Tag: کووڈ 19

  • کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    مختلف جسمانی بیماریاں اور جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی کووڈ 19 کا آسان شکار بنا سکتی ہے، حال ہی میں وٹامن ڈی کی کمی کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شامل تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی کرونا وائرس کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    اس تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 کی شدت اور موت کے خطرے کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی، اس مقصد کے لیے اپریل 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے طبی ریکارڈز کو حاصل کیا گیا۔

    ریکارڈ میں دیکھا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے 2 سال قبل ان کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کیا تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں کووڈ سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی مناسب سطح والے مریضوں میں کووڈ سے اموات کی شرح 2.3 فیصد تھی جبکہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار گروپ میں 25.6 فیصد ریکارڈ ہوئی۔

    تحقیق میں عمر، جنس، موسم (گرمی یا سردی)، دائمی امراض کو مدنظر رکھنے پر بھی یہی نتائج سامنے آئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح کو برقرار رکھنا کرونا وائرس کی وبا کے دوران فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، ڈاکٹر کے مشورے پر وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال معمول بنایا جانا چاہیئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا کے دوران مناسب مقدار میں وٹامن ڈی سے اس وبائی مرض کے خلاف زیادہ بہتر مدافعتی ردعمل کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسے شواہد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ مریض میں وٹامن ڈی کی کمی کووڈ 19 کے سنگین اثرات کی پیشگوئی ہوسکتی ہے۔

  • 2 سال سے وبا سے بچنے والا ملک بھی آخر کار اس کا شکار ہوگیا

    2 سال سے وبا سے بچنے والا ملک بھی آخر کار اس کا شکار ہوگیا

    کرونا وائرس نے دنیا کے تمام ممالک کو متاثر کیا ہے تاہم ایک ملک ایسا بھی تھا جو اب تک اس سے بچا ہوا تھا، تاہم اب اومیکرون نے اس ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    دو سال قبل جب دنیا میں کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو بحر الکاہل میں موجود کرِیباتی کے جزائر نے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ دو سال تک یہ وبا وہاں نہ پہنچ سکے۔

    کریِباتی میں حکام نے اس ماہ سے دوبارہ سرحدیں کھولنا شروع کیں جس کے بعد ملک کے 54 شہریوں کو واپس چارٹر جہاز میں لانے کا موقع ملا۔ ان افراد میں زیادہ تر مشنریز تھے جو سرحدیں بند ہونے سے قبل عیسائیت کی تبلیغ کے لیے کریباتی سے نکلے تھے۔

    حکام نے واپس آنے والے مسافروں کا فجی کے قریب تین بار کرونا وائرس ٹیسٹ کیا، ان کا ویکسی نیٹڈ ہونا ضروری تھا اور ان کو ملک پہنچنے پر قرنطینہ کے ساتھ اضافی ٹیسٹ سے بھی گزرنا پڑا۔

    لیکن یہ کافی نہیں تھا کیوں کہ نصف سے زائد مسافر کا کرونا ٹیسٹ مثبت تھا جو اب پھیل گیا ہے اور اس نے حکومت کو ملک میں ہنگامی صورتحال قرار دینے پر مجبور کیا۔

    ابتدا میں 36 مثبت کیسز جمعے تک پھیل کر 181 کیسز ہوگئے۔

    کریباتی اور بحر الکاہل کی متعدد دیگر چھوٹی اقوام وہ جگہیں ہیں جنہوں نے سختی سے سرحدوں کی بندش پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بڑی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکا، لیکن ان کی دفاع کی صلاحیت اومیکرون کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔

    ایک ڈیٹا کے مطابق کریباتی کی 1 لاکھ 13 ہزار کی آبادی کا صرف 33 فیصد مکمل ویکسین شدہ ہیں جبکہ 59 فیصد افراد نے ایک ڈوز لگوائی ہے۔

  • کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    گزشتہ 2 برسوں میں مختلف تحقیقات سے علم ہوا ہے کہ کووڈ 19 ہر عمر کے افراد کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، اب حال ہی میں حاملہ خواتین پر کی جانے والی تحقیق میں اس کے تشویش ناک نتائج سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق پیدائش کے نتائج پر کرونا کے اثرات کے بارے میں پہلی بڑی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ حاملہ خواتین کو زچگی اور نوزائیدہ بچوں میں سنگین پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں کرونا وائرس سے لاحق خطرات کا تعین کرنے کے لیے دنیا بھر کے 18 کم، متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک کے 43 میٹرنٹی اسپتالوں سے 21 سو حاملہ خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

    وائرس سے متاثرہ ہر خاتون کا موازنہ ایک ہی ہسپتال میں ایک ہی وقت میں جنم دینے والی 2 غیر متاثرہ حاملہ خواتین سے کیا گیا۔

    یو سی برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایک معاون محقق، رابرٹ گنیئر اور برکلے پبلک ہیلتھ کے ڈیٹا تجزیہ کار اسٹیفن راؤچ نے اس منصوبے کے شماریاتی تجزیے کی قیادت کی۔

    گونیئر نے کہا کہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر کرونا وائرس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ طبی ماہرین کو خطرات سے آگاہ کیا جا سکے اور حاملہ خواتین میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو کم کیا جا سکے۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ علامتی کرونا انفیکشن زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی پیچیدگیوں اور بیماری میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ منسلک تھا، یہ تجویز کرتا ہے کہ معالجین کو حاملہ خواتین کے ساتھ کرونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ حمل کے دوران کرونا سے متاثر ہونے والی خواتین میں قبل از وقت پیدائش، پری ایکلیمپسیا، انفیکشن، انتہائی نگہداشت میں داخل ہونے اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    جبکہ زچگی کے دوران اموات کی تعداد مجموعی طور پر کم رہی، حمل کے دوران اور بعد از پیدائش مرنے کا خطرہ غیر متاثرہ حاملہ لوگوں کے مقابلے کرونا سے متاثرہ خواتین میں 22 گنا زیادہ تھا۔

    متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ ایسے حالات جن میں نوزائیدہ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    تاہم، کرونا سے متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے صرف 12.9 فیصد شیر خوار بچے پیدائش کے بعد کرونا پازیٹیو پائے گئے، تاہم دودھ پلانے سے نوزائیدہ میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھتا دکھائی نہیں دیا۔

    گونیئر کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے، ہم نے دیکھا کہ کرونا پازیٹو خواتین جن میں وائرس کی علامات واضح نہیں تھیں، ان کے نتائج زیادہ تر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو کرونا نیگیٹو تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج میں صحت عامہ کے اقدامات کی تیاری کے دوران حاملہ خواتین کی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی ادویات کے پروفیسر اسٹیفن کینیڈی کا کہنا تھا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ ماؤں اور بچوں کے لیے خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو ہم نے وبائی امراض کے آغاز میں سوچے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ انفیکشن سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت اب واضح ہے، اس سے حاملہ خواتین کو ویکسی نیشن کی پیشکش کے معاملے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

  • اسلام آباد کچہری میں 15 ججز اور 58 اہلکار کرونا وائرس کا شکار

    اسلام آباد کچہری میں 15 ججز اور 58 اہلکار کرونا وائرس کا شکار

    اسلام آباد: اسلام آباد کچہری میں 15 ججز اور 58 اہلکار کرونا وائرس کا شکار ہوگئے جس کے بعد عدالتیں بند کردی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کچہری میں کرونا وائرس کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری میں 15 ججز کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے۔

    ضلع کچہری میں مختلف عدالتوں کے 58 اہلکار بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے۔

    کووڈ 19 میں مبتلا ججز کی عدالتیں آج کے لیے بند کر دی گئی ہیں، عدالتوں میں اسپرے کروایا جائے گا۔ عدالتی اہلکار جس عدالت میں کام کر رہے تھے وہاں بھی اسپرے ہوگا۔

    ضلع کچہری ویسٹ کورٹس میں 10 ججز اور 29 اہلکار کرونا وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ ایسٹ کورٹس میں 5 ججز اور 29 اہلکار کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 7 ہزار 678 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 13 لاکھ 53 ہزار 479 ہوگئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 12.93 فیصد رہی۔

  • وزیر خزانہ شوکت ترین کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    وزیر خزانہ شوکت ترین کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    اسلام آباد: پاکستان میں کرونا وائرس خطرناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے، وزیر خزانہ اور سینیٹر شوکت ترین بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ اور سینیٹر شوکت ترین کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے، ذرائع کا کہنا ہے کہ شوکت ترین نے خود کو قرنطینہ کرلیا ہے۔

    وزیر خزانہ کے کووڈ 19 کی رپورٹ مثبت آنے کے بعد ان کی صدارت میں آج ہونے والا اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا۔

    یاد رہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی دوسری بار کرونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق شہباز شریف کا دوسری بار کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے جس کے بعد انہوں نے خود کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے۔

    اس سے قل 13 جنوری کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی کووڈ 19 کی رپورٹ مثبت آنے کا اعلان کیا تھا جبکہ صدر عارف علوی بھی دوسری مرتبہ کوویڈ 19 کا شکار ہوچکے ہیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس خطرناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے، نیشنل کمانڈ ایںڈ آپریشن سینٹر کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک بھر میں کووڈ 19 کے 5 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 9.48 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونا بھی خطرے سے خالی نہیں

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونا بھی خطرے سے خالی نہیں

    کووڈ 19 کا مرض مختلف عمر کے افراد پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے، اب اسی حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے درمیانی عمر یا معمر مریضوں کی جسمانی نقل و حرکت اور افعال پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    کینیڈا کی لونگی ٹیوڈنل اسٹڈی آن ایجنگ میں 24 ہزار 114 معمر اور درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لیا گیا جنہیں کووڈ 19 ہوا تھا، بیشتر افراد میں کووڈ کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا مگر ان پر بیماری کے بعد منفی اثرات کا تسلسل برقرار رہا۔

    تحقیق میں بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے معمولی یا معتدل حد تک بیمار ہونے والے افراد کو بھی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے حالانکہ ان کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑی تھی۔

    ان افراد کے ابتدائی گروپ میں شامل لگ بھگ 42 فیصد کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ تھی اور 51 فیصد خواتین تھیں۔

    ان افراد کی نقل و حرکت کو 3 جسمانی مشقوں سے جانچا گیا، جیسے ایک کرسی پر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے، گھریلو کاموں میں شمولیت اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد افراد کو ایروبک سرگرمیوں میں نمایاں چیلنجز کا سامنا کرتے دیکھا، دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ دیگر سخت سرگرمیاں جیسے بھاری وزن اٹھانے کے قابل تھے، مگر عام سرگرمیاں ان کے لیے مشکل ہوگئیں، یعنی کچھ دیر تک چلنا، سیڑھیاں چڑھنا یا سائیکل چلانا وغیرہ۔

    انہوں نے کہا کہ جسمانی نقل و حرکت پر یہ منفی اثرات محض عمر میں اضافے کا اثر نہیں تھے کیونکہ وہ دیگر کام کرنے کے قابل تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے نقل و حرکت کے مسائل مسلز، جوڑوں اور اعصاب پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جبکہ لوگوں کو وزن منتقل کرنے، توازن اور اپنے بل پر چہل قدمی میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے اس طرح کے طویل المعیاد اثرات سے متاثر افراد کو زیادہ لمبے عرصے تک نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ طبی امداد کے بغیر سنگین کیسز میں مریضوں کو تھکاوٹ، ماحول سے کٹ جانے اور مسلز کے حجم میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے، جبکہ کم شدت والے کیسز میں لوگ اپنے بل پر ریکور ہوسکتے ہیں مگر طبی امداد کے بغیر اس میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • کووڈ سے متاثرہ افراد کو نئی قسم سے کتنا خطرہ ہے؟

    کووڈ سے متاثرہ افراد کو نئی قسم سے کتنا خطرہ ہے؟

    اب تک کرونا وائرس کی کسی ایک قسم سے متاثر افراد دوسری قسم کے سامنے آنے کے بعد اس کے کم خطرے کا شکار رہتے تھے، تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون کے حوالے سے ایسا نہیں ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جنوبی افریقہ کے ایک ممتاز سائنسدان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی پرانی اقسام سے متاثر ہونے والے افراد کو بظاہر اومیکرون سے تحفظ نہیں ملتا، مگر ویکسی نیشن سے بیماری کی سنگین شدت کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    نیشنل انسٹیٹوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی) کے ماہر این وون گوتھبرگ نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ سابقہ بیماری سے متاثر افراد کو اومیکرون سے تحفظ نہیں ملتا۔

    کرونا کی نئی قسم کے حوالے سے ابتدائی تحقیق کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اومیکرون کے باعث لوگوں میں دوسری بار کووڈ کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے افریقہ میں حکام کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران این وون نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ کیسز کی تعداد میں ملک کے تمام صوبوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگا مگر ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت سے اب بھی تحفظ ملے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ویکسینز سے ہمیشہ بیماری کی زیادہ شدت، اسپتال میں داخلے اور موت کے خطرے سے تحفظ ملتا ہے۔

    جنوبی افریقہ نے ہی سب سے پہلے کرونا کی نئی قسم کو رپورٹ کیا تھا اور چند دنوں میں ہی دنیا کے متعدد ممالک تک پھیل چکی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہر امبروز ٹیلیسونا نے اس موقع پر کہا کہ افریقہ کے جنوبی حصوں کے لیے سفری پابندیوں پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے، کیونکہ اومیکرون کے کیسز 2 درجن ممالک میں رپورٹ ہوچکے ہیں اور ان کے ذرائع واضح نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی افریقہ اور بوٹسوانا نے کرونا کی اس نئی قسم کو شناخت کیا، ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا ماخذ کہاں ہے، محض رپورٹنگ پر لوگوں کو سزا دینا غیر منصفانہ ہے۔

  • کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ 19 ویکسین کی بوسٹر ڈوز کو اس مرض سے بچاؤ کے لیے اہم خیال کیا جارہا ہے اور اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 ویکسینز کی بوسٹر ڈوز ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس اور طویل المعیاد تحفظ کو متحرک کرتی ہے۔

    نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسی نیشن مکمل کروانے والے ایسے افراد میں بوسٹر ڈوز کا ردعمل زیادہ بہترین ہوتا ہے جو ماضی میں کووڈ کو شکست دے چکے ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ اینٹی باڈی لیول بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بوسٹر ڈوز سے ہمیں ویکسین کی ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک تحفظ ملتا ہے۔

    اس تحقیق میں 33 صحت مند ایسے جوان افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی۔ ان افراد کی اوسط عمر 43 سال تھی یعنی نصف درمیانی عمر جبکہ باقی جوان تھے۔

    تحقیق کے لیے ان افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی 2 خوراکوں کے استعمال کے 9 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 10 گنا کمی آچکی تھی۔

    مگر بوسٹر ڈوز کے استعمال کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 25 گنا اضافہ ہوا اور یہ تعداد ابتدائی 2 خوراکوں کے بعد بننے والی اینٹی باڈیز سے 5 گنا سے زیادہ تھی۔

    مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں بوسٹر ڈوز کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 50 گنا اضافہ ہوا۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تو انہیں ابتدائی نتائج تصور کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ بوسٹر ڈوز سے ڈیلٹا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی بڑھ گئی، مگر یہ ردعمل وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اس سے بھی زیادہ تھوس ہوتا ہے، کیونکہ وہ ویکسینز کا بنیادی ہدف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج ان افراد کے لیے اہم ہیں جو بوسٹر شاٹ کے استعمال پر غور کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایم آر این اے ویکسینز سے کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے خلاف زیادہ تحفظ ملتا ہے، مگر یہ اثر وقت کے ساتھ کم ہونے لگتا ہے بالخصوص ان اینٹی باڈیز کی سطح میں جو بیماری کی روک تھام کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھ رہے ہیں بالخصوص اس وقت جب زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے پھیل رہی ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی تعداد کم تھی مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ بڑی آبادی میں بھی یہی اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔

  • کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    اکثر افراد کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار ہوجانے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آگئی ہے۔

    امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اسے شکست دینے والے افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح لوگوں میں نمایاں حد تک مختلف ہوسکتی ہے اور اکثر کیسز میں یہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی جو لوگوں کو دوبارہ بیمار ہونے سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    تحقیق میں کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا کرنے والے بالغ افراد میں صحت یابی کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30 سال سے کم عمر افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہر ایک بالخصوص 30 سال سے کم عمر افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی ویکسینیشن کروا لینی چاہیئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم ایسے متعدد افراد کو جانتے ہیں جو سوچتے ہیں کہ ہمیں کووڈ کا سامنا ہوچکا ہے تو اب ویکسین کی ضرورت نہیں، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں بالخصوص جوان افراد میں بیماری کے بعد اینٹی باڈی یادداشت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔

    اس تحقیق میں 19 سے 79 سال کی عمر کے 173 افراد کے مدافعتی ردعمل کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی گئی اور محققین نے دریافت کیا کہ کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ جبکہ کچھ میں بہت کم تھی۔

    زیادہ اینٹی باڈیز والے نمونے کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ کم سطح والے نمونے ایسا نہیں کرسکے۔

    مگر تحقیق میں اس سطح کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی جو کووڈ 19 سے دوبارہ بچانے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس میں یہ دیکھا گیا کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی میں بیماری کا امکان ہوتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد ایسے افراد کو دیکھا ہے جو ایک بار بیمار ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر کو چھوڑ دیتے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 اور قدرتی مدافعت کے حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں جیسے کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ اور دیگر میں کم کیوں ہوتی ہے، ری انفیکشن سے بچانے کے لیے اینٹی باڈیز کی سطح کتنی ہونی چاہیئے یا قدرتی مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔