Tag: کودک کہانی

  • سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    کسی جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔

    ایک دن کیا ہوا کہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس محسوس ہونے لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے پر اتر گئی اور اس کا ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ دفعتاً پہاڑ کی بلندی سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر اپنے سَر جھٹکا کہ جو بھی چیز ہے وہ الگ ہوجائے، مگر اسے احساس ہوا کہ چونچ پر جو وزن ہے وہ کم نہیں ہو رہا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ اے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑگئے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

    اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ بھولی بھالی چڑیا ان کو ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

    اس کی دوست یعنی مینا یہ سب دیکھ کر حسد میں‌ مبتلا ہوگئی۔ اس کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ہر پرندہ اور پرندے ہی کیا چھوٹے بڑے جانور تک چڑیا کی تعریف کرنے لگے ہیں اور اسے دیکھنے کو آتے ہیں۔ اسے چڑیا کی چونچ دیکھ دیکھ کر اپنی کالی چونچ سخت بری لگنے لگی تھی۔ وہ چپکے چپکے کئی بار اس پہاڑ پر گئی اور چشمے پر اچھلتی کودتی پھرتی رہی۔ وہ سارا دن گزار مایوس لوٹ آتی تھی، مگر اب تک نہ پہاڑ کو رونا آیا اور نہ ہی اس کے آنسو سے مینا کی چونچ سونے کی بنی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتی کہ یا تو میری چونچ سونے کی ہو جائے یا چڑیا کی سونے کی چونچ کھو جائے۔ ادھر وہ بھولی بھالی اور نیک سیرت چڑیا اپنی دوست مینا کے دل میں اپنے لیے پلنے والی نفرت اور حسد کی اس آگ سے بے خبر تھی۔

    ایک دن مینا چڑیا کے گھر آئی اور بولی۔ چڑیا بہن کسی زمانے میں ہم دونوں میں کس قدر پیار تھا۔ مگر جب سے تمہاری چونچ سونے کی بنی ہے تم نے مجھے بھلا ہی ڈالا۔ چڑیا بولی۔ مینا کیسی باتیں کرتی ہو میری چونچ ضرور سونے کی بن گئی ہے مگر میں نہیں بدلی ہوں۔ تم دل برا مت کرو۔ مینا بولی اگر یہ بات ہے تو کل رات کا کھانا تم میرے ساتھ کھاؤ۔ مل کر خوب باتیں کریں گے، کھیلیں گے اور پیڑ کی شاخوں پر جھولا جھولیں گے چڑیا نے کہا ضرور کل میں شام کو ہی تمہارے ہاں آ جاؤں گی۔ رات کو واپسی پر جگنو خالو مجھے میرے گھونسلے تک چھوڑ دیں گے۔ مینا چڑیا سے وعدہ لے کر پھر سے اڑ گئی اور سیدھی ڈاکٹر لومڑی کے پاس جا پہنچی۔ ڈاکٹر لومڑی نے مینا کو دیکھ کر کہا آؤ مینا کیسے آنا ہوا؟ کہیں بیمار تو نہیں ہو۔ مینا بولی ڈاکٹر صاحبہ کئی دنوں سے سو نہیں سکی نجانے میری نیند کہاں کھو گئی ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے نیند کی دوا دے دیں تاکہ ایک دو دن خوب سو سکوں۔ مینا ڈاکٹر لومڑی سے نیند کی دوا لے کر گھر پہنچی۔ دوائی کو گھونسلے کے ایک کونے میں رکھا اور خود گہری نیند سو گئی۔

    اگلے دن چڑیا کے آنے سے پہلے ہی مینا نے دو تین قسم کے اچھے کھانے چڑیا کے لیے تیار کیے۔ انہیں شیشے کی پلیٹوں میں سجایا۔ کھانے میں ڈاکٹر لومڑی کی دی ہوئی نیند کی دوائی شامل کر دی اور کام ختم کر کے چڑیا کا انتظار کرنے لگی۔ بیچاری چڑیا ندی پر جا کر خوب نہائی، پروں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور اپنی سونے کی چمکتی ہوئی چونچ کو خوب چمکایا ا ور مینا کی طرف چل پڑی۔

    راستے میں بی بکری سے پھول لئے تو بی بکری بولی واہ چڑیا آج تو پوری ہی سونے کی لگ رہی ہو۔ کیا کسی شادی میں جا رہی ہو۔ چڑیا نے مینا کی دعوت کے بارے میں بتایا اور پھول لے کر چل دی۔ راستے میں ایک درخت پر جگنو خالو نیند کے مزے لے رہے تھے چڑیا نے ان کے کان کے پاس جا کر زور سے چوں چوں کی۔ تو وہ ایک دم سے ڈر کر جاگ گئے۔ چڑیا ہنس دی اور جگنو خالو کو تاکید کرنے لگی کہ رات کو واپسی پر مینا کے گھر سے مجھے میرے گھر تک پہنچا دینا۔ کیونکہ راستے میں اندھیرا ہو جائے گا۔ جگنو خالو نے چڑیا سے وعدہ کر لیا اور چڑیا خوشی خوشی مینا کے گھر جا پہنچی۔

    دونوں سہیلیاں بہت پیار سے ملیں۔ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر مینا نے چڑیا کو کھانا پیش کیا۔ چڑیا کو چاول کے دانوں کی کھیر بہت پسند آئی اور اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ مینا پاس بیٹھی چڑیا کو اصرار کر کر کے اور کھلاتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چڑیا کو اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ آنکھیں نیند سے بھرنے لگیں۔ چڑیا نے پر ہلا کر اڑنا چاہا مگر نیند کی دوائی اثر کر چکی تھی اور چڑیا بے ہوش ہو گئی۔ چڑیا کے بے ہوش ہوتے ہی مینا نے جلدی سے چڑیا کی سونے کی چونچ والا خول اتارا۔ اپنی کالی چونچ کاٹی اور اپنے منہ پر سونے کی چونچ سجا لی اور جلدی سے جنگل کی سمت اڑ گئی۔ خالو جگنو مینا کے گھونسلے کے باہر کافی دیر تک چڑیا کا انتظار کرتے رہے۔ مگر چڑیا گھونسلے سے باہر نہ آئی۔ چونکہ جگنو چڑیا سے گھر چھوڑنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ اور اب وہ اس کا انتظار کررہا تھا اور اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

    اسی لئے وہ مینا کے گھونسلے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گھونسلے کے اندر کی خاموشی سے جگنو کو کسی خطرے کی بو محسوس ہونے لگی۔ جگنو خالو گھونسلے کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا چڑیا بے ہوش پڑی ہے۔ انہوں نے جلدی سے چڑیا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چڑیا نے تھوڑی سی حرکت کی اور آنکھیں کھول دیں۔ خالو جگنو نے پوچھا چڑیا تم کون ہو؟ چڑیا بولی۔ خالو جان آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں سونے کی چونچ والی آپ کی بھانجی چڑیا ہوں۔ جگنو خالو بولے۔ مگر تمہاری چونچ تو سونے کی نہیں ہے۔ چڑیا نے گھبرا کر چونچ پر پنجہ مارا تو اسے اپنے ناک کے پاس باریک سی چونچ محسوس ہوئی۔ وہ بھاری بھر کم سونے کا خول غائب تھا۔ اسے ساری بات یاد آ گئی کہ کس طرح مینا نے اسے دھوکہ دیا۔ اس نے مینا کو ادھر ادھر ڈھونڈا۔ مینا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ مینا کو نہ پا کر چڑیا رونے لگی۔

    رات کی تاریکی میں چڑیا کے شور نے جنگل میں سوئے تمام پرندوں کو جگانا شروع کر دیا۔ سب چڑیا کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ چڑیا زار و قطار رو رہی تھی اور خالو جگنو سب کو بار بار مینا کے دھوکے اور چڑیا کی سونے کی چونچ کا قصہ سنانے میں مصروف تھے۔ سب پرندوں کو مینا پر شدید غصہ تھا کہ آخر مینا نے اپنی دوست چڑیا کے ساتھ ایسا دھوکہ کیوں کیا۔ مینا کو جنگل میں ہر طرف تلاش کیا گیا مگر مینا نہ ملی ہر پرندہ اور جنگل کا جانور چڑیا کو انصاف اور مینا کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اسی لئے زور شور سے مینا کی تلاش جاری تھی۔

    کافی دنوں کے بعد جنگل کے آخری حصے سے مسٹر بندر کے کچھ دوست اسے ملنے آئے۔ رات کو بیٹھے تمام بندر گپ شپ لگا رہے تھے۔ طرح طرح کے قصے سنا کر ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش میں تھے ایک مہمان چھوٹے بندر نے کہا۔ میں نے جنگل میں ایک عجیب سی مینا دیکھی ہے، ہے تو وہ عام مینا ہی جیسی مگر اس کی چونچ سونے کی ہے۔ اس قدر چمکتی ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی ہو جاتی ہے۔ اسی درخت کی شاخ پر جگنو خالو بھی بیٹھے سوتے جاگتے بندروں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب جگنو خالو کے کان میں سونے کی چونچ والی مینا کی بات پڑی تو وہ چونک اٹھے اور غور سے بندر کی بات سننے لگے۔ صبح ہوتے ہی وہ چڑیا کے گھر جا پہنچے اور چڑیا کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ چڑیا نے اپنے تمام خاندان کو اکٹھا کیا اور ماموں الو اور پھوپھو گلہری کو ساتھ لیا اور بندروں کے پاس جا پہنچے۔ بندر بے چارے سوئے پڑے تھے۔ پرندوں کی شور کی آواز نے انہیں جگا دیا۔

    ان سے سونے کی چونچ والی مینا کا قصہ پوچھا۔ اس درخت کے بارے میں معلوم کیا جہاں اس نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ اب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی دو فوجیں تیار کی گئیں۔ مہمان بندروں کی رہنمائی میں رات کی تاریکی میں جنگل کے آخری حصے میں سب پہنچے۔ خالو جگنو اپنے سارے خاندان کے ساتھ روشنی کی سہولت پہنچاتے رہے۔ رات کو ہی اچانک حملہ کر کے سوئی ہوئی مینا کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اگلی صبح جنگل میں بہت رونق تھی، جنگل کا بادشاہ شیر بڑی شان سے دربار سجائے بیٹھا تھا۔ الو، بندر، ریچھ، ہاتھی، زرافہ، مینا، طوطے، مور اور رنگ برنگی چڑیاں سب جمع تھے۔ تتلیاں اور جگنو بھی ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ شیر کے سامنے دھوکے باز مینا کو پیش کیا گیا۔ الّو نے تمام قصہ سنایا۔ ڈاکٹر لومڑی نے گواہی دی کہ مینا نے اس دن اس کے کلینک سے نیند کی دوائی لی تھی اور جگنو خالو نے گواہی دی کہ مینا کے گھونسلے میں اس نے چڑیا کو بے ہوش پڑے دیکھا اور سب سے بڑا ثبوت تو مینا کی سونے کی چونچ تھی جو چمک رہی تھی۔ مینا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ تمام پرندے شیر بادشاہ سے چڑیا کو انصاف دلانے کی درخواست کر رہے تھے۔

    شیر نے تمام گواہیاں سن کر چیتے اور ہاتھی سے مشورہ کیا اور ڈاکٹر لومڑی سے کہا کہ مینا کی سونے کی چونچ اتار کر ابھی چڑیا کو واپس لگا دو۔ ڈاکٹر لومڑی نے حکم کی تعمیل کی اور مینا کی چونچ اتار کر چڑیا کو واپس لگا دی اور مینا کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی سزا کا بندوبست خود ہی تو کر لیا تھا جب اس نے اپنی کالی چونچ کاٹ کر سونے کی یہ چونچ لگائی تھی اب مینا پورے جنگل میں شرمندہ شرمندہ سی بغیر چونچ کے پھرتی ہے۔ نہ ٹھیک طرح سے دانہ چگ سکتی ہے اور نہ کیڑے مکوڑوں کا شکار۔ اب اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • تین گڑیاں (لوک کہانی)

    تین گڑیاں (لوک کہانی)

    فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بوجھنے اور معمّے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا۔

    سلطان نے تحفے کو کھولا، اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاری گری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘

    ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔ پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بُو مختلف ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھ کر دیکھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کا سانس معطّر ہوگیا۔ صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔

    سلطان نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے۔ جس نے زندگی بھر کتابیں‌ پڑھی ہوں وہ بھی آگے آئے۔ ایک اسکالر اور ایک قصّہ گو سلطان کے حکم پر سامنے آئے۔

    سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انھیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلایا اور کچھ فرق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اکتا گیا اور گڑیوں کو میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

    اب سلطان نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا تم گڑیوں کے درمیان کوئی فرق شناخت کر سکتے ہو!‘‘ قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصّہ گو نے کہا، ’’ یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کر بڑی جرأت کی اور اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ سلطان کچھ نہ بولا۔ اس پر تو گڑیوں کا راز جاننے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    اب قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کا دوسرا سرا کہاں سے باہر آئے گا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔

    اب قصّہ گو نے کہا، ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کا اپنا شاہکار لگے۔‘

    (فارسی ادب سے انتخاب)

  • جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    تبّت کی ہر وادی برف سے ڈھک گئی تھی۔ راتیں سیاہ تھیں اور لمبی لیکن سفید برف اس سیاہی میں عجیب سا منظر بنا دیتی۔ دور ایک وادی میں، جو کہ چار پہاڑوں کے عقب میں تھی، بانس کی ایک کٹیا کھڑی تھی۔ یہ بوڑھے بانگو کا کاشانہ ہے۔

    جھونپڑی کے دروازے پر لکڑی کا ایک تختہ بطور آڑ رکھا ہوا تھا اور اس کی چھت کی اطراف ترچھی تھیں تا کہ برف کے گولے گرتے ہی پھسل جائیں اور وزن سے بانس نہ ٹوٹیں۔ جھونپڑی کوئی بیس۔۔۔۔پچیس فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی۔اندر دو چارپائیاں تھیں اور ایک اپلوں کی انگیٹھی جس کی حرارت اس جان لیوا سردی میں بانس کی اس کٹیا کو ایک اگلو سا بنا دیتی اور مکین جاڑے کی شدت سے محفوظ رہتے۔ ایک طرف کھونٹی سے پرانی لالٹین لٹک رہی تھی جس کی لَو سے اندر بمشکل ہی روشن ہوتا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے پر قبائلی زبان میں خوش آمدید اور مہمان نوازی کی دعوت کے بارے کچھ الفاظ لکھے تھے اور دائیں جانب ہی گھاس کے ایک ڈھیر کے پاس تین دنبیاں اور ایک یاک کھڑا تھا۔

    جب موسم خوش گوار ہوتا تھا تو بانگو اپنے مویشی باہر لے جاتا اور رات خوبانی کے درختوں کے ساتھ باندھ دیتا لیکن آج کل موسم اتنا سرد تھا کہ وہ بے زبان روحیں کھلی فضا میں اس کی شدت کی تاب نہ لا سکتی تھیں۔ بانگو کی بیوی اون کی پوشاک بنتی رہتی اور ہر ڈورے کے ختم ہوتے ہی دوسرا نکال کر دھاگے جوڑ دیتی۔ اس سنسان اور سرد وادی کے مکین جوڑے کے دو بچّے تھے۔ ان میں لوگیس بڑی تھی نو سال کی اور لوشی پانچ برس کا تھا۔ بانگو شادی سے پہلے دو میل دور اپنے گاؤں میں رہتا تھا لیکن شادی کے بعد اس نے خوبانی کا ایک باغ اگایا اور بانس کی یہ رہائش تیار کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں لے آیا۔ بانگو خود تو بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اس کی بیوی نوجوان تھی۔ وہ دو بچّوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جب کبھی سردی سے ٹھٹھرتی اور اپنی ہتھیلیاں انگیٹھی پر گھماتی تو ایک نوجوان لڑکی ہی لگتی۔ لمبی اندھیری راتوں میں لالٹین کا شعلہ بھی سردی سے مدھم پڑجاتا اور اس کے گول شیشے پر جمنے والی نمی اس منظر کو اور دھندلا دیتی۔

    بانگو ہر دو ہفتے بعد گاؤں جا کر تیل لے کر آتا۔ لیکن اس بار لگتا تھا کہ وہ برف باری میں جانے سے کترا رہا ہے۔ لالٹین کا شعلہ ہر گزرتی شب اور مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

    لوشی ہر وقت سرمئی دنبی کے پاس ہی بیٹھا رہتا بلکہ اپنا کھانا اور دودھ بھی اس کے پاس ہی لے جاتا۔ بانگو نے جب سے اسے بتایا تھا کہ یہ دنبی کچھ دنوں میں بچہ جننے والی ہے تب سے اس کے دماغ میں صرف ایک ہی منظر سمایا تھا، دنبی کا معصوم بچّہ جس کے بال موم کی طرح ملائم اور نرم ہوں گے اور، وہ اپنی ماں سے چمٹ کر دودھ پیے گا۔ لوشی اس دنبی کا منہ پکڑ کر سہلاتا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا:”اس بار سب سے پہلے تمہارا بچّہ میں دیکھوں گا، اچھی دنبی! اگر میں سو گیا تو تم بچّہ نہ جننا، جب میں جاگا تم تب ہی اپنا بچّہ پیدا کرنا۔ نہیں تو میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔” دنبی کی آنکھیں حیرت سے لوشی کو تکتی رہتیں۔ بانگو کی بیوی نے دنبی کے پیٹ پر دولائی باندھ دی تھی۔ بانگو کو امید تھی کہ دو، تین دن میں دنبی بچّہ جنے گی لیکن اسے یہ اندیشہ تھا کہ لالٹین بجھ جائے گی اور اندھیری رات میں روشنی کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔لوشی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور برف باری سے پہلے وہ دونوں باہر وادی میں کھیلتے، تتلیاں، جگنو اور چڑیاں پکڑتے اور انہیں گھر لے آتے۔ لوشی نے اپنے ڈبّے میں مینا کا بچّہ ڈال رکھا تھا، جس کو وہ دن میں کئی بار دیکھتا اور پھر ڈبّے میں ڈال دیتا۔

    اس رات لالٹین کا ٹمٹماتا شعلہ مکمل طور پر بجھ گیا اور جھونپڑی میں پوری طرح اندھیرا چھا گیا۔ بستروں کے پاس انگیٹھی کی آگ سے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ لوشی اس رات سونے کی کوشش میں نہ تھا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ سو گیا تو پھر صبح، دن چڑھے ہی اٹھے گا، اور اگر تب تک دنبی نے بچّہ دے دیا تو وہ اسے سب سے پہلے کیسے دیکھے گا، اس کے ماں باپ تو صبح سویرے ہی جاگ جاتے ہیں۔ آدھی رات کو اس نے لوگیس کی رضائی ہلا کر اسے اپنا اندیشہ بتایا۔

    بانگو کل سے گاؤں گیا ہوا تھا کیونکہ وہ مکھن اور اونی چغے بیچ کر کچھ چیزیں خرید کر لانا چاہتا تھا اور لالٹین کے لیے تیل بھی۔ لوشی دنبی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے میں وہ اپنے بستر سے نہ اٹھا۔ اندھیری جھونپڑی میں حاملہ دنبی دوسرے مویشیوں سے الگ بیٹھی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک کی ایک لہر دوڑی، اس نے اپنا پیٹ اٹھایا اور پھر اس کا موٹا وجود چند لمحوں میں ہلکا ہو گیا۔ ننھا اونی ریشم کا گولا ماں کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دنبی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کا لمس لینے لگی۔

    لوگیس نے لوشی کو کچھ کہے بغیر اپنی چارپائی کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی، جس میں اس نے تین ، چار دن پہلے کافی جگنو بند کر دیے تھے۔ لوشی حیرت سے اپنی بہن کی تھیلی کو دیکھ رہا تھا۔ لوگیس چپکے سے اٹھی اور لالٹین اتار کر انگیٹھی کے پاس لے آئی۔ اس نے لوشی کو اشارہ کیا، وہ دونوں بہن بھائی لالٹین کو کھولنے لگے۔ لوگیس نے جگنوؤں سے بھری تھیلی لوشی کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ لالٹین کا شیشہ سرکائے، وہ تھیلی شیشے میں پلٹ دے۔ باہر کہر بھری ہوا چل رہی ہے۔ ان کی ماں لحاف اوڑھے نیند کی وادیوں میں گم ہے۔ لوگیس نے شیشہ اٹھاتے ہی لوشی کو بلایا تو اس نے فوراً تھیلی کا منہ پھیلا کر شیشے میں پلٹ دی۔لوگیس نے فورا ہی شیشے کو گھما کر بند کیا اور دامن سے نمی کی تہہ کو صاف کر دیا۔ ایک لمحے میں لالٹین کا شیشہ ہلکا سا روشن ہوا۔دسیوں جگنوؤں نے اتنی روشنی ضرور کر دی تھی کہ وہ جانوروں کے پاس چلے جاتے۔

    لوشی لالٹین اٹھا کر دنبی کے پاس آیا تو خوشی سے لوگیس کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے ننھے میمنے کو چوما، وہ سفید اور ملائم تھا، نازک اور کوسا کوسا۔ لوشی سوچ رہا تھا کہ میمنا بھی برف کی طرح سفید ہے لیکن برف تو بڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ میمنا بڑا گرم ہے۔ لوشی بار بار میمنے کو چومتا اور اس کے گرم وجود پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دنبی کے سَر کے پاس جا کر کہا: "اچھی دنبی! تمہارا شکریہ”۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں لوشی دنبی کے پاس بیٹھا خوشی منا رہا تھا جب کہ شیشے میں کئی ننھے شعلے دَم توڑ رہے تھے۔

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • چار دوست اور پانچ جھوٹ

    چار دوست اور پانچ جھوٹ

    ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔

    وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔ اس نے انہیں لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا۔ اس نے کہا ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے لئے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کے لئے اجنبی ہوں گے، ہم گاؤں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنائیں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے۔ تینوں دوستوں نے اس طریقہ سے اتفاق کیا۔ چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور بعض دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو پیسے دے دیتے۔ جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور گاؤں کے لوگ ان کی چالاکی اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور وہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگتے۔ اس طرح انہوں نے اچھا خاصا مال جمع کرلیا تھا۔ اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہوگئی تھی۔

    ایک دفعہ یہ چاروں یوں سفر کرتے کرتے ایک دور دراز کے گاؤں میں پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں امیر کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس اس کا قیمتی سامان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سب مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سب سے بڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے یہ ترکیب تینوں کو بتائی تو تینوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔

    چنانچہ یہ چاروں دوست تاجر کے پاس گئے، سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا: اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنائیں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا، اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا مال لے لیا جائے گا۔

    تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہت مزیدار ہوگا۔ میں تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا۔ چاروں دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں اس کو سنائیں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا، یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور ہم جیت جائیں گے اور اس تاجر کا سارا مال قبضہ میں کرلیں گے۔

    ضروری ہے کہ ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوٹل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار، جیت کا فیصلہ کرسکے۔ تاجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ چاروں دوستوں نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کے چوہدری کو بلایا گیا اور وہ ان پانچوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

    پہلے دوست نے کہانی شروع کی، کہنے لگا: میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی پیدا نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور باپ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں آم کا ایک درخت نظر آیا، میری ماں نے وہاں رک کر میرے باپ سے کہا، مجھے آم کھانے ہیں، آپ درخت پر چڑھ کر آم توڑ کر لا دیں۔ میرے باپ نے کہا یہ درخت کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں، میں نہیں چڑھ پاؤں گا۔ لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا۔ مجھے جوش آیا میں چپکے سے ماں کے پیٹ سے نکلا اور درخت پر چڑھ کر آم توڑے اور لاکر ماں کے سامنے رکھ دیے اور واپس پیٹ میں چلا گیا۔ میری ماں اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی۔

    پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تاجر نے کہا: واہ! کیا زبردست کہانی ہے ماں کے کام آئے، یہ کہانی کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے، نہیں یہ بالکل سچی کہانی ہے۔

    پہلے دوست نے جب یہ سنا تو منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی وہ کہنے لگا: میری عمر ابھی صرف سات سال تھی، مجھے شکار کھیلنے کا بے حد شوق تھا، ایک دفعہ میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دور ایک خرگوش نظر آیا، میں اس کے پیچھے دوڑ پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے۔ شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کیا اب تو میں بہت گھبرا گیا اور شیر سے کہا: دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو، خدا کے لئے مجھے جانے دو، لیکن شیر نے میری بات نہیں مانی اور دہاڑنے لگا، مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ شیر کو مارا، شیر وہیں دو ٹکڑے ہوکر مرگیا۔

    واہ واہ! کیا بہادری ہے۔ بندہ کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے ﴿اپنے تیسرے ساتھی کو﴾ چپکے سے آنکھ ماری کہ تو کوئی ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا، جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے۔

    چنانچہ تیسرے دوست نے کہنا شروع کیا: مجھے مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی، ایک دن میں دریا کے کنارے گیا اور وہاں پانی میں جال ڈال کر بیٹھ گیا، کئی گھنٹوں جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی، میں نے پاس کھڑے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریا میں مچھلی نہیں ہے کیا؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھلی ہمیں نظر نہیں آئی۔ میں یہ سن حیران ہوا اور دریا میں غوطہ لگا دیا۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی مچھلی بیٹھی ہوئی ہے اور آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو کھائے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس مچھلی کو ایک زبردست مکا رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا، پھر میں نے وہیں دریا کی تہہ میں بیٹھ کر آگ جلائی اور وہیں مچھلی پکائی اور کھا کر واپس دریا سے باہر آگیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
    تیسرے نے کہانی سنا کر امید بھری نظروں سے تاجر کی طرف دیکھا، تاجر نے کہا بہت اچھی کہانی ہے، دریا کی سب چھوٹی مچھلیوں کو آزادی دلائی، کتنا نیکی کا کام ہے بالکل سچی کہانی ہے۔

    اب چوتھے دوست کی باری تھی اس نے کہنا شروع کیا: میری عمر صرف دو سال تھی، ایک دن میں جنگل میں گیا، وہاں کھجوروں کے بڑے بڑے درخت تھے اور ان پر کھجوریں بہت لگی ہوئی تھیں۔ میرا بہت دل چاہا کہ میں کھجوریں کھاؤں، چنانچہ میں درخت پر چڑھا اور پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں۔ جب میں نے درخت سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا میں نیچے اترتے اترتے گر جاؤں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ درخت سے نیچے کیسے اترتے ہیں۔ میں درخت پر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں گاؤں سے سیڑھی لاکر اس کے ذریعے سے نیچے اتروں۔ چنانچہ میں گاؤں گیا، وہاں سے سیڑھی اٹھا کر درخت کے ساتھ لگائی اور اس کے ذریعے سے نیچے اترگیا۔

    اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کو دیکھا کہ اب ضرور کہہ دے گا نہیں یہ کہانی جھوٹی ہے۔ لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا کیا زبردست دماغ پایا ہے۔ ایسی ترکیب تو بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے۔ بالکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

    اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں اور ہمارا سارا مال یہ تاجر لے اڑے۔ کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی۔ تاجر کہنے لگا: میں نے بہت سال پہلے ایک خوبصورت باغ لگایا تھا۔ اس باغ میں ایک سنہرے رنگ کا بہت نایاب درخت تھا۔ میں اس کی خوب حفاظت کرتا تھا، اور اس کو روز پانی دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک سال بعد اس درخت پر چار سنہرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے، وہ سیب بہت خوبصورت تھے اسی لئے میں نے ان کو نہیں توڑا اور درخت پر لگا رہنے دیا۔ ایک دن میں اپنے باغ میں کام کررہا تھا کہ اچانک ان چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا، چونکہ یہ چاروں آدمی میرے باغ کے ایک درخت سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا، لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے، ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے اور خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

    یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گاؤں کے چوہدری نے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی؟ چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ تاجر کی اس کہانی کو جھوٹ کہیں تو ان کا سارا مال تاجر کا ہوجاتا ہے اور اگر سچ کہیں تو تاجر کے غلام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ چاروں خاموش ہوگئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی ناں میں۔ گاؤں کے چوہدری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چاروں تمہارے غلام ہیں۔ یہ سن کر وہ چاروں تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور لگے معافیاں مانگنے۔ تاجر نے چوہدری سے کہا: یہ چاروں بھاگتے ہوئے میرا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے بھاگے تھے، چلو میں ان کو آزاد کرتا ہوں لیکن ان کے پاس جو مال ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ گاؤں کے چوہدری نے ان چاروں دوستوں کے پاس جتنا مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا۔

    وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا، یہ چارون بہت سخت پشیمان ہوئے انہیں جھوٹ کی نہایت بری سزا ملی تھی۔ چاروں دوستوں نے تہیہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے اور محنت کر کے روزی کمائیں گے۔ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے توبہ کر لی۔

  • جسے اللہ رکھے، اسے  کون چکھے (کہانی)

    جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

    اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

    جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

    مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

    جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

    جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

    اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

    مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔

  • رانی کی الجھن

    رانی کی الجھن

    رانی نواب صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی۔ ویسے تو سبھی لوگ رانی کو چاہتے تھے لیکن رانی کو انسانوں سے زیادہ جانوروں سے لگاؤ تھا۔ جانوروں میں بھی اسے جنگلی جانوروں سے بڑی دل چسپی تھی۔

    اس کی حویلی سے لگ کر ایک ندی بہتی تھی۔ ندی کے اس پار جنگل تھا جس میں بہت سے جانور رہتے تھے۔ رانی گھر والوں سے نظر بچا کر اکثر اس جنگل میں چلی جاتی۔ وہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی اور ان کی آواز کی نقل کرتی۔

    ایک دن اس نے ندی کے پُل پر سے کیا دیکھا کہ کچھ جنگلی کتّے ہیں جنہوں نے ایک چیل کو پکڑ رکھا ہے اور آپس میں چھینا جھپٹی مچا رکھی ہے۔ اس کھینچا تانی میں چیل ان کے چنگل سے چھوٹ گئی۔ وہ اوپر اڑی اور چاہتی تھی کہ ندی پار کر کے بستی کی طرف نکل جائے۔ لیکن وہ اڑتے اڑتے پل پر آکر گری۔ رانی چیل کی طرف دوڑ پڑی اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ رانی نے چیل کے پروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ رانی نے دیکھا کہ اس کے پَر کچھ نئی قسم کے رنگ برنگے اور پٹے دار ہیں۔ اس نے سوچا، جنگل کی چیل شاید ایسی ہوتی ہوگی، بڑی خوب صورت ہے، میں اسے پال لوں گی۔

    پھر رانی نے اپنے خاندانی حکیم کے ذریعے چیل کے زخموں کا علاج کروایا۔ علاج میں کافی دن نکل گئے۔ رانی اور چیل اتنے دنوں میں ایک دوسرے سے خوب ہل مل گئے۔ رانی نے چیل کا نام چبری رکھ دیا تھا۔ چبری اڑ تو پاتی نہیں تھی، ہاں رانی جب اسے چبری کہہ کر پکارتی تو چیل پیروں سے چل کر رانی کے پاس چلی آتی اور آکر اس کی گود میں بیٹھ جاتی۔ رانی چبری کو اپنی سہیلیوں سے بڑھ کر سمجھنے لگی تھی۔

    کچھ دنوں میں چبری پوری طرح ٹھیک ہوگئی۔ اب رانی چاہتی تھی کہ چبری اڑنے بھی لگ جائے۔ وہ اسے ہش ہش کر کے دوڑاتی، جواب میں چبری اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑتی لیکن تھوڑی دور جاکر پھر زمین پر اتر آتی۔

    ایک دن کی بات ہے۔ رانی کے بڑے بھائی کی شادی کا موقع تھا نواب صاحب کے باغیچے میں مہمانوں کا ہجوم تھا۔ بہت سے لوگ چیل اور رانی کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ رانی چیل کو دوڑا رہی تھی۔ چیل کبھی اڑ کر دور چلی جاتی اور کبھی واپس آکر رانی کے کندھے پر بیٹھ جاتی، پھر ایک مرتبہ جب رانی نے دوڑ کر چبری کو ہشکارا تو وہ اڑ کر باغیچے کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ رانی کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ وہ اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگی۔ رانی کے ساتھ مہمان بچوں نے بھی خوشی سے تالیاں پیٹیں۔

    چبری نے درخت پر سے آسمان کی طرف نظر دوڑائی۔ دیکھا کہ کوّے اور بگلے اس کے سر پر سے اڑ کر چلے جا رہے ہیں۔ چبری نے اپنے پر پھیلائے وہ بھی اڑی اور کوؤں کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلی۔ اڑتے اڑتے وہ دور نکل گئی اور نظر سے اوجھل ہوگئی۔

    رانی کو امید تھی کہ چبری واپس پلٹ کر آئے گی لیکن وہ پھر واپس نہیں آئی۔ اس بات کا رانی کے دل کو بڑا دھچکا لگا۔ وہ اس رات سوئی نہیں اور روتی رہی۔ اس دن اسے اپنی نئی بھابھی کے آنے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنا چبری کے چلے جانے کا غم تھا۔

    جنگلی جانوروں پر سے رانی کا بھروسہ اٹھ گیا۔ اب یا تو وہ اپنے باڑے کے جانوروں کے ساتھ کھیلتی یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ۔ مگر جب بھی وہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتی، اسے چبری کی یاد آجاتی اور وہ کچھ دیر کے لیے اداس ہو جاتی۔

    ایک مرتبہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جنگل میں پہنچی۔ صندلیں رنگ کا ایک خرگوش اس کے اگے سے پھدکتا ہوا بھاگا۔ دونوں سہیلیاں اس خرگوش کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایسا خوش رنگ اور خوب صورت خرگوش رانی کے باڑے میں نہ تھا۔ دونوں سہیلیاں خرگوش پکڑنے کی دھن میں دوڑتی رہیں لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ایک کالی ناگن ان دونوں کے پیچھے دوڑتی ہوئی چلی آرہی ہے۔

    دوڑتے دوڑتے رانی نے دیکھا کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا بجلی کی سی رفتار سے ان دونوں کی طرف اتر رہا ہے۔ رانی نے غور کیا کہ یہ تو اپنی چبری ہے جو شاید اسی کے پاس آرہی ہے۔ رانی الجھن میں پڑ گئی کہ وہ ہنسے یا روئے، چبری رانی کے پیچھے کی طرف آکر اتری۔ قریب تھا کہ ناگن ان دونوں میں سے کسی کو ڈس لیتی۔ چبری نے ایک جھپٹا مارا اور اس ناگن کو اپنے پنجوں میں اٹھا لیا۔ اپنے پیچھے ناگن کو دیکھ کر دونوں سہیلیاں سکتے میں آگئی تھیں۔ چبری ناگن کو اٹھا کر اڑتی ہوئی آگے چلی۔ وہ ناگن کو لے کر دور ہوتی گئی اس کے ساتھ ہی چبری پر رانی کا غصہ کافور ہوتا گیا۔ جانوروں کے بارے میں اس کی الجھن دور ہوگئی اب وہ ہر حال میں خوش رہنے لگی تھی۔

    (مصنّف: م ن انصاری)

  • سوسن بیل کی کہانی

    سوسن بیل کی کہانی

    سچ ہے یا جھوٹ، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں کسی ملک میں ایک گدھا اور ایک بیل رہتے تھے۔

    بیل دن بھر میں اتنی زمین پر ہَل چلا لیتا تھا جتنی زمین پر کوئی دوسرا بیل ہفتے بھر میں بھی نہیں چلا سکتا تھا، لیکن شام کو وہ تھکا ہارا لوٹ کر گھر آتا تو اسے سوکھی پھیکی گھاس کا ایک گٹھا کھانے کو ملتا تھا۔

    جہاں تک گدھے کا تعلق تھا وہ کوئی کام کاج نہ کرتا، دن بھر پڑے پڑے دھوپ کھاتا، لیکن اس کو پانی کی جگہ دودھ پلایا جاتا اور سوکھی پھیکی نہیں بلکہ ہری ہری رَس بھری گھاس سے تواضع کی جاتی تھی۔

    ایک روز بیل شام کو حسبِ معمول تھکا ہوا اپنے تھان پر لوٹا اور خشک بے ذائقہ گھاس کو بے دلی سے چبانے لگا، لیکن سوکھی گھاس اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ اس نے گدھے سے مخاطب ہو کر کہا:

    "بھائی گدھے! اپنے رسیلے چارے میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دے دو نا۔ یہ خشک بے ذائقہ گھاس تو اب مجھ سے بالکل نہیں کھائی جاتی۔”

    گدھے کو بیل پر رحم آ گیا اور اس نے اپنے چارے میں سے تھوڑا سا اس کو دے دیا۔ مالک تھان پر آیا تو یہ دیکھ کر کہ گدھا اپنا چارا سارا کھا چکا ہے، بہت خوش ہوا اور کہا: "ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔! خوب کھاتے ہو تم! شاباش میرے گدھے!”

    مالک نے گدھے کے آگے کولی بھر اور گھاس دال دی۔ پھر اس نے بیل کے ناند میں دیکھا تو پتا چلا کہ تمام خشک گھاس جوں کی توں پڑی ہے۔ وہ طیش میں آ کر بیل پر چیخنے چلانے لگا:

    "مردود! نکما کہیں کا! تو چارا کیوں نہیں کھاتا؟ کل کھیت پر جا کے لیٹ جائے گا تو کون ہَل چلائے گا؟” یہ کہتے ہوئے وہ بیل کو ڈنڈے سے مارنے لگا۔ اتنا مارا، اتنا مارا کہ بیچارے بیل کی کھال کی ساری گرد جھڑ گئی۔ اس دن سے گدھا روز اپنے شام کے کھانے کا کچھ حصّہ بیل کو دینے لگا۔

    ایک دن مالک تھان پر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بیل گدھے کا چارا ڈٹ کر کھا رہا ہے اور گدھا پاس کھڑا اس سے کہہ رہا ہے:

    "کھاؤ بھائی، کھاؤ۔” بس پھر کیا تھا، مالک کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی، ڈنڈا لے کر گدھے پر ٹوٹ پڑا اور یہ کہتے ہوئے اس کی مرمت کرنے لگا:

    "اچھا! یہ بات ہے! تیرا پیٹ بھر گیا ہے؟ تجھ پر حد سے زیادہ چربی چڑھ گئی ہے، تو اب اپنا سارا چارا اس نکمے بیل کو دے دیتا ہے؟ ٹھہر تو جا، میں تجھے اس کا مزہ چکھائے دیتا ہوں۔”

    مالک جب گدھے کا گرد و غبار خوب جھاڑ چکا تو اسی ڈنڈے سے بیل کی خبر لینے لگا۔ اگلے دن مالک نے تھان پر آ کر کہا:

    "اچھا گدھے میاں! اب ہَل چلانے کی آپ کی باری ہے۔ چلیے تو سہی۔” وہ گدھے کو کھیت میں لے آیا اور اس کی گردن میں طوق ڈال لگا کر ہانکنا شروع کر دیا۔ گدھا سارا دن پسینے سے شرابور ہل چلاتا رہا اور بیل مزے سے پڑا دھوپ کھاتا رہا۔ شام کو مالک گدھے کو واپس تھان پر لے آیا اور اس کو بیل کی جگہ پر باندھ کر سوکھے پھیکے پھوس کا ایک گٹھا اس کے آگے ڈال دیا۔ بیل کو ہری ہری نرم و ملائم گھاس کھانے کو ملی۔ چار ڈال کر مالک چلا گیا تو گدھے نے بیل سے گڑگڑاتے ہوئے کہا:

    "یار! جب تم بھوکے تھے تو میں نے تم پر رحم کیا تھا۔ اب تم بھی میرے حال پر رحم کرو۔ اپنے رسیلے چارے میں سے کچھ مجھے دے دو۔”

    بیل پر لالچ غالب آ گیا اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: "دیکھتے نہیں ہو، میرا چارہ تھوڑا سا تو ہے۔ خود میرے لیے بھی کافی نہیں ہے۔”

    بیچارے گدھے کو اپنی قسمت کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ وہ دن بھر کھیت میں ہل چلاتا اور شام کو تھکا ہارا تھان پر لوٹ آتا تو روز وہی روکھی سوکھی گھاس اس کو کھانے کو ملتی اور بیل تھا کہ مزے اڑائے جا رہا تھا۔ پہلے وہ بالکل دبلا پتلا سا تھا۔ اس کی پسلیاں نکلی رہتی تھیں۔ لیکن اب کچھ ہی دنوں میں کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا اور بیچارہ گدھا اتنا دبلا پتلا ہو گیا کہ کسی سوکھے ہوئے درخت کا ٹھنٹھ معلوم ہونے لگا۔ آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور اس نے ایک دن بیل سے کہا:

    "یار! تم ہی بتاؤ۔ اب میں کیا کروں؟ روز روز کی مار پیٹ اور ان اذیتوں سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ مالک کی مسلسل مار پیٹ سے میرا بدن چھلنی ہو گیا ہے۔”

    بیل نے مشورہ دیا: "کل جب مالک تمھاری گردن میں طوق لگا کر ہانکنے لگے تو تم ٹانگیں اڑائے کھڑے رہنا۔ اپنی جگہ سے ہلنا تک نہیں۔ مالک کو تم پر رحم آ جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ بیچارہ گدھا بالکل تھک گیا ہے اور تمھیں آرام کرنے دے گا۔”

    اگلے دن صبح مالک نے روز کی طرح گدھے کو کھیت پر لا کر گردن میں طوق لگا دیا اور ہانکنے لگا تو گدھا اس طرح اڑ گیا کہ چلنے کا نام ہی نہ لیا۔ مالک کو غصہ آ گیا اور وہ گدھے کو ڈنڈے سے بے دردی سے مارنے لگا۔ گدھا مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا اور چل پڑا۔ شام کو مالک نے اس کو تھان پر لا کر باندھ دیا تو وہ تھکا ماندہ پڑے پڑے سوچنے لگا:

    "نہیں۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا۔ میں اب یہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا۔ کہیں بھاگ جاؤں گا۔” یہ طے کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا، ایک جھٹکے سے رسی تڑا لی اور باہر آ کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

    گدھا بھاگتا گیا اور اب آپ آئیے، ذرا مرغ کی بات سنیے۔

    ایک چکی والے نے ایک مرغا اور کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، لیکن وہ ان کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ مرغا اور مرغیاں بیچارے دن دن بھر خوراک کی تلاش میں آنگن میں مارے مارے پھرتے، ادھر ادھر اکا دکا دانے مل جاتے جنہیں کھا کر وہ اپنی بھوک کی آگ ٹھنڈی کر لیا کرتے۔

    ایک بار مرغا چکی کے اندر چلا گیا اور گیہوں کے دانے چگنے لگا۔ "در! در! مردود!” کہہ کر مالک اس کو بھگانے لگا اور ایک لکڑی اٹھا کر اس پر پھینکی۔ وہ لکڑی مرغ کے اس زور سے لگی کہ بیچارہ قلابازیاں کھا گیا اور درد سے "ککڑوں کوں” کر کے کراہ اٹھا۔ وہ بھاگ کر آنگن میں نکل گیا اور آنگن کی دیوار پھاند کر ایک طرف کو چل دیا۔ وہ چلا جا رہا تھا کہ راستے میں گدھا مل گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا پھر گدھے نے مرغ سے پوچھا:

    "بھائی مرغ! تم کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "میں سوسن بیل جا رہا ہوں۔”

    گدھے نے پوچھا: "وہ کیسی جگہ ہے؟”

    مرغا بولا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا۔”

    گدھا کہنے لگا: "تب تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو گے؟”

    مرغا بولا: "ہاں، ضرور لے چلوں گا چلو چلتے ہیں۔”

    دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے وہ ایک میدان میں آگئے۔ آگے بڑھتے جارہے تھے کہ اچانک شہد کی ایک مکھی نے نہ جانے کہاں سے آ کر گدھے کی گردن میں ڈنک مار دیا۔

    "اری کمبخت!” گدھے نے طیش میں آ کر کہا۔ "تجھے آ کر مجھ ہی کو ڈنک مارنا تھا؟ مجھ میں کیا رکھا ہے تمھارے لیے، میری تو ساری چربی پگھل کے بہہ چکی ہے۔ رس نام کو نہیں ہے۔ میری گردن کوئی گردن نہیں، کوئی سوکھی لکڑی سمجھو۔ چاہے جتنے ڈنک مارو تم کو کچھ نہیں ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے ہماری ہی طرح تم بھی قسمت کی ماری ہو۔ اچھا تو آؤ، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    گدھا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا:”یہ وہی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا؟”

    مرغا بولا: "ہاں۔”

    شہد کی مکھی بولی: "تب تو میں ضرور تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی، لیکن میں اکیلی نہیں جاؤں گی ۔ میری بہت سی ساتھی مکھیاں ہیں، کیا میں ان کو بھی بلا لاؤں؟”

    گدھا بولا: "ہاں، شوق سے بلا لو سب کو۔” کچھ ہی دیر کے بعد مرغے اور گدھے کو کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہد کی مکھیوں کا ایک برا سا غول اڑتا چلا آ رہا ہے۔

    ان سب کو سوسن بیل کی طرف جانے دیجیے اور آئیے اب ذرا کچھ دوسروں کا حال سنیے۔

    ایک جگہ میدان میں صحرائی خرگوش کا جوڑا رہتا تھا۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ روز میاں بیوی دونوں غذا کی تلاش میں دور دور تک چلے جاتے، زمین کو جگہ جگہ کھودتے، لیکن کچھ نہ ملتا تھا۔ دونوں بہت تھک گئے اور فاقوں سے تنگ آ گئے۔ بالآخر ایک دن خرگوش نے خرگوشنی سے کہا:

    "آؤ آج دوسرے راستے پر چلیں۔ شاید ہماری قسمت جاگ اٹھے اور کوئی راہ گیر نظر آ جائے تو ہم اس سے کچھ کھانے کو مانگ لیں۔”

    وہ دوسرے راستے پر نکل گئے۔ اچانک انھوں نے گدھے اور مرغے کو آتے دیکھا جن کے اوپر شہد کی مکھیوں کا ایک غول بادل کی طرح اڑتا چلا آ رہا تھا۔ وہ نزدیک آئے تو میاں بیوی نے ان سے کہا:

    "بھائیو! ہم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ از راہِ کرم ہم کو کچھ کھانے کو دے دو۔”

    "ارے دوستو!” مرغے نے رک کر ان سے کہا۔ "تم بھی ہماری ہی طرح بھوکے ہو؟ تم بھی ہماری طرح پیٹ پالنے کی فکر میں مارے مارے پھرتے ہو؟ کھانا چاہتے ہو تو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    خرگوش بولا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    خرگوش نے پوچھا: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    مرغا کہنے لگا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کسی کا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔”

    خرگوش بولا: تب تو ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں۔” وہ سب ایک ساتھ چلنے لگے۔

    تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک کسی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر کوئی اسی طرف دوڑتا ہوا نظر آیا۔ تھوڑی دیر میں وہ قریب آ گیا تو گدھا اس کو پہچان گیا۔ یہ اس کا ساتھی بیل تھا۔ بیل نے نزدیک آکر سب کو جھک کر سلام کیا اور پوچھا:

    "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    جانور: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    بیل: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    جانور: ” وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔”

    بیل: یہ بات ہے تو تم لوگ مجھ کو ساتھ لے چلو۔”

    بیل کو لے کر سب آگے چلے۔ چلتے چلتے گدھے نے بیل سے پوچھا: "جناب! آپ کو کیا ہوا؟ جس وقت ہم دونوں جدا ہوئے اس وقت تو آپ بڑے مزے میں تھے؟”

    "ارے بھائی! کچھ نہ پوچھو۔” بیل نے کہنا شروع کیا۔ "تم چلے گئے تو مالک نے مجھے لے جا کر ایک سانڈ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ہم لڑنے لگے۔ میں نے اس کے چھکے چھڑا دیے اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد مالک نے مجھ کو ایک اور سانڈ سے لڑایا۔ میں نے اس کو بھی ہرا دیا، لیکن بڑی مشکل سے۔ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ اب میری خیر نہیں۔ یہ مجھ کو سانڈوں سے لڑاتا رہے گا اور کسی نہ کسی دن ان میں سے کوئی میری جان لے کر چھوڑے گا۔

    ایک رات میں پڑا سو رہا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سانڈ نے میرے پاس آ کر بڑے رعب سے کہا: "آہ! ہاتھ آ گئے! اب میں تمھیں سبق سکھاتا ہوں! یہ کہہ کر وہ مجھ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر اس کے وار سے پہلے ہی اس کو زور سے سینگ مارا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ میرا مالک میرے سامنے زمین ہر اوندھے منھ بےہوش پڑا ہے۔

    معلوم ہوا کہ مالک مجھ کو چارا دینے آیا تھا اور میں سوتے میں اس کو سینگ مار بیٹھا۔ وہ ہوش میں آیا تو اٹھا اور ڈنڈا لے کر مجھے دنادن مارنے لگا۔ مار مار کر مجھ کو لہولہان کر دیا۔ مجھے اتنا دکھ ہوا کہ جب مالک مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں کسی طرح اپنی رسی تڑا کر باہر آیا اور جہاں سینگ سمائے چل دیا۔”

    سب جانور ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کے اوپر شہد کی مکھیاں بھی اڑتی رہیں۔ انہوں نے بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر سوسن بیل کے کنارے پہنچ گئے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے۔ صاف و شفاف ہوا ہے۔ ہری بھری گھاس کے میدان ہیں۔ باغیچوں میں خربوزے تربوز پک رہے ہیں۔ بیلوں میں انگور کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ درختوں پر خوبانیاں، سیب ، ناشپاتیاں اور انواع و اقسام کے دیگر پھل پک گئے ہیں اور ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کھیتوں میں گیہوں، جو وغیرہ کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہے۔

    یہ سب سوسن بیل میں رہنے لگے۔ یہاں ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے والا، مارنے پیٹنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ سب اپنی خوشی سے محنت کرتے، جو چاہتے کھاتے اور جتنا چاہتے کھیلتے کودتے، آرام اور تفریح کرتے۔ بیل اور مرغا گیہوں جمع کرتے جاتے اور مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتیں۔ سب بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور یہ بھول چکے تھے کہ فکر و پریشانی کس چڑیا کا نام ہے۔

    سوسن بیل کے گرد و نواح میں برف سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں پر بہت سارے بھیڑیے رہتے تھے۔ ایک دن بھیڑیوں کے سردار ایک اونچے پہاڑ پر اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہوئے اور وہاں بیٹھے آپس میں رونا رونے لگے کہ کیسے برا زمانہ آ گیا ہے، پہاڑوں پر جنگلی بکریوں کا نام و نشان تک نہیں رہا ۔آئے دن فاقے کرنے پڑتے ہیں، پریشان رہتے ہیں۔ اتنے میں اچانک ان کے بادشاہ نے نیچے سوسن بیل کی وادی میں بیل، گدھے اور مرغ وغیرہ کو گیہوں کی فصل کاٹتے ہوئے دیکھ لیا۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے اپنے سرداروں سے مخاطب ہو کر کہا:

    "وہ دیکھو نیچے وادی میں کباب پھر رہا ہے۔”

    سب بھیڑیے ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دانت کِٹکٹاتے ہوئے نیچے وادی کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے منھ سے رال ٹپکنے لگی۔ ان کے بادشاہ نے حکم دیا:

    "دس بہادر ابھی چلے جائیں اور اس چلتے پھرتے کباب کو اٹھا لائیں۔” ایک بھیڑیا جو بڑا شیخی خور تھا آگے بڑھا اور اپنی دم ہلاتے ہوئے بولا:

    "شاہِ اعظم! بیل، گدھے اور مرغ کو پکڑ لانے کے لیے دس بھیڑیوں کے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اجازت ہو تو میں اکیلا جا کر ان کو آپ کے حضور میں ہانک لاؤں؟”

    "ارے تم کیا کر لو گے؟” ایک دوسرا بھیڑیا کہنے لگا۔ "تمھاری جگہ میں جاؤں تو زیادہ اچھا رہے گا۔” بس پھر کیا تھا یہ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔

    "بند کرو لڑائی!” بادشاہ غصے میں آ کر غرایا۔ "جاؤ! تم دونوں ہی چلے جاؤ۔ باقی بھیڑیے کباب پکانے کے لیے سیخیں تیار کر لیں اور آگ جلا دیں۔”

    دونوں بھیڑیے خوشی کے نعرے بلند کرتے ہوئے وادی کی طرف دوڑ پڑے۔ گدھے نے ان کو آتے دیکھ لیا اور ہانک مار کر اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا۔”

    "ایں آں، ایں آں! بھیڑیے آ رہے ہیں۔ بھاگو!” یہ کہہ کر گدھا بھاگنے ہی کو تھا کہ مرغا کہہ اٹھا۔”

    "ککڑوں کوں! رک جاؤ بزدل کہیں کے، کیا تمہیں اپنی مضبوط ٹانگوں پر بھروسا نہیں؟” یہ کہتے ہوئے وہ اچھل کر گدھے کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔

    "ارے اب کیا کیا جائے؟ بھیڑیے بہت سے ہیں اور ان کے دانت لوہے کے ہیں۔” گدھے نے گھبرا کر کہا۔

    "میری بات سنو!” مرغے نے کہا۔ "بیل کے سینگ بڑے مضبوط ہیں۔ وہ بھیڑیوں کو ان سے مارے گا۔ تمھارے سم مضبوط ہیں۔ تم ان کو دو لتیاں مارنا۔ شہد کی مکھیاں تیز تیز ڈنک ماریں گی۔ خرگوش جگہ جگہ گڑھے کھودیں گے تاکہ بھیڑیے ٹھوکریں کھائیں۔”

    "اور تم خود کیا کرو گے؟ بس چیختے چلاّتے رہو گے؟” گدھے نے ڈر کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے طنز سے کہا:

    "اور میں تم لوگوں کی راہ نمائی کروں گا۔ تمھیں ہدایت دیا کروں گا۔” مرغ نے جواب دیا۔

    اتنے میں بھیڑیے نزدیک آ گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: "تم اس گدھے کو پکڑو اور میں اس بیل کو پکڑوں گا۔”

    اور وہ دونوں بھیڑیے اپنے اپنے شکار کی طرف لپکے۔ بیل تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور دوڑتے ہوئے آ کر بھیڑیے کے جو سینگ مارا تو بھیڑیا قلابازیاں کھا کر پرے جا گرا۔ ادھر شہد کی مکھیاں آندھی کی طرح امڈ آئیں اور بھیڑیوں کو ڈنک مارنے لگیں۔ بھیڑیوں کی ناکیں، آنکھیں، زبانیں، مختصر یہ کہ ان کے بدن کا کوئی بھی حصہ مکھیوں کے ڈنکوں سے نہ بچا۔ آخر بھیڑیوں نے دیکھا کہ ان کی خیر نہیں تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ بھاگتے ہوئے کتنی بار خرگوشوں کے کھودے ہوئے گڑھوں میں گر گئے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔

    ادھر پہاڑ کے اوپر بھیڑیے اس امید میں کہ ان کے ساتھی ابھی جانوروں کو ہانک لائیں گے، کباب کھانے کی تیاریاں کر کے بیٹھے تھے۔ انھوں نے بہت سی سیخیں بنا لی تھیں۔ الاؤ جلا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ پیاز کو باریک باریک کاٹ کے اس پر نمک مرچ چھڑک دیا تھا۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بہادر ساتھی ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے سارے بدن خون میں لت پت ہیں اور سانس پھول رہی ہے۔

    "کیا بات ہے؟” بادشاہ نے اپنے بہادروں سے پوچھا۔

    "شاہِ اعظم!” وہ دونوں ہانپتے کانپتے کہنے لگے۔ ” وہاں کباب نہیں پھر رہا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ وہاں تو بھیڑیوں کی موت ناچتی پھر رہی تھی۔”

    اور انھوں نے نیچے وادی میں جو کچھ دیکھا اور جھیلا وہ سب اپنے بادشاہ کو بتا دیا۔ دونوں بہادروں میں سے ایک نے کہا:

    "وہاں نیچے خود موت کا فرشتہ گھومتا پھرتا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں لوہے کا ایک بڑا بھاری ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جس کو بھی اس ڈنڈے سے مارتا ہے وہ سات قلابازیاں کھا کر زمین پر گرتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔” دوسرے بہادر نے کہا۔ "ان کے ساتھ ایک پہلوان ہے جس کی آواز بالکل بگل کی طرح ہے اور ہاتھ لوہے کے ہیں۔ وہ جس کے مکا مار دیتا ہے وہ سات قلابازیاں کھائے بغیر سنبھل نہیں پاتا۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے ان جیالے سپاہیوں کو نہیں دیکھا جو اپنی تیز نوک دار برچھیاں بدن میں یوں گاڑتے ہیں کہ خارش اور درد سے تڑپتے رہ جاؤ۔”

    "وہ تو اپنے گورکن بھی ساتھ لائے ہیں۔ ان گورکنوں نے ہمارے لیے دس دس قبریں کھود ڈالی تھیں۔ ہم ان میں گر گر جاتے تھے۔ ہماری ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔”

    "ان کے ساتھ ایک بگل بجانے والا بھی تھا۔ وہ ایک درخت پر چڑھا بیٹھا تھا اور اس زور سے بگل بجا رہا تھا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹتے پھٹتے رہ گئے۔” یہ ساری باتیں سن کر بھیڑیے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ان کا بادشاہ بھی گھبرا گیا۔

    "اب ہم کیا کریں؟” بادشاہ نے اپنے سرداروں سے پوچھا۔ "کیوں نہ ہم سب ان پر ہلہ بول دیں!”

    "شاہ اعظم! ایسا کرنا مناسب نہیں۔” بھیڑیے تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ "معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی بلائے ناگہانی ہیں کہ دنیا بھر کے بھیڑیے بھی جمع ہو جائیں تو وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”

    "اب تو خیر اسی میں ہے کہ ہم جلد ہی یہاں سے کھسک جائیں۔” بھیڑیوں کے بادشاہ نے کہا۔ باقی سب بھیڑیے بھی کباب پکانے اور کھانے کے تمام سازو سامان کو چھوڑ چھاڑ کے اپنے بادشاہ کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    سوسن بیل میں بھیڑیوں کا نام و نشان نہ رہا۔ ہمارے سب جانور پھر بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (اس خوب صورت کہانی کے مصنّف کا نام اور اس کا ماخذ نامعلوم ہے)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • چور

    چور

    رات کے دو بج رہے تھے۔ سلو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔

    ہُوا یوں تھا کہ اسکول سے واپس آ کر وہ سو گیا تھا۔ پھر رات کے کھانے کے بعد اس نے بھائی جان کے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی لی تھی۔ اب بھائی جان تو رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے، مگر وہ تو زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سو جاتا تھا۔ وہ اپنے بستر پر نیم دراز، باہر تاروں بھری رات کا نظارہ کر رہا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا اور چاندنی سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے باغ کے درخت بالکل خاموش تھے۔

    ایک دم سلو کو آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا اور باغ کی دیوار پر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ ایک شخص دیوار پھاند کر اندر کودا اور بہت احتیاط سے دبے پاؤں گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ سلو صاحب کی تو جان ہی نکل گئی۔ اب وہ کیا کرے؟ اس وقت تو بھائی جان بھی سو گئے ہوں گے۔ وہ بہت احتیاط سے اٹھا اور چور کی طرح ہی دبے پاؤں چلتا ہوا نیچے بھائی جان کے کمرے میں آ گیا۔

    "کیا بات ہے سلو؟” بھائی جان نے پوچھا۔

    "شش بھائی جان!” سلو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔ وہ ان کے بالکل قریب پہنچ گیا اور کان میں سرگوشی کر کے بولا۔

    "گھر میں چور گھس آیا ہے۔ بھائی جان بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔

    "سلو اگر یہ مذاق ہے تو تمہاری خیر نہیں۔”

    "بھائی جان! میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے خود ایک آدمی کو اندر کودتے دیکھا ہے۔ وہ باغ سے ہوتا ہوا گھر کی طرف آیا ہے۔”

    بھائی جان بستر سے نکلے اور کمرے سے باہر آ گئے۔ سلو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں بغیر آواز بلند کیے گھر کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چور اس وقت کہاں ہے۔ آخر سیڑھیوں کی کھڑکی سے وہ نظر آ گیا۔ باہر کچھ خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے وہ انہیں ٹٹول رہا تھا۔ بھائی جان اور سلو نے اوپر بچوں کے کمرے میں آ کر چیکو اور نازک کو جگایا۔ پہلے تو انہوں نے بھائی جان کی بات کو مذاق سمجھا مگر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو دونوں خوف زدہ ہو گئے۔

    چیکو بھائی جان کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور نازک نے ذرا اونچی آواز میں کہا: ہائے اللہ! مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں تو ڈر سے مر ہی جاؤں گی۔ چور ہمیں مارے گا تو نہیں؟

    بھائی جان غصے سے بولے: "نازک! آہستہ بولو، ورنہ میں ایک تھپڑ لگاؤں گا۔”

    اس بات پر سلو اور چیکو کی ہنسی چھوٹ گئی۔ "کچھ شرم کرو۔ ہم مصیبت میں پھنسے ہیں اور تم ہنس رہے ہو۔” بھائی جان نے انہیں ڈانٹا مگر پھر خود بھی ہنس پڑے۔ "اب کیا کروں اس چور کا؟” وہ سوچنے لگے۔

    "بندوق ہوتی تو گولی ہی مار دیتے۔” سلو نے کہا۔ پھر چاروں نیچے اتر کر سیڑھیوں کی کھڑکی سے لگ کر چور کو دیکھنے لگے۔ وہ اب دوسری چیزیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی حرکات میں ایک بے چینی تھی۔ جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ کوڑے کی بالٹی بھی ٹٹول رہا تھا۔

    "کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ یہ خود ہی ڈر کے بھاگ جائے۔” چیکو نے کہا۔

    "نہیں ہمیں اس طرح کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔” بھائی جان نے کہا” سلو! وہ جال کہاں ہے جو میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا پر لے جاتا ہوں؟”

    "باورچی خانے میں پڑا ہے۔”

    "بغیر آواز پیدا کیے وہ اٹھا لاؤ۔” سلو جلدی سے جال لے آیا۔ بھائی جان نے جال کی ،مضبوطی کو دیکھا اور پھر بچوں سے کہا: "دیکھو! یوں کرتے ہیں کہ میں چھت پر جاتا ہوں۔ سلو! تم جس طرح چچا حمید کی نقل اتارتے ہو، اسی بھاری آواز میں چور سے کہنا خبردار جو اپنی جگہ سے ہلے ورنہ گولی مار دوں گا۔ اس کی توجہ تمہاری طرف ہو گی تو میں اس پر جال پھینکوں گا اور خود بھی نیچے کود کر اس کو قابو کر لوں گا۔”

    "ٹھیک ہے بھائی جان!”

    "ذرا سی غلطی ہوئی تو ہم مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کے پاس بندوق ہے، پھر بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔”

    اب چور پر قابو پانے کی تیاری ہونے لگی۔ سلو، چیکو اور نازک باورچی خانے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑے ہو گئے اور بھائی جان جال اور رسیاں کندھے پر ڈال کر چھت پر چڑھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چور اب باورچی خانے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سلو نے دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا اور چچا حمید کی آواز بنا کر کہا:

    "چور کے بچّے! اپنی جگہ سے نہ ہلنا ورنہ گولیوں کی بوچھاڑ سے تمہارا پیٹ اس طرح پھاڑوں گا کہ ڈاکٹر بھی نہیں سی سکے گا۔”

    چور ڈر کر پیچھے ہٹا اور بھائی جان نے اس پر جال پھینک دیا۔ وہ جال میں الجھ کر زمین پر گر گیا، اوپر سے بھائی جان نے کود کر اس کو قابو کر لیا۔ سلو اور چیکو بھی دروازہ کھول کر باہر آ گئے اور چور کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ وہ کراہنے لگا۔ بھائی جان نے جلدی جلدی اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھے اور اسے اٹھا کر کچن میں لے آئے۔ نازک نے بتی جلا دی۔ بھائی جان نے دروازہ بند کیا اور چور کو کرسی پر بٹھا کر رسیوں سے باندھ دیا۔

    "مجھے چھوڑ دو، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔” چور چلّایا۔

    "اگر تم چاہتے ہو کہ میں یہ ڈنڈا مار کر تمہارا سر نہ کچل دوں تو خاموش رہو۔” سلو نے کہا۔

    جب بھائی جان نے اسے باندھ کر اپنا اطمینان کر لیا تو اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور اس کے سر پر سے جال اتار دیا۔

    اف اللہ کتنی سخت بو اٹھ رہی ہے پسینے کی۔ چور صاحب! آپ نہاتے نہیں ہیں؟ آپ کو اتنا تو خیال ہونا چاہیے کہ اگر آپ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو پکڑنے والوں کا اس بدبو سے کیا حال ہو گا۔” نازک نے اپنے نازک خیالات کا اظہار کیا۔ پھر وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے پرفیوم لے آئی اور چور پر بہت سا پرفیوم چھڑک دیا۔ "ہاں اب کچھ بہتر ہے۔”

    "تم لوگ اس کی نگرانی کرو۔ میں پولیس کو فون کر کے آتا ہوں۔” بھائی جان جانے لگے تو چور بولا:

    "خدا کے واسطے پولیس کو فون نہ کرنا، میں تمہاری منت کرتا ہوں۔ میں پہلے ہی برباد ہوں اور برباد ہو جاؤں گا۔ جو جی چاہے سزا دے لو، مگر پولیس کو مت بلانا۔”

    "فضول باتیں نہ کرو۔ سزا دینا میرا کام نہیں ۔ تم نے رات کے وقت چوری کی نیت سے ہمارے گھر میں کود کر جرم کیا ہےجس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی۔” بھائی جان نے غصے سے کہا۔

    "تمہیں ان پیارے بچوں کی قسم، پولیس کو نہ بلانا۔ تم جو کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں۔”

    "اچھا اگر ہم تمہیں بجلی کی تاروں کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے کو کہیں تو کیا تم یہ کام کرو گے؟” چیکو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے۔

    "چھوڑیں بھائی جان پولیس کو "سلو نے کہا” میں اسے سزا دینے کے لیے کافی ہوں۔ اسے بیس گلاس پانی کے پلاتے ہیں۔”

    "گرم گرم چائے بنا کر اس کے سر پر انڈیل دیں۔” سلو نے ایک تجویز پیش کی۔

    "اس سے دس ہزار دفعہ لکھوائیں کہ میں آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا۔”

    نازک نے اپنا نازک سا مشورہ دیا۔ بھائی جان کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ پھر وہ چور کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئے اور اس سے پوچھا:

    "کیوں بھئی! ان بچّوں کے سارے مشورے مان لیں یا پولیس کو فون کر دیں؟”

    یہ سنتے ہی چور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بھائی جان اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

    "کیا ہوا ہے، کیوں روتے ہو؟”

    "میں تین دن سے بھوکا ہوں۔” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر رہے تھے۔

    "تو پہلے بتاتے ناں اس وقت سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو، چلو خیر آج تم ہمارے مہمان ہو۔”

    سلو ٹوکری میں سے سیب نکال لایا اور چھیلنے شروع کیے۔ چیکو سیب کے ٹکڑے چور کے منہ میں ڈالتا جاتا تھا۔ وہ ہر ٹکڑے پر انہیں دعا دیتا تھا "جیتے رہو! اللہ کبھی تمہارا رزق تنگ نہ کرے۔” دوسری طرف نازک بھائی جان کی مدد کر رہی تھی۔

    "لو بھئی چور صاحب!” بھائی جان نے کہا "جتنی دیر ہم آپ کے لیے مرغ پکائیں، اتنی دیر آپ سلو اور چیکو کے ہاتھ سے سیب کھائیں۔ معاف کیجیے گا ابھی آپ کے ہاتھ نہیں کھولے جا سکتے۔”

    "کب سے چوریاں کر رہے ہو؟” سلو نے پوچھا۔

    "میں چور نہیں ہوں، مجبوری میں پہلی بار چوری کرنے نکلا تھا اور پہلی بار ہی پکڑا گیا۔”

    "اناڑی جو ہوئے "چیکو نے اس کے منہ میں سیب کا ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ "ہمیں دیکھو! خانساماں مشکل سے مشکل جگہ بسکٹ چھپا کر رکھتا ہے پھر بھی ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔” سب ہنسنے لگے۔ چور بھی ہنس پڑا۔

    "تمہیں کیا مجبوری ہے؟” بھائی جان نے کہا "اچھے خاصے جوان آدمی ہو۔ محنت کیوں نہیں کرتے؟”

    "بابو جی! اگر کوئی دن رات دل لگا کر محنت کرے اور پھر بھی اسے فاقے کرنے پڑیں تو آدمی کہاں جائے؟ میں تو اب خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے بچّوں کو موت ہی دے دے۔”

    "اللہ رحم کرے، ایسا کیا ہو گیا تھا؟”

    "میں ایک کوٹھی میں خانساماں تھا۔ بہت بڑا گھر تھا۔ اس میں ایک ہی خاندان کے تیس افراد رہتے تھے۔ ہفتے کے سات دن میں ان سب کا تین وقت کا کھانا پکاتا تھا۔ سخت گرمی میں چولہے کے آگے کھڑے گھنٹوں گزر جاتے تھے۔ ان کے مرد چار چار روٹیاں کھاتے تھے۔ بچے وقت بے وقت کھانے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ سب کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مجھے روزانہ کئی طرح کے کھانے پکانے پڑتے تھے اور تنخواہ بہت کم تھی۔ میں مجبور تھا۔ مشقت کرتا رہا۔

    پھر ایک دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا۔ بڑے صاحب نے مار مار کر مجھے ادھ موا کر دیا۔ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس شرط پر پولیس کو خبر نہیں کریں گے کہ میں نقصان پورا کر دوں۔ وہ لوگ طاقت ور تھے اور میں کم زور۔ کیا کرتا؟ اپنا سب کچھ بیچ کر میں نے ان کے پیسے پورے کیے۔ تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے۔ میرے بچّے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا رونا نہیں دیکھا جاتا۔” اس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ سبھی اس کی درد بھری داستان سن کر متاثر ہو گئے۔ نازک کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔

    "فکر نہ کرو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔” بھائی جان نے اسے تسلی دی۔

    سلو اور چیکو اٹھ کر اپنے کمرے میں گئے۔ اپنی پرانی کتابیں اور اپنی الماری سے فالتو کپڑے اور جوتے ایک تھیلے میں ڈال کر لے آئے۔ بھائی جان نے پہلے ہی اپنے کچھ کپڑے اور جوتے خیرات کرنے کے لیے الگ کر کے رکھے تھے۔ وہ بھی لا کر رکھ دیے گئے۔ انہوں نے فریج میں سے تقریباً سارا سامان پنیر، ڈبل روٹیاں، انڈے، سبزیاں، دودھ اور گوشت وغیرہ نکال کر اس کے لیے باندھ دیا۔

    مرغ تیار ہو گیا تو بھائی جان نے سلو اور چیکو کو دے دیا۔ وہ نوالے توڑ توڑ کر چور کو کھلانے لگے۔ دو تین نوالے کھانے کے بعد چور بڑی عاجزی سے بولا:

    "بابو جی! جب تک میرے بچّے فاقہ کر رہے ہیں۔ میں بے چین رہوں گا۔ آپ کی بڑی مہربانی مجھے جانے دیں تاکہ میں جلدی سے بچّوں تک کھانا پہنچا سکوں۔”

    بھائی جان نے اس کی رسیاں کھول دیں پھر وہ سامان اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ بچّے اور بھائی جان اسے باہر جاتے دیکھ رہے تھے۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہا تھا اور انہیں دعائیں دیتا جا رہا تھا۔

    "ویسے میری بڑی خواہش تھی کہ کبھی چور سے مقابلہ ہو اور میں کرکٹ کے بیٹ سے اس کی مرمت کروں۔ مگر یہ چور تو بےچارہ شریف نکلا۔” سلو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے اور اپنے بستروں پر سونے چلے گئے۔

    (مؤلفہ سیّدہ شگفتہ)