Tag: کووڈ 19

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    لانگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے مسائل
    بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کرونا ویکسی نیشن: ڈیلٹا وائرس سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم

    کرونا ویکسی نیشن: ڈیلٹا وائرس سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم

    دنیا بھر میں کووڈ 19 کے خلاف ویکسی نیشن جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ویکسی نیشن کروانے سے کرونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم ڈیلٹا سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ویکسی نیشن سے کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر موت کا خطرہ 90 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی جانب سے جاری ڈیٹا کے لیے پورے اسکاٹ لینڈ میں کووڈ سرویلنس ٹول کو استعمال کیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈیلٹا سے موت کا خطرہ کم کرنے کے لیے فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین 90 فیصد جبکہ ایسٹرا زینیکا ویکسین 91 فیصد تک مؤثر ہے۔

    تحقیق کے لیے ان افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی مگر بعد ازاں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت ہوا کہ پورے ملک میں ویکسی نیشن کرونا کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہونے پر موت سے بچانے کے لیے کس حد تک مؤثر ہے۔

    اس تحقیق میں یکم اپریل سے 27 ستمبر کے دوران اسکاٹ لینڈ کے 54 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 15 ہزار افراد میں کووڈ 19 کی تصدیق پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے ہوئی اور 201 مریض ہلاک ہوئے۔

    ڈیٹا کے مطابق اس عرصے میں اسکاٹ لینڈ میں موڈرنا ویکسی نیشن کرانے والے کوئی فرد کووڈ کے باعث ہلاک نہیں ہوا، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے کووڈ سے موت کی روک تھام کے حوالے سے موڈرنا کی افادیت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔

    اب تک اسکاٹ لینڈ میں 87.1 فیصد بالغ افراد کی کووڈ ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے اور 50 سال سے زائد عمر کے تمام افراد کو تیسری خوراک فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جبکہ طبی عملے اور مختلف طبی مسائل کے شکار جوان افراد کو بھی بوسٹر ڈوز فراہم کیا جائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ دنیا کے متعدد مقامات میں ڈیلٹا قسم کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے اور سابقہ اقسام کے مقابلے میں یہ قسم اسپتال میں داخلے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، تو نتائج سے یہ یقین دہانی خوش آئند ہے کہ ویکسی نیشن موت سے بچانے کے لیے کتنی مؤثر ہے۔

  • 10 منٹ میں کووڈ 19 کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ تیار

    10 منٹ میں کووڈ 19 کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ تیار

    بیجنگ: چین کے طبی و سائنسی ماہرین نے ایسا ٹیسٹ تیار کرلیا جو 10 منٹ میں کووڈ 19 کی تشخیص کرسکے گا، اس ٹیسٹ کی لاگت بھی خاصی کم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین کے سائنسدانوں نے 10 منٹ میں کووڈ 19 کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ تیار کرلیا ہے۔ پیکانگ یونیورسٹی کے کالج آف انوائرمنٹل سائنسز اینڈ انجنیئرنگ کے ماہرین نے سانس کے ذریعے کووڈ 19 کی تشخیص کرنے والے اس ٹیسٹ کو تیار کیا۔

    یہ ٹیسٹ ان افراد کے لیے مددگار ثابت ہوگا جو پی آر ٹیسٹ یعنی حلق یا نتھنوں سے نمونے اکٹھے کرنے والے طریقہ کار سے گھبراتے ہیں جبکہ اس سے وقت کی بھی بچت ہوگی۔ اس ٹیسٹ کے لیے کسی فرد کو ایک بیگ میں 30 سیکنڈ تک سانس کو خارج کرنا ہوگا جبکہ 5 سے 10 منٹ تجزیے کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ بہت زیادہ مستند ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں، صحت مند افراد اور نظام تنفس کے دیگر امراض سے متاثر افراد کو الگ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    اس تحقیق میں کووڈ 19 کے 74 مریضوں، نظام تنفس کے دیگر امراض سے متاثر 30 افراد اور 87 صحت مند لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 اور سانس کے دیگر امراض کے شکار افراد کی سانس میں پرو پانول کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جبکہ کووڈ کے مریضوں میں سانس میں بننے والے ایسیٹون کی سطح دیگر امراض کے شکار افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    12 مرکبات کی بنیاد پر محققین نے ایک الگورتھم تیار کیا اور ماہرین کے مطابق ٹیسٹ کی افادیت 91 سے 100 فیصد تک دریافت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے لیے کسی قسم کے جز یا مرکب کی ضرورت نہیں اور یہ ٹیسٹ سستا بھی ہے۔

    اس کی لاگت 10 یو آن ہے جبکہ چین میں پی سی آر ٹیسٹ کی قمت 80 یو آن ہے۔

    ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ٹیسٹ ایسے افراد میں بھی کووڈ 19 کو شناخت کرسکتا ہے جن کا پی سی آر ٹیسٹ نیگیٹو رہا ہو جبکہ بغیر علامات والے مریض اور علامات سے قبل کے مرحلے والے مریضوں میں بھی بیماری کی جلد تشخیص ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کو متعدد منظر ناموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے بیجنگ ونٹر اولمپکس میں۔ مگر انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ چین میں کووڈ کے کیسز کی تعداد زیادہ نہیں اور اس ٹیکنالوجی کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔

  • کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے اس سے ملتے جلتے وائرسز سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس ویکسینز تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں، تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

    کرونا وائرسز کی 3 بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس کوو 1، سارس کوو 2 (کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے، مگر اس سے ہٹ کر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔

    تحقیق میں کووڈ 19 ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد کے پلازما پر جانچ پڑتال کی گئی۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو 1 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے بھی دیگر اقسام سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ 19 ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ ملا جو زیادہ ٹھوس نہیں تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی اقسام 70 فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی وضاحت ہوتی ہے، اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا وائرس ویکسین کے تصور کی دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔

  • ایک اور دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    ایک اور دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے مختلف ادویات کا استعمال کیا جارہا ہے جو کووڈ 19 کی مختلف علامات کا علاج کرتی ہیں، اب حال ہی میں ایک اور دوا کے کووڈ 19 کے خلاف مددگار ثابت ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے والی دوا اسٹیٹنز کا استعمال کرنے والے افراد میں کووڈ 19 سے بیمار ہونے پر موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے کے لیے یہ دوا دنیا کی مقبول ترین ادویات میں سے ایک ہے جو خون کی شریانوں کا ورم بھی کم کرتی ہے، جس کے باعث ہی یہ خیال سامنے آیا تھا کہ یہ کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    سوئیڈن کے کیرولینیسکا انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں سوئیڈش رجسٹرز کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا جو مارچ سے نومبر 2020 تک اسٹاک ہوم کے 45 سال سے زیادہ عمر کے 9 لاکھ 63 ہزار سے زیادہ شہریوں پر مشتمل تھا۔

    نتائج کی بنیاد لوگوں کو تجویز کردہ ادویات، طبی سہولیات اور موت کی وجوہات کا دستیاب ڈیٹا تھی۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور خون میں چکنائی کی زیادہ مقدار کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اسٹیٹنز کا استعمال جاری رکھنا چاہیئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ اور اس دوا کے درمیان تعلق کے حوالے سے کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اسٹیٹنز کے استعمال سے کووڈ 19 سے موت کا خطرہ کچھ حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اسٹیٹنز سے کووڈ 19 سے ہلاکت کے خطرے میں کسی حد تک کمی آتی ہے مگر اس تعلق کی تصدیق کے لیے کنٹرول ٹرائلز کی ضرورت ہوگی۔

    یہ تحقیق ایک پہلو سے محدود تھی جس میں ادویات کے تجویز کردہ ڈیٹا کو استعمال کیا گیا مگر لوگوں میں دوا کے استعمال کی شرح پر کام نہیں ہوا۔

  • کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کرونا وائرس سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو بالکل ویسے ہی پھیلا سکتے ہیں جیسے کووڈ 19 سے متاثرہ کوئی بالغ شخص۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بچے کووڈ 19 سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو آگے بالغ افراد کی طرح ہی پھیلا سکتے ہیں۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل، برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل اور ریگن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں سابقہ نتائج کی تصدیق کی گئی کہ نومولود بچے، چھوٹے اور بڑے بچوں کے نظام تنفس میں کرونا وائرس کی تعداد بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے اور ان کے جسموں میں اسی شرح سے وائرس کی نقول بنتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 2 ہفتے سے 21 سال کی عمر کے 110 بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے بچوں میں چاہے ان میں بیماری کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں، وائرل لوڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سوال پہلے سے موجود تھا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور زندہ وائرس کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب ٹھوس جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں کہ یہ زیادہ وائرل لوڈ متعدی ہوتا ہے یعنی بچے بہت آسانی سے کووڈ 19 کو اپنے ارگرد پھیلا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر بچے اس وائرس کو جسم میں لے کر پھر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طالب علم اور اساتذہ اب اسکول لوٹ رہے ہیں مگر اب بھی بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے، جیسے
    بیشتر بچوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے یہ غلط خیال پیدا ہوا کہ بچوں سے اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کے وائرل فیچرز کی جانچ پڑتال سے زیادہ بہتر پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

  • 24 گھنٹے میں کووڈ 19 سے سینکڑوں مریض جاں بحق

    24 گھنٹے میں کووڈ 19 سے سینکڑوں مریض جاں بحق

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی یومیہ تعداد 600 ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران کووڈ 19 کے 18 مریض جاں بحق ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 18 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 152 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 689 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 59 ہزار 648 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 89 ہزار 742 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 42 ہزار 476 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 99 لاکھ 53 ہزار 497 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 1.62 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 2 ہزار 280 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 6 کروڑ 44 لاکھ 63 ہزار 928 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 3 کروڑ 42 لاکھ 99 ہزار 139 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بند جگہ پر فیس ماسک کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چار دیواری کے اندر فیس ماسک کے استعمال کے بغیر 2 میٹر کی سماجی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    میک گل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ چار دیواری کے اندر فیس ماسک کا استعمال ہوا میں موجود وائرل ذرات سے بیمار ہونے کا خطرہ 67 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ فیس ماسک کا استعمال اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام کرونا وائرس کی زیادہ معتدل اقسام کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب موسم سرما کا آغاز ہورہا ہے اور فلو سیزن بھی شروع ہونے والا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ چار دیواری کے اندر 2 میٹر کی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کافی نہیں اور اس صورت میں جب وہ کوئی دفتر یا ایسا مقام ہو جہاں لوگ کچھ وقت کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مقامات جہاں لوگوں نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا ہوتا وہاں 70 فیصد سے زیادہ وائرل ذرات 30 سیکنڈ کے اندر 2 میٹر سے زیادہ دور پھیل جاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں فیس ماسک کا استعمال کیا گیا تو ایک فیصد سے بھی کم وائرل ذرات 2 میٹر سے زیادہ دور جاتے ہیں۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے سیال اور گیسوں کے بہاؤ کی جانچ پڑتال کے لیے ماڈلز کا استعمال کر کے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا جو چار دیواری کے اندر کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ذرات کی دوری کی پیمائش کرسکے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ہوا کی نکاسی، فرد کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا انداز اور فیس ماسک پہننے سے وائرل ذرات کے پھیلاؤ کی روک تھام میں نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔

    کھانسی کو ہوا کے ذریعے پھیلنے والے وائرسز کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے اور محققین کے مطابق تحقیق سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وائرل ذرات کسی ذریعے سے کیسے اپنے ارگرد پھیلتے ہیں اور پالیسی سازوں کو فیس ماسک کے حوالے سے فیصلے کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔