Tag: کورونا ازخودنوٹس کیس

  • سپریم کورٹ کا جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس، ایئرلائنز سربراہان طلب

    سپریم کورٹ کا جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس، ایئرلائنز سربراہان طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس لے لیا اور پی آئی اے، ایئربلیو، سیرین کے سربراہان کو بھی آئندہ سماعت  پر  طلب کرتے ہوئے کہا ایئرلائنز سربراہان پائلٹس کی ڈگریوں ،لائسنس کی تصدیق پر مبنی رپورٹس فراہم کریں جبکہ سندھ بجٹ میں لگژری گاڑیوں کیلئے مختص 4بلین سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کورونا ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا نہیں معلوم این ڈی ایم اے کیسے کام کررہا ہے، این ڈی ایم اربوں روپے ادھر ادھر خرچ کررہا ہے، نہیں معلوم این ڈی ایم اے کے اخراجات پر کوئی نگرانی ہے یا نہیں، این ڈی ایم اے باہرسے ادویات منگوا رہاہے، نہیں معلوم یہ ادویات کس مقصد کے لئے منگوائی جارہی ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کیا یہ ادویات پبلک سیکٹر اسپتالوں کو فراہم کی گئی ہیں؟ ادویات سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرزکی زیر نگرانی استعمال  ہو رہی ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا این ڈی ایم اے کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرتا ہے، این ڈی ایم اے ادویات منگوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے تو چیف جسٹس نے کہا جوادویات آرہی ہیں اس کی ڈرگ ریگولٹری اتھارٹی سےمنظوری ہونی چاہیے۔

    کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کی معیشت بالکل بیٹھ چکی ہے، صحت اور تعلیم کا شعبہ بہت نیچے چلا گیا ہے، لاتعداد گریجویٹس بےروزگارہیں ، ایسے گریجویٹس کو کھپانے کا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں، ایک لاکھ لیبرواپس آ رہی ہے، 14دن قرنطینہ کرنےکےعلاوہ کوئی پلان نہیں، حکومت ان کو کہاں کھپائے گی، حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ ہے تو سامنے لائے، حکومت کی بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا ڈیوٹی میں فائدہ کسی کمپنی کو نہیں دیا گیا، این ڈی ایم اے نےہنگامی حالات میں نجی کمپنیوں کومشینری منگوانےمیں سہولت دی، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ کسی انفرادی شخصیت کو فیورنہیں ملنی چاہیے، نجی کمپنی کا مالک 2دن میں ارب پتی بن گیا ہوگا، نہیں معلوم باقی لوگوں اور کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا، کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا، اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں، نہیں معلوم اس کمپنی کے پارٹنرز کون ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا ایسی مہربانی سرکار نے کسی کمپنی کے ساتھ نہیں کی، اسکےمالک کاگھربیٹھےکام ہوگیا، نجی کمپنی کی این ڈی ایم اے نے این 95 ماسک کی فیکٹریاں لگوادیں، ایسی سہولت فراہم کریں تو ملک کی تقدیر بدل جائے، بیروزگاری اسی وجہ سےہے حکومتی اداروں سےسہولت نہیں ملتی ، باقی شعبوں کو بھی اگر ایسی سہولت ملےتوملک کی تقدیر بدل جائے۔

    جسٹس گلزار نے سوال کیا کس قیمت کی مشینری آئی،ایل سی کیسے کھولی گئی، ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں، این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی، حکومت نےبزنس مینوں کو سہولت فراہم کرنی ہے تو اخبار میں اشتہار دیا جائے گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی کمپنی کو ڈیوٹی کی سہولت نہیں دی جارہی تو چیف جسٹس نے کہا حکومت ایسا کرے تو ملک میں صنعتی انقلاب آجائے گا، پیداواراتنی بڑھ جائے گی کہ ڈالر بھی 165 سے 20سے25روپے کا ہوجائے گا۔

    سپریم کورٹ نے سندھ بجٹ میں لگژری گاڑیوں کیلئے مختص 4بلین سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا لوگوں کےپاس کھانےکوروٹی ،آپ کےپاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں، 4 ارب کی گاڑیاں کیسے منگوا رہے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں یہ4ارب کیسے سرکاری  ملازمین، لیڈرز کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نےاسپرےکرنےوالےجہازوں کیلئےپائلٹ باہرسےکیوں منگوائے، جس پر اے جی نے بتایا کہ محکمے کا کہنا ہے  وہ پائلٹس کوتربیت دےرہےہیں۔

    جسٹس گلزار نے مزید کہا ہمیں یاد ہے کہ ڈالر کبھی 3روپے کا ہوتا تھا، مشرق وسطیٰ سے آنے والے پاکستانیوں کوکہاں کھپایا جائے گا، یہ پاکستانی 3ماہ جمع  شدہ رقم سے نکال لیں گے، اس کے بعد مزدور کیا کریں گے، کیا حکومت کاکوئی پلان ہے، کیا 14دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد وہ جہاں مرضی ہے جائے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں سےلوگ فارغ التحصیل ہورہے ہیں انکوکھپانےکاکیاطریقہ ہے، ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی ہے کوئی ادارہ بظاہر کام نہیں کررہا ، ہرادارےمیں این ڈی ایم اے جیسا حال ہے، حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے وہ نہیں معلوم، اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے  تو بتائیں؟ حکومت کا مستقبل کا ویژن کیا ہے وہ بھی بتائیں، حکومت عوام کے مسائل کیسے حل کرے گی۔

    جسٹس گلزار نے استفسار کیا کیا عوامی مسائل پرپارلیمنٹ میں اتفاق رائے ہے، ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا ، عوام کو روٹی، پیٹرول، تعلیم، صحت اور روزگارکی ضرورت ہے، اس وقت تربیت دینے کی مثال ایسے ہے، جیسےبھوک لگنے کے بعد گندم بونے کی کوشش کی جائے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کہتا ہے ایک صوبےکاوزیر اعلیٰ آمرہے،اس کی وضاحت کیا ہوگی؟ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کی اس صوبے  میں کوئی رٹ نہیں ہے، پیٹرول، گندم، چینی کے بحران ہیں، کوئی بندہ نہیں جو اسے دیکھے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مسلم ممالک میں پاکستان ایسا ہے جہاں رمضان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، دیگر ممالک میں رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا بیرون ملک سے منگوائی گئی ادویات کیا نجی پارٹی کو دی گئی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں این ڈی  ایم اے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، پہلےبھی یہی ہوا نجی پارٹیوں نےسامان منگواکرقیمتیں بڑھائیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا سندھ حکومت 4 ارب 400 لگژری گاڑیوں کے لئے کیسے خرچ کر سکتی ہے، یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لئے منگوائی گئی ہیں، ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ 16لاکھ ہے، اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دیں گے، 4 ارب کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں، کراچی کا نالہ صاف کے کرنے کے لئے پیسےنہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پنجاب، کے پی ،بلوچستان ایسی گاڑیاں منگوا رہے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہا کے پی اور پنجاب ایسی لگژری گاڑیاں نہیں منگوارہا، جس پر جسٹس گلزار نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا اس آئین کا فائدہ عام آدمی کوتوآج تک نہیں پہنچا، اس کے پھل کے انتظارمیں بچے  بوڑھے ہوگئے، اس کا پھل صرف چند لوگ کھا رہے ہیں اس میں شاید آپ اور ہم بھی شامل ہیں، اس میں مگرعام آدمی شامل نہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا آپ ٹڈی دل کے اسپرے کے لیے طیارےکے پائلٹ باہر سے کیوں منگوا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا محکمے کا کہنا ہے کہ وہ پائلٹس کو ٹریننگ دے رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس وقت تربیت دینے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ بھوک لگنے پر گندم بونے جایا جائے، ہم 44سال سے عالمی تنظیم کے رکن ہیں ،پہلے تیار رہنا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا مشینری، امپورٹ اور دیگر سامان سے متعلق تفصیلات تسلی بخش نہیں،جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ آکسیجن سلنڈر کی قیمت 5ہزار سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، صوبائی حکومت شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی،حکومت کہاں ہے، جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری بھی ہوں، قانون کی عمل داری کدھر ہے۔

    جسٹس گلزار نے کہا لوگوں کو بڑی امید تھی اس لئے تبدیلی لائے جبکہ جسٹس قاضی امین کا بھی کہنا تھا سیاسی لوگ ایک دوسرے پرکیچڑ ا چھالنے پر آگئے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا حکومت قانون کے اندر رہتے ہوئے سخت فیصلے کررہی ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوری حکومت کو 20 لوگ یرغمال نہیں بنا سکتے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گندم کا بحران پیدا ہوا جس کی کوئی وجہ نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی اگر کوئی خواہش ہو توحکومت کو کوئی روک نہیں سکتا، حکومت ہرکام میں قانون کے مطابق ایکشن لے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت ایسی طاقتوں کے خلاف سرنڈرنہیں کررہی۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا 16 ملین ٹن گندم سندھ سے چوری ہوگئی، اس کا کیا بنا،اٹارنی جنرل نے کہا ٹڈی دل کا مسئلہ صوبائی ہے، اس کے خاتمے کے لئے  معاونت کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے نیب کے متوازی این ڈی ایم اے کا ادارہ بن جائے گا، یہ ساری چیزیں عوام اور پاکستان کے لئے ڈیزاسٹر ہیں۔

    دوران سماعت لوڈ شیڈنگ کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا لاک ڈاؤن کے دوران لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو رہی ہے، دکانیں اور ادارے بند ہیں پھر لوڈ شیڈنگ کیسی، جس ملک کے لوگوں کو 18 گھنٹے بجلی نہیں دیں گے ، وہ بات کیوں سنیں گے، حکومت نے عوام کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیا، آئین کا معاہدہ ٹوٹے بڑاعرصہ ہو چکا ہے،لوگ انتظار میں ہیں کہ انہیں کب انہیں یہ پھل ملے گا، یہ پھل چند لوگوں کو مل گیا، پتہ نہیں اس پھل سےہم اورآپ فائدہ اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا پارلیمنٹ کو اس چیز کا احساس ہونا چاہیے ، حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں کیا کرنا ہے، ہر شہری کو بنیادی سہولیات ملنی چاہئے،اس پر حکومت اپنا پلان دے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا کی وبا چل رہی ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے قانون کا مسودہ بن گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے ہمارے3جہاز کھڑےہیں، کیا ہمارےپاس اسپرے والے جہاز چلانےکے لئے پائلٹ نہیں، لگتا ہے جب بھوک لگی توگندم بونے چل نکلے، حکومت کو ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

    کرونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے سوال کیا سندھ حکومت نے کتنی ڈبل کیبن گاڑیاں منگوائی ہیں، سندھ حکومت ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے گاڑیاں منگوا رہی ہے، سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کرنا ہے تو کرے،لوگوں کو کھانا، پانی، بجلی فراہم کرے۔

    جسٹس گلزار نے کہا سندھ میں 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر رپورٹ دیں گے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے بڑھ کر کوئی بااختیار نہیں، اگرچاہے تو سندھ حکومت صوبے کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے، کراچی کا گجر نالہ بھرا پڑا ہے، اس کو صاف کرنے کا کسی کو خیال نہیں، فیصل آباد کے رضاآباد کے گٹر سے نکلنے والا پانی پورے شہر میں پھیلاہے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلیٰ اور حکومت ہے، کیا پنجاب میں کوئی حکومت ہے؟ کیا صوبے میں ذخیرہ اندوزی پر کوئی چیک ہے، پنجاب میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے بھی سوال کیا بارش سے لاہورمیں کتنی بستیاں ڈوب گئیں ؟ کتنوں کو کرنٹ لگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوگی تو کیسے کچھ ٹھیک ہوگا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس میں پی آئی اے طیارہ حادثے کی رپورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا ائیر کریش کا سارا الزام پائلٹ اور ٹریفک کنٹرول پر ڈال دیا ہے ، میں سن کرحیران رہے گیا 15سال پرانے جہاز میں کوئی خرابی نہیں تھی، سول ایوی ایشن پیسے لیکر پائلٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے، قصور تو سول ایوی ایشن کا ہوا، پائلٹس کا کیا قصور ہوا، اٹارنی جنرل بتائیں سول ایوی ایشن کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا قانون کے مطابق ایکشن ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایسے لگتا ہے جیسے پائلٹ چلتا ہوا میزائل اڑا رہے ہوں، وہ میزائل جو کہیں بھی جاکر مرضی سے پھٹ جائے، بتایا گیا کہ 15سال پرانے جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، ساراملبہ پائلٹ اور سول ایوی ایشن پر ڈالا گیا ، لگتاہے ڈی جی سول ایوی ایشن کو بلانا پڑے گا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جعلی ڈگریوں والے پائلٹس کے ساتھ کیا کیا گیا؟ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے والے پائلٹس کے معاملے کا نوٹس لے لیا اور پی آئی اے ، سیرین ایئر اور ایئر بلیو سے بھی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت نے کہا بتایاجائے پائلٹس کو جعلی لائسنس کیسے اور کیوں جاری ہوئے؟ جعلی لائسنس دینے والوں کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگین جرم ہے۔

    سپریم کورٹ نے پی آئی اے، ایئربلیو، سیرین کے سربراہان کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کہا ایئرلائنز سربراہان پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کی تصدیق  پر مبنی رپورٹس فراہم کریں۔

    سپریم کورٹ نےطیارہ حادثہ عبوری رپورٹ پر بھی سوال اٹھا دیے اور کہا اسمبلی فلورپروزیر نے کہا جس کا دل چاہتا ہے، پائلٹ کا لائسنس لے لیتا ہے، لگتا ہے، سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں، جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلتا پھرتا میزائل ہو۔

    جعلی لائسنس لے کر جہاز اڑانااس میزائل جیسا ہے جو کہیں بھی جا کر پھٹ جائے، ہمیں حکومت کی رپورٹ پر حیرانگی ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، حیرت کی بات ہے 15 سال پرانا جہاز اڑایا گیا،رپورٹ میں سارا ملبہ سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا، سول ایوی ایشن والے وہی ہیں جو پائلٹس کو لائسنس دیتے ہیں، یہ حیران کن ہے جعلی لائسنس کی بنیادپرکمرشل پروازیں اڑانےکی اجازت دی گئی۔

  • کتنا راشن کس کو دیا؟سپریم کورٹ کا سندھ حکومت سے جواب طلب

    کتنا راشن کس کو دیا؟سپریم کورٹ کا سندھ حکومت سے جواب طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے راشن کی تقسیم سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا بتایا جائے راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کورونا ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا پارلیمان کے اجلاس کے انعقاد سے متعلق بتائیں، یہ پہلی بات تھی تو ہم نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھی۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 7 اپریل کےفیصلے میں عدالت نےحکومت کوبریفنگ کی اجازت دی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بریفنگ دینے والی کمیٹی سے ہم نے 5 سوال پوچھے ایک کا جواب نہیں ملا، آپ کی ٹیم کیا کام کر رہی ہے ہمیں نہیں معلوم ،حکومت کی معاون خصوصی کی فوج ہے، 50 لوگوں پر مشتمل  بڑی کابینہ ہے، ان 50 لوگوں پرمبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کےبھی الزامات ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ریمارکس دینےمیں بہت احتیاط برت رہےہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس بات کومدنظر رکھے کورونا صورتحال پر کوئی ملک تیار نہیں تھا۔

    جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ہمارے خدشات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے سوشل ڈسٹنسنگ کا حال گزشتہ ہفتے دیکھا  تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا 22 کروڑ عوام کا ملک ہے، فوج کے ذریعے بھی 22 کروڑ افراد سے سوشل ڈسٹنسنگ زبرستی نہیں کرائی جاسکتی ، سوشل  ڈسٹنسنگ کیلئے صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا، مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا، جس پر اٹارنی  جنرل کا کہنا  تھا کہ آپ ایسی بات نہ کریں تو جسٹس گلزار نے مزید کہا کہ میں نے مبینہ طورپران کوکرپٹ کہاہے، اس وقت ظفر مرزا کیا ہے اور اس کی کیا صلاحیت ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ہم نےحکم دیاتھاپارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے، ظفرمرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کوروناسےلڑنےمیں وسائل کی کمی کاسامناہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت نےسماجی فاصلے کے حوالے سے کیا کام کیاہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ سماجی فاصلے قائم رکھوانا مشکل عمل ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس میں طاقت کےاستعمال سے زیادہ عوام کے شعور کا عمل ہے، معذرت کے ساتھ وزیراعظم نے خود کو لوگوں سے دور کیا ہوا ہے، شیروں اور معاونین خصوصی کی ٹیم نے وفاقی کابینہ کو غیر مؤثرکر رکھا ہے، کابینہ کا حجم دیکھیں 49ارکان کی کیا ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مشیراورمعاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کر رکھا ہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں ، ہم آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کررہے۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا ہم چاہتے ہیں معاملات حل ہوں، ہم بریفنگ میں کہہ چکےتھےکہ ہم مداخلت نہیں کررہے، جسٹس گلزارکا کہنا تھا کہ ہمار ا مقصد آرٹیکل 9کا اطلاق ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بارے میں تو پارلیمنٹ ہی طےکرےگی، حکومت قانون سازی کےمراحل میں ہے، جس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ صوبائی حکومتیں کچھ اورکر رہی ہیں مرکز کچھ اورکام کررہاہے تو اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ایسا 18ویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے، اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کورونا سے مرنے والوں کی تعداد تو آ گئی ، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی جا رہی، ہم لوگوں کو بھوک سے مرنے نہیں دیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں، کیاملک بندکرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، حکومتی  مشیران اوروزرائے مملکت پرکتنی رقم خرچ کی جارہی ہے؟ مشیران ووزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جارہی ہے؟

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مشیران اورمعاونین کابینہ پر حاوی ہوتےنظرآرہےہیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟ کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں، کیا پارلیمنٹیرینز  پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہےہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اپنے اپنے راستے ہیں، ہر سیاستدان اپنا الگ بیان دے رہا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی لوگوں کےبیانات پرنہ جائے، وفاقی اورصوبائی حکومتیں صلاحیت کےمطابق تدابیر اختیارکر رہی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار  کیا پاکستان میں بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے؟

    جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ایشوعوام کی آزادی اورصحت کاہے، اسپتالوں میں ڈاکٹر کو غذا بھی غیرمعیاری فراہم کی جارہی ہے، ویڈیو دیکھی ڈاکٹر کھانے کی بجائے عام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ ریاست کی طاقت ہوتی ہے، اس کی نمائندگی کرتی ہے، لوگوں کوگھروں میں بندکر دیا گیا ہے حکومت ان  تک پہنچے، عام بندےکوپولیس پکڑ کر جوتے مار رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے۔

    جسٹس قاضی امین نے مزید کہا کہ لوگ بھوک سے تلملارہےہیں ہم انارکی کی طرف بڑھ رہےہیں ، کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے، صدر مملکت  پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے؟

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے ، اس بات کا وزیر اعظم کو ادراک ہے، اس لیے وزیر اعظم کچھ کاروبار کھولنا چاہتے ہیں، حکومت کورونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی سندھ نےسنی سنائی باتوں پرکراچی کےکئی علاقےبندکردیے، کل کو پورا کراچی بند کردیں گے، قومی رابطہ کمیٹی کے آج کے اجلاس سے کیا ہوگا، وقت آرہا ہےکراچی میں پولیس اورسرکاری گاڑیوں پر ہجوم حملے کریں گے۔

    ایڈو وکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت لوگوں کوسماجی فاصلے سے متعلق ہدایات دے سکتی ہے، جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ لوگ سماجی فاصلوں  پر عمل نہ کرے تو اس کا مطلب ہے سرنڈر کردے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے لاکھوں لوگ بےروزگار ہوگئے،ڈیٹا حکومت کےپاس نہیں، حکومت کو خودعوام تک رسائی یقینی بنانی ہوگی، اسلام آباد میں بیٹھ کراجلاس کرنے سےکچھ نہیں ہوگا، صرف الیکٹرانک ڈیٹا پرہی انحصار نہ کیا جائے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیامشکل حالات میں حکومت ڈیلیورنہیں کر پائی تو کیا فائدہ؟ میرے گھر پینٹ کرنے والے نے راشن کیلئے مجھے میسج کیا، ایسے دیہاڑی دار طبقے کیلئے حکومت کو عملی کام کرنا ہوگا ، وقت آگیا ہے ڈاکٹروں کو سیلیوٹ کیا جائے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا لاک ڈاؤن کامطلب کرفیوہوتاہے، کیاکراچی کی متاثرہ 11یونین کونسلز کے ہر مکین کا ٹیسٹ ہوگا؟ سیل کی گئی 11یونین کونسلز  کی کتنی آبادی ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا متاثرہ یونین کونسلز کی آبادی کا درست علم نہیں، متاثرہ یونین کونسل میں کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا جن رہائیشیوں کےپاس وسائل نہیں وہ کیاکریں گے ؟ کل پورا سندھ رو رہا تھا، میرپورخاص، سکھر، تھرپارکر میں چیخ وپکار ہے، سندھ حکومت کے دعووں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے،کل لائنزایریا کراچی میں بھی حالات بہت خراب تھے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیاسندھ حکومت عوام کےآگے سرنڈرکر رہی ہے؟ لائنز ایریامیں کھانا فراہم کرنے کی کیا منصوبہ بندی ہے؟ لوگ بھوک سےتلملا رہے ہیں کھانا نہ ملا تو خانہ جنگی ہوگی، ہر سیاسی جماعت دوسری کےخلاف پریس کانفرنس کررہی ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے، غریب آدمی سڑک پرنکلے تو جوتے مارے جاتے ہیں، کل ایک بڑے صاحب کا جنازہ تھا لوگ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑےتھے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا اب تک کتنے افراد کو راشن ملا؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ 4 ہزار افراد کو 12 تاریخ تک راشن فراہم کیا گیا،  تو  جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا مقدار کیا تھی؟کہاں سے خریدا؟کس کو دیا؟ کوئی ریکارڈ ہے، کیا اس اصول پر عمل کر رہے ہیں کہ ایک ہاتھ دے تو دوسرے کوپتہ نہ چلے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاوفاق اورصو بوں میں ہم آہنگی ہے؟ سوال صرف سندھ نہیں بلکہ تمام صوبوں سے کر رہےہیں، حکومت چاہے سو دفعہ لاک ڈاؤن کرے عدالت کو کوئی ایشو نہیں ، لاک ڈاؤن لگانے سے پہلےحکومت کے پاس پلان بھی ہوناچاہیے۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا سندھ حکومت نے11یوسیزکوسیل کردیا، ویڈیوز میں پولیس والے راشن کھینچ کھینچ کر لے جارہے ہیں، سندھ حکومت نے 8ارب کا راشن تقسیم کیا لیکن غریب کوپتہ بھی نہیں چلا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، ہم اپنےعدم اطمینان کو عدالتی حکم نامے میں لکھیں گے ، اٹارنی  جنرل نے کہا آپ یہ معاملہ حکومت پر چھوڑ دیں، جس پر چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت کا ایک جز آئین کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نےڈاکٹرظفر مرزاکوعہدے سےہٹانےکاکہہ دیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت ظفر مرزا کو ہٹایا تو بحران پیدا ہوجائے گا ، اس وقت  ملک میں کورونا کے باعث بحران کی کیفیت ہے

    سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کاظفر مرزا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ، اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانا تباہ کن ہوگا، جس  پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ظفرمرزاکیخلاف ایف آئی اے میں جوانکوائری چل رہی ہے وہ کیاہے۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں بتایا کہ کسی شخص نےڈاکٹر ظفرمرزاکیخلاف درخواست دی ہے، ظفرمرزا نے چین کو جو بھی سامان بھیجا حکومت کی اجازت سے بھیجا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جوبھی کام کرتےہیں حکومت کی اجازت سے کرتےہیں، آپ نے چینی بھی حکومت کی اجازت سے ایکسپورٹ  کی اورآٹابھی ، پھرآٹا چینی امپورٹ بھی حکومت کی اجازت سے ہی کیا۔

    کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر چیف جسٹس نے نام لئے بغیر تبصرہ کرتے ہوئے کہا وزیراعظم کابینہ میں مہرے بدل رہا ہے، کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی جائے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملکی قیادت کا موجودہ حالات میں امتحان ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم عالمی اداروں سےقرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صرف قرضوں کی بات نہیں کی، دیگر معاملات بھی اٹھائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت پی پی ای کس ریٹ پر خرید رہی ہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پی پی ای کے مختلف نرخ ہیں، سندھ میں مقامی طورپر حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی، مقامی سطح پر روز5ہزار کٹس تیارہو رہی ہیں۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے استفسار کیا سندھ میں لوگوں کی مددکےلیےحکومتی سطح پرکیااقدامات کیے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ میں 5 لاکھ  سے  زائد لوگوں کو راشن فراہم کیا، جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید استفسار کیا کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے ، 10 روپے کی چیزدیکر 4 وزیر تصویر بنوانے کھڑے ہو جاتے ہیں ، سندھ میں گٹر کا ڈھکن لگانے پر 4 لوگ کھڑے ہو کر تصویر بنواتےہیں۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا راشن دینے کےلیےکیامعیارمقررہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت والےہیں۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کوئی کلپ ہےکہاں سے راشن خریدا کہاں دیا؟ یا ایک ہاتھ سے لینےدوسرے سےدینے والا کام یہاں بھی کیا ؟ تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو15 دن کاراشن دیا، ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہوگی ایک خاندان کے لیے، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا، اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے  یا نہیں، سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے حکومت نے یک ٹکابھی نہیں دیا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سوالات صرف سندھ نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں، کے پی توراشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے، ایک وقت تھا ملکی معیشت کی بنیاد صنعتوں پر تھی، اب صنعتیں گودام بن چکی ہیں، صنعتیں بند ہونےکی پرواہ پارلیمان کو ہے نہ حکومت کو۔

    چیف جسٹس نے کہا نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی تو حکومت خودصنعتیں لگائے، آج وزیراعظم قرض واپسی کیلئے مہلت کی اپیل کر رہےہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیشنلائزیشن سےصنعتوں کونقصان ہواجوآج بھی بھگت رہےہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا، وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں، وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہےکہ کام کے 10بندوں کا انتخاب کرسکیں، ذرا سی مشکل آتے ہی ادھر کا مہرا ادھر لگا دیا جاتا، شاید معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانےکیلئے تیار بیٹھا ہے۔

    کوروناسےمتعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ لوگ اپنا کام کر رہےہیں گندے انڈے تھوڑے ہیں ، سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے علاوہ سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں ، کچھ لوگ ایسے حالات میں  بھی پیسہ بنا رہے ہیں، زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائیں جائیں تومقصدختم ہوجاتاہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاک ڈاون کے حوالے سے اہم میٹنگ ہے، تمام تحفظات حکومت کے سامنے رکھوں گا۔

    کورونا سے متعلق سماعت میں عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بین الصوبائی سفر کے لیے کورونا سرٹیفکیٹ کی پابندی کی شرط ختم کردی۔

    عدالت نے کہا اٹارنی جنرل نےکورونا سےنمٹنےکےمؤثراقدامات کی یقین دہانی کرائی، کوشش کی یقین دہانی کرائی کہ کم سے کم لوگ اس وائرس سے متاثر ہوں ،صحت کے ساتھ سوشل سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے گی، اورعوام کی فلاح کےلیےہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا وزیراعظم کورونا سے نمٹنے پرآج اجلاس کر رہے ہیں، وزیراعظم صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے ساتھ مؤثرحکمت عملی طے کریں گے اےجی پنجاب نےاسپتالوں کی صورتحال،کوروناسے نمٹنے کےاقدامات سےآگاہ کیا۔

    اسپتالوں میں طبی عملےکےلیےمقامی تیارسامان اورکٹس فراہم کر دی جائیں گی، مقامی طور پر تیار طبی آلات اور وینٹی لیٹرز تیار کیے جارہے ہیں ، مصنوعات معیار پر پورا اتریں تو اسپتالوں کوفراہم کی جائیں گی جبکہ ڈاکٹر ظفرمرزا کو ہٹانے کی آبزرویشن عدالتی حکم میں شامل نہیں کی گئی۔

    عدالت نے حکومت سےآج ہونے والےاعلیٰ سطح اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کراچی میں گیارہ یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، سندھ حکومت کو سیل یونین کونسلز میں متاثرہ افرادکی تعداد کابھی علم نہیں، سیل یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنےکاکوئی منصوبہ نہیں۔

    عدالت نے مزید کہا سندھ حکومت 8ارب کاراشن تقسیم کرنےکےشواہد بھی نہ پیش کرسکی،سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے، سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے راشن کی تقسیم سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا بتایا جائے راشن کہاں سےاورکتنےمیں خریداگیا، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹروں کی ضروریات پوری کریں۔

    سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالے کا حکم دیتے ہوئے کہا اسلام آبادانتظامیہ اورپنجاب حکومت سے کورونا پر اقدامات اورامدادی کام کی تفصیل طلب کرلی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس پرسماعت آئندہ پیرتک ملتوی کردی