Tag: کووڈ 19

  • فیس ماسک کووڈ 19 سے بچانے کے لیے مؤثر ترین

    فیس ماسک کووڈ 19 سے بچانے کے لیے مؤثر ترین

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ فیس ماسک کا استعمال کرنے سے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ 53 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    اس نئے جامع تجزیے میں کووڈ سے بچاؤ کے لیے مؤثر سمجھی جانے والی احتیاطی تدابیر بشمول فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہاتھ دھونے سے بیماری سے تحفظ کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہاتھ دھونا تمام کووڈ کیسز کی شرح میں کمی کے لیے مؤثر اقدامات ہیں، مگر فیس ماسک سب سے زیادہ مؤثر ہے۔

    آسٹریلیا، چین اور برطانیہ کے طبی ماہرین پر مشتمل ٹیم نے وبا کے دوران اپنائی جانے والی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ہونے والی 72 تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال کی۔

    بعد ازاں انہوں نے ایسی 8 تحقیقی رپورٹس کو بھی دیکھا جن میں ہاتھ دھونے، فیس ماسک پہننے اور سماجی دوری پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

    فیس ماسک کے حوالے سے ہونے والی 6 تحقیقی رپورٹس میں ماہرین نے کووڈ کیسز کی شرح میں 53 فیصد کو دریافت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال کرونا وائرس کے پھیلاؤ، کیسز اور اموات کی شرح میں کمی لاتا ہے۔

    200 ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا وہاں کووڈ 19 کے منفی اثرات میں لگ بھگ 46 فیصد کمی آئی۔

    امریکا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ ان ریاستوں میں 29 فیصد گھٹ گیا جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا تھا۔

    سماجی دوری کے حوالے سے 5 تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال سے ماہرین نے دریافت کیا کہ اس احتیاطی قدم سے کووڈ 19 کی شرح میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    اسی طرح ہاتھ دھونے سے بھی کووڈ کیسز میں 53 فیصد کمی کو دریافت کیا گیا، مگر نتائج کو اس لیے اہم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس کی تعداد کم تھی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج اب تک ہونے والے تحقیقی کام سے مطابقت رکھتے ہیں یعنی فیس ماسک کا استعمال اور سماجی دوری وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم کرتا ہے۔

    مگر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر اس وقت جب ویکسینز دستیاب ہیں اور کرونا کی زیادہ متعدی اقسام بھی عام ہورہی ہیں۔

  • نیدر لینڈز میں کرونا پابندیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرہ

    نیدر لینڈز میں کرونا پابندیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرہ

    نیدر لینڈز میں کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کے پیش نظر حکومت نے پابندیاں عائد کردیں جن کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے، احتجاج پرتشدد رنگ اختیار کرگیا جس کے بعد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس کی کاروں کو نذر آتش بھی کر دیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق روٹرڈیم میں ہونے والے مظاہرے کے دوران پولیس نے وارننگ شاٹس داغے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہرے کے دوران گولیاں چلنے سے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک شخص کو گولی لگنے کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس شخص کو کس نے اور کس طرح گولی ماری۔

    پولیس کے مطابق روٹرڈیم شہر کے مرکز میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں اور کثیر تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے۔ درجن بھر مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور مزید لوگوں کی گرفتاری باقی ہے۔

    پتھراؤ کی وجہ سے پولیس افسران سمیت 7 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مظاہرین کے آگ لگانے کے بعد شہر کے اہم ریلوے اسٹیشنز کو بند کرنا پڑا۔

    دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے بعد کرونا پاس صرف ان لوگوں کو مل سکے گا جو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگا چکے ہوں۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے معمر افراد کو اس بیماری سے شدید خطرہ رہا ہے، اب ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ دریافت کرلیا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ان خلیاتی اور مالیکیولر سرگرمیوں کی وضاحت کی گئی جن کے باعث معمر افراد میں کووڈ 19 لاحق ہونے اور اس سے سنگین طور پر بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایک پروٹین کی سطح میں عمر بڑھنے اور دائمی امراض میں مبتلا ہونے پر اضافہ ہوتا ہے، اس پروٹین کی سطح جتنی زیادہ ہوتی ہے ان میں کووڈ سے متاثر ہونے اور سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے نہ صرف کرونا وائرس کے پیچیدہ میکنزمز کے جواب ملے ہیں بلکہ اس سے وائرل انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے علاج کی تشکیل میں مدد بھی مل سکے گی۔

    تحقیقی ٹیم کی جانب سے انزائمے اور انزائم جیسے مالیکیولز اور اس جیسے پروٹینز پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ٹیم کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کافی عرصے سے اس جین فیملی پر تحقیق کر رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ متعدد حیاتیاتی اثرات مرتب کرتا ہے، یہ صحت اور امراض کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس پروٹین کی سطح انفیکشن کے دوران بڑھ جاتی ہے بالخصوص ایسے امراض کے دوران جو ورم اور ٹشوز میں تبدیلیاں لاتے ہیں، یہ سب کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھی قدرتی طور پر اس پروٹین کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث ان میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ پروٹین ایس 2 ریسیپٹر کو بھی متحرک کرتا ہے جس کو کرونا وائرس خلیوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    اس دریافت کے بعد ماہرین نے ایک مونوکلونل اینٹی باڈی ایف آر جی کو تیار کیا جو مخصوص حصے میں اس پروٹین کو ہدف بناتی۔ ماہرین کے مطابق یہ اینٹی باڈی اور ایک مالیکیول ایس 2 ریسیپٹر کو بلاک کرنے میں مؤثر ثابت ہوئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس طرح وائرس میزبان کے نظام میں داخل نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں بیماری کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ اب یہ تحقیقی ٹیم یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اینٹی باڈیز اور مالیکیولز کرونا وائرس کی مختلف اقسام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    برطانوی ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت کیا ہے، یہ جین 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے انسانی جسم کے اندر ایک ایسے جین کو دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے مریضوں کی موت اور پھیپھڑوں کے افعال فیل ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کیوں کچھ افراد میں دیگر کے مقابلے میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جین کا یہ ورژن کروموسوم کے خطے میں ہوتا ہے جو 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مخصوص جین ایل زی ٹی ایف ایل 1 دیگر جینز کی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور وائرسز کے خلاف پھیپھڑوں کے خلیات کے ردعمل کے عمل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔

    جین کی یہ قسم سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیات میں وائرس کو جکڑنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جین مدافعتی نظام پر اثرات مرتب نہیں کرتا جو بیماریوں سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کا کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں ویکسینز کا ردعمل معمول کا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خلاف پھیپھڑوں کا ردعمل انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر طریقہ علاج میں وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل بدلنے میں توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر راغب علی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر ہیں مگر جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں بیماری سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر سائمن بیڈی نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں اس جین کے ممکنہ کردار کے حوالے سے مناسب شواہد دیے گئے ہیں مگر اس دریافت کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ویکسین کی افادیت کم ہوتی دکھائی دی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ میو قسم، ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم میو ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ساتو کے کی زیر قیادت گروپ نے اپنی تحقیق دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کی ہے۔

    ماہرین نے میو کی خصوصیات کا حامل ایک وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا اور فائزر بیون ٹیک ویکسین لگوا چکنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کے خلاف اس کی حساسیت کا جائزہ لیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ تبدیل شدہ وائرس میو، اصل وائرس کے مقابلے میں ان کے خلاف 9.1 گنا زیادہ مزاحم تھا، گویا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اس کے خلاف کم مؤثر تھیں۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اینٹی باڈی بنانے کے علاوہ بھی مختلف اثرات ہوتے ہیں، اور ویکسین کی تاثیر کم ہونے کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 کی وبا کو 2 سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے، ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔

    انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔

  • بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو انڈونیشیا میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نووا ویکس اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو پہلے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا میں ان کی کووڈ 19 ویکسین کو استعمال کی منظوری حاصل ہوئی۔

    خیال رہے کہ نووا ویکس کی جانب سے برطانیہ، بھارت، آسٹریلیا، فلپائن اور یورپین میڈیسن ایجنسی کے پاس بھی ویکسین کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں۔

    انڈونیشیا میں یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کر کے کوو ویکس کے نام سے فراہم کی جائے گی، نووا ویکس نے بتایا کہ انڈونیشیا کو ویکسین کی پہلی کھیپ جلد فراہم کردی جائے گی۔

    انڈونیشین حکومت کے مطابق پروٹین پر مبنی ویکسین کی 2 کروڑ خوراکیں 2021 میں موصول ہوں گی۔

    نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ نے ایک ارب 10 خوراکیں عالمی ادارہ صحت کے زیر تحت کام کرنے والے ادارے کوو ویکس کو فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

    ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے بعد 2021 میں ہی شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ 2022 میں بھی جاری رہے گا۔

    گزشتہ ماہ نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے عالمی ادارہ صحت میں اس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔

    اس کا مقصد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اس ویکسین کو فراہم کرنا ہے کیونکہ امریکا اور یورپ میں پہلے ہی فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کو عام استعمال کیا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ ویکسین کے انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی اوریجنل قسم سے ہونے والی بیماری سے 96 فیصد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    امریکا اور میکسیکو میں 30 ہزار افراد پر آخری مرحلے کے ٹرائل کے ڈیٹا کے مطابق این وی ایکس کو وی 2373 نامی یہ ویکسین بیماری کی معتدل اور سنگین شدت سے 100 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ اس کی مجموعی افادیت 90.4 فیصد ہے۔

  • کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کووڈ 19 کی ویکسی نیشن اس بیماری سے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم اب ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ویکسی نیشن کے کچھ ماہ بعد اس کی افادیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے خلاف ہر عمر کے افراد میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد بننے والی مدافعت چند ماہ میں گھٹ جاتی ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اسرائیل میں 11 سے 31 جولائی کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اسرائیل کے تمام شہریوں کی فائزر سے ویکسی نیشن جون 2021 سے مکمل ہوگئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے افراد جن کی ویکسی نیشن جنوری 2021 میں ہوئی تھی، ان میں کووڈ کا خطرہ مارچ میں ویکسی نیشن کرانے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح 2021 کے آغاز میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں مارچ یا اپریل میں ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں بیماری کا خطرہ زیادہ دریافت ہوا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2021 کے آغاز میں مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے بیماری کے خلاف ملنے والے تحفظ کی شرح ویکسی نیشن مکمل ہونے کے 2 ماہ بعد گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، تاہم بیماری کی سنگین شدت، اسپتال میں داخلے اور اموات کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    کووڈ 19 کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے مختلف دواؤں کا استعمال کروایا جارہا ہے، اب حال ہی میں ایک اور دوا اس وبائی مرض کے خلاف مددگار ثابت ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور اضطراب وغیرہ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک سستی دوا کووڈ 19 کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد میں اسپتال میں داخلے اور سنگین پیچیدگیوں کا امکان کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    ایک بڑے کلینکل ٹرائل کے نتائج میں پتہ چلا کہ فلوووکسامائن نامی دوا اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی) کے علاج کے لیے لگ بھگ 30 سال سے تجویز کی جارہی ہے، مگر ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس دوا کے انتخاب کی وجہ اس دوا کی ورم کم کرنے کی صلاحیت ہے۔

    کینیڈا، امریکا اور برازیل کے ماہرین کے گروپ کی اس تحقیق کے نتائج یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سے شیئر کیے گئے اور عالمی ادارہ صحت سے بھی اسے تجویز کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے اس دوا کو تجویز کیا تو اس کا زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکے گا۔

    کووڈ 19 کے علاج کے لیے اس کے ایک کورس کی لاگت 4 ڈالرز ہوگی جبکہ اینٹی باڈی 4 ٹریٹ منٹس کی لاگت 2 ہزار ڈالرز جبکہ مرسک کی تجرباتی اینٹی وائرل دوا کا ایک کورس 700 ڈالرز کا ہوگا۔

    فلوووکسامائن کی آزمائش لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برازیلین افراد پر کی گئی تھی جن میں حال ہی میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس کے باعث ان میں بیماری کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ تھا۔

    ان میں سے نصف کو گھر میں 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا جبکہ باقی افراد کو ڈمی دوا کھلائی گئی۔ ان کا جائزہ 4 ہفتوں تک لیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کن مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا یا ایمرجنسی روم کا رخ کرنا پڑا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال کرنے والے گروپ کے 11 فیصد افراد کو اسپتال یا ایمرجنسی روم میں قیام کرنا پڑا جبکہ یہ شرح ڈمی دوا استعمال کرنے والوں میں 16 فیصد تھی۔

    نتائج اتنے ٹھوس تھے کہ اس تحقیق سے منسلک خودم ختار ماہرین نے اس پر کام جلد روکنے کا مشورہ دیا کیونکہ نتائج واضح تھے۔ ابھی خوراک کی مقدار کے تعین، کوووڈ کی پیچیدگیوں کے کم خطرے سے دو چار افراد کے لیے اس کے فوائد جیسے سوالات ابھی باقی ہیں۔

    اس ٹرائل میں 8 موجودہ ادویات کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی جن میں سے ہیپاٹائٹس سی کی ایک دوا پر کام ابھی بھی جاری ہے، اس ٹرائل کے نتائج طبی جریدے جرنل لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔