Tag: کووڈ 19

  • کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی اضافہ ہوا، ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی 7 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ڈپریشن کے 5 کروڑ 30 لاکھ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں، بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ملازمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار نہیں رکھ سکے، جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران شائع ہونے والی 48 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔

    اس کے بعد تمام تر تفصیلات کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو دیکھا جا سکے۔

    اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔

    تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ 2020 کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے 24 کروڑ 60 لاکھ جبکہ اینگزائٹی کے 37 کروڑ 40 لاکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں 28 فیصد اور اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے 68 فیصد اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے، بالخصوص 20 سے 24 سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے، ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

  • کرونا وائرس: ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 2 فیصد ہوگئی

    کرونا وائرس: ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 2 فیصد ہوگئی

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.60 فیصد ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 39 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 986 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 212 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 53 ہزار 868 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 81 ہزار 54 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 46 ہزار 477 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 96 لاکھ 85 ہزار 529 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 2.60 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 3 ہزار 79 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 6 کروڑ 20 لاکھ 76 ہزار 90 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 3 کروڑ 16 لاکھ 32 ہزار 731 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کرونا وائرس سے بچانے والی گولی کے حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس سے بچانے والی گولی کے حوصلہ افزا نتائج

    دو امریکی کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی گولی کے، جو کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرسکے گی، حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دو امریکی کمپنیوں کی جانب سے کرونا سے تحفظ کے لیے بنائی گئی منہ کے ذریعے دی جانے والی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دوائی مریضوں میں موت کے خطرات کو 50 فیصد تک کم کردیتی ہے۔

    امریکی کمپنی مرک اینڈ کو انکارپوریشن نے بتایا ہے کہ اس کی کووڈ 19 کے علاج کے لیے تجرباتی دوا مولنیوپیراویر کے استعمال سے مریض کے اسپتال داخل ہونے یا موت کے خطرے کو 50 فیصد تک کم کرتی ہے۔

    کمپنی کی جانب سے اس تجرباتی دوا کے کلینکل ٹرائل کے عبوری نتائج یکم اکتوبر کو جاری کیے گئے۔

    مرک اور اس کی شراکت دار کمپنی ریجبیک بیک بائیو تھراپیوٹیکس امریکا میں اس دوا کے لیے ہنگامی استعمال کی منظوری جلد از جلد حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

    اسی طرح دنیا بھر میں ریگولیٹری اداروں کے پاس بھی درخواستیں جمع کرائی جائیں گی، مثبت نتائج کے باعث ٹرائل کے تیسرے مرحلے کو جلد روک دیا گیا ہے۔

    مرک کے چیف ایگزیکٹیو رابرٹ ڈیوس نے بتایا کہ اس پیشرفت سے دنیا بھر میں کووڈ کی وبا کے حوالے سے ڈائیلاگ میں تبدیلی آئے گی۔

    اگر اس دوا کو منظوری ملی تو یہ کووڈ 19 کے علاج کے لیے منہ کے ذریعے کھائی جانے والی دنیا کی پہلی اینٹی وائرل دوا ہوگی۔

    اس ٹرائل میں 775 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج میں دریافت کیا گیا کہ پلیسبو گروپ میں 8 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ دوا استعمال کرنے والے گروپ کا کوئی مریض ہلاک نہیں ہوا۔

    ٹرائل کے لیے دنیا بھر سے کووڈ 19 کی معمولی سے معتدل شدت کا سامنا کرنے والے ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی علامات کو 5 دن سے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔ ان مریضوں کو 5 دن تک ہر 12 گھنٹے بعد دوا استعمال کرائی گئی۔

    یہ دوا کورونا کی تمام اقسام کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی ہے اور مریضوں میں اس کے مضر اثرات معمولی رہے، ریج بیک کے سی ای او وینڈی ہولمین نے کہا کہ کووڈ کے مریضوں کا اینٹی وائرل علاج گھر پر ہوسکے گا۔

    مرک 2021 کے آخر تک اس دوا کے ایک کروڑ کورسز تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جن میں سے 17 لاکھ امریکی حکومت کو فروخت کیے جائیں گے۔

    کمپنی کی جانب سے دنیا بھر کی حکومتوں سے اس طرح کے معاہدے کیے جائیں گے اور قیمت کا تعین ملک کی آمدنی کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا جبکہ امریکا کو 700 ڈالر فی کورس دوا فراہم کی جائے گی۔

  • کرونا وائرس: سگریٹ نوشی کے عادی افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: سگریٹ نوشی کے عادی افراد خطرے میں

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کووڈ 19 کا شکار ہونا تمباکو نوشی کے عادی افراد کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، برسٹل یونیورسٹی اور ناٹنگھم یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4 لاکھ سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کورونا وائرس کے شکار ہوئے تھے۔

    یہ افراد جنوری سے اگست 2020 کے دوران یو کے بائیو بینک اسٹڈی کا حصہ بنے تھے اور محققین نے ان میں تمباکو نوشی اور کووڈ کی شدت کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد اگر کووڈ 19 سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کے اسپتال پہنچنے کا امکان 80 فیصد زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح موت کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس جانچ پڑتال کے لیے ایک تیکنیک میڈلین رینڈمائزیشن کی مدد لی گئی تھی جس میں جینیاتی اقسام کو کسی مخصوص خطرے کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں اس تیکنیک کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد میں کووڈ کے اثرات کیسے ہوسکتے ہیں۔

    اس سے قبل تمباکو نوشی اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کے حوالے سے تحقیقی کام ہوا تھا مگر وہ مشاہداتی تھا تو واضح تعلق ثابت نہیں ہوسکا تھا۔

    مگر مشاہداتی اور جینیاتی ڈیٹا کے امتزاج پر مبنی اپنی طرز کی پہلی تحقیق تھی جس سے ان شواہد کو تقویت ملی ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے یہ ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ تمباکو نوشی کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ہے، بالکل اسی طرح جیسے تمباکو نوشی کو امراض قلب، کینسر کی مختلف اقسام اور دیگر امراض سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی سے کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ 45 فیصد تک بڑھ جاتا ہے اور بہت زیادہ تمباکو نوشی کے نتیجے میں یہ خطرہ 100 فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کچھ رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ تمباکو نوشی سے کووڈ 19 سے کسی قسم کا تحفظ مل سکتا ہے، تاہم اس شعبے میں زیادہ گہرائی میں جاکر کام نہیں ہوا، ہمارے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ تمباکو نوش افراد میں کووڈ 19 کی علامات زیادہ ہوسکتی ہیں۔

  • کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    حال ہی امریکا میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا کہ ویکسی نیشن کے بعد کسی قسم کا مضر اثر نظر نہ آئے تو کچھ لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ ویکسین کام نہیں کررہی مگر یہ تصور غلط ہے۔

    جونز ہوپکنز میڈیسین کی اس تحقیق میں تصدیق کی گئی کہ فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا ویکسینز کے استعمال سے بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے چاہے لوگوں میں مضر اثرات ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔

    ماہرین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ فائزر یا موڈرنا کی ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اینٹی باڈی ردعمل زیادہ طاقتور نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم نے اپنے اسپتال کے عملے میں دستیاب گروپ پر تحقیق کا فیصلہ کیا تاکہ اس حوالے سے جانچ پڑتال کی جاسکے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسی نیشن کرانے والے 99.9 فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں چاہے مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں۔

    اس تحقیق میں 954 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا جن کو فائزر یا موڈرنا ویکسین استعمال کرائی گئی تھی جبکہ کچھ پہلے کووڈ 19 کا شکار بھی رہ چکے تھے۔ محققین نے ان افراد کو ہدایت کی تھی کہ وہ ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے بعد ظاہر ہونے والے مضر اثرات کو رپورٹ کریں۔

    زیادہ تر میں یہ مضر اثرات معمولی تھے جن میں انجیکشن کے مقام پر تکلیف، سر درد اور معمولی تھکاوٹ قابل ذکر تھے جبکہ کچھ کو بخار، ٹھنڈ لگنے اور زیادہ تھکاوٹ کا بھی سامنا ہوا۔

    صرف 5 فیصد افراد نے ویکسین کی پہی خوراک کے بعد مضر اثرات کو رپورٹ کیا جبکہ 43 فیصد نے دوسری خوراک کے بعد مضر اثرات کے تجربے کو رپورٹ کیا۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں کلینکلی علامات کی شرح پہلی یا دوسری خوراک کے موقع پر فائزر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں مگر 954 میں سے 953 میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد آئی جی جی اینٹی باڈیز بن گئیں۔ جس ایک فرد میں ایسا نہیں ہوا اس کی وجہ مدافعتی نظام دبانے والی ادویات تھیں۔

    کچھ افراد میں آئی جی جی اینٹی باڈیز کی شرح دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ مضر اثرات کا باعث بننے والے کچھ عناصر قابل ذکر تھے جیسے خاتون ہونا، 60 سال سے کم عمر، موڈرنا ویکسین کا استعمال یا پہلے سے کووڈ 19 کا سامنا ہونا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں، بیماری کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے، جس سے لوگوں کے ان خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی کہ اثرات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔

  • ملک میں کووڈ 19 سے اموات کی تعداد میں کمی

    ملک میں کووڈ 19 سے اموات کی تعداد میں کمی

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.6 فیصد ہوگئی، گزشتہ 24 گھنٹے میں 1 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 31 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 27 ہزار 597 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 1 ہزار 757 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 40 ہزار 425 ہوگئی۔

    ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 62 ہزار 177 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 48 ہزار 732 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 1 کروڑ 92 لاکھ 40 ہزار 519 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 3.6 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 4 ہزار 33 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

    ویکسی نیشن کی صورتحال

    ملک میں اب تک 5 کروڑ 62 لاکھ 29 ہزار 457 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 2 کروڑ 54 لاکھ 93 ہزار 964 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کینسر کے مریضوں کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن مؤثر قرار

    کینسر کے مریضوں کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن مؤثر قرار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف بیماریوں بشمول کینسر کا شکار افراد کووڈ 19 کے خطرے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق میں علم ہوا کہ کینسر کا شکار افراد کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن ضروری ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کینسر کے مریضوں کے لیے بھی عام افراد جتنی محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

    یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کی سالانہ کانفرنس کے دوران ان تحقیقی رپورٹس کو پیش کیا گیا جن کے مطابق ویکسی نیشن سے کینسر کے مریضوں میں کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والا مدافعتی ردعمل بنا جبکہ عام مضر اثرات سے زیادہ کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کینسر کے مریضوں میں کووڈ 19 ویکسی نیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    ان تحقیقی رپورٹس پر کام اس لیے کیا گیا کیونکہ ویکسینز کے ٹرائلز کے دوران کینسر کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ کینسر کے علاج کے باعث مدافعتی نظام کمزور ہونا تھا۔

    ایک تحقیق میں 3 ہزار 813 افراد پر مبنی تھی جن میں کینسر کی تاریخ تھی یا وہ اب بھی کینسر کے شکار تھے۔

    ان افراد پر فائزر / بائیو این ٹیک کووڈ 19 ویکسین کا کنٹرول ٹرائل کیا گیا اور دریافت ہوا کہ ان افراد میں ویکسی نیشن کے بعد ظاہر ہونے والے مضر اثرات معمولی اور لگ بھگ ویسے ہی تھے جو ویکسین کے 44 ہزار سے زائد افراد کے ٹرائلز میں دریافت ہوئے تھے۔

    ایک اور تحقیق میں نیدر لینڈز کے مختلف ہسپتالوں کے 791 مریضوں کو شامل کرکے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن کو کینسر نہیں تھا، دوسرا امیونو تھراپی کرانے والے کینسر کے مریضوں، تیسرا کیموتھراپی کرانے والے مریض اور چوتھا ایسے مریضوں کا تھا جن کا کیمو اور امیونو تھراپی علاج ہورہا ہے۔

    ان افراد میں موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکوں سے بننے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    دوسری خوراک کے 28 دن بعد کیمو تھراپی کرانے والے 84 فیصد، کیمو امیمونو تھراپی کرانے والے 89 فیصد اور 93 فیصد امیونو تھراپی کرانے والے مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی مناسب سطح کو دریافت کیا گیا۔

    یورپین انسٹی ٹیوٹ آف آنکولوجی کے ماہر ڈاکٹر انٹونیو پاسارو جو تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے بتایا کہ نتائج 99.6 فیصد تک ان افراد کے گروپ کے اینٹی باڈی ردعمل سے مماثلت رکھتے ہیں جن کو کینسر نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسین کی افادیت ٹرائل کے شامل تمام افراد میں بہت زیادہ دریافت کی گئی۔

    تیسری تحقیق میں برطانیہ کے کینسر کے 585 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسین کا استعمال کرایا گیا تھا۔

    ان میں سے 31 فیصد کو کووڈ 19 کا سامنا ہوچکا تھا اور ان میں ویکسی نیشن کے بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح کو بہت زیادہ دیکھا گیا۔

  • کیا وٹامن ڈی کووڈ 19 کی شدت میں کمی کرسکتا ہے؟

    کیا وٹامن ڈی کووڈ 19 کی شدت میں کمی کرسکتا ہے؟

    انسانی جسم میں وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ 19 کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم کرتا ہے، ماہرین اس حوالے سے کافی تحقیق کر چکے ہیں۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق آئر لینڈ کے ٹرینیٹی کالج، اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح، سورج کی روشنی سے جلد میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔

    اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا، مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے، زیادہ عمر یا کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 5 لاکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔ نتائج سے عندیہ ملا کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے، اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خلاف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ڈی کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھلا رکھا جائے۔

  • پہلی بار تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش

    پہلی بار تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش

    برطانوی کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) اور کورین کمپنی ایس کے بائیو سائنسز کی جانب سے تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش ایسٹرازینیکا ویکسین سے کی جائے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اس تجرباتی کووڈ ویکسین کے آخری مرحلے کے ٹرائل میں اس کی افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں کسی کووڈ شاٹ کا پہلا تیسرے مرحلے کا ٹرائل ہوگا جس میں 2 مختلف کووڈ ویکسینز کا موازنہ کیا جائے گا۔

    جے ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی تیار کردہ ویکسین کے ابتدائی ٹرائلز میں اسے محفوظ اور بہت زیادہ مؤثر دریافت کیا گیا تھا۔

    اس تجرباتی ویکسین کو تیار کرنے کا مقصد کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے کم قیمت ویکسین تیار کرنا ہے جسے کوویکس پروگرام کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔

    کمپنیوں کو توقع ہے کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے مکمل ہونے پر اگلے سال کی پہلی ششماہی کے دوران وہ ریگولیٹرز سے ویکسین کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

    کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹرائل کے آخری مرحلے میں اپنی ویکسین کی افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی اور ویکسین سے موازنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب ایسا ممکن ہے، کیونکہ اب کئی منظور شدہ ویکسینز موجود ہیں تو پلیسبو کی جگہ کسی ویکسین کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

    ایسٹرازینیکا ویکسین کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز کے مقابلے میں اسے اسٹور کرنا آسان ہے اور وہ فائزر یا موڈرنا کے مقابلے میں کم قیمت بھی ہے۔

    اگر جی ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی ویکسین ٹرائل میں ایسٹرازینیکا ویکسین سے زیادہ مؤثر ہونے کے ساتھ کم مضر اثرات والی ثابت ہوئی تو یہ متعدد کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے ایک اچھا آپشن ہوگی۔

    ٹرائل میں ایک اور ویکسین سے اپنی ویکسین کے موازنے کے لیے ایسٹرازینیکا سے اجازت بھی حاصل کی جائے گی۔

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کی شدت کم کرنے میں معاون

    ایک عام دوا کووڈ 19 کی شدت کم کرنے میں معاون

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کولیسٹرول کم کرنے والی ایک عام دوا سے کووڈ 19 کی علامات کو 70 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بلڈ کولیسٹرول کم کرنے کے لیے عام استعمال ہونے والی ایک دوا کووڈ 19 کو 70 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔

    برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی، کیلی یونیورسٹی اور اٹلی کے سان ریفیلی سائنٹیفک انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں موجود کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے لیے کھائی جانے والی دوا فینو فائبریٹ انسانی خلیات میں کووڈ کو نمایاں حد تک کم کرسکتی ہے۔

    لیبارٹری ٹیسٹوں میں دریافت کیا گیا کہ اس دوا کی عام خوراک سے بیماری کی شدت کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کے لیے دستیاب اس دوا کو عموماً خون میں کولیسٹرول اور چکنائی والے مواد کی شرح کو کم کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔

    تحقیقی ٹیم نے اب اسپتال میں زیر علاج کووڈ کے مریضوں میں دوا کے کلینکل ٹرائلز کا مطالبہ کیا ہے، امریکا اور اسرائیل میں اس دوا کے کووڈ کے مریضوں پر اثرات کے ٹرائلز پہلے سے جاری ہیں۔

    کرونا وائرس اپنے اسپائیک پروٹین کو انسانی جسم میں موجود ایس 2 ریسیپٹر کو جکڑ کر خلیات میں داخل ہوتا ہے اور اس تحقیق میں پہلے سے استعمال کی منظوری حاصل کرنے والی ادویات بشمول فینو فائبریٹ کی آزمائش کی گئی تھی۔

    اس کا مقصد ایسی ادویات کی شناخت کرنا تھا جو ایس ٹو ریسیپٹر اور اسپائیک پروٹین کے درمیان تعلق میں مداخلت کرسکے۔ مذکورہ دوا کی شناخت کے بعد تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری میں انسانی خلیات میں اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔

    اس مقصد کے لیے خلیات کو کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ دوا بیماری کو 70 فیصد تک کم کر دیتی ہے۔

    اب تک شائع نہ ہونے والے اضافی ڈیٹا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ مذکورہ دوا کرونا وائرس کی نئی اقسام بشمول ایلفا اور بیٹا کے خلاف بھی اتنی ہی مؤثر ہے، جبکہ ڈیلٹا پر اس کی افادیت کے حوالے سے تحقیق ابھی جاری ہے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا وائرس کی نئی اقسام سے کیسز اور اموات کی شرح میں مختلف ممالک میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اگرچہ ویکسین پروگرامز طویل المعیاد بنیادوں پر کیسز کی شرح میں کمی کے لیے حوصلہ افزا ہیں، مگر اب بھی فوری طور پر بیماری کے علاج کے لیے ادویات کو شناخت کرنے کی ضرورت ہے۔