Tag: کنہیا لال کپور کی تحریریں

  • بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    "بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔”

    یہ سطور کنہیا لال کپور کی ایک شگفتہ تحریر سے لی گئی ہیں جس کا عنوان ہے بیس سو ستّر(2070)۔

    مزاح نگار، شاعر اور ادیب کنہیا لال کپور نے اپنے شگفتہ مضامین اور نظموں میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر چوٹ کی۔ وہ ادب کو معاشرے کی تعمیر اور لوگوں کی اصلاح کا بڑا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ پیشِ‌ نظر تحریر میں کنہیا لال کپور نے ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی شخصیات اور اِن کی جماعتوں کا خیالی نقشہ کھینچا ہے اور ہندوستان کے مٹ جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ہندوستان کی تاریخ میں 2070ء بڑا عجیب اور اہم سال تھا۔ اس سال پوری ایک صدی کے بعد خاندانی منصوبہ بندی رنگ لائی۔ ملک کی آبادی پچپن کروڑ سے گھٹ کر پچپن لاکھ رہ گئی۔ لیکن ادھر آبادی کم ہوئی ادھر سیاسی جماعتوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ چنانچہ ان کی تعداد پانچ سو پچپن تھی۔ حالانکہ 1970ء میں صرف پچپن پارٹیاں تھیں۔”

    "ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشہور سیاسی جماعتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پارٹیوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر “تلوار پارٹی” کو ہی لیجیے۔ اس کی چودہ اولادین ہوئیں جن میں سے ‘تیز تلوار پارٹی’، ‘کند تلوار پارٹی’، ‘ زنگ خوردہ تلوار پارٹی’ قابلِ ذکر ہیں۔ “پاگل پارٹی” کے بچّوں کی تعداد اکیس تھی جن میں سے چند کے نام تھے ‘نیم پاگل پارٹی،’ تین بٹہ چار پاگل پارٹی’، ‘پانچ بٹہ چھ پاگل پارٹی’، ‘ننانوے فیصد پاگل پارٹی’۔ جہاں تک “لچر پارٹی” کا تعلق ہے، اسے بتیس پارٹیوں کا خالق ہونے کا فخر حاصل تھا، جن میں سے ‘لچر لچر پارٹی’، ‘لچر تر پارٹی’، ‘لچر ترین پارٹی’ نے دیارِ ہند میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ایک مختصر سے مضمون میں ان تمام پارٹیوں کا تعارف ناممکن ہے، اس لیے صرف چند پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔”

    پستول پارٹی: (الیکشن نشان کارتوس) یہ 1980ء کی مشہور پارٹی کی (جس کا نام ریوالور تھا) پڑپوتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا….اُٹھ ساقی اٹھ، پستول چلا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جس شخص کو دلائل سے قائل نہیں کیا جاسکتا اسے پستول سے کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کے بعد کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا۔ یہ پارٹی سمجھتی تھی کہ ہندوستان کے تمام مسائل کا علاج پستول ہے۔ اگر ہر شخص کے ہاتھ میں پستول تھما دیا جائے تو وہ اپنی روزی کا بندوبست خود کر لے گا اور اس طرح خوراک اور بے روزگاری کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

    بندوق پارٹی: (الیکشن نشان تھری ناٹ تھری) اس پارٹی کے اراکین پہلے پستول پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی رائے میں ہندوستان کو پستول کی نہیں بندوق کی ضرورت تھی۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ جتنے اشخاص پستول پارٹی نے ایک سال میں ہلاک کیے، ان سے زیادہ اس نے ایک ہفتہ میں کیے۔ اس کا پارٹی کا نعرہ تھا “بندوقا پر مودھرما۔”

    دھماکا پارٹی: (الیکشن نشان ‘بارود’) اس پارٹی کے اراکین کا صرف ایک شغل تھا۔ یعنی ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکا ہونا چاہیے۔ کسی بلڈنگ، کسی چھت، کسی دیوار کو ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنا چاہیے۔ اس پارٹی سے ریلوے اسٹیشن، ڈاک خانے، تار گھر خاص طور پر پناہ مانگتے تھے۔ کیونکہ اسے اس قسم کی عمارتوں سے “الرجی” تھی۔ اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ “ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانا؟!”

    پراچین سنسکرت پارٹی: (الیکشن نشان’جنگل’) اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو! یہ پارٹی پتھر اور دھات کے زمانے کو از سرِنو زندہ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن اور لپ اسٹک سے سخت نفرت تھی۔ یہ چھکڑے، رتھ اور پان کی دلدادہ تھی۔ اس کے خیال میں وقت کو ماضی، حالت اور مستقبل کے خانوں میں بانٹنا سراسر غلط تھا۔ صحیح تقسیم یہ تھی۔ ماضی، ماضی، ماضی۔

    خونخوار پارٹی: (الیکشن نشان’بھیڑیا’) یہ پارٹی طاؤس و رباب کی بجائے شمشیر و سناں کی سرپرستی کرتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا، عوام بھیڑیں ہیں، پہلے ان سے ووٹ حاصل کرو پھر ان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو۔ اگر وہ شکایت کریں تو انھیں طعنہ دو کہ بھیڑیوں کو ووٹ دو گے تو تمہارا یہی حشر ہوگا۔

    مکار پارٹی: (الیکشن نشان ‘لومڑی’) اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ کامیاب سیاست داں وہ ہوتا ہے جو لومڑی اور لگڑ بگڑ کا مرکب ہو جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی جتائے، لیکن ساتھ ہی ان کا خون چوسے۔ جو عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھائے لیکن دراصل اپنے کنبے کی خدمت کرے جو پلیٹ فارم پر جنتا کی محبت کا دم بھرے لیکن درپردہ انھیں لوٹنے کے منصوبے بنائے۔ جو عوام کو دس بار دھوکا دینے کے بعد گیارھویں بار دھوکا دینے کے لیے تیار رہے اور جو دن رات اقبال کا یہ مصرع گنگنائے…

    کائر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

    غدار پارٹی: (الیکشن نشان’مار آستین’) ملک اور قوم سے غداری کرنا اس پارٹی کا شیوہ تھا۔ یہ پارٹی جس تھالی میں کھاتی تھی اسی میں چھید کرتی تھی۔ اس پارٹی کے اراکین کا شجرۂ نسب جعفر اور صادق سے ملتا تھا جن کے متعلق اقبالؔ نے کہا تھا؎

    جعفر از بنگال و صادق از دکن
    ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

    ضمیر فروش پارٹی: (الیکشن نشان ‘ابلیس’) یہ پارٹی اپنے ضمیر کوننگا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ اس کی دانست میں جو شخص اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کرتا تھا وہ ہمیشہ تنگ دست اور بدحال رہتا تھا۔ اس پارٹی کے اراکین کھلے بندوں خریداروں کو بولی دینے کے لیے کہتے تھے اور سب سے بڑی بولی پر اپنا ضمیر فروخت کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے تو کہتے تھے منہ پر نقاب ڈال لیں گے۔

    بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘چکنا گھڑا’) یہ پارٹی ہر بار الیکشن میں ناکارہ رہتی تھی، لیکن الیکشن لڑنے سے باز نہیں آتی تھی۔ اس پارٹی کے ہر رکن کی ضمانت ضبط ہو جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود اسے یقین رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالوں گا۔

    نہایت بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘گنجی چاند’) اس پارٹی کا صرف ایک رکن تھا جو خود ہی پریذیڈینٹ، جنرل سکریٹری اور خزانچی تھا اور جس کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ملتا تھا۔ یعنی اپنا ہی ووٹ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس پارٹی کے دو اراکین تھے۔ بعد ان میں جھگڑا ہو گیا اور دوسرے رکن نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی جس کا نام غایت درجہ بے غیرت پارٹی۔

    گرگٹ پارٹی: (الیکشن نشان ‘گرگٹ’) اس پارٹی کا نعرہ تھا….. بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے! اس پارٹی کے اراکین صبح کو مکار، دوپہر کو خونخوار، شام کو غدار اور رات کو بدکار کہلاتے تھے۔ انھیں اس بات پر ناز تھا کہ جس سرعت کے ساتھ ہم پارٹی بدلتے ہیں، لوگ قمیص بھی نہیں بدلتے۔ معمولی سے معمولی لالچ کی خاطر یہ اپنے احباب کو آنکھیں دکھا کر اغیار کی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عموماً اپنی صفائی میں علامہ اقبال کا مصرع پیش کیا کرتے تھے

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    خود غرض پارٹی: (الیکشن نشان ‘جنگلی سور’) اس پارٹی کے اراکین ملک اور قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان میں سے ہر شخص وزیرِ اعلیٰ بننے کی کوشش کرتا اور جب اپنی کوشش میں ناکام رہتا تو وزارت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرتا۔ اور عموماً کامیاب ہوجاتا۔ اس کے بعد داغ دہلوی کا یہ مصرع زبان پر لاتا:

    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

    (نوٹ) بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔ چنانچہ ان کی مشترکہ امیدیں 2075ء میں بَر آئیں اور ہندوستان کا نام لوحِ جہاں سے حرفِ مکرر کی طرح مٹا دیا گیا اور اس کے ساتھ پارٹیوں کا مادی اور سیاسی وجود بھی ختم ہوگیا!

    (یہ مضمون کپور صاحب کی کتاب نازک خیالیاں میں شامل ہے)

  • ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    دوسروں کو بنانا خاص کر ان لوگوں کو جو چالاک ہیں یا اپنے کو چالاک سمجھتے ہیں، ایک فن ہے۔

    آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ‘‘لومڑی اور کوّے’’ کی کہانی پڑھی ہے۔ وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا۔ ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔

    لومڑی کہتی ہے۔ ‘‘میاں کوّے! ہم نے سنا ہے تم بہت اچھا گاتے ہو۔’’وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے۔‘‘ بی لومڑی۔ آپ نےغلط سنا۔ خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔’’

    تاہم مایوس ہونےکی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوار کا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگر کا کتّا مرگیا۔ ہم فوراً ان کے ہاں پہنچے۔ افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہم نے کہا۔ ‘‘رائے صاحب آپ کےساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔’’

    ‘‘پرماتما کی مرضی۔’’ رائے صاحب نے مَری ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ‘‘بڑا خوب صورت کتّا تھا۔ آپ سے تو خاص محبت تھی۔’’

    ‘‘ہاں مجھ سے بہت لاڈ کرتا تھا۔’’

    ‘‘کھانا بھی سنا ہے آپ کے ساتھ کھاتا تھا۔ کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔’’

    ‘‘دال نہیں گوشت۔’’

    ‘‘آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔’’

    ‘‘نہیں صاحب بکرے کا گوشت۔’’

    ‘‘بکرے کا گوشت! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہوگا۔’’

    ‘‘کبھی کبھی۔’’

    ‘‘سنا ہے۔ ریڈیو باقاعدگی سے سنتا تھا۔’’

    ‘‘ہاں ریڈیو کے پاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔’’

    ‘‘تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے؟’’

    ‘‘یہ کہنا تومشکل ہے۔’’

    ‘‘میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانے کا بھی شوق ہوگا۔’’

    ‘‘نہیں سنیما تو کبھی نہیں گیا۔’’

    ‘‘بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلے دنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیر اچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہو جاتا۔’’

    ‘‘بڑا وفادار جانور تھا۔’’

    ‘‘اجی صاحب۔ ایسے کتّے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نے شاید اڑھائی روپے میں خریدا تھا۔’’

    ‘‘اڑھائی روپے نہیں اڑھائی سو میں۔’’

    ‘‘معاف کیجئے۔ کسی مہاراجہ نے آپ کو اس کے لئے پانچ روپے پیش کئے تھے۔’’

    ‘‘پانچ نہیں پانچسو۔’’

    ‘‘دوبارہ معاف کیجئے۔ پانچسو کے تو صرف اس کے کان ہی تھے۔ آنکھیں چہرہ اور ٹانگیں الگ۔’’

    ‘‘بڑی رعب دار آنکھیں تھیں اس کی۔’’

    ‘‘ہاں صاحب کیوں نہیں جس سے ایک بار آنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔’’

    ‘‘چہرہ بھی رعب دار تھا۔’’

    ‘‘چہرہ! اجی چہرہ تو ہو بہو آپ سے ملتا تھا۔’’ ‘‘رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کر دیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئےعرض کیا۔‘‘اچھا رائے صاحب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔’’

    رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں اور زاؔغ تخلص کرتے ہیں۔

    ‘‘آداب عرض مولانا۔ کہیے وہ غزل مکمل ہوگئی۔’’

    ‘‘کونسی غزل قبلہ۔’’

    ‘‘وہی۔ اعتبار کون کرے۔ انتظار کون کرے؟’’

    ‘‘جی ہاں ابھی مکمل ہوئی ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔

    جھوٹے وعدے پہ اعتبارکون کرے
    رات بھر انتظار کون کرے’’

    ‘‘سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے ؎ رات بھر انتظار کون کرے۔ واقعی پینسٹھ سال کی عمر میں رات بھر انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔’’

    ‘‘ہے کچھ کام کا۔’’

    ‘‘کام کا تو نہیں۔ لیکن آپ کے باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔’’

    ‘‘شعرعرض کرتاہوں ؎

    گو حسیں ہے مگر لعیں بھی ہے
    اب لعیں سے پیار کون کرے’’

    ‘‘کیا بات ہےمولانا۔ اس‘لعیں’کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعر نےمحبوب کے لیےاس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہے آپ نے محبوب کی۔’’

    ‘‘بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے ؎

    ہم خزاں ہی میں عشق کرلیں گے
    آرزوئے بہار کون کرے

    ‘‘بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہے آپ نے اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہو گی۔’’

    ‘‘جی ہاں۔عرض کیا ہے ؎

    مر گیا قیس نہ رہی لیلی
    عشق کا کاروبار کون کرے

    ‘‘بہت عمدہ، عشق کا کاروبار کون کرے۔ چشمِ بَد دور آپ جو موجود ہیں۔ ماشاء اللہ آپ قیس سے کم ہیں۔’’

    ‘‘نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔’’

    ‘‘اچھا کسرِ نفسی پر اتر آئے۔ دیکھیے بننے کی کوشش مت کیجیے۔’’

    ‘‘مقطع عرض ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘رنگ کالا سفید ہے داڑھی
    زاغؔ سے پیار کون کرے

    ‘‘اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہے محبوب پر۔ واللہ جواب نہیں، اس شعر کا۔ زاغ سے پیار کون کرے۔ کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔’’

    ‘‘واقعی؟’’

    ‘‘صحیح عرض کر رہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ ؎ رنگ کالا سفید ہے داڑھی۔ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔’’

    زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر‘‘زیرو’’کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا۔ ‘‘ساون کی گھٹا’’ہم نے سنجیدگی سے کہا۔‘‘سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔’’

    ‘‘لہنگا۔ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں۔ گھٹا کا منظر ہے۔’’

    ‘‘واہ صاحب آپ مجھے بناتے ہیں۔ یہ ریشمی لہنگا ہے۔’’

    ‘‘میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔’’

    ‘‘اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہے ہیں۔’’

    ‘‘یقین کیجیے میں نے لہنگا……’’

    ‘‘اجی چھوڑیے آپ کے تحت الشعور میں ضرور کسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ دراصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویر کشی کررہا ہے۔’’

    ‘‘لیکن یہ لہنگا ہرگز نہیں….’’

    ‘‘جناب میں کیسےمان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے۔ اسے لہنگا ہی کہے گا۔’’

    ‘‘دیکھیےآپ زیادتی کر رہے ہیں۔’’

    ‘‘اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اور دو کبھی چار نہیں ہوتے۔ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتے ہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اور اسے مچھیرے کا جال یا پیرا شوٹ سمجھ سکتا ہے۔’’

    ‘‘اس کا مطلب یہ ہوا۔ میں اپنےخیال کو واضح نہیں کرسکا۔’’

    ‘‘ہاں مطلب تو یہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنے کی ضرورت ہے۔’’ساون کی گھٹا۔‘ کی بجائے’۔ ان کا لہنگا‘ کردیجیے’۔

    مسٹر زیرو نے دوسری تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔‘‘ اس کےمتعلق کیا خیال ہے، ’’غور سے تصویر کو دیکھنے کے بعد ہم نےجواب دیا۔‘‘یہ ریچھ تو لا جواب ہے۔’’

    زیرو صاحب نے چیخ کر کہا۔‘‘ریچھ کہاں ہے یہ’’

    ‘‘ریچھ نہیں تو اور کیا ہے۔’’

    ‘‘یہ ہے زمانۂ مستقبل کا انسان۔’’

    ‘‘اچھا تو آپ کے خیال میں مستقبل کا انسان ریچھ ہو گا۔’’

    ‘‘صاحب یہ ریچھ ہرگز نہیں۔’’

    ‘‘چلیے آپ کو کسی ریچھ والے کے پاس لے چلتے ہیں۔ اگر وہ کہہ دے کہ یہ ریچھ ہے تو۔’’

    ‘‘تو میں تصویر بنانا چھوڑ دوں گا۔’’

    ‘‘تصویریں تو آپ ویسے ہی چھوڑ دیں تو اچھا رہے۔’’

    ‘‘وہ کس لیے۔’’

    ‘‘کیونکہ جب کوئی آرٹسٹ انسان اور ریچھ میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ تو تصویریں بنانے کا فائدہ۔’’

    مسٹر زیرو نے جھنجھلا کر کہا۔‘‘یہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے۔’’

    ہم نے قہقہہ لگا کر عرض کیا۔‘‘آج ہم بنانے کے موڈ میں ہیں۔ اور خیر سے آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!۔’’

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)