Tag: کوثر چاند پوری

  • بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    ہندوستانیوں کا خاصہ ہے کہ ان کا ہر شوق ترقی کر کے جلد ’’عیاشی‘‘ کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ان کو یہ تاریخی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ انہیں کوئی ایسا شوق ہوتا ہی نہیں جو تجارتی، ادبی، تاریخی یا کم سے کم تمدنی حیثیت سے ان کے ملک اور قوم کے لیے مفید ہو۔

    چنانچہ ان کا سرمایۂ عزت، اثر اور رسوخ حتّٰی کہ جان و مال بھی اسی شوق کی نذر ہو جاتا ہے اور طبی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس نوع کا جنون جو ہماری زبان میں شوق کہلاتا ہے ’’فسادِ گندم‘‘ کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ سرمایہ داری ان تمام نقائص کی ذمہ دار ہے۔ تیتر بازی سے لے کر مرغ بازی اور ہرقسم کی درمیانی بازیاں امرا ہی کے حصہ میں آگئی ہیں۔ مفلس اور بے زر لوگ اگر ان مشاغل کو اختیار بھی کرتے ہیں تو محض وسیلۂ معاش کی حیثیت سے۔ انہیں اس حیلے سے کم سے کم سرمایہ داروں کی مصاحبت کا شرف ہی حاصل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اس سے کافی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

    چنانچہ ہمارے ایک غریب ہمسایہ کسی چودھری کے یہاں چلم بھرنے پر ملازم تھے۔ اتفاق سے چودھری صاحب کو بٹیر بازی کا شوق پیدا ہوگیا اور انھوں نے ہزاروں روپیہ اس کی نذر کر دیا۔ ملازم ذہین آدمی تھا، اس نے فوراً ہی میاں کی نگاہیں پہچان لیں اور جھٹ ایک عمدہ قسم کا بٹیر بازار سے خرید کر سہراب نام رکھ دیا اور مشہور کر دیا کہ میاں کے بٹیر کا مقابلہ کرنے کی غرض سے میں نے سہراب کو تیار کیا ہے اور اس کی یہ کیفیت ہے کہ جب سے تیار ہوا ہے ایک طرف ریاست رام پور لرزہ بر اندام ہے تو دوسری طرف الور تھرا رہی ہے۔

    میاں نے جو ملازم کا یہ رجز سنا تو بگڑ کر بولے، ’’دیکھیں تیرا ’سہراب‘ کیسا شہ زور ہے۔ خدا کی قسم میرے ’اسفند یار‘ کی ایک لات کی بھی تاب نہ لاسکے گا۔‘‘

    ملازم نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، ’’سرکار میں غریب آدمی ہوں۔ حضور کے سامنے زبان کھولتے ہوئے ذرا ڈر معلوم ہوتا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرا ’سہراب‘ شہر بھر کے پہلوانوں کو پچھاڑ چکا ہے۔ حضور کا ’اسفند یار‘ ماشاء اللہ ہے تو بڑا طاقت ور جانور۔ اکھاڑے بھی بہت سے دیکھ چکا ہے مگر سرکار قصور معاف ہو، سہراب کے لگّے کا وہ بھی نہیں۔‘‘

    اب سرکار کو غصہ آگیا، مگر تھے بڑے قدر دان۔ اس معاملہ میں انھوں نے مساوات کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے، ’’فضول بکواس میں سننا نہیں چاہتا۔ دعویٰ ہے تو میدان میں آؤ۔ یہ تو کشتی ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے کا سوال نہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے، اپنا کمال دکھانے کی۔‘‘

    ’’پھر سرکار کچھ انعام مقرر کر دیا جائے۔‘‘

    ’’انعام۔۔۔ ہاں مناسب ہے، تو میں کہتا ہوں، اگر میرے اسفند یار کو تمہارے سہراب نے بھگا دیا تو قسم ہے قبلہ والد صاحب کے سرِعزیز کی دو سو روپے دوں گا۔‘‘

    ’’بجا ہے سرکار۔ مگر ہارنے والے کو بھی دنگلوں میں کچھ مل جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہارنے والے کو پچاس روپے ملیں گے۔‘‘

    اگلے دن کشتی کا اعلان ہوگیا اور سہراب و اسفند یار اپنی اپنی جگہ خم ٹھونکنے لگے۔ تیسرے روز بڑی دھوم سے پہوان اکھاڑے میں آئے۔

    چودھری صاحب اپنے بٹیر کو لیے نہاتی پرتکلف فٹن میں سوار تھے۔ آگے آگے بینڈ بجتا جا رہا تھا، چودھری صاحب پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ اس شان سے اسفند یار معرکہ کارِ زار میں وارد ہوئے تو دوسری طرف سے سہراب اپنے مالک کے ہاتھوں میں جوشِ تَہَوُّر سے سرشار آئے۔ بڑی کروفر سے دونوں پہلوان اکھاڑے میں اترے۔ ایک گھنٹہ تک زبردست مقابلہ رہا۔ دونوں بڑی بے جگری سے لڑے۔ مجمع قطعاً خاموش تھا۔ چودھری صاحب کے حاشیہ نشین دعائیں کر رہے تھے کہ اسفند یار غالب رہے اور غریب طبقہ کے لوگ، جن کو چودھری صاحب کے خوانِ کرم سے کبھی کوئی حصہ نہ ملا تھا، اپنی ہم جنسی کے خیال سے ملازم کے طرفدار تھے۔ وہ سہراب کے لیے فتح کی دعا مانگ رہے تھے۔

    ان دونوں گروہوں کے علاوہ ’’سخن فہم‘‘ حضرات کاطبقہ جو کسی کا طرفدار نہ تھا بلکہ صرف حق کی فتح چاہتا تھا، یہ دیکھ رہا تھا کہ باقاعدہ لڑائی کس طرف سے ہو رہی ہے اور منظم حملہ کا انتظام کس پہلوان کی جانب سے زیادہ ہے۔ کس کی لات اور چونچ فنِ سپہ گری کے اصول پر کام کر رہی ہے اور کون اپنی طاقت کو بے اصول صرف کر رہا ہے۔ یہ لوگ فن کے نقطۂ نگاہ سے لڑائی کو دیکھ رہے تھے اور کسی خاص پہلوان کے غالب و مغلوب ہونے کے طالب نہ تھے۔

    ایک گھنٹہ کے بعد سہراب دبنا شروع ہوا اور اسفند یار کے مُؤیَّدین خوشی کے نعرے بلند کرنے لگے لیکن لوگ دیکھ رہے تھے کہ سہراب نہایت قاعدے سے پٹ رہا تھا۔ اس کی پسپائی میں بھی شجاعت و بہادری کا ایک مستقل درس پنہاں تھا۔ اس کو مغلوب سمجھ کر جو لوگ ہجوم کر رہے تھے ان کو سخن فہم حضرات نے روک دیا اور غالب کی بالکل طرفداری نہ کی۔ انھوں نے جوش کے ساتھ کہا، خبردار، پہلوان کے قریب نہ آنا۔ اس کا دم نہیں ٹوٹا ہے۔ وہ پھر زور پکڑے گا۔ دیکھو ہاتھ نہ لگے نہیں تو سَر کی خیر نہیں۔

    اتنا جاں باز تو اسفند یاری گروہ میں کوئی نہیں تھا کہ اس موقع پر جان اور سر کی بازی لگا بیٹھتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ رجزیہ کلمات سن کر سب کی ہمتیں پست ہوگئیں اور جو عارضی ہلچل مچ گئی تھی وہ سرد پڑ گئی۔

    اب سہراب نے پھر ہمت کی اور ایک جگہ قدم جما کر کھڑا ہو گیا۔ اسفند یار تھک چکا تھا۔ سہراب نے اس کو دانستہ آگے بڑھنے اور اپنے زور کو بے جا صرف کرنے کا موقع دیا تھا۔ چنانچہ اب اس نے مدافعت شروع کی۔ انجام یہ ہوا کہ دوچار لاتوں ہی میں اسفند یار کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ سہراب برابر اسے دھکیلتا رہا۔ اسی کشمکش میں ایک دفعہ اسفند یار پھر سے اڑ گیا اور فضا تالیوں کی بے شمار آوازوں سے گونج گئی۔ سہراب کا مالک دوڑ کر اپنے آقا کے قدموں پر گر گیا اور عاجزی سے کہنے لگا، سرکار معاف فرمائیے۔ ہم پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب جتن کرتے ہیں۔ ان دو سو کے لیے سال بھر سے سَر مار رہا تھا۔ چپکے چپکے پہلوان کی خدمت کر رہا تھا، جب بالکل تیار ہوگیا تو حضور کے سامنے تذکرہ کیا۔

    انھوں نے فوراً دو سو روپے کے نوٹ گن دیے اور آئندہ کے لیے ابھی سے پانچ سو روپے کا اعلان کر کے کہا، ’’اچھا اگلے مہینے کے شروع میں ہم ’افراسیاب‘ کو لڑائیں گے۔ تمہارے سہراب سے جیتنے والے کو پانچ سو روپے اور ہارنے والے کو سو روپے دیے جائیں گے۔ اب کے دیکھوں گا میں سہراب کو۔‘‘

    ملازم نے ادب سے سر جھکا کر کہا، ’’حضور میرا کیا ہے سب آپ ہی کا ہے۔ میں بھی آپ ہی کا ہوں اور سہراب بھی حضور ہی کا ہے۔‘‘

    سہراب برابر جیتتا رہا۔ مسلسل دس بارہ کشتیاں ہزرا ہزار اور دو دو ہزار کی اس نے لڑیں اور کامیاب رہا۔

    ایک سال کے بعد جو ہم گھر پہنچے تو دیکھا کہ محلہ میں جہاں چلم بھرنے والے ملازم کی جھونپڑی تھی، وہاں ایک عالیشان محل تعمیر ہوگیا ہے جس کے بلند اور شاندار دروازے کے سامنے بٹیروں کے بہت سے پنجرے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس درمیان میں اکثر نوٹس اور سمن اخبارات میں بنام چودھری سعادت حسین ولد امانت حسین ہماری نظر سے گزر چکے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ چودھری صاحب پر ہزاروں روپے کے نالشیں ہوچکی ہیں۔ یہاں آکر یہ حال کھلا کہ چودھری صاحب نے اپنی تمام جائیداد اسفند یار اور افراسیاب کے نذر کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ خدا بخش تو رئیس بنے ہوئے اس فلک بوس محل میں جلوہ افروز ہیں اور چودھری صاحب کا گھر تک نیلام ہوچکا ہے اور ذاتِ شریف پانچ ہزار کی ایک ڈگری کے سلسلہ میں جیل خانہ میں تشریف فرما ہیں۔ مگر دم خم وہی ہیں۔ مہینہ پندرہ روز میں کوئی نہ کوئی خط خدا بخش کے پاس آجاتا ہے جس میں آئندہ دنگل کے متعلق ان کے پرجوش ارادوں کی مفصل اطلاعات درج ہوتی ہیں۔ مگر خدا بخش واقعی خدا بخش ہے۔ وہ نہایت نرمی سے جواب لکھ دیتا ہے۔

    سرکار میرا سہراب بوڑھا ہوگیا ہے۔ اب اس میں لڑنے کی سکت نہیں رہی۔ لنگوٹ کھولنے کی رسم بھی ادا کرچکا ہوں۔ اب تو میں اپنے اس محسن کی خدمت میں مصروف ہوں۔ جب تک زندہ رہے گا خدمت کرتا رہوں گا۔ دنگل کا زمانہ اب نہیں رہا۔ آپ کے افراسیاب میں خدا کے فضل و کرم سے قوت ہے۔ اس کا کس بل نہیں ٹوٹا اور وہ ابھی لڑائی کے کام کا بھی ہے۔ مگر شہر میں اور بہت سے پہلوان موجود ہیں، ان سے لڑائیے غلام کو اب معذور سمجھیے۔

    (افسانہ و مضمون نگار کوثر چاند پوری کے مشاہدات پر مبنی تحریر)

  • کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک….

    کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک….

    ایسے سر پھروں کی تعداد کم نہیں جو کرسی سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے وقت سے لے کر دولت، بلکہ خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتے۔

    دنیا کے بہت سے فرماں رواؤں اور سپہ سالاروں نے کرسی کے لیے بڑی سرفروشیاں کی ہیں۔ عرصہ کار زار کو رنگین کیا ہے۔ خون کی نہریں بہائی ہیں۔ کرسی میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کسی نازک اندام محبوبہ اور اس کے خوبصورت خد و خال میں ہوا کرتی ہیں۔ بیوفائی میں کرسی اس سے بھی آگے ہے۔ کتنا ہی گوند لگا کر بیٹھے اس کی نگاہِ خوں آشام بدل جاتی ہے، تو آدمی کو اس طرح نیچے گرا دیتی ہے کہ سنبھلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے عشق میں خطرناک رقیبوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیلائے کرسی کے فریفتہ جب کسی رقیب سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں تو صلح کا امکان نہیں رہتا۔ انھیں سمجھوتے پر یقین نہیں۔ وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترا کرتے ہیں۔

    ماضی میں کرسیوں کی تعداد اتنی نہ تھی جتنی اب ہے۔ اقسام بھی محدود تھیں۔ صدارت اور ممبری کی چند کرسیاں ہی تھیں جو میونسپل بورڈ اور جلسہ گاہوں میں یوسف بے کارواں کی طرح اکیلی پڑی رہا کرتی تھیں، پھر بھی دل رُبائی کا یہ عالم تھا کہ ان کے حصول میں بڑے ہنگامے ہوا کرتے تھے، دولت لٹائی جاتی تھی، کبھی زمین کو قطراتِ خوں سے لالہ زار بنایا جاتا تھا۔ طالبانِ کرسی میں سے کسی کو خریدنے کی نوبت آجایا کرتی تھی۔ موجودہ زمانے میں کرسیوں کی تعداد اور اقسام میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اتنی ہی صفِ عشاق طویل ہوگئی ہے۔ وہ کیو بنائے یوں کھڑے رہتے ہیں کہ کان صدائے تکبیر پر لگے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشارۂ ابرو کی منتظر ہیں۔ ذرا آواز فضا میں گونجے اور نمازِ عشق پڑھنا شروع کر دیں۔ کیفیت بالکل وہی ہوتی ہے جس کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے،

    باندھ کے صف ہوں سب کھڑے تیغ کے ساتھ سر جھکے
    آج تو قتل گاہ میں دھوم سے ہو نمازِ عشق

    آج کل وہ روایتی مجنوں پیدا نہیں ہوتے جو ناقۂ لیلیٰ کے ساتھ میلوں دوڑے چلے جایا کرتے تھے۔ ان کی جگہ ایسے دلدادگانِ کرسی عالم وجود میں آرہے ہیں جو اس کی زلفِ گرہ گیر میں اسیر ہوکر بھاگتے نہیں بیٹھنا پسند کرتےہیں۔ اپنی جگہ تڑپتے ہیں۔ رومانی غزلیں کہتے ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں، اسی طرح ہجر و فراق کی کڑی منزلیں طے ہوجاتی ہیں اور شربتِ وصل پینے کی مسرت حاصل ہوجاتی ہے۔ تو عالمِ سر خوشی میں کرسی کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کردیتے ہیں۔ دن رات اسی کے خالِ رخسار کی پرستش میں مصروف رہتے ہیں۔ دل کی ساخت بدل جاتی ہے۔ خون میں بھی کیمیاوی تغیرات ہوجاتے ہیں۔ سرخی کم ہو کر سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ کرسی کے ان گنت فریفتہ ہیں وہ ان میں سے کسی کو بھی مرکزِ التفات بنا سکتی ہے۔ نئے چہروں کی تلاش کرسی کی تاریخی روایت ہے۔ وہ تو گرفتارانِ بلا پر زیادہ مہربان رہتی ہے۔ ان کے ہجر و فراق کی مصیبتوں پر اسے رحم بھی آجاتا ہے۔ حالانکہ سنگ دلی محبوبیت کا خاص وصف ہے۔ تاہم کبھی معشوق کی نگاہِ مشکل پسندی میں رحم کے جذبات بھی جھلک آجاتے ہیں۔

    کرسی کے شیدائی ساری رکاوٹیں دور کر کے چاہتے ہیں کہ جس طرح ہو سکے جلد اس پر قابض ہو جائیں، لیکن وقت اتنا ظالم اور سنگ دل ہے کہ آرزوؤں کے آبگینوں کو توڑ کر ہی دم لیتا ہے۔ ملک میں کروڑوں صاحبانِ دل آباد ہیں، ان کے سینہ میں دھڑکتے ہوئے قلوب کا جائزہ لیا جائے تو سویدائے دل میں جو چنگاری شعلہ بن جانے کی دھن میں چمک رہی ہوگی، وہ کرسی کے اشتیاقِ بے پایاں ہی کی ہوگی، کرسی کا حسن لازوال ہے اس کی کشش مکان و زماں کی پابند نہیں۔ ہر کرسی میں دل ربائی کا وصف نہیں ہوتا۔ گھر میں کتنی ہی نازک اور آراستہ کرسی پر بیٹھ جائیے اس میں جلوہ افروزی کا وہ لطف نہیں ہوگا جو کسی جلسہ کی کرسی صدارت میں ہوا کرتا ہے۔

    کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک بے نیازی اور تغافل شعاری کا دل شکن افسانہ ہے۔ کرسی کی انقلاب انگیز تبدیلیوں کے پیش نظر کرسی نشینوں کو دیدہ وری سے کام لینا چاہیے اور اسے بد لگام گھوڑے کی طرح قابو میں رکھنا چاہیے۔ اس عاشقانہ جذباتی رویّے سے شدید نقصان ہوتا ہے جس میں باگ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور پاؤں رکاب سے نکل جاتے ہیں اور کرسی نشین چیخ اٹھتا ہے کہ

    رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
    نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہیں رکاب میں

    (معروف ادیب، افسانہ نگار کوثر چاند پوری کی طنز و مزاح پر مبنی تحریر)

  • عورتوں کی لڑائی

    عورتوں کی لڑائی

    بوا سلام! سکینہ نے اپنے کوٹھے کی دیوار سے سر نکال کر رضیہ کو مخاطب کرکے کہا، جو مکان کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔

    اس نے اپنی سفید سفید بھنویں سکیڑ کر بے رونق نگاہوں سے اوپر کو دیکھا، اور بے رخی سے کہا، پڑے خاک ایسے سلام پر!

    کیا ہوا بوا، آج کیوں منھ سجائے بیٹھی ہو؟

    چل پرے۔ لمبی بن، آئی وہاں سے بوا کی لاڈلی۔

    بوا کیا ہو گیا تمہیں، کیوں تمہارے سر پر سنیچر سوار ہے آج؟

    سنیچر سوار ہو تیرے سر پر، دیکھ سکینہ میرے منہ مت لگیو!

    بوا کیا باؤلے کتے نے کاٹ لیا تمہیں، جو کاٹ کھانے کو دوڑی پڑتی ہو۔

    باؤلا کتا کاٹے تجھے، تیرے پیاروں کو، اللہ نہ کرے جو مجھے کاٹے باؤلا کتا!

    بوا، دیکھ میرے پیاروں کا نام لیا تو چٹیا کی خیر نہیں، ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔

    منھ وہ سنبھالے جو تیری دبی بسی رہتی ہو۔ تیرا دیا کھاتی ہو۔ مجھ پر تیرا کیا دباؤ ہے جو میں سنبھالوں منھ کو۔

    دیکھ سکینہ منھ میں لوکا دیدوں گی، جو میرے بوڑھے چونڈے کا نام لیا!

    بوا تمہارا تو دماغ چل گیا ہے، زبردستی جیب چلانے کو بیٹھ گئیں تم! میں نے بھلا کہا کیا تھا۔ تمہیں سیدھے سبھاؤ سلام کرنے کو چلی آئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی، یوں جلی پھنکی بیٹھی ہو۔

    جلے تو، پھنکے بھی تو، میں کیوں جلتی۔ جیب چلانے کو مجھے تیرا کیا ڈر پڑا ہے؟

    ہے کیسی لُگائی، باز ہی نہیں آتی، بالکل سر پر ہی چڑھی جارہی ہے، ہم تو بڑھاپے کا خیال کر رہے ہیں، آپ ہیں کہ آپے ہی سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔

    آئی وہاں سے بیچاری بڑھاپے کا خیال کرنے والی۔ بڑھاپے کا خیال کرتی تو مردوں میں بیٹھ کر میری صورت میں کیڑے ہی تو ڈالتی، ارے میرے منھ میں دانت نہیں رہے۔ آنکھوں سے پانی بہتا ہے تو تیرے باوا کا کیا نقصان ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، جس کو چاہے جیسا بنا دے، مگر بندے کو کسی بات پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔

    بوا، ذرا دوسرے کی بھی سنا کرو۔ تم تو اپنی ہی کہے جارہی ہو، کون کہتا ہے میں نے تمہاری صورت میں کیڑے ڈالے، بوا جھوٹ بولنے کی میری عادت نہیں۔ دیکھو ایسے طوفان مت اٹھاؤ تم مجھ پر، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ میرے ہی جنم میں تھوکے گا کہ ضرور اس نے بوا کو کچھ کہا ہوگا۔

    اس گھر میں رہتے رہتے میرے بال سفید ہوگئے، آج تک کوئی کہہ تو دے میں نے کس پر طوفان اٹھائے ہیں، کس پر تہمت لگائی ہے۔ اکیلی تم ہی تو رہتی ہو، محلے میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں، ایک تم پر ہی طوفان توڑ رہی ہوں میں!

    اوروں کی میں کیا جانوں بوا، میں تو اپنی کہتی ہوں بوا، خدا اپنا دیدار اور محمد کی شفاعت نصیب نہ کرے، جو میں نے کسی کے سامنے تمہیں کچھ کہا ہو۔

    خدا کے خوف سے ڈر سکینہ!

    اب اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں کہ اَن ہوئی بات کو تم میرے سر تھوپ دو، کوئی بیچ میں ہو تو اس کا نام لو، میں اولاد کی قسم دے کر پوچھوں کس کے آگے کہا میں نے بوا کو بُرا بھلا!

    سکینہ یوں باتوں میں مت اڑاؤ مجھے، میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے۔

    بوا تم نے دھوپ میں سفید کیے ہوں بال یا سایہ میں، مجھے اس سے واسطہ نہیں میں تو یہ کہتی ہوں تم اس بندی کا نام بتاؤ، جس کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ جب جھوٹ سچ کھلے گا، بوا اللہ کرے میں اتنی ہی بڑی مرجاؤں، جو میں نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو۔

    کس کس کا نام بتاؤں سکینہ! کوئی ڈھکی چھپی بات ہو تو میں نام بھی بتاؤں کسی کا، بھرے مجمع میں بیٹھ کر تم نے اس دن نیم والے گھر میں مجھے اندھا بنایا، منحوس کہا، آنسو ڈھال کہا، تم نے کہا صبح صبح کوئی اس کی صورت بھی نہ دیکھے، جس دن میں اس کا منھ دیکھ لیتی ہوں شام تک چین نہیں ملتا۔

    توبہ کرو بوا توبہ! دیکھو ایسا طوفان مٹ اٹھاؤ۔ اللہ، کیسے بہتان باندھ رہی ہو، خدا جانے آسمان کس کے بھاگوں کھڑا ہے۔

    اچھا قسم کھاؤ، تم نے نہیں کہا۔

    بوا تمہارے سر کی قسم، اپنے بچہ کی سوں، جو میں نے تمہارا نام بھی لیا ہو، پڑے خاک جھوٹ بولنے والے کی صورت پے، بچہ سے زیادہ دنیا میں مجھے اور کیا ہے؟ ہاں اتنی بات تو ہوئی تھی، بوا، دیکھو میں سچی سچی بتاؤں تمیں کہ بلو دھوبن کا ذکر آگیا تھا، تو میں یوں بولی کہ آپ تو اُسے سوجھتا بھی نہیں اور منھ پے تو چھبروں نور برستا ہے جس دن سویرے ہی سویرے صورت دکھائی جاتی ہے، روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور کچھ نہیں تو کتا ہی ہنڈیا میں منھ ڈال جاتا ہے۔ بوا لو یہ بات تو ضرور میں نے کہی تھی، تمہارا تو نام بھی نہیں لیا۔ نامعلوم بڑھاپے میں تمہاری عقل چرنے چلی گئی ہے کیا، پہلے بات کا انجام سوچ لیا کرو پھر منھ سے کچھ نکالا کرو۔ وہ تو اچھا ہوا میں چلی آئی اس وقت، نہیں تو تہارے دل میں یہ غبار بھرا ہی رہتا۔

    سکینہ اللہ تیرا کلیجہ ٹھنڈا رکھے، بچی! لے میری کیا خطا ہے، مجھ سے تو جیسا کسی نے کہہ دیا، میں نے یقین کرلیا، میں آپ تو کچھ سننے گئی نہیں تھی، مجھے کیا خبر کہ بلو دھوبن کا قصہ تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ تو مجھی کو کہہ رہی ہوگی، سکینہ میرا دل تو اندر سے گواہی دے رہا تھا کہ زمین آسمان ٹل جائے اپنی جگہ سے، مگر سکینہ میرے لیے ایسے بول منھ سے نہیں نکال سکتی، اور انہیں باتوں کی بدولت تو رات دن تیرے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میرے بدن کے روئیں روئیں سے!

    مگر بوا اتنے کچے کان بھی کس کام کے۔ آج تو یہ ہوا کل کو اور کچھ کہہ دیا کسی نے تم سے، تو میں کیا بگاڑ لوں گی، اس کا یا تمہارا۔

    یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے سکینہ! ایسی میں پاگل سڑی تھوڑا ہی ہوں جو ہر کسی کے کہنے سے یقین کر لوں گی، اب لے اتنی بات تو کہنے والے نے بھی جھوٹی نہیں کہی، کسی کا ذکر تو تھا، تم خود ہی کہتی ہو۔ بلو دھوبن کو کہہ رہی تھیں، ہاں اتنی بات اور بڑھ گئی کہ اس کی جگہ میرا نام لے دیا۔

    یہی تو کرتوت ہیں بوا دشمنوں کے، میں تمہاری ہی جان کی قسم کھاکر کہتی ہوں بلو دھوبن کو کہہ رہی تھی، تمہیں کیا معلوم نہیں اس کی صورت دیکھ لو صبح صبح تو روٹی نہیں ملتی سارے دن، بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بھائی خدا کی قسم! میں نے تو جس روز اس مردار کی صورت دیکھی مجھے سورج ڈوبنے تک چین نصیب ہوا نہیں۔

    کیا کہہ رہی ہو سیدانی، بلو دھوبن کا دم نہ ہوتا تو جھینک جھینک کر مرجاتیں تم۔ یہ میں ہی تھی کہ جب ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر پڑی تھیں تم اور کوئی پانی پلانے والا بھی پاس نہ تھا تو اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر تمہاری پٹی نیچے آبیٹھی تھی۔ پیر میں نے دبائے تمہارے، منھ ہاتھ میں نے دھلوایا۔ روٹی میں نے پکا کے کھلائی سارے کنبہ کو، اور آج تم کہتی ہو بلو منحوس ہے، اس کی صورت دیکھنے سے روٹی نہیں ملتی، وہ دن بھول گئیں کیا جب بلو کے سوا تمہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے نیکی کر اور کنویں میں ڈال۔

    سکینہ بلو کو دیکھتے ہی چونک گئی۔ اس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی بوند نہیں۔ اسے سان و گمان بھی نہ تھا کہ بلو دیوار کے نیچے کھڑی سب کچھ سن رہی ہے۔ وہ بہت ہی گھبرائی، بلو نے سارا قصہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا۔ اب اس کی تردید ہی کیا ہوسکتی تھی۔ بوا کو تو اس نے سمجھا کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نیک دل بیوی تھیں، مگر بلو باہر پھرنے والی بے باک عورت، اس کی زبان کسی کے سامنے رکنے والی ہی نہ تھی، مگر سکینہ نے ہمت کرکے کہا۔

    بلو کیوں آپے سے باہر ہوئی جارہی ہے۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بوا کو نہ معلوم کیا ہوگیا تھا، ایک دم سے مجھ پر برس ہی تو پڑیں۔ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو میں نے تیرا نام لے دیا تھا۔ تیرے بچہ کی قسم کوئی اور بات تھوڑا ہی تھی، پوچھ لے بوا سے میں نے کوئی گالی دی ہو تجھے تو!

    گالی تم کیا دیتیں سیدانی، میں تو اچھے اچھوں کی نہیں سنتی، تم تو بیچاری ہو کس شمار قطار میں۔ اور گالی دینے میں تم نے کیا کسر رکھی ہے، منحوس تم نے کہا، اندھا تم نے کہا، اور کیا رہ گیا بھلا کہنے کو، سیدانی مجھے تمہارے یہ گن معلوم نہ تھے، نہیں تو کبھی تھوکتی بھی نہیں تمہارے گھر آکے اور اب دیکھو آگے کو۔

    بلو معلوم ہوتا ہے تو بھی بھنگ پی کے آئی ہے، میں نے تو گھر بسی منحوس اور اندھا نہیں کہا تجھے، پوچھ لے بوا سے!

    آنکھوں میں انگلیاں مت کرو سیدانی، میں بہری تو ہوں نہیں، اللہ رکھے میرے کان ابھی سلامت ہیں۔ میں یہیں بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو اینٹ مار کے یہیں سے سر پھوڑ دیتی۔ اللہ کی سوں! وہ تو نہ معلوم کس بات کا خیال آگیا، اور بوا سے کیا پوچھوں، یہ تو تم سب کی کہی بدی ہے۔ تم سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ پھر بوا کاہے کو کہیں گی؟

    بلو دیکھ میں اور قسم کی عورت ہوں، سکینہ ہی سے منھ ملائے جا، میرا نام لیا تو ٹھیک نہیں۔

    کس قسم کی عورت ہو بوا۔ میرا بھلا کیا کر لو گی، جیسا کہو گی، ویسا سنو گی، میں کب تمہاری دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں جو دبوں گی۔

    دبے گی کیسے نہیں۔ کمینوں کو منھ لگانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ سکینہ دیکھو ہمارے برابر بیٹھتے بیٹھتے آج بلو کا یہ حوصلہ ہوگیا کہ وہ کہتی ہے جیسا کہو گی ویسا سنو گی، بلو اچھی طرح سن لے کان کھول کر میں تیری برابری کی نہیں ہوں۔

    زمین پے پاؤں رکھ کے چلو بوا زمین پے!

    اب کیا تیرے سر پے رکھ کے چل رہی ہوں۔

    میرے سر پے تم کیا پیر رکھو گی بیچاری، چرخہ کاتتے کاتتے تمہاری عمر گزر گئی، ایک دن چرخہ پونی لے کے نہ بیٹھو تو اگلے دن کھانے کو روٹی نہ ملے۔ تم میرے سر پے کیا پاؤں رکھو گی؟

    بلو دیکھ منھ میں لگام دے، چڑیل کہیں کی آئی وہاں سے باتیں بنانے ایران توران کی۔

    بوا عمر کا خیال کرتی ہوں، سفید بالوں سے اللہ میاں کو بھی شرم آتی ہے، نہیں تو وہ سناتی کہ سر پیٹ لیتیں تم اپنا۔

    کھڑی تو رہ مردار۔ پیڑھی سر پے دے ماروں گی۔

    میں چونڈا اکھاڑ لوں گی، پیڑھی مارنے والی کا۔

    بک بک کیے جارہی ہے۔ چپ نہیں ہوتی کمینی۔

    تم ہزار دفعہ کمینی!

    سکینہ سن رہی ہو، اس دھوبن کی باتیں تم۔

    ہاں بوا سن تو رہی ہوں مگر کیا کروں کچھ بس نہیں چلتا۔

    وہ کیا سنے گی، ابھی تو مجھے اس کے دانے دیکھنے ہیں تم تو ویسے ہی بیچ میں ٹانگ اڑا بیٹھیں، جھگڑا تو سیدانی سے ہو رہا تھا۔

    میرے کیا دانے دیکھے گی تو چڑیل؟

    سیدانی زبان سنبھالو، نہیں تو منھ نوچ لوں گی، بالوں میں آگ لگا دوں گی۔

    میں تیری چٹیا مونڈ لوں گی!

    میں تیرے لالوں کا خون پی لوں گی!

    ارے تیرے منھ میں لگے آگ، خون پی اپنے پیاروں کا۔

    سیدانی اللہ کرے تو مجھ سی ہی ہو جا!

    خدا نہ کرے مجھے تجھ سا۔

    تیرے مریں بچے سیدانی! مجھے منحوس کہنے والی۔

    بلو دیکھ زبان قابو میں رکھ، کیسا منھ بھر بھر کے کوس رہی ہے، نمک حرام۔

    تیرے مریں لال۔

    بلو خدا کے لیے۔

    تیرا لٹے سہاگ۔

    تیرا مرے خصم۔

    تیرا نکلے جنازہ۔

    بلو، تیرے پھوٹیں دیدے۔

    تیرے منھ میں نکلے کالا دانہ۔

    بوا خدا کے لیے اس کی جیب کتر لو!

    سیدانی تو اتنی ہی بڑی مر جائے، اللہ کرے تجھے شام ہونی نصیب نہ ہو۔ اور بوا رذالی کون ہوتی ہے جیب کترنے والی۔

    بلو میں پہلے کہہ چکی ہوں میرے منھ مت لگ تو۔

    تو میرا کیا بگاڑ لے گی؟

    میں تیرا کلیجہ نکال لوں گی۔

    میں تیرے منھ پے خاک ڈال دوں گی!

    نکل چڑیل میرے گھر سے!

    بوا دیکھو مجھے ہاتھ لگایا تو جان کی خیر نہیں، میں تو مرنے ہی کو پھر رہی ہوں، کل کی مرتی آج مر جاؤں۔ مجھے پروا نہیں۔ مگر تم کھینچی کھینچی پھرو گی زمانے بھر میں۔

    بوا اور بلو کو الجھا کر، سکینہ دبے پاؤں کوٹھے سے اتر آئی اور جلدی سے کواڑوں کی زنجیر لگا دی۔ تھوڑی دیر تو بلو بوا کو کوستی کاٹتی رہی، وہ بھی برابر جواب دیتی رہیں۔ اتنے میں دن چھپ گیا اور بوا نماز کو کھڑی ہوگئیں، بلو نے فرصت پا کر اوپر دیکھا تو سکینہ غائب! اس نے غصہ میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنے ہاتھ کو کھڑا کرکے زور سے مارا اور دانت کچکچاکے بولی، تیرے کھاؤں قتلے! تو آگ لگا کر چل دی چترا کہیں کی۔ مجھے بوا سے لڑا دیا اور آپ کھسک گئی۔

    (یہ مزاحیہ تحریر کوثر چاند پوری کی ہے، جنھوں نے افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ مزاح بھی تخلیق کیا)