Tag: کووڈ 19

  • ایک اور پاکستانی اداکار کرونا وائرس کا شکار

    ایک اور پاکستانی اداکار کرونا وائرس کا شکار

    کراچی: معروف پاکستانی اداکار علی رحمٰن خان بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، علی رحمٰن کے مطابق ان سے رابطے میں آنے والے تمام افراد محفوظ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی اداکار علی رحمٰن خان بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے اور وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔ علی رحمٰن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو اس کی اطلاع دی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Ali Rehman Khan (@alirehmankhan)

    انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں علی رحمٰن خان نے لکھا کہ انتہائی محتاط رہنے اور تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے باوجود بدقسمتی سے میرا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ میں نے خود سے رابطے میں رہنے والے تمام افراد کو آگاہ کردیا ہے اور الحمد للہ وہ سب محفوظ ہیں۔

    اداکار کا کہنا تھا کہ برائے مہربانی مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، ماسک پہنیں، خود کے لیے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کے لیے ایس او پیز پر عمل کریں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ برس شوبز سے وابستہ کئی شخصیات بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئی تھیں۔ چند دن قبل ماہرہ خان اور انور مقصود کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔ اس سے قبل بہروز سبزواری اور نیلم منیر بھی کووڈ 19 کا شکار ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں اس وقت کرونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 4 لاکھ 92 ہزار 594 تک پہنچ چکی ہے، اب تک کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی تعداد 10 ہزار 461 تک پہنچ گئی ہے۔

  • ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    سنہ 1976 میں ایبولا وائرس کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نئے وائرسز انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا لاتعداد وائرس کے نشانے پر ہے، افریقہ کے جنگلات سے نئے اور ممکنہ طور پر جان لیوا وائرسز ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ وائرس کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    ادھر عوامی جمہوریہ کانگو میں ایک شخص کے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک نئے قسم کے بخار کا شکار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق اس شخص کا ایبولا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے اس پراسرار بیماری کو ڈیزیز ایکس کا نام دیا گیا جس کا مطلب کسی غیر متوقع بیماری کے ہیں۔

    ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کہیں زیادہ ہوگی۔

    دنیا ابھی تک کئی ایسی بیماریوں سے واقف ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں، جیسے زرد بخار، ریبیز، انفلوئنزا وغیرہ۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنگلات ختم ہونے سے بڑے جانوروں کو معدومی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم چھوٹے جانور جیسے چوہا، چمگاڈر یا کیڑے مکوڑے سروائیو کر جاتے ہیں اور یہی وائرسز کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب خاتون کو نئے مسئلے کا سامنا!

    کرونا وائرس سے صحت یاب خاتون کو نئے مسئلے کا سامنا!

    انگلینڈ کی رہائشی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں کووڈ 19 کا شکار ہوئے 7 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم ان کی سونگھنے اور چکھنے کی حس تاحال بحال نہیں ہوئی۔

    44 سالہ سارا نامی یہ خاتون رواں برس مئی میں کووڈ 19 کا شکار ہوئی تھیں، ان کے مطابق اب 7 ماہ گزر جانے کے بعد بھی انہیں کافی کی خوشبو گاڑی کے دھوئیں جیسی لگتی ہے جبکہ ٹوتھ پیسٹ کا ذائقہ پیٹرول جیسا لگتا ہے۔

    سارا کے مطابق انہیں مئی میں ابتدائی طور پر تھکن اور گلے کی سوزش کا سامنا ہوا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنا ٹیسٹ کروایا، لیکن ٹیسٹ کی رپورٹ آنے سے قبل ہی وہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوگئیں۔

    سارا کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے صحت یاب ہوجانے کے بعد 6 ہفتے تک وہ دونوں حسوں سے محروم رہیں، اس کے بعد انہیں ایک نئے مسئلے کا سامنا ہوا۔

    ان کے مطابق اب انہیں نمک والی اشیا صابن کے ذائقے جیسی محسوس ہوتی ہیں، کافی کی خوشبو گاڑی کے دھوئیں جیسی جبکہ چاکلیٹ کیک اس قدر کسیلا لگتا ہے کہ وہ بے اختیار اسے تھوک دیتی ہیں۔

    سارا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے کھانا پکانا اور کھانا نہایت مشکل ہے، کھانے سے اٹھنے والی مہک انہیں سخت پریشان کردیتی ہے۔ ہر کھانے سے قبل وہ اسے سونگھتی ہیں، اگر وہ مناسب لگے پھر اسے کھاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کہ اب ان کی غذا چند مخصوص کھانوں پر مشتمل ہے جس میں مچھلی اور پنیر شامل ہے، تاہم انہیں خدشہ ہے کہ جلد وہ ان سے اکتا جائیں گی۔

    یاد رہے کہ ڈاکٹرز کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوجانا عام علامت ہے کیونکہ وائرس ناک کے ریسیپٹرز کو نشانہ بناتا ہے۔

    سارا نے فیس بک پر کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کا ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جس میں لوگ اپنے تجربات شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اس گروپ میں کئی دیگر افراد نے بھی سارا جیسی کیفیات کا سامنا کیا ہے۔

  • کرونا وائرس کن طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کن طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟

    گزشتہ ایک برس میں کی جانے والی بے شمار تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم پر دیرپا نقصانات مرتب کرتا ہے جو طبی پیچیدگیوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق میں امریکا کے 70 ہزار سے زائد کووڈ 19 کیسز کے ذریعے ان پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل میں شائع تحقیق میں کووڈ 19 کی تمام ممکنہ پیچیدگیوں کا تعین کیا گیا۔ محققین کا مقصد وبا کے دوران رپورٹ کی جانے والی پیچیدگیوں کی تصدیق کرنا تھا، یعنی طبی مسائل کا خطرہ کووڈ کے مریضوں کو سب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں کووڈ 19 سے جڑے تمام تر خطرات کا تخمینہ فراہم کیا گیا ہے، جس سے ہم طبی ماہرین، مریضوں اور پالیسی سازوں کو تمام تر پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں بفالو یونیورسٹی کے جیکبس اسکول آف میڈیسین اینڈ بائیولوجیکل سائنسز، ٹورنٹو یونیورسٹی اور ہیلتھ وریٹی انکارپورشن کے محققین نے مل کر کام کیا۔ تحقیق کے لیے یکم مارچ سے 30 اپریل 2020 تک کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 70 ہزار 288 مریضوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔

    محققین نے ان افراد کے ڈیٹا کو 3 حصوں میں تقسیم کیا، ایک گروپ ایسے مریضوں کا تھا جن کا علاج تو ہوا مگر اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔ دوسرا گروپ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کا تھا جبکہ تیسرا ایسے مریضوں کا تھا جن کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

    70 ہزار 288 میں سے 53.4 فیصد وہ لوگ تھے جو اسپتال میں زیرعلاج رہے، جن میں آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد 4.7 تھی، باقی 46.6 فیصد پہلے گروپ میں شامل افراد تھے، مجموعی طور پر 55.8 فیصد خواتین تھیں اور اوسط عمر 65 سال تھی۔

    محققین نے بیس لائن پیریڈ (کووڈ کی تشخیص سے 30 سے 120 دن قبل) اور ہزارڈ پیرڈ (تشخیص سے 7 دن قبل سے 30 دن بعد تک) کو تشکیل دیا۔ بیس لائن پیریڈ کو یہ شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ مریض کووڈ 19 سے پہلے کسی دائمی بیماری کا شکار تو نہیں تھے۔

    ان دونوں پیریڈز کا موازنہ کرنے سے دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بعد مریض کو کن پیچیدگیوں کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ محققین نے تمام تر پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد کووڈ 19 یا اس کے علاج سے لاحق ہونے والی پیچیدگیوں کے امکانات اور مجموعی خطرات کا تعین کیا۔

    تجزیے میں ماضی کی طبی تحقیقی رپورٹس میں بتائی جانے والی متعدد پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کو سب سے عام قرار دیا گیا۔

    تحقیق کے مطابق درج ذیل پیچیدگیاں کووڈ 19 سے ٹھوس انداز سے منسلک ہوسکتی ہیں۔

    نظام تنفس کے مسائل، جیسے نمونیا، اکیوٹ ریسیپریٹری ڈس ٹریس سینڈروم (اے آر ڈی ایس)، اکیوٹ لوئر ریسیپریٹری انفیکشن، ریسیپریٹری فیلیئر، پھیپھڑوں کے پردے میں ہوا کا بھرجانا۔

    گردشی نظام کے مسائل، کارڈیک اریسٹ، اکیوٹ مائیو کار ڈائی ٹس (دل کے پٹھوں کا ورم)

    ہیماٹولوجک ڈس آرڈرز

    گردوں کے مسائل، اکیوٹ کڈنی فیلیئر

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل

    جو مسائل کووڈ 19 کے مریضوں میں سب سے عام ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

    نمونیا، یہ مجموعی طور پر 27.6 فیصد مریضوں میں دیکھا گیا اور آئی سی یو میں داخل افراد میں اس کی شرح 81 فیصد تھی۔

    ریسیپریٹری فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 22.6 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آیا اور آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد کو اس کا سامنا ہوا۔

    اکیوٹ کڈنی فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 11.8 فیصد کیسز جبکہ آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد میں نظر آنے والی پیچیدگی ہے۔

    سب سے زیادہ عام پیچیدگیوں میں وائرل نمونیا، ریسیپریٹری فیلیئر، عفونت، گردوں کے مسائل اور اے آر ڈی ایس شامل ہیں۔

    حیران کن طور پر اس تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ کووڈ 19 سے فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے، جس کا عندیہ ماضی کی تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا تھا۔

  • کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    گزشتہ ایک سال میں کووڈ 19 کی مختلف علامات سامنے آچکی ہیں، کچھ ماہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 کی مختلف علامات کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چند ماہ پہلے سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کے مائیکلسن سینٹرز کنورجنٹ سائنس انسٹیٹوٹ ان کینسر نے ایک تحقیق کی جس میں ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں سامنے آنے والی علامات کی ترتیب بیان کی تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی کون سی علامت پہلے نمودار ہوتی ہے اور کون سی بعد میں ہوتی ہے۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ان 55 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت نے چین میں 16 سے 24 فروری کے دوران اکٹھا کیا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی علامات دیگر امراض جیسے فلو سے ملتی جلتی ہیں مگر ان میں فرق پیدا کرنے والا عنصر علامات کی ترتیب ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار ہی ممکنہ طور پر وہ پہلی علامت ہے جو کووڈ 19 کے بالغ مریضوں میں سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

    محققین کے مطابق مریض کو 104 یا اس سے زیادہ کا بخار ہوسکتا ہے، مگر کئی مریضوں کو کبھی بخار کا سامنا ہی نہیں ہوتا، اس لیے دیگر علامات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار کے بعد کھانسی اور مسلز میں کھنچاؤ اور تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے، کھانسی عموماً خشک ہوتی ہے، جس میں بلغم نہیں بنتا، جس کے ساتھ جسم یا مسلز میں تکلیف کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کووڈ 19 کی روایتی علامات ہیں، مگر اس کے ساتھ نظام ہاضمہ کے مسائل کا سامنا بھی مریضوں کو ہوتا ہے، جیسے متلی اور قے۔

    عام طور پر لوگ ان علامات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور تحقیق کے مطابق نظام تنفس کی اوپری نالی کی علامات کے ساتھ ساتھ متعدد مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے، قے اور متلی جیسی شکایات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    عام طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہیضے کی علامت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔

    تاہم کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف مسائل جیسے تھکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے، اس کو جاننے کے لیے ابھی تحقیقی کام جاری ہے۔

    کووڈ 19 کی ایک اور عام علامت بھی ہے مگر انفرادی طور پر اس کا تجربہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔

    یعنی روایتی علامات بخار، کھانسی، قے اور سانس لینے میں مشکلات سے ہٹ کر اس مرض کی ایک سب سے غیر معمولی علامت چکھنے اور سونگھنے کی حس ختم ہوجانا ہے، جو نظام تنفس کی علامات سے پہلے بھی نمودار ہوسکتی ہے یا سب سے آخر میں بھی نظر آسکتی ہے۔

    فلو کے مریضوں کو کبھی اس علامت کا سامنا نہیں ہوتا اور اس طرح یہ کووڈ 19 کی ایک منفرد نشانی ہے۔

    یعنی اگر اوپر درج اکثر علامات کا سامنا ہو تو یہ کووڈ 19 کا اشارہ ہوسکتا ہے، جس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کروا لینا چاہیئے یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

  • کورونا وائرس کی وجہ سے ایک اور بیماری میں کمی

    کورونا وائرس کی وجہ سے ایک اور بیماری میں کمی

    کرونا وائرس نے دنیا بھر کو شدید طور پر متاثر کیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس کی وجہ سے رواں برس عام نزلہ زکام کی شرح میں حیرت انگیز کمی آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ دسمبر کے وسط میں دنیا کے بیشتر ممالک میں عام نزلہ زکام اور فلو عام ہوجاتا ہے مگر اس سال جب کووڈ 19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، متعدد موسمی بیماریوں کی شرح حیران کن حد تک کم ہے۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوان مختلف ممالک میں عارضی لاک ڈاؤن، فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری، ذاتی صفائی جیسی احتیاطی تدابیر پر عمل ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں نظام تنفس کی دیگر بیماریوں کی شرح پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

    سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس سال کے رجحانات سے انہیں ان امراض کے پھیلاؤ اور رویوں کے بارے میں نئی تفصیلات حاصل ہوسکیں گی۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے نیشنل سینٹر فار امیونزایشن اینڈ ریسیپٹری ڈیزیز کی وبائی امراض کی ماہر سونجا اولسن کے مطابق یہ نظام تنفس کے متعدد وائرسز کے لیے ایک قدرتی تحقیق جیسی ہوگی۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں سال میں جب متعدد ممالک میں کووڈ 19 کی پہلی لہر کی شدت میں کمی آرہی تھی اور اکثر مقامات پر سخت ترین لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا، اس وقت طبی عملے کو احساس ہوا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں فلو سیزن وقت سے پہلے تھم گیا۔

    اس کی جزوی وجہ تو یہ تھی کہ بہت کم افراد فلو کی شکایت کے ساتھ آرہے تھے، مگر بنیادی وجہ کرونا کی روک تھام کے لیے اپنائی جانے والی پالیسیوں جیسے سماجی دوری کا مؤثر ہونا تھا۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد فلو وائرس کے مثبت ٹیسٹوں کی شرح امریکا میں 98 فیصد تک کم ہوگئی تھی، جبکہ نمونوں کو جمع کرانے کی شرح میں 61 فیصد کمی آئی۔

    زمین کے جنوبی کرے میں جب موسم سرما کا آغاز ہوا تو وہاں بھی اپریل سے جولائی 2020 کے دوران فلو کے کیسز میں حیران کن کمی دیکھنے میں آئی، حالانکہ کووڈ 19 کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔

    آسٹریلیا، چلی اور جنوبی افریقہ میں 83 ہزار سے زیادہ ٹیسٹوں میں فلو کے محض 51 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

    وائرلوجسٹ رچرڈ ویبی کے مطابق کچھ جنوبی امریکی ممالک نے کووڈ 19 کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کچھ خاص کام نہیں کیا تھا مگر وہاں بھی فلو کی شرح کم رہی، میرا نہیں خیال یہ صرف فیس ماسک پہننے اور سماجی دوری سے ہوا۔

    ان کے خیال میں بین الاقوامی سفر میں کمی بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔

    فلو عام طور پر ہر سال مخصوس مہینوں میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے، جس کے حوالے سے پورے سال میں کچھ زیادہ احتیاط بھی نہیں کی جاتی، مگر لوگوں کی نقل و حمل اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتا ہے۔

    بیشتر ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ اس سال شمالی نصف کرے میں فلو سیزن زیادہ نہیں ہوگا اور یہ متعدد پہلوؤں سے اچھی خبر بھی ہے۔ بالخصوص اس سے مختلف ممالک کے طبی نظام پر بوجھ کم ہوگا۔

    مگر اس کے چند نقصانات بھی ہیں جیسے اگر اس سال فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہا تو 2021 کی فلو ویکسین کے لیے اس وائرس کی درست قسم کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا۔

    ماہرین کے خیال میں فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہنے سے اس وائرس کی کم عام اقسام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے ہمارے لیے منظرنامہ سادہ بھی ہوسکتا ہے۔

    مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ وائرل مسابقت نہ ہونے سے مستقبل میں سوائن فلو کی نئی اقسام ابھر سکتی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی دوسری لہر میں خطرناک شدت، لاہور کے اسپتالوں میں ہنگامی الرٹ جاری

    کرونا وائرس کی دوسری لہر میں خطرناک شدت، لاہور کے اسپتالوں میں ہنگامی الرٹ جاری

    لاہور: کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت کے باعث صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بڑے اسپتالوں کو ہنگامی الرٹ جاری کر کے تیار رہنے کی ہدایت کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت کے بعد محکمہ صحت پنجاب نے لاہور کے بڑے اسپتالوں کو ہنگامی الرٹ جاری کردیا۔

    پنجاب حکومت نے ایکسپو فیلڈ اسپتال کو دوبارہ فعال کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے، جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ایکسپو سینٹر کے ہال نمبر 2 کو کرونا مریضوں کے لیے فوری فعال کردیا جائے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکپسو فیلڈ اسپتال میں 300 بستروں پر ہائی ڈپنڈینسی یونٹ تیار کردیے گئے ہیں، آکسیجن کی کمی کا سامنے کرنے والے مریض فیلڈ اسپتال میں داخل ہوں گے۔

    صوبائی دارالحکومت لاہور کے 4 بڑے اسپتالوں کو بھی ہائی ڈپنڈینسی یونٹس اور آئی سی یو مکمل فعال رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ میو اسپتال، سروسز اسپتال، جناح اسپتال اور لاہور جنرل اسپتال کو کرونا کیسز کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے، ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے مزید 44 افراد انتقال کر گئے۔

    مزید 44 ہلاکتوں کے بعد ملک میں کرونا وائرس سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 8 ہزار 303 ہوچکی ہے۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کووڈ 19 کے مزید 3 ہزار 119 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک میں مجموعی کیسز کی تعداد 4 لاکھ 13 ہزار 191 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 52 ہزار 359 ہے، جبکہ صحت یاب افراد کی تعداد 3 لاکھ 52 ہزار 529 ہوگئی۔

  • سعودی عرب: کرونا وائرس ٹیسٹ کے حوالے سے اہم وضاحت

    سعودی عرب: کرونا وائرس ٹیسٹ کے حوالے سے اہم وضاحت

    ریاض: سعودی وزارت صحت نے کرونا وائرس ٹیسٹ کے حوالے سے اہم وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے وقت پر دو بار نہ جانے پر تیسری بار بکنگ دو ہفتے تک نہیں ملے گی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ٹیسٹ کے لیے مسلسل 2 بار اپائنٹمنٹ کینسل کرنے پر تیسری بار 14 دن کے بعد وقت حاصل کیا جا سکے گا۔

    ایک شخص کی جانب سے وزارت صحت سے کیے جانے والے استفسار پر کہا گیا ہے کہ وزارت کی ایپ صحتی کے ذریعے کرونا وائرس ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے وقت پر دو بار نہ جانے پر تیسری بار بکنگ دو ہفتے تک نہیں ملے گی۔

    وزارت صحت نے مزید کہا کہ کرونا ٹیسٹ کے لیے حاصل کی گئی بکنگ پر وقت مقررہ پر پہنچا جائے تاکہ جو وقت حاصل کیا گیا ہے اس کے مطابق ٹیسٹ کیا جا سکے۔

    وزارت صحت نے مزید کہا ہے کہ وزارت کے سینٹر تطمن اور تاکد کے ذریعے کیے جانے والے کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ سفر کرنے کے لیے پیش نہیں کی جا سکتی۔

    مذکورہ ٹیسٹ کی رپورٹ مرض کے حوالے سے اطلاع فراہم کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے ٹیسٹ کرانے والے کے موبائل پر ارسال کی جاتی ہے۔

    واضح رہے کہ وزارت صحت کی جانب سے کرونا وائرس ٹیسٹ کے لیے مملکت کے تمام شہروں میں اعلیٰ معیار کے ٹیسٹ سینٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں کرونا ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں۔

    ڈرائیو ان کے علاوہ سرکاری ڈسپینسریوں میں بھی اس کی سہولت موجود ہے۔ کرونا وائرس ٹیسٹ کی رپورٹ 2 دن کے اندر اندر موبائل پر ارسال کردی جاتی ہے۔

    ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں دوسرے دن وزارت صحت کی مرکزی کنٹرول روم سے ٹیلی فون پر مریض کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔

  • کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    لندن: کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اس کے اثرات اور نقصانات سامنے آرہے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایک اور تشویشناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو کئی ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔

    اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کر کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔ تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔

    نئی تکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بنا کر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا اسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔

    اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کوویڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر نئے اسکین سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصان کی شناخت ہوگئی تو یہ ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کے پیچھے چھپا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • نومولود کرونا وائرس کے خاتمے کی امید بن گیا

    نومولود کرونا وائرس کے خاتمے کی امید بن گیا

    سنگاپور میں ایک نومولود بچے میں کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز دریافت کی گئی ہیں، بچے کی ماں مارچ میں کرونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سنگا پور میں مارچ میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والی ایک حاملہ خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی ہے، جس میں کرونا وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی دیکھی گئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ماں سے بچے میں بیماری کی منتقلی کے حوالے سے نیا اشارہ ہے، بچے کی پیدائش نومبر میں ہوئی اور اسے کووڈ 19 سے پاک قرار دیا گیا مگر اس میں وائرس کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

    بچے کی ماں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ اینٹی باڈیز حمل کے دوران مجھ سے بچے میں منتقل ہوئیں۔

    مذکورہ خاتون رواں برس مارچ میں کرونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں، ان میں معمولی نوعیت کی علامات دیکھی گئیں تاہم حمل کے پیش نظر انہیں اسپتال میں داخل کرلیا گیا جہاں سے ڈھائی ہفتے بعد انہیں ڈسچارج کیا گیا۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں ہوسکی کہ کووڈ 19 سے متاثر ایک حاملہ خاتون وائرس کو حمل یا زچگی کے دوران بچے میں منتقل کرسکتی ہے یا نہیں۔

    رواں برس اکتوبر میں ایک طبی جریدے جاما پیڈیا ٹرکس میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے اپنی تحقیق میں بتایا تھا کہ ماں سے نومولود میں کرونا وائرس کی منتقلی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ نارمل ڈیلیوری، ماں کے دودھ پلانے یا پیدائش کے فوری بعد بچے کو ماں کے حوالے کرنے سے بھی وائرس کا خطرہ نہیں بڑھتا۔