آگئیں۔ کالج سے دو دن کی چھٹی لی۔ آغا صاحب کو پتہ چلا، حال پوچھنے آئے۔ فرمانے لگے، ’’بادام کا استعمال کیا کیجئے۔ نہ صرف آپ آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آنکھوں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ دوایک منٹ چپ رہنے کے بعد ہم سے پوچھا، ’’آپ نے آنکھوں سے متعلق وہ شعر سنا جسے سن کر سامعین وجد میں آگئے تھے۔ میرا خیال ہے نہیں سنا۔‘‘ وہ شعر تھا،

    جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
    چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

    نہایت عمدہ شعر ہے لیکن پھر بھی سودا کے شعر سے ٹکر نہیں لے سکتا۔

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    اسی موضوع پر عدم کا شعر بھی خاصا اچھا ہے۔

    اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
    قافلے راہ بھول جاتے ہیں

    عدم کے بعد انہوں نے جگرؔ، فراقؔ، جوشؔ، اقبالؔ، حسرتؔ،فانیؔ کے درجنوں اشعار سنائے۔ انہیں سن کر کئی بار اپنی آنکھوں کو کوسنے کو جی چاہا کہ نہ کم بخت آتیں اور نہ یہ مصیبت نازل ہوتی۔ رات کے بارہ بج گئے لیکن آغا صاحب کا ذخیرہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’آغا صاحب! آپ نے اتنے اشعار سنائے۔ دو شعر ہم سے بھی سن لیجئے‘‘،

    ’’ارشاد،‘‘ آغا صاحب نے بے دلی سے کہا۔

    ’’ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے سب کو
    جن سے بھاگے نہ بنے جن کو بھگائے نہ بنے
    جس سے اک بار چمٹ جائیں تو مر کے چھوٹیں
    وہ پلستر ہیں کہ دامن سے چھڑائے نہ بنے‘‘

    آغا صاحب نے مسکرا کر فرمایا، ’’حالانکہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف نہیں ہے، پھر بھی آداب عرض۔‘‘

    (معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کی شگفتہ تحریر)

  • بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    "بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔”

    یہ سطور کنہیا لال کپور کی ایک شگفتہ تحریر سے لی گئی ہیں جس کا عنوان ہے بیس سو ستّر(2070)۔

    مزاح نگار، شاعر اور ادیب کنہیا لال کپور نے اپنے شگفتہ مضامین اور نظموں میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر چوٹ کی۔ وہ ادب کو معاشرے کی تعمیر اور لوگوں کی اصلاح کا بڑا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ پیشِ‌ نظر تحریر میں کنہیا لال کپور نے ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی شخصیات اور اِن کی جماعتوں کا خیالی نقشہ کھینچا ہے اور ہندوستان کے مٹ جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ہندوستان کی تاریخ میں 2070ء بڑا عجیب اور اہم سال تھا۔ اس سال پوری ایک صدی کے بعد خاندانی منصوبہ بندی رنگ لائی۔ ملک کی آبادی پچپن کروڑ سے گھٹ کر پچپن لاکھ رہ گئی۔ لیکن ادھر آبادی کم ہوئی ادھر سیاسی جماعتوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ چنانچہ ان کی تعداد پانچ سو پچپن تھی۔ حالانکہ 1970ء میں صرف پچپن پارٹیاں تھیں۔”

    "ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشہور سیاسی جماعتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پارٹیوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر “تلوار پارٹی” کو ہی لیجیے۔ اس کی چودہ اولادین ہوئیں جن میں سے ‘تیز تلوار پارٹی’، ‘کند تلوار پارٹی’، ‘ زنگ خوردہ تلوار پارٹی’ قابلِ ذکر ہیں۔ “پاگل پارٹی” کے بچّوں کی تعداد اکیس تھی جن میں سے چند کے نام تھے ‘نیم پاگل پارٹی،’ تین بٹہ چار پاگل پارٹی’، ‘پانچ بٹہ چھ پاگل پارٹی’، ‘ننانوے فیصد پاگل پارٹی’۔ جہاں تک “لچر پارٹی” کا تعلق ہے، اسے بتیس پارٹیوں کا خالق ہونے کا فخر حاصل تھا، جن میں سے ‘لچر لچر پارٹی’، ‘لچر تر پارٹی’، ‘لچر ترین پارٹی’ نے دیارِ ہند میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ایک مختصر سے مضمون میں ان تمام پارٹیوں کا تعارف ناممکن ہے، اس لیے صرف چند پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔”

    پستول پارٹی: (الیکشن نشان کارتوس) یہ 1980ء کی مشہور پارٹی کی (جس کا نام ریوالور تھا) پڑپوتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا….اُٹھ ساقی اٹھ، پستول چلا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جس شخص کو دلائل سے قائل نہیں کیا جاسکتا اسے پستول سے کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کے بعد کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا۔ یہ پارٹی سمجھتی تھی کہ ہندوستان کے تمام مسائل کا علاج پستول ہے۔ اگر ہر شخص کے ہاتھ میں پستول تھما دیا جائے تو وہ اپنی روزی کا بندوبست خود کر لے گا اور اس طرح خوراک اور بے روزگاری کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

    بندوق پارٹی: (الیکشن نشان تھری ناٹ تھری) اس پارٹی کے اراکین پہلے پستول پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی رائے میں ہندوستان کو پستول کی نہیں بندوق کی ضرورت تھی۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ جتنے اشخاص پستول پارٹی نے ایک سال میں ہلاک کیے، ان سے زیادہ اس نے ایک ہفتہ میں کیے۔ اس کا پارٹی کا نعرہ تھا “بندوقا پر مودھرما۔”

    دھماکا پارٹی: (الیکشن نشان ‘بارود’) اس پارٹی کے اراکین کا صرف ایک شغل تھا۔ یعنی ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکا ہونا چاہیے۔ کسی بلڈنگ، کسی چھت، کسی دیوار کو ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنا چاہیے۔ اس پارٹی سے ریلوے اسٹیشن، ڈاک خانے، تار گھر خاص طور پر پناہ مانگتے تھے۔ کیونکہ اسے اس قسم کی عمارتوں سے “الرجی” تھی۔ اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ “ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانا؟!”

    پراچین سنسکرت پارٹی: (الیکشن نشان’جنگل’) اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو! یہ پارٹی پتھر اور دھات کے زمانے کو از سرِنو زندہ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن اور لپ اسٹک سے سخت نفرت تھی۔ یہ چھکڑے، رتھ اور پان کی دلدادہ تھی۔ اس کے خیال میں وقت کو ماضی، حالت اور مستقبل کے خانوں میں بانٹنا سراسر غلط تھا۔ صحیح تقسیم یہ تھی۔ ماضی، ماضی، ماضی۔

    خونخوار پارٹی: (الیکشن نشان’بھیڑیا’) یہ پارٹی طاؤس و رباب کی بجائے شمشیر و سناں کی سرپرستی کرتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا، عوام بھیڑیں ہیں، پہلے ان سے ووٹ حاصل کرو پھر ان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو۔ اگر وہ شکایت کریں تو انھیں طعنہ دو کہ بھیڑیوں کو ووٹ دو گے تو تمہارا یہی حشر ہوگا۔

    مکار پارٹی: (الیکشن نشان ‘لومڑی’) اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ کامیاب سیاست داں وہ ہوتا ہے جو لومڑی اور لگڑ بگڑ کا مرکب ہو جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی جتائے، لیکن ساتھ ہی ان کا خون چوسے۔ جو عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھائے لیکن دراصل اپنے کنبے کی خدمت کرے جو پلیٹ فارم پر جنتا کی محبت کا دم بھرے لیکن درپردہ انھیں لوٹنے کے منصوبے بنائے۔ جو عوام کو دس بار دھوکا دینے کے بعد گیارھویں بار دھوکا دینے کے لیے تیار رہے اور جو دن رات اقبال کا یہ مصرع گنگنائے…

    کائر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

    غدار پارٹی: (الیکشن نشان’مار آستین’) ملک اور قوم سے غداری کرنا اس پارٹی کا شیوہ تھا۔ یہ پارٹی جس تھالی میں کھاتی تھی اسی میں چھید کرتی تھی۔ اس پارٹی کے اراکین کا شجرۂ نسب جعفر اور صادق سے ملتا تھا جن کے متعلق اقبالؔ نے کہا تھا؎

    جعفر از بنگال و صادق از دکن
    ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

    ضمیر فروش پارٹی: (الیکشن نشان ‘ابلیس’) یہ پارٹی اپنے ضمیر کوننگا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ اس کی دانست میں جو شخص اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کرتا تھا وہ ہمیشہ تنگ دست اور بدحال رہتا تھا۔ اس پارٹی کے اراکین کھلے بندوں خریداروں کو بولی دینے کے لیے کہتے تھے اور سب سے بڑی بولی پر اپنا ضمیر فروخت کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے تو کہتے تھے منہ پر نقاب ڈال لیں گے۔

    بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘چکنا گھڑا’) یہ پارٹی ہر بار الیکشن میں ناکارہ رہتی تھی، لیکن الیکشن لڑنے سے باز نہیں آتی تھی۔ اس پارٹی کے ہر رکن کی ضمانت ضبط ہو جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود اسے یقین رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالوں گا۔

    نہایت بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘گنجی چاند’) اس پارٹی کا صرف ایک رکن تھا جو خود ہی پریذیڈینٹ، جنرل سکریٹری اور خزانچی تھا اور جس کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ملتا تھا۔ یعنی اپنا ہی ووٹ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس پارٹی کے دو اراکین تھے۔ بعد ان میں جھگڑا ہو گیا اور دوسرے رکن نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی جس کا نام غایت درجہ بے غیرت پارٹی۔

    گرگٹ پارٹی: (الیکشن نشان ‘گرگٹ’) اس پارٹی کا نعرہ تھا….. بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے! اس پارٹی کے اراکین صبح کو مکار، دوپہر کو خونخوار، شام کو غدار اور رات کو بدکار کہلاتے تھے۔ انھیں اس بات پر ناز تھا کہ جس سرعت کے ساتھ ہم پارٹی بدلتے ہیں، لوگ قمیص بھی نہیں بدلتے۔ معمولی سے معمولی لالچ کی خاطر یہ اپنے احباب کو آنکھیں دکھا کر اغیار کی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عموماً اپنی صفائی میں علامہ اقبال کا مصرع پیش کیا کرتے تھے

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    خود غرض پارٹی: (الیکشن نشان ‘جنگلی سور’) اس پارٹی کے اراکین ملک اور قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان میں سے ہر شخص وزیرِ اعلیٰ بننے کی کوشش کرتا اور جب اپنی کوشش میں ناکام رہتا تو وزارت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرتا۔ اور عموماً کامیاب ہوجاتا۔ اس کے بعد داغ دہلوی کا یہ مصرع زبان پر لاتا:

    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

    (نوٹ) بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔ چنانچہ ان کی مشترکہ امیدیں 2075ء میں بَر آئیں اور ہندوستان کا نام لوحِ جہاں سے حرفِ مکرر کی طرح مٹا دیا گیا اور اس کے ساتھ پارٹیوں کا مادی اور سیاسی وجود بھی ختم ہوگیا!

    (یہ مضمون کپور صاحب کی کتاب نازک خیالیاں میں شامل ہے)

  • دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    نرالی شخصیت ،افسانہ نگار اور شہر شہر گھوم پھر کر لوک گیت اکٹھے کرنے والے دیوندر ستیارتھی بھی تقسیم سے پہلے کے برسوں میں لاہور میں موجود تھے۔ ان کی ایک عادتِ بد، جس سے ان کے دوست تنگ رہتے، اپنا افسانہ زبردستی دوسروں کے گوش گزار کرنا تھی۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنھیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہایش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“
    اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں

    دورِ جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیلُ القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیرا جیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما جیت ورما، عبدالحی نگاہؔ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب داخل ہوتے ہیں۔

    ان کی شکل و صورت بعینہ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ’’دیوانِ غالب‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔

    غالبؔ: ’’حضرات! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اور اس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورِ جدید کے شعرا سے شرفِ نیاز حاصل کروں۔

    ایک شاعر: یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
    کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘

    غالب: رہنے بھی دیجیے اس بے جا تعریف کو، ’’من آنم کہ من دانم‘‘

    دوسرا شاعر: تشریف رکھیے گا۔ کہیے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن…‘‘

    غالب: (مسکرا کر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں، ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔

    دوسرا شاعر: تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد، اور اس پر یہ فکر کوسوں دور کہ

    آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
    آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

    باوجود اس کے آپ کچھ لکھ… تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر) ’’سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے؟‘‘

    غالب: وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث۔

    مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

    پہلا شاعر: میرے خیال میں وقت کافی ہو گیا ہے۔ اب مجلس کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

    دوسرا شاعر: میں کرسیٔ صدارت کے لیے جناب م۔ ن۔ ارشد کا نام تجویز کرتا ہوں۔

    (ارشد صاحب کرسئ صدارت پر بیٹھنے سے پہلے حاضرینِ مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: میرے خیال میں ابتدا مرزا غالب کے کلام سے ہونی چاہیے۔ میں نہایت ادب سے مرزا موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    غالب: بھئی جب ہمارے سامنے شمع لائی جائے گی تو ہم بھی کچھ پڑھ کر سنا دیں گے۔

    م۔ ن۔ ارشد: معاف کیجیے گا مرزا، اس مجلس میں شمع وغیرہ کسی کے سامنے نہیں جائے گی۔ شمع کی بجائے یہاں پچاس کینڈل پاور کا لیمپ ہے، اس کی روشنی میں ہر ایک شاعر اپنا کلام پڑھے گا۔

    غالب: بہت اچھا صاحب تو غزل سنیے گا۔

    باقی شعرا: ارشاد۔

    غالب: عرض کیا ہے
    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    (باقی شعرا ہنستے ہیں۔ مرزا حیران ہو کر ان کی جانب دیکھتے ہیں۔)

    غالب: جی صاحب یہ کیا حرکت ہے۔ نہ داد نہ تحسین، اس بے موقع خندہ زنی کا مطلب؟

    ایک شاعر: معاف کیجیے مرزا، ہمیں یہ شعر کچھ بے معنی سا معلوم ہوتا ہے۔

    غالب: بے معنی؟

    ہیرا جی: دیکھیے نا مرزا، آپ فرماتے ہیں ’’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘‘ اگر مطلب کچھ نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام کے ہی عاشق ہیں تو تین پیسے کا خط برباد کرنا ہی کیا ضرور، سادہ کا غذ پر اس کا نام لکھ لیجیے۔

    ڈاکٹر قربان حسین خالص، میرے خیال میں اگر یہ شعر اس طرح لکھا جائے تو زیادہ موزوں ہے،

    خط لکھیں گے کیوں کہ چھٹی ہے ہمیں دفتر سے آج
    اور چاہے بھیجنا ہم کو پڑے بیرنگ ہی
    پھر بھی تم کو خط لکھیں گے ہم ضرور
    چاہے مطلب کچھ نہ ہو

    جس طرح سے میری اک اک نظم کا کچھ بھی تو مطلب نہیں

    خط لکھیں گے کیوں کہ الفت ہے ہمیں
    میرا مطلب ہے محبت ہے ہمیں
    یعنی عاشق ہیں تمہارے نام کے

    غالب: یہ تو اس طرح معلوم ہوتا ہے، جیسے آپ میرے اس شعر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

    ہیرا جی: جنوں، جنوں کے متعلق مرزا میں نے کچھ عرض کیا ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔

    غالب: ہاں، ہاں بڑے شوق سے۔

    ہیرا جی: جنوں ہوا جنوں ہوا
    مگر کہاں جنوں ہوا
    کہاں ہوا وہ کب ہوا
    ابھی ہوا یا اب ہوا
    نہیں ہوں میں یہ جانتا
    مگر جدید شاعری
    میں کہنے کا جو شوق ہے
    تو بس یہی ہے وجہ کہ
    دماغ میرا چل گیا
    یہی سبب ہے جو مجھے
    جنوں ہوا جنوں ہوا

    غالب: (ہنسی کو روکتے ہوئے) سبحان اللہ کیا برجستہ اشعار ہیں۔

    م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔

    غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا، کہا ہے۔

    عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
    ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

    عبدالحی نگاہ: گستاخی معاف مرزا، اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہو جاتی۔

    غالب: کس طرح؟

    عبدالحی نگاہ:
    عشق نے، ہاں ہاں تمہارے عشق نے
    عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا
    اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں
    اور چل تو سکتا ہی نہیں
    جانے کیا بکتا ہوں میں
    یعنی نکما کر دیا
    اتنا تمہارے عشق نے
    گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
    اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں
    یعنی تمہارے عشق نے
    اتنا نکما کردیا

    غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔

    غیظ احمد غیظؔ: اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جاسکتا تھا۔

    جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
    تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
    سب کام کر سکتا تھا میں
    اور دل میں میرے جوش تھا
    اس وقت تھا میں آدمی
    اور آدمی تھا کام کا
    لیکن تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا

    غالب: واللہ۔ کمال ہی تو کردیا، بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔

    م۔ ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، جو جدید شاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔

    ڈاکٹر خالصؔ: اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں، اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل اس لیے آپ اپنا کلام پہلے پڑھیے۔

    م۔ ن۔ ارشد: توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ‘‘ عرض کیا ہے۔

    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
    جس طرح دور کسی دشت کی پہنائی میں
    رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
    کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
    ایسی تشبیہہ کی لذت سے مگر دور ہے تو
    تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
    رقص کرنے کے سوا اور نہیں کچھ آتا
    اپنے بے کار خدا کے مانند
    دوپہر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
    خودکشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
    میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی ہے کیا جینا
    اور چپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    تاکہ میں چوم ہی لوں عارض گلفام ترا
    اور ارباب وطن کو یہ اشارہ کردوں
    اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
    اور شب عیش گزر جانے پر
    بہر جمع درم و دام نکل جاتا ہے
    ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
    چھوڑ کر بستر سنجاف و سمور

    (نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیرا جی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔)

    (حاضرین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔)

    غالب: ارشد صاحب معاف کیجیے۔ آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔

    غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے، مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔

    م۔ ن۔ ارشد: مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجیے۔

    پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
    پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

    اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟

    غالب: (شعر کو دہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں، مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔

    م۔ن۔ ارشد: اجی چھوڑیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    ڈاکٹر خالصؔ: میری نظم کا عنوان ہے ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے۔

    عشق کیا ہے؟
    میں نے اک عاشق سے پوچھا
    اس نے یوں رو کر کہا
    عشق اک طوفان ہے
    عشق اک سیلاب ہے
    عشق ہے اک زلزلہ
    شعلہ جوالہ عشق
    عشق ہے پیغام موت

    غالب: بھئی یہ کیا مذاق ہے، نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟

    ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم، اور فرمایا تھا آپ نے،

    ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘

    غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے نہ ترنم، نہ قافیہ، نہ ردیف۔

    ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کیے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگیٔ افکار اور ندرتِ فکر سے ہے۔

    غالب: رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے، میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا…

    ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

    غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

    رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جدوجہد ہے۔

    ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لیے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی، جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

    ن۔ م۔ ارشد: اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔

    پروفیسر غیظ: میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔

    ہیرا جی: تو پھر وہی نظم سنا دیجیے جو پچھلے دنوں ریڈیو والوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔

    پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی، تو وہی سن لیجیے۔ عنوان ہے ’’لگائی۔‘‘

    فون پھر آیا دل زار! نہیں فون نہیں
    سائیکل ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
    ڈھل چکی رات اترنے لگا کھمبوں کا بخار
    کمپنی باغ میں لنگڑانے لگے سرد چراغ
    تھک گیا رات کو چلا کے ہر اک چوکیدار
    گل کرو دامن افسردہ کے بوسیدہ داغ
    یاد آتا ہے مجھے سرمۂ دنبالہ دار
    اپنے بے خواب گھروندے ہی کو واپس لوٹو
    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

    (نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب مبہوت ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: اب جناب بکرما جیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔

    بکرما جیت ورما: میں نے حسبِ معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔

    غالب: (حیران ہو کر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جارہی ہے۔

    بکرما جیت ورما: مرزا، آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیے گئے تھے، دورِ جدید کے شعرا نے انھیں ایک قابل عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔

    غالب: جی ہاں، ہمارے زمانے میں عورتیں، بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے لوگ گیت لکھا کرتے تھے۔

    بکرما جیت: پہلا گیت ہے’’برہن کا سندیس‘‘، عرض کیا ہے،
    اڑجا دیس بدیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس
    سن کر تیری کائیں کائیں

    غالب: خوب، سن کر تیری کائیں کائیں

    بکرما جیت ورما: عرض کیا ہے،
    سن کر تیری کائیں کائیں
    آنکھوں میں آنسو بھر آئیں
    بول یہ تیرے من کو بھائیں
    مت جانا پردیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس

    م۔ ن ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر پر بھی لکھا تھا، وہ بھی مرزا کو سنا دیجیے۔

    بکرما جیت، سنیے پہلا بند ہے۔

    بول کبوتر بول
    دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے
    من میں میرے ہوک اٹھی ہے
    کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے
    بول غٹرغوں بول کبوتر
    بول کبوتر بول

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبرا ہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔)

    بکرما جیت ورما: اب دوسرا بند سنیے،

    بول کبوتر بول
    کیا میرا ساجن کہتا ہے
    کیوں مجھ سے روٹھا رہتا ہے
    کیوں میرے طعنے سہتا ہے
    بھید یہ سارے کھول کبوتر
    بول کبوتر بول!

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس شور و غل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔)

    (طنز و مزاح از قلم کنہیا لال کپور )

  • ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    دوسروں کو بنانا خاص کر ان لوگوں کو جو چالاک ہیں یا اپنے کو چالاک سمجھتے ہیں، ایک فن ہے۔

    آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ‘‘لومڑی اور کوّے’’ کی کہانی پڑھی ہے۔ وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا۔ ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔

    لومڑی کہتی ہے۔ ‘‘میاں کوّے! ہم نے سنا ہے تم بہت اچھا گاتے ہو۔’’وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے۔‘‘ بی لومڑی۔ آپ نےغلط سنا۔ خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔’’

    تاہم مایوس ہونےکی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوار کا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگر کا کتّا مرگیا۔ ہم فوراً ان کے ہاں پہنچے۔ افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہم نے کہا۔ ‘‘رائے صاحب آپ کےساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔’’

    ‘‘پرماتما کی مرضی۔’’ رائے صاحب نے مَری ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ‘‘بڑا خوب صورت کتّا تھا۔ آپ سے تو خاص محبت تھی۔’’

    ‘‘ہاں مجھ سے بہت لاڈ کرتا تھا۔’’

    ‘‘کھانا بھی سنا ہے آپ کے ساتھ کھاتا تھا۔ کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔’’

    ‘‘دال نہیں گوشت۔’’

    ‘‘آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔’’

    ‘‘نہیں صاحب بکرے کا گوشت۔’’

    ‘‘بکرے کا گوشت! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہوگا۔’’

    ‘‘کبھی کبھی۔’’

    ‘‘سنا ہے۔ ریڈیو باقاعدگی سے سنتا تھا۔’’

    ‘‘ہاں ریڈیو کے پاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔’’

    ‘‘تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے؟’’

    ‘‘یہ کہنا تومشکل ہے۔’’

    ‘‘میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانے کا بھی شوق ہوگا۔’’

    ‘‘نہیں سنیما تو کبھی نہیں گیا۔’’

    ‘‘بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلے دنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیر اچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہو جاتا۔’’

    ‘‘بڑا وفادار جانور تھا۔’’

    ‘‘اجی صاحب۔ ایسے کتّے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نے شاید اڑھائی روپے میں خریدا تھا۔’’

    ‘‘اڑھائی روپے نہیں اڑھائی سو میں۔’’

    ‘‘معاف کیجئے۔ کسی مہاراجہ نے آپ کو اس کے لئے پانچ روپے پیش کئے تھے۔’’

    ‘‘پانچ نہیں پانچسو۔’’

    ‘‘دوبارہ معاف کیجئے۔ پانچسو کے تو صرف اس کے کان ہی تھے۔ آنکھیں چہرہ اور ٹانگیں الگ۔’’

    ‘‘بڑی رعب دار آنکھیں تھیں اس کی۔’’

    ‘‘ہاں صاحب کیوں نہیں جس سے ایک بار آنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔’’

    ‘‘چہرہ بھی رعب دار تھا۔’’

    ‘‘چہرہ! اجی چہرہ تو ہو بہو آپ سے ملتا تھا۔’’ ‘‘رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کر دیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئےعرض کیا۔‘‘اچھا رائے صاحب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔’’

    رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں اور زاؔغ تخلص کرتے ہیں۔

    ‘‘آداب عرض مولانا۔ کہیے وہ غزل مکمل ہوگئی۔’’

    ‘‘کونسی غزل قبلہ۔’’

    ‘‘وہی۔ اعتبار کون کرے۔ انتظار کون کرے؟’’

    ‘‘جی ہاں ابھی مکمل ہوئی ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔

    جھوٹے وعدے پہ اعتبارکون کرے
    رات بھر انتظار کون کرے’’

    ‘‘سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے ؎ رات بھر انتظار کون کرے۔ واقعی پینسٹھ سال کی عمر میں رات بھر انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔’’

    ‘‘ہے کچھ کام کا۔’’

    ‘‘کام کا تو نہیں۔ لیکن آپ کے باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔’’

    ‘‘شعرعرض کرتاہوں ؎

    گو حسیں ہے مگر لعیں بھی ہے
    اب لعیں سے پیار کون کرے’’

    ‘‘کیا بات ہےمولانا۔ اس‘لعیں’کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعر نےمحبوب کے لیےاس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہے آپ نے محبوب کی۔’’

    ‘‘بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے ؎

    ہم خزاں ہی میں عشق کرلیں گے
    آرزوئے بہار کون کرے

    ‘‘بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہے آپ نے اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہو گی۔’’

    ‘‘جی ہاں۔عرض کیا ہے ؎

    مر گیا قیس نہ رہی لیلی
    عشق کا کاروبار کون کرے

    ‘‘بہت عمدہ، عشق کا کاروبار کون کرے۔ چشمِ بَد دور آپ جو موجود ہیں۔ ماشاء اللہ آپ قیس سے کم ہیں۔’’

    ‘‘نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔’’

    ‘‘اچھا کسرِ نفسی پر اتر آئے۔ دیکھیے بننے کی کوشش مت کیجیے۔’’

    ‘‘مقطع عرض ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘رنگ کالا سفید ہے داڑھی
    زاغؔ سے پیار کون کرے

    ‘‘اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہے محبوب پر۔ واللہ جواب نہیں، اس شعر کا۔ زاغ سے پیار کون کرے۔ کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔’’

    ‘‘واقعی؟’’

    ‘‘صحیح عرض کر رہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ ؎ رنگ کالا سفید ہے داڑھی۔ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔’’

    زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر‘‘زیرو’’کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا۔ ‘‘ساون کی گھٹا’’ہم نے سنجیدگی سے کہا۔‘‘سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔’’

    ‘‘لہنگا۔ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں۔ گھٹا کا منظر ہے۔’’

    ‘‘واہ صاحب آپ مجھے بناتے ہیں۔ یہ ریشمی لہنگا ہے۔’’

    ‘‘میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔’’

    ‘‘اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہے ہیں۔’’

    ‘‘یقین کیجیے میں نے لہنگا……’’

    ‘‘اجی چھوڑیے آپ کے تحت الشعور میں ضرور کسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ دراصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویر کشی کررہا ہے۔’’

    ‘‘لیکن یہ لہنگا ہرگز نہیں….’’

    ‘‘جناب میں کیسےمان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے۔ اسے لہنگا ہی کہے گا۔’’

    ‘‘دیکھیےآپ زیادتی کر رہے ہیں۔’’

    ‘‘اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اور دو کبھی چار نہیں ہوتے۔ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتے ہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اور اسے مچھیرے کا جال یا پیرا شوٹ سمجھ سکتا ہے۔’’

    ‘‘اس کا مطلب یہ ہوا۔ میں اپنےخیال کو واضح نہیں کرسکا۔’’

    ‘‘ہاں مطلب تو یہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنے کی ضرورت ہے۔’’ساون کی گھٹا۔‘ کی بجائے’۔ ان کا لہنگا‘ کردیجیے’۔

    مسٹر زیرو نے دوسری تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔‘‘ اس کےمتعلق کیا خیال ہے، ’’غور سے تصویر کو دیکھنے کے بعد ہم نےجواب دیا۔‘‘یہ ریچھ تو لا جواب ہے۔’’

    زیرو صاحب نے چیخ کر کہا۔‘‘ریچھ کہاں ہے یہ’’

    ‘‘ریچھ نہیں تو اور کیا ہے۔’’

    ‘‘یہ ہے زمانۂ مستقبل کا انسان۔’’

    ‘‘اچھا تو آپ کے خیال میں مستقبل کا انسان ریچھ ہو گا۔’’

    ‘‘صاحب یہ ریچھ ہرگز نہیں۔’’

    ‘‘چلیے آپ کو کسی ریچھ والے کے پاس لے چلتے ہیں۔ اگر وہ کہہ دے کہ یہ ریچھ ہے تو۔’’

    ‘‘تو میں تصویر بنانا چھوڑ دوں گا۔’’

    ‘‘تصویریں تو آپ ویسے ہی چھوڑ دیں تو اچھا رہے۔’’

    ‘‘وہ کس لیے۔’’

    ‘‘کیونکہ جب کوئی آرٹسٹ انسان اور ریچھ میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ تو تصویریں بنانے کا فائدہ۔’’

    مسٹر زیرو نے جھنجھلا کر کہا۔‘‘یہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے۔’’

    ہم نے قہقہہ لگا کر عرض کیا۔‘‘آج ہم بنانے کے موڈ میں ہیں۔ اور خیر سے آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!۔’’

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)

  • "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘

    مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اس کی کوئی دوانہیں۔ بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجیے کیوں کہ ولیم شیکسپیر نے کہا ہے‘‘، ’’وہ فلسفی ابھی پیدا نہیں ہوا جو داڑھ کا درد برداشت کر سکے۔‘‘

    مرزا غالب نے حکیم صاحب کی سادہ لوحی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فرمایا، ’’میری مراد داڑھ کے درد سے نہیں، آپ کی دعا سے ابھی میری تمام داڑھیں کافی مضبوط ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر شاید آپ کا اشارہ دردِ سر کی طرف ہے، دیکھیے مرزا صاحب! حکما نے دردِ سر کی درجنوں قسمیں گنوائی ہیں۔ مثلاً آدھے سر کا درد، سر کے پچھلے حصے کا درد، سر کے اگلے حصے کا درد، سر کے درمیانی حصے کا درد، ان میں ہر درد کے لیے ایک خاص بیماری ذمہ دار ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کے سر کے درمیانی حصہ میں درد ہوتا ہے تو ممکن ہے آپ کے دماغ میں رسولی ہو۔ اگر کنپٹیوں پر ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے آپ کی بینائی کمزور ہو گئی ہو۔ دراصل درد سر کو مرض نہیں مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’بہرحال چاہے یہ مرض ہے یا مرض کی علامت، مجھے درد کی شکایت نہیں ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ ضرور دردِ جگر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے اپنے کچھ اشعار میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

    مثلاً؛ یہ خلش کہاں ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    یا…..حیراں ہوں روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘

    مرزا صاحب، حکما نے اس مرض کے لیے ’’پپیتا‘‘ کو اکسیر قرار دیا ہے۔ کسی تک بند نے کیا خوب کہا ہے۔

    جگر کے فعل سے انساں ہے جیتا
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    ’’آپ کا یہ قیاس بھی غلط ہے۔ میرا آ ج تک اس مرض سے واسطے نہیں پڑا۔‘‘

    ’’تو پھر آپ اس شاعرانہ مرض کے شکار ہو گئے ہیں جسے دردِ دل کہا جاتا ہے اور جس میں ہونے کے بعد میر کو کہنا پڑا تھا،

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

    ’’معلوم ہوتا ہے اس ڈومنی نے جس پر مرنے کا آپ نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے آپ کو کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘

    ’’واہ حکیم صاحب! آپ بھی دوسروں کی طرح میری باتوں میں آ گئے۔ اجی قبلہ کیسی ڈومنی اور کہاں کی ڈومنی وہ تو میں نے یونہی مذاق کیا تھا۔ کیا آپ واقعی مجھے اتنا سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ مغل زادہ ہو کر میں ایک ڈومنی کی محبت کا دم بھروں گا۔ دلّی میں مغل زادیوں کی کمی نہیں۔ ایک سے ایک حسین و جمیل ہے۔ انہیں چھوڑ کر ڈومنی کی طرف رجوع کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے؛

    اللہ رے گمرہی! بت و بت خانہ چھوڑ کر
    مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ

    ’’خدا نخواستہ کہیں آپ کو جوڑوں کا درد تو نہیں۔ دائمی زکام کی طرح یہ مرض بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ مریض کی ساری عمر جان نہیں چھوڑتا، بلکہ کچھ مریض تو مرنے کے بعد بھی قبر میں اس کی شکایت کرتے سنے گئے ہیں۔ عموماً یہ مرض جسم میں تیزابی مادّہ کے زیادہ ہو جانے سے ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تیزابی مادہ کو ختم کرنے کے لیے ہی تو میں ہر روز تیزاب یعنی شراب پیتا ہوں۔ ہومیو پیتھی کا اصول ہے کہ زہر کا علاج زہر سے کیا جانا چاہیے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ شراب نے مجھے اب تک جوڑوں کے درد سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ یقینا دردِ گردہ میں مبتلا ہیں۔ یہ درد اتنا ظالم ہوتا ہے کہ مریض تڑپ تڑ کر بے حال ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’میرے گردے ابھی تک سلامت ہیں شاید اس لیے کہ میں بڑے دل گردے کا انسان ہوں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کو محض وہم ہو گیا ہے کہ آپ کو درد کی شکایت ہے اور وہم کی دوا نہ لقمان حکیم کے پاس تھی نہ حکیم مومن خاں مومنؔ کے پاس ہے۔‘‘

    ’’قبلہ میں اس درد کا ذکر کر رہاہوں جسے عرفِ عام میں ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا، زندگی! اس کا علاج تو بڑا آسان ہے ، ابھی عرض کیے دیتا ہوں۔‘‘

    ’’ارشاد۔ ‘‘

    ’’کسی شخص کو بچھو نے کاٹ کھایا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے اس نے ایک بزرگ سے پوچھا، اس درد کا بھی کوئی علاج ہے، بزرگ نے فرمایا، ’’ہاں ہے اور یہ کہ تین دن چیختے اور چلاتے رہو۔ چوتھے دن درد خود بخود کافور ہو جائے گا۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! حکیم صاحب، آپ نے تو گویا میرے شعر کی تفسیر کر دی۔‘‘

    ’’کون سے شعر کی قبلہ؟‘‘

    ’’اس شعر کی قبلہ…

    غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    نیند کیوں رات بھر…..

    ایک مرتبہ مرزا غالب نے شیخ ابراہیم ذوقؔ سے کہا، ’’شیخ صاحب! نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‘‘ ذوق نے مسکراکر فرمایا۔ ظاہر ہے جس کمرے میں آپ سوتے ہیں ، وہاں اتنے مچھر ہیں کہ وہ رات بھر آپ کو کاٹتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں نیند آئے بھی تو کیسے؟

    معلوم ہوتا ہے یا توٓپ کے پاس مسہری نہیں اور اگر ہے تو اتنی بوسیدہ کہ اس میں مچھر اندر گھس آتے ہیں۔ میری مانیے تو آج ایک نئی مسہری خرید لیجیے۔‘‘

    غالب نے ذوقؔ کی ذہانت میں حسبِ معمول اعتماد نہ رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’دیکھیے صاحب! آخر ہم مغل زادے ہیں، اب اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ہمارے پاس ایک ثابت و سالم مسہری بھی نہ ہو اور جہاں تک کمرے میں مچھروں کے ہونے کا سوال ہے۔ ہم دعویٰ سے کہ سکتے ہیں، جب سے ڈی ڈی ٹی چھڑکوائی ہے ایک مچھر بھی نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب تو مچھروں کی گنگناہٹ سننے کے لیے ہمسائے کے ہاں جانا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ کے پلنگ میں کھٹمل ہوں گے۔‘‘

    ’’کھٹملوں کے مارنے کے لیے ہم پلنگ پر گرم پانی انڈیلتے ہیں، بستر پر کھٹمل پاؤڈر چھڑکتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی کھٹمل بچ جائے تو وہ ہمیں اس لیے نہیں کاٹتا ہے کہ ہمارے جسم میں اب لہو کتنا رہ گیا ہے۔ خدا جانے پھر نیند کیوں نہیں آتی۔‘‘

    ’’معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ میں کوئی الجھن ہے۔‘‘

    ’’بظاہر کوئی الجھن نظر نہیں آتی۔ آپ ہی کہیے بھلا مجھے کون سی الجھن ہو سکتی ہے۔‘‘ گستاخی معاف! سنا ہے آپ ایک ڈومنی پر مرتے ہیں، اور آپ کو ہماری بھابی اس لیے پسند نہیں کیوں کہ اسے آپ کے طور طریقے نا پسند ہیں۔ ممکن ہے آپ کے تحت الشعور میں یہ مسئلہ چٹکیاں لیتا رہتا ہو۔ ’’آیا امراؤ بیگم کو طلاق دی جائے یا ڈومنی سے قطع تعلق کر لیا جائے۔‘‘

    ’’واللہ! شیخ صاحب آپ کو بڑی دور کی سوجھی! ڈومنی سے ہمیں ایک شاعرانہ قسم کا لگاؤ ضرور ہے لیکن جہاں تک حسن کا تعلق ہے وہ امراؤ بیگم کی گرد کو نہیں پہنچتی۔‘‘

    ’’تو پھر یہ بات ہو سکتی ہے آپ محکمہ انکم ٹیکس سے اپنی اصلی آمدنی چھپا رہے ہیں اور آپ کو یہ فکر کھائے جاتا ہے۔ کسی دن آپ کے گھر چھاپہ پڑ گیا تو ان اشرفیوں کا کیا ہوگا جو آپ نے زمین میں دفن کر رکھی ہیں اور جن کا پتہ ایک خاص قسم کے آلہ سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’اجی شیخ صاحب! کیسی اشرفیاں! یہاں زہر کھانے کو پیسہ نہیں شراب تو قرض کی پیتے ہیں اور اسی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہماری فاقہ کشی رنگ لائے گی۔ اگر ہمارے گھر چھاپہ پڑا تو شراب کی خالی بوتلوں اور آم کی گٹھلیوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملےگی۔‘‘

    ’’اچھا وہ جو آپ کبھی کبھی اپنے گھر کو ایک اچھے خاصے قمار خانہ میں تبدیل کر دیتے ہیں، اس کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’واہ شیخ صاحب! آپ عجیب باتیں کرتے ہیں، تھوڑا بہت جوا تو ہر مہذب شخص کھیلتا ہی ہے اور پھر ہر کلب میں بڑے بڑے لوگ ہر شام کو ’’برج‘‘ وغیرہ کھیلتے ہیں۔ جوا آخر جوا ہے چاہے وہ گھر پر کھیلا جائے یا کلب میں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات نہیں تو پھر آپ کو کسی سے حسد ہے۔ آپ ساری رات حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور میر کے اس شعر کو گنگناتے ہیں؛

    اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
    مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب‘‘

    ’’بخدا شیخ صاحب! ہم کسی شاعر کو اپنا مد مقابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس سے حسد کریں۔ معاف کیجیے، آپ حالانکہ استادِ شاہ ہیں۔ لیکن ہم نے آپ کے متعلق بھی کہا تھا۔ ذوق کی شاعری بانگ دہل ہے اور ہماری نغمۂ چنگ۔‘‘

    ’’مرزا صاحب! یہ تو صریحاً زیادتی ہے۔ میں نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جن پر آپ کو بھی سر دھننا پڑا ہے۔‘‘

    ’’لیکن ایسے اشعار کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘‘

    ’’یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور کہا تھا آپ نے،

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘

    ’’اگر ہم سخن فہم نہ ہوتے تو آپ کے کلام پر صحیح تبصرہ نہ کر سکتے۔ خیر چھوڑیے بات تو نیند نہ آنے کی ہو رہی تھی۔‘‘

    ’’کسی ڈاکٹر سے اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیے۔ ہو سکتا ہے وہ بڑھ گیا ہو۔‘‘

    ’’قبلہ! جب بدن میں بلڈ ہی نہیں رہا تو پریشر کے ہونے یا بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’پھر ہر رات سونے سے پہلے کسی ایسی گولی کا سہارا لیجیے جس کے کھانے سے نیند آجائے۔ آج کل بازار میں ایسی گولیاں عام بک رہی ہیں۔‘‘

    ’’انہیں بھی استعمال کر چکے ہیں۔ نیند تو انہیں کھا کر کیا آتی البتہ بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔ اس لیے انہیں ترک کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔‘‘

    ’’کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کیجیے شاید وہ کچھ۔‘‘

    ’’وہ بھی کر چکے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا تشخیص کی اس نے؟‘‘

    ’’کہنے لگا، آپ کے تحت الشعور میں کسی ڈرنے مستقبل طور پر ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس سے نجات حاصل کیجیے۔ آپ کو نیند آنے لگے گی۔‘‘

    ’’یہ تو بڑا آسان ہے، آپ اس ڈر سے نجات حاصل کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘

    ’’لیکن ہمیں پتہ بھی تو چلے وہ کون سا ڈر ہے۔‘‘

    ’’اسی سے پوچھ لیا ہوتا۔‘‘

    ’’پوچھا تھا۔ اس نے جواب دیا، اس ڈر کا پتہ مریض کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔‘‘

    ’’کسی لائق ایلو پیتھک ڈاکٹر سے ملیے، شاید وہ۔۔۔‘‘

    ’’اس سے بھی مل چکے ہیں۔ خون، پیشاب، تھوک، پھیپھڑے، دل اور آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے بعد کہنے لگا، ان میں تو کوئی نقص نہیں معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو نیند سے الرجی ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’علاج کیا بتایا؟‘‘

    ’’کوئی علاج نہیں بتایا۔ دلیل یہ دی کہ الرجی ایک لاعلاج مرض ہے۔‘‘

    ’’آپ اگر اجازت دیں تو خاکسار جو کہ نہ حکیم ہے نہ ڈاکٹر بلکہ محض ایک شاعر آپ کے مرض کا علاج کر سکتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’دیکھیے! اگر آپ کو نیند رات بھر نہیں آتی تو آپ رات کے بجائے دن میں سویا کیجیے۔ یعنی رات کو دن اور دن کو رات سمجھا کیجیے۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے ہمیں یہ آج تک کیوں نہیں سوجھا۔‘‘

    ’’سوجھتا کیسے‘‘، آپ تو اس وہم میں مبتلا ہیں؛

    آج مجھ سا نہیں زمانے میں
    شاعرِ نغر گوئے خوش گفتار

    ’’شیخ صاحب آپ نے خوب یاد دلایا۔ بخدا ہمارا یہ دعویٰ تعلی نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘

    ’’چلیے یوں ہی سہی۔ جب تک آپ استاد شاہ نہیں ہیں مجھے آپ سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

    ’’یہ اعزاز آپ کو ہی مبارک ہو۔ ہمیں تو پینے کو ’’اولڈ ٹام‘‘ اور کھانے کو ’’آم‘‘ ملتے رہیں۔ ہم خدا کا شکر بجا لائیں گے۔‘‘

    دراصل شراب پی پی کر آپ نے اپنا اعصابی نظام اتنا کمزور کر لیا ہے کہ آپ کو بے خوابی کی شکایت لاحق ہو گئی۔ اس پر ستم یہ کہ توبہ کرنے کی بجائے آپ فخر سے کہا کرتے ہیں۔ ’’ہر شب پیا ہی کرتے ہیں، مے جس قدر ملے۔‘‘

    ’’بس بس شیخ صاحب رہنے دیجیے، ورنہ مجھے آپ کو چپ کرانے کے لیے آپ کا ہی شعر پڑھنا پڑے گا۔‘‘

    ’’کون سا شعر قبلہ؟‘‘

    ’’رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘

    (اردو ادب کے معروف طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • "پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے”

    "پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے”

    ویسے تو میں تقریباً ہر درد سے آشنا ہوں۔ معلوم نہ تھا کہ دانت کے درد میں وہ تڑپ پوشیدہ ہے کہ دردِ دل، دردِ گردہ، دردِ جگر تو اس کے مقابلہ میں ’’عین راحت‘‘ ہیں۔ چناں چہ جب متواتر تین رات کراہنے اور ہر ہمسائے کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے بعد بھی درد میں کچھ افاقہ نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر اندر کمار کی دکان کا رخ کیا۔

    آپ دانتوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں اور دانت بجلی سے نکالتے ہیں۔ شاید مؤخر الذکر چیز نے مجھے ان کی جانب رجوع کرنے کو اکسایا۔ کیوں کہ بجلی کے سوا شاید ہی کوئی دوسری چیز مجھے بچا سکتی۔ چناں چہ میں نے ان کی دکان میں لپکتے ہوئے کہا:
    ’’میری بائیں داڑھ فوراً بجلی سے نکال دیجیے۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے میری طرف تکتے ہوئے کہا۔ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟

    ’’آپ مجھ سے راہ و رسم بعد میں بڑھا سکتے ہیں۔ پہلے میری بائیں داڑھ نکالیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا تشریف رکھیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی نکالے دیتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے مجھ پر سوالات کی بمباری شروع کر دی۔

    مثلاً کب سے درد ہے، کیوں درد ہے، اوپر والی داڑھ میں ہے یا نیچے والی داڑھ میں؟ اس سے پہلے بھی کبھی دانت نکلوایا ہے، کیا صرف ایک ہی دانت نکلوانا چاہتے ہیں؟‘‘

    اب میں تھا کہ درد سے بے تاب ہو رہا تھا اور ہر سوال کا جواب دینے کی مجھ میں ہمّت نہ تھی مگر ڈاکٹر صاحب تھے کہ برابر مسکرائے جا رہے تھے۔ اور جب میں درد سے کراہتا تو ان کی مسکراہٹ زیادہ دل آویز اور دل کش ہو جاتی۔

    آخر جب انھوں نے دو تین دفعہ میرے منع کرنے کے باوجود اچھی طرح داڑھ کو ہلایا اور دیکھا کہ شدتِ درد سے مجھ پر بے ہوشی طاری ہوا چاہتی ہے تو انھیں یقین ہو گیا کہ واقعی دانت کا درد ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دو تین اوزار گرم پانی میں ابالنے لگے۔ میں نے کہا:’’اجی حضرت جلدی کیجیے۔ بجلی سے میری داڑھ نکالیے۔‘‘

    ’’ کہنے لگے:‘‘ آج بجلی خراب ہو گئی ہے، اس لیے داڑھ ہاتھ سے ہی نکالنا پڑے گی۔‘‘ جتنا عرصہ اوزار گرم ہوتے رہے وہ مجھے دانت کی خرابیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کے خیال کے مطابق دنیا کی تمام بیماریاں دانتوں ہی کے خراب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ بد ہضمی سے تپ دق تک جتنے امراض ہیں، ان کا علاج داڑھ نکلوانا ہے۔

    اس لیکچر میں آپ نے اس ملک کے لوگوں کی عادات پر بھی کچھ تبصرہ کیا۔ مثلاً ‘‘ یہاں کے لوگ بے حد بے پروا واقع ہوئے ہیں۔ امریکا اور انگلینڈ میں ہر ایک آدمی سال میں چار دفعہ دانت صاف کرواتا ہے، مگر یہاں لوگ اس وقت تک دندان ساز کی دکان کا رخ نہیں کرتے جب تک دانت کو کیڑا لگ کر سارا مسوڑھا تباہ نہ ہو جائے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے، اگر لوگ ذرا محتاط ہوں تو آج ان کی مشکلیں حل ہو جائیں۔

    اس قسم کے متعدد جملے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گئے۔ حتیٰ کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے ملک کے سچّے خیر خواہ صرف آپ ہیں۔ اور اگر آپ نہ ہوتے تو خدا جانے ہمارے ملک کی کیا حالت ہوتی۔

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے!

    بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔ پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔

    انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘ فرماتے ہیں

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا، کیا جاتا رہا، جاتا رہا

    ’’کہیے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘ ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجیے۔‘‘

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تُو نے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجیے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات…. ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔

    ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔

    آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔

    اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔‘‘

    بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھویں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوف ناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔‘‘

    لے دے کر سارے گھر میں ایک غم گسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی۔‘‘

    بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔

    بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔

    کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

    کنہیا لال کپور کے مضمون "مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ” سے انتخاب

  • کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔

    انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔

    گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کیے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انھوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’آپ شاعر ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپوری نظر آتے ہیں۔‘‘

    پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ضرور ملیے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘

    پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘

    ’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘

    انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

    بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انھوں نے کردیا۔

    پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘

    سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔

    ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔‘‘

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)