Tag: کووڈ 19

  • پالتو بلی سے کرونا وائرس منتقلی کا پہلا کیس رپورٹ

    پالتو بلی سے کرونا وائرس منتقلی کا پہلا کیس رپورٹ

    بنکاک: تھائی لینڈ میں پالتو بلی سے انسان میں کرونا وائرس منتقلی کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آگیا، بلی سے متاثر ہونے والی خاتون ایک ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں سائنسدانوں نے ایک پالتو بلی کے ذریعے ایک ویٹرنری سرجن میں کرونا وائرس کی منتقلی کے پہلے ٹھوس ثبوت کی اطلاع دی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بلی سے انسان میں وائرس کی منتقلی کے ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے کہا کہ نتائج قابل یقین ہیں لیکن حیران ہیں کہ اس منتقلی کو سامنے آنے میں اتنا وقت لگا۔

    یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ابھرتے ہوئے متعدی امراض کے جریدے کے شریک مصنف سارونیو چسری کے مطابق 6 جون کو جریدے میں شائع ہونے والی یہ دریافت حادثاتی طور پر سامنے آئی۔

    اگست 2021 میں کرونا وائرس سے متاثر ایک باپ اور بیٹے کو یونیورسٹی کے اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کیا گیا، ان کی 10 سالہ بلی کا بھی ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت آیا۔

    ٹیسٹ کے دوران بلی نے خاتون ویٹرنری سرجن کے چہرے پر چھینک دیا تھا جس نے ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے لیکن آنکھوں کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا تھا۔

    تین روز بعد ویٹرنری ڈاکٹر نے بخار اور کھانسی محسوس کی اور بعد میں ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا، لیکن ان کے قریبی رابطوں میں آنے والوں میں سے کسی میں بھی یہ بیماری نہیں پھیلی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ کرونا سے بلی کے ذریعے متاثر ہوئیں۔

    ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ماہر وائرولوجسٹ لیو پون کا کہنا ہے کہ تجرباتی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا سے متاثرہ بلیاں زیادہ وائرس نہیں پھیلاتیں اور یہ صرف چند روز کے لیے وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں۔

    سارونیو چسری نے کہا کہ ایسے معاملات میں لوگوں کو اپنی بلیوں کو چھوڑ نہیں دینا چاہیئے بلکہ مزید خیال رکھنا چاہیئے۔

  • کرونا وائرس: ملک میں 66 مریضوں کی حالت تشویش ناک

    کرونا وائرس: ملک میں 66 مریضوں کی حالت تشویش ناک

    اسلام آباد: قومی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت کرونا وائرس انفیکشن کے 66 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق این آئی ایچ نے کہا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا کے مزید 204 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 13 ہزار 300 ٹیسٹ کیےگئے، جن میں کرونا کیسز کی شرح 1.53 فی صد رہی۔

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے 3 ہزار سے زائد مریض قرنطینہ میں

    ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کوئی موت واقع نہیں ہوئی ہے، تاہم اسپتالوں میں داخل 66 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

    این آئی ایچ نے کہا ہے کہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے کرونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن ضرور مکمل کریں، ویکسین ہی اس نہایت مہلک وائرس سے بہترین پروٹیکشن ہے۔

    قومی ادارۂ صحت کے مطابق 85 فی صد اہل پاکستانی آبادی کی کووِڈ-19 کے خلاف مکمل ویکسینیشن ہو چکی ہے۔

  • کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کا شکار افراد کو مختلف طبی مسائل میں مبتلا دیکھا گیا ہے تاہم اب ایک مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے امراض پیدا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    گزشتہ ماہ مئی کے اختتام پر یورپین سوسائٹی ف اینڈو کرونالوجی کے سیمینار میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے فوری بعد کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں ہوتے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پیچیدگیاں بڑھنے لگتی ہیں۔

    اٹلی کی یونیورسٹی آف میلان کے ماہرین کی جانب سے 100 افراد پر کی جانے والی مختصر تحقیق میں ان افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کرونا سے شدید بیمار ہوئے تھے اور ان میں کافی عرصے تک علامات پائی گئی تھیں۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے متاثرہ افراد کے صحت یابی کے فوری بعد ٹیسٹس کرنے سمیت 6 ماہ اور ایک سال بعد بھی ٹیسٹس کیے اور ان کے الٹراساؤنڈ بھی کیے۔

    تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے فوری بعد ان میں کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں پائے گئے، تاہم بعض افراد میں 6 ماہ بعد تھائیراڈ کی پیچیدگیاں شروع ہونے لگیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ بعض افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے مسائل ہونے لگے تھے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر افراد میں تھائیراڈٹس کی بیماری پائی گئی، جس میں تھائیراڈ میں سوجن اور جلن ہوتی ہے اور تھائیراڈ ہارمونز بنانے کی سطح کم کردیتا ہے، اس سے متاثرہ شخص میں تھکاوٹ سمیت اس کے وزن میں کمی کے علاوہ کئی مسائل ہونے لگتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ بعض افراد میں تھائیراڈ کے دیگر مسائل بھی پائے گئے، تاہم زیادہ تر لوگ تھائیراڈٹس کا شکار بنے۔

    تھائیراڈ ایک عضو ہے جو کہ انسان کے گلے میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کام جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا اور خصوصی طرح کے ہارمونز پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تھائیراڈ 2 ہارمونز بناتا ہے جو خون میں داخل ہوتے ہیں، جن سے انسانی جسم متحرک رہتا ہے اور یہ انسانی مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر تھائیراڈ میں کوئی خرابی ہوجائے تو مختلف مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 جسم کے تمام اعضا کو بری طرح متاثر کرتا ہے لیکن دماغ پر اس کے بدترین اثرات سامنے آتے جارہے ہیں، حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے حجم کو سکیڑ سکتی ہے، ان حصوں کا حجم کم کرسکتی ہے جو جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ ان حصوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جو سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    اس موازنے سے ابتدائی بیماری کے کئی ماہ بعد دماغی حجم سکڑنے اور ان ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا جو سونگھنے کی حس اور دماغی صلاحیتوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 51 سے 81 سال کی عمر کے 785 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے دماغی اسکینز کرونا وائرس کی وبا سے قبل اور اس کے دوران لیے گئے تھے۔

    ان میں سے نصف سے زیادہ میں ان اسکینز کے درمیان کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 384 افراد کے اسکینز کا موازنہ ان افراد سے کیا گیا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے دماغ اور گرے میٹر کے کچھ حصے سکڑ گئے، بالخصوص وہ حصے جو سونگھے کی حس سے منسلک ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر کووڈ کے شکار افراد میں اس سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں سونگھنے کی حس سے منسلک اہم دماغی حصے parahippocampal gyrus کا حجم 1.8 فیصد جبکہ cerebellum کا حجم 0.8 فیصد تک سکڑ گیا۔

    ان حصوں کے سگنلز کے عمل میں مداخلت کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مختلف علامات جیسے سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے، اسی طرح کووڈ سے متاثر افراد کا ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹوں میں اسکور اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم تھا۔

    یہ کم اسکور ذہنی صلاحیتون سے جڑے دماغی حصے cerebellum کے ٹشوز کے نقصان کا عندیہ بھی دیتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اثرات معمر افراد اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والوں میں زیادہ نمایاں تھے مگر معمولی بیمار یا بغیر علامات کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ان کا مشاہدہ ہوا۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ دماغی تبدیلیاں مستقل ہیں یا جزوی طور پر ریورس کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو کووڈ سے دماغی صحت پر مرتب ہونے والے بدترین اثرات کا عندیہ دیتے ہیں۔

    یہاں تک کہ معمولی بیمار افراد کے دماغی افعال جیسے توجہ مرکوز کرنے اور چیزیں منظم کرنے کی صلاحیت بدتر ہوگئی اور اوسطاً دماغی حجم میں 0.2 سے 2 فیصد کمی آئی۔

    ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ ویکسی نیشن سے ان اثرات کی روک تھام پر کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں مگر حال ہی میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 15 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا تھا کہ ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

  • کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے ایسے 16 جینز کو شناخت کیا ہے جو لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ایسے جینز ہوتے ہیں جو مختلف مسائل جیسے وائرس کے نقول بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنے، شدید ورم یا بلڈ کلاٹس کی روک تھام نہیں کرپاتے۔

    ماہرین نے کہا کہ ان نتائج کی بنیاد پر ایسے علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی جو مریضوں کو سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے یہ پیش گوئی کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ کون سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران برطانیہ میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے مریضوں کے 56 ہزار کے لگ بھگ نمونوں کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔

    جب ان کا موازنہ بیماری سے محفوظ رہنے والے یا معمولی بیمار ہونے والے گروپس سے کیا گیا تو ایسے 16 جینز کی شناخت ہوئی جن کا پہلے علم نہیں تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نئی دریافت سے ماہرین کو اس وقت دستیاب ادویات کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی جو کووڈ 19 کے علاج میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    مثال کے طور پر ماہرین نے دریافت کیا کہ ایسے بنیادی جینز میں بیماری کے دوران تبدیلیاں آتی ہیں جو ایک پروٹین فیکٹر VIII کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بلڈ کلاٹس بننے کے عمل کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلڈ کلاٹس ان چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامان ہوتا ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ ایسے حصوں کو ہدف بنایا جائے جس سے بلڈ کلاٹس کو بننے سے روکا جاسکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہم ٹرائلز کے بغیر یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ادویات کام کریں گی یا نہیں۔

  • 6 ہفتوں بعد لاش میں کووڈ 19 کی تصدیق

    6 ہفتوں بعد لاش میں کووڈ 19 کی تصدیق

    اٹلی میں ایک شخص میں موت کے بعد کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی اور حیران کن طور پر 6 ہفتوں اور 28 ٹیسٹس کے بعد بھی نتیجہ مثبت آتا رہا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ستمبر 2021 میں اٹلی کے علاقے کیتی میں یوکرین سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ سمندر کی سیر پر گیا اور وہاں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ واقعہ افسوسناک تو تھا لیکن موت کے بعد جو ہوا اس نے طبی ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا، لاش کا موت کے بعد لگ بھگ 6 ہفتوں تک کم از کم 28 بار کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیا گیا اور ہر بار لاش کا ٹیسٹ مثبت رہا۔

    اس سے بھی زیادہ حیران کن حقیقت یہ تھی کہ موت کے وقت اس شخص میں کووڈ کی علامات بالکل بھی نہیں تھی اور ممکنہ طور پر اگر وائرس اس کے اندر موجود ہوگا بھی تو وائرل لوڈ کی مقدار بہت کم ہوگی۔

    طبی جریدے بی ایم سی جرنل آف میڈیکل کیس رپورٹس میں اس کیس پر تحقیق کے نتائج شائع ہوئے اور کہا گیا کہ تمام افراد کے پوسٹ مارٹم کے دوران سواب ٹیسٹ ہونے چاہیئں چاہے وہ موت کووڈ سے جڑی ہوئی ہو یا نہ ہو۔

    اگرچہ اس شخص (اس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) کے بارے میں تصدیق ہوچکی تھی کہ وہ ڈوب کر مرا ہے مگر اٹلی کے قوانین کے تحت موت کی وجہ جو بھی ہو ایک کووڈ ٹیسٹ لازمی کیا جاتا ہے۔

    پوسٹ مارٹم کے دوران جب کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا تو لاش کو مقامی مردہ خانے میں جراثیم سے پاک واٹر پروف بیگ میں بند کرکے منتقل کردیا گیا، مگر تدفین کی اجازت میں تاخیر کے باعث وہ لاش مردہ خانے میں 41 دن تک موجود رہی۔

    تحقیق کے مطابق اس عرصے کے دوران 28 بار کووڈ ٹیسٹ کیے گئے اور ہر بار ٹیسٹ کو ایک ہی ٹیم نے کیا اور اس دوران عالمی قوانین کو مدنظر رکھا گیا۔ یہ وہی روایتی کووڈ ٹیسٹ ہے جس میں ناک سے مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور ہر بار ٹیسٹ مثبت رہا۔

    یہاں تک کہ تحقیقی ٹیم کو شبہ ہوا تو انہوں نے اسی ٹیسٹنگ کٹس سے ایک دوسرے کے ٹیسٹ بھی کیے۔

    نہ صرف موت کے لگ بھگ 6 ہفتوں بعد تک لاش میں کووڈ کے وائرل ذرات دریافت ہوتے رہے بلکہ ٹیسٹنگ کے اختتام پر صرف وہی قابل شناخت ذرات رہ گئے تھے۔

    ماہرین کی جانب سے کووڈ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ہر بار ایک کنٹرول ٹیسٹ بھی کیا جاتا تھا جس کا مقصد انسانی خلیاتی آر این اے کو جانچنا ہوتا تھا۔

    موت کے 41 دن کے دوران ٹیسٹوں میں انسانی آر این اے نظر آنا بند ہوگیا تھا مگر کووڈ ٹیسٹ بدستور مثبت آرہے تھے حالانکہ انسانی خلیات دریافت نہیں ہورہے تھے۔

    ماہرین نے کہا کہ زندہ انسانی جسموں اور ان کے ماحول میں وائرس کے رویوں کے بارے میں تو اب تک اچھی خاصی تحقیق ہوچکی ہے مگر مردہ جسموں اور ان کے متعدی ہونے کے بارے میں ڈیٹا موجود نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے افراد کے پوسٹ مارٹم کا حصہ بننے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ ہوسکتا ہے مگر اس حوالے سے تحقیق کے بعد ہی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ کرونا وائرس زیادہ تر منہ یا ناک سے خارج ہونے والے بڑے ذرات کے باعث ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے مگر یہی واحد ذریعہ نہیں بلکہ آلودہ اشیا، فضا وغیرہ بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔

    ماہرین نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیق محدود تھی اور اس حوالے سے تحقیقی کام کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کیونکہ اخلاقی طور پر مردہ افراد پر اس طرح کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر انہوں نے توقع ظاہر کی کہ نتائج سے مستقبل میں تحقیق کا راستہ کھل جائے گا۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی ایک عام عادت

    کووڈ 19 سے بچانے والی ایک عام عادت

    کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے مضبوط قوت مدافعت اہم ڈھال ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچانے والے ایک اور عنصر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنے کی عادت فلو اور کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ان کے اینٹی باڈی ردعمل کو بڑھاتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ویکسی نیشن کے بعد ورزش کرنے سے مضر اثرات کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، تحقیق میں ویکسی نیشن کروانے کے فوری بعد 90 منٹ تک ورزش کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں ویکسی نیشن کے 4 ہفتوں بعد سیرم اینٹی باڈی کا تسلسل بڑھ گیا۔ اسی طرح جو بالغ افراد ورزش کو معمول کے مطابق جاری رکھتے ہیں ان میں فلو یا کووڈ ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل تھے مگر ورزش کے دوران انہوں نے دھڑکن کی رفتار صحت مند سطح پر برقرار رکھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت ورزش کرنے کی عادت صرف ویکسینز کی افادیت میں ہی اضافہ نہیں کرتی بلکہ ویکسی نیشن نہ کرانے پر بھی کووڈ سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہوئے۔

  • کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس جسم کے تقریباً تمام اعضا کو متاثر کرتا ہے، کچھ افراد میں یہ اثرات بہت کم اور کچھ میں شدید ہوتے ہیں، ماہرین نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن نے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ اس بیماری کو جلد شکست دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کے مدافعتی ردعمل میں کیا مختلف ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے مریضوں کے خون کے خلیات کی جانچ پڑتال کی، انہوں نے ہر مریض سے خون کے خلیات کو وائرس کی پیشرفت کو 2 مختلف مراحل میں حاصل کیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی نظام کے 2 بنیادی پہلوؤں میں ربط کی کمی تھی۔

    مدافعتی نظام کا ایک پہلو وائرل انفیکشن کے خلاف پہلے دفاعی میکنزم کا کام کرتا ہے، جو برق رفتار ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایسا خاص مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو مخصوص وائرس کو ہی ہدف بناتا ہے اور یہ زیادہ طاقتور دفاع فراہم کرتا ہے۔

    ان دونوں میں ربط کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں ایسے مخصوص مدافعتی خلیات مونو سائٹس متحرک ہوتے ہیں جن کے دوسرے مرحلے کے مدافعتی ردعمل کے اینٹی جینز موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں مونو سائٹس میں ٹی سیلز کے اینٹی جینز زیادہ مؤثر نہیں ہوتے بلکہ پھر بھی دوسرے مرحلے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے۔

    اس کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے ورم پھیلنے کا عمل حرکت میں آتا ہے جو جسم کے دیگر ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ٹائپ 1 انٹر فیرون نامی پروٹین کی زیادہ مقدار متاثرہ خلیات سے خارج ہوتی ہے جس سے بھی مدافعتی ردعمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ مونو سائٹس اور ٹی سیلز کے تعلق کو ہدف بنائے جانے کی ضرورت ہے جس سے کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر سائنسدان مدافعتی ردعمل کے پہلے یا دوسرے پہلو کو بدلنے کے قابل ہوجائیں تو اس سے مریضوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔

  • 14 ماہ سے کرونا میں مبتلا شخص، 78 واں ٹیسٹ بھی مثبت

    14 ماہ سے کرونا میں مبتلا شخص، 78 واں ٹیسٹ بھی مثبت

    ترکی میں ایک شخص گزشتہ 14 ماہ سے کرونا وائرس میں مبتلا اور قرنطینہ میں ہے، حال ہی میں اس کا 78 واں ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔

    56 سالہ شخص مظفر کیاسان کرونا وائرس سے صحت یاب ہی نہیں ہو پا رہا، مظفر کیاسان نے 2020 سے کرونا وائرس میں مبتلا ہے، وہ کل 14 ماہ سے اپنے گھر اور اسپتالوں تک محدود ہے۔

    خون کے کینسر میں مبتلا مظفر کیاسان کو پہلی بار نومبر 2020 میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور اسے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم 2 ہفتوں کے بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا لیکن گھر پہنچ کر بھی ان میں کرونا کی تشخیص ہوئی۔

    وہ 14 ماہ کے دوران 9 ماہ اسپتال اور 5 ماہ گھر میں قرنطینہ میں رہے جب کہ ان کے 78 کرونا ٹیسٹ کیے گئے جس کا نتیجہ ہر بار مثبت آیا۔

    کیاسان نے حکام سے اپنی صورت حال کا حل تلاش کرنے کی اپیل کی ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں اکیلے دن گزارنے پر مجبور ہوئے جہاں وہ صرف کھڑکی سے اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو دیکھ سکتے تھے۔

    کیاسان کے ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ لیوکیمیا کی وجہ سے ان کے کمزور مدافعتی نظام کے باعث ان کے ٹیسٹ مثبت آتے رہتے ہیں، اور وہ ان دوائیوں پر زندہ ہیں جو انہیں اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھنے کے لیے تجویز کی گئی تھیں۔

    مظفر کیاسان کی اہلیہ کچھ دیر ان کے ساتھ رہیں اور انہوں نے 2 بار کرونا ٹیسٹ کروایا جو حیرت انگیز طور پر منفی آیا، ان کے بیٹے نے بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور اس کا بھی ٹیسٹ منفی آیا۔