Tag: کووڈ 19

  • کرونا متاثرین کو ویکسین نہ لگوانے پر زیادہ خطرہ ہے، تحقیق

    کرونا متاثرین کو ویکسین نہ لگوانے پر زیادہ خطرہ ہے، تحقیق

    واشنگٹن: محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے دوران انفیکشن کا شکار ہونے والے افراد اگر ویکسینیشن نہ کروائیں تو انھیں زیادہ خطرہ لاحق ہے.

    تفصیلات کے مطابق تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد جو لوگ کرونا ویکسین کا ٹیکا نہیں لگوا رہے ہیں ان انفیکشن میں دوبارہ مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین لوگوں کو قوت مدافعت میں اضافے کے حوالے سے مدگار ثابت ہو رہی ہے۔

    امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کنٹرول (سی ڈی سی) نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ویکسین کے انجیکشن ضرور لگوا لیں کیوں کہ ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا ویرینٹ سے ان لوگوں کو بھی خطرہ ہے جو پہلے سے کرونا کی زد میں آ چکے ہیں، سی ڈی سی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ ویکسین سے لوگوں کی قدرتی قوت مدافعت مضبوط ہو رہی ہے، اور وائرس کے اس ویرینٹ کے خلاف لوگوں کو تحفظ حاصل ہو رہا ہے۔

    سی ڈی سی کے ڈائریکٹر روشیل والینسکی نے کہا کہ اگر آپ پہلے متاثر ہو چکے ہیں تو ویکسین ضرور لگوا لیں، ویکسین لگوانا اپنی اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی سلامتی کا سب سے بہتر طریقہ ہے، اور یہ خاص طور پر اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ملک میں کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے حوصلہ افزا خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے حوصلہ افزا خبر

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کے حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے جسے نہایت حوصلہ افزا کہا جاسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں دوبارہ اس سے متاثر ہونے امکان بہت کم ہوتا ہے، تاہم اگر وہ دوبارہ کووڈ کا شکار ہو بھی جائیں تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ بیماری کی شدت معمولی ہوگی۔

    یہ بات برطانوی حکومت کے ایک تحقیقی تجزیے میں دریافت کی گئی۔

    برطانیہ کے آفس فار نیشنل اسٹیٹکس کی اس تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پہلی بار بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ری انفیکشن کی صورت میں یہ وائرل لوڈ بہت کم ہوتا ہے۔

    آسان الفاظ میں جسم میں وائرس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی بیماری کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ رہنے کا امکان ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ مجموعی طور پر کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اسی طرح ری انفیکشن سے متاثر افراد میں ٹھوس مثبت ٹیسٹ کی شرح اس سے بھی زیادہ کم ہوتی ہے کیونکہ جسم میں اتنا وائرس ہی نہیں ہوتا کہ ٹیسٹ میں اسے پکڑا جاسکے۔

    تحقیق کے دوران برطانیہ میں 26 اپریل 2020 سے 17 جولائی 2021 تک کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ری انفیکشن کا خطرہ ہر ایک لاکھ میں سے 12.8 افراد کو ہوتا ہے جبکہ ٹھوس مثبت ٹیسٹ کی شرح ہر ایک لاکھ میں 3.1 دریافت کی گئی۔

    برطانوی تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب جولائی 2021 میں ہی امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو بیماری کے خلاف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں 254 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

  • کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    حال ہی میں امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، کنگز کالج، کیمبرج، ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کس حد تک ذہنی صحت اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔

    اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے 81 ہزار سے زیادہ افراد کے جنوری سے دسمبر 2020 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 13 ہزار کے قریب میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف 275 افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔

    باقی افراد کے لیے محققین نے دماغی کارکردگی کی پیشگوئی کے ایک لائنر ماڈل کو استعمال کیا، جس میں جنس، نسل، مادری زبان، رہائش کے ملک، آمدنی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق دماغ کی کارکردگی کے مشاہدے اور پیشگوئی سے ان افراد کے ذہانت کے ٹیسٹوں میں ممکنہ کارکردگی کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے، ان کی ذہنی کارکردگی اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔

    ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق، مسائل حل کرنے، منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج لانگ کووڈ کی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں، جن میں مریضوں کو ذہنی دھند، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور الفاظ کے چناؤ جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل سے جڑی ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 دماغی تنزلی سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا تسلسل صحت یابی کے مراحل کے دوران برقرار رہتا ہے، یعی علامات ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی شدت پر ہوتا ہے۔

    یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں ذہنی افعال کی تنزلی کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی، درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7 پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔

  • بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    بچوں اور نوجوانوں کو کووڈ 19 سے معمولی خطرہ

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا شکار ہونے کی شرح کم ہوتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی لیور پول یونیورسٹی اور لندن کالج یونیورسٹی کی نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کووڈ 19 سے بچوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ اس حوالے سے اب تک کی سب سے جامع اور بڑی تحقیق تھی جس میں عوامی طبی ڈیٹا کا منظم انداز سے تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے کسی بیماری سے متاثر ہوں، تاہم مجموعی طور پر یہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی وبا کے ایک سال کے دوران (فروری 2021 کے آخر تک) برطانیہ میں 18 سال سے کم عمر 251 افراد اس بیماری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

    ماہرین نے یہ تعین کرنے کی کوشش کی کہ اس عمر کے گروپ میں خطرات بڑھانے والے عناصر کون سے ہوتے اور دریافت کیا کہ اس عمر کے گروپ میں 50 ہزار میں سے صرف ایک میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں داخلے کا امکان ہوتا ہے۔

    کووڈ سے بچوں میں ورم کے ایک سینڈروم پی آئی ایم ایس ٹی ایس کا الگ سے جائزہ لینے پر محققین نے دریافت کیا کہ 309 بچوں کو اس عارضے کے باعث آئی سی یو میں داخل کیا گیا اور یہ خطرہ ہر 38 ہزار 911 میں سے ایک کو ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس عمر کے گروپ میں وہ افراد زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں جن کو موسم سرما کے کسی وائرس یا دیگر بیماریوں کے بہت زیادہ خطرے کا بھی سامنا ہوتا ہے، مختلف بیماریوں اور معذوریوں کے شکار بچوں اور نوجوانوں میں یہ مرض خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج بہت اہم ہیں اور اس سے بچوں اور نوجوانوں میں ویکسنیشن کے حوالے سے فیصلے کرنے میں نہ صرف برطانیہ بلکہ بین الاقوامی سطح پر رہنمائی مل سکے گی۔

  • مزید 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص

    مزید 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص

    اسلام آباد: گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک میں 11 مزید ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، اب تک 16 ہزار 671 ہیلتھ ورکرز کووڈ 19 کا شکار ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک میں 11 ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، 24 گھنٹے میں 6 ڈاکٹر اور 5 اسپتال ملازمین کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ ہیلتھ ورکرز کی تعداد 16 ہزار 671 ہوگئی، 9 ہزار 966 ڈاکٹر، 2 ہزار 374 نرسز اور 4 ہزار 331 عملے دیگر افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

    ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں تاحال 164 ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں، 306 ہیلتھ ورکرز گھروں اور 15 اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ 16 ہزار 186 ہیلتھ ورکرز کرونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق کرونا وائرس سے متاثرہ اور جاں بحق بیشتر ہیلتھ ورکرز کا تعلق سندھ سے ہے، سندھ میں 5 ہزار 865 ہیلتھ ورکرز متاثر اور57 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    پنجاب میں 3 ہزار 477 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 29 جاں بحق، پختونخواہ میں 3 ہزار 963 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 44 جاں بحق اور اسلام آباد میں 15 سو 22 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 13 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    اسی طرح گلگت بلتستان میں 250 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 3 جاں بحق، بلوچستان میں 843 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 9 جاں بحق، جبکہ آزاد کشمیر میں 751 ہیلتھ ورکرز متاثر اور 9 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

  • کووڈ 19 ویکسی نیشن کا ریکارڈ آپ کے موبائل فون میں

    کووڈ 19 ویکسی نیشن کا ریکارڈ آپ کے موبائل فون میں

    کووڈ 19 کی ویکسی نیشن لازمی ہوچکی ہے اور ہوسکتا ہے جلد ہی اس کا ریکارڈ آپ کے اسمارٹ فون میں بھی محفوظ ہو۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوگل نے اے پی آئی فار پاسز کو اپ ڈیٹ کر کے کووڈ ویکسینیشن ریکارڈ کو محفوظ کرنے کی صلاحیت کا اضافہ کیا ہے۔

    گوگل نے چند روز قبل یہ اعلان کیا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں آپ ابھی اپنے ویکسنیشن کارڈ کو اپ لوڈ کرسکیں گے۔

    یہ اپ ڈیٹڈ اے پی آئی یا اپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس دنیا بھر کے حکومتی اداروں اور طبی اداروں کے ڈویلپرز کو ویکسنیشن کارڈز یا کووڈ ٹیسٹ نتائج کے ڈیجیٹل ورژنز تیار کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

    گوگل نے بتایا کہ ایک بار جب کوئی صارف کووڈ کارڈ کا ڈیجیٹل ورژن اپنی ڈیوائس میں محفوظ کرے گا تو وہ ڈیوائس کی ہوم اسکرین پر ایک شارٹ کٹ کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کرسکے گا۔

    کمپنی نے بتایا کہ اگر انٹرنیٹ سروس دستیاب نہ بھی ہو یا ایسے خطے میں ہوں جہاں انٹرنیٹ سروس زیادہ اچھی نہیں تو بھی اس ریکارڈ تک رسائی صارفین کو حاصل ہوگی۔

    عام طور پر پاسز اے پی آئی کو گوگل پے والٹ کے صارفین کی جانب سے بورڈنگ پاسز، لائلٹی کارڈز، گفٹ کارڈز، ٹکٹوں اور دیگر محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس اپ ڈیٹ کے بعد گوگل پے ایپ استعمال نہ کرنے والے افراد بھی اپنے ڈیجیٹل کووڈ کارڈ کو ڈیوائس میں اسٹور کرسکیں گے۔

    چونکہ گوگل کی جانب سے کارڈ کی کاپی اپنے پاس نہیں رکھی جائے گی تو صارفین کو مختلف ڈیوائسز میں کووڈ کارڈ کو محفوٖظ کرنے کے لیے حکومتی ادارے یا دیگر سے اسے ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگا۔

    ان کارڈز میں ادارے یا حکومتی لوگو سب سے اوپر ہوگا، جس کے بعد صارف کا نام، تاریخ پیدائش اور دیگر متعلقہ تفصیلات جیسے کس کمپنی کی ویکسین یا ٹیسٹ ہے وغیرہ۔

    اس اپ ڈیٹڈ اے پی آئی کو سب سے پہلے امریکا میں متعارف کروایا جارہا ہے اور جلد دیگر ممالک میں بھی اسے پیش کیا جائے گا۔

  • بھارت: کرونا ویکسین سے خوفزدہ شخص درخت پر چڑھ گیا

    بھارت: کرونا ویکسین سے خوفزدہ شخص درخت پر چڑھ گیا

    بھارت سمیت دنیا بھر میں کرونا ویکسین کے حوالے سے لوگوں میں بے اعتمادی اور خوف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ویکسی نیشن تاخیر کا شکار ہورہی ہے، بھارت میں بھی ایسے ہی ایک خوفزدہ شخص نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں کرونا ویکسی نیشن کا کیمپ لگایا گیا جہاں گاؤں والوں کی ویکسی نیشن کی جارہی تھی۔

    وہاں موجود ایک شخص پہلے تو کیمپ میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتا رہا پھر اچانک وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔

    مذکورہ شخص نے ویکسین لگوانے سے صاف انکار کردیا، یہی نہیں وہ اپنی بیوی کا راشن کارڈ بھی اپنے پاس رکھ کے بیٹھ گیا تاکہ اسے بھی ویکسین نہ لگائی جاسکے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ شخص کی بیوی ویکسی نیشن کروانا چاہتی تھی لیکن تصدیقی دستاویز نہ ہونے کے سبب وہ ویکسی نیشن نہ کروا سکی۔ مذکورہ شخص شام تک درخت پر چڑھا رہا جب تک میڈیکل ٹیم اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے رخصت نہ ہوگئی۔

    یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو مقامی میڈیکل افسر ڈاکٹر راجیو نے اس گاؤں کا دورہ کیا اور اس شخص سے ملاقات کی، انہوں نے اس شخص کو ویکسی نیشن کے لیے قائل کیا اور اس حوالے سے اس کے خدشات دور کیے۔

    ڈاکٹر راجیو کے مطابق مذکورہ شخص نے ویکسی نیشن کے لیے حامی بھر لی ہے اور چند دن بعد جب ایک قریبی گاؤں میں ویکسی نیشن کیمپ لگے گا تو اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اہلیہ کے ساتھ وہاں جا کر ویکسین لگوائے گا۔

  • سالگرہ کی تقاریب کووڈ 19 کیسز میں اضافے کا سبب

    سالگرہ کی تقاریب کووڈ 19 کیسز میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے ممالک جہاں کووڈ 19 کی شرح زیادہ ہے، وہاں سالگرہ کی تقاریب سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول اور رینڈ کارپوریشن کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ جن ممالک میں اس وقت کووڈ 19 کی شرح زیادہ ہے، وہاں جن گھروں میں حالیہ عرصے میں سالگرہ کی تقاریب ہوئیں، وہاں کیسز کی تعداد میں 30 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے سالگرہ کی حقیقی تقاریب کو تجزیے کا حصہ نہیں بتایا بلکہ لوگوں کے اجتماع پر مشتمل تقاریب میں لوگوں کی تعداد کی قربت کو بنیاد بنایا۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ لوگوں کا اجتماع جیسے سالگرہ کی تقاریب کووڈ کی لہر کے دوران کیسز میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ اجتماعات سماجی روایات کا اہم حصہ ہیں جس میں خاندان ایک دوسرے سے ملتے ہیں، مگر زیادہ خطرے سے دو چار علاقوں میں ان کے نتیجے میں کووڈ کی شرح میں اضافے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ امریکا میں ویکسی نیشن کی شرح میں اضافے اور کیسز کی تعداد میں کمی سے موجودہ نتائج فرسودہ لگتے ہیں، مگر یہ دریافت ایسے افراد کے لیے اہم ہیں جن کو ایک اور لہر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے مستقبل کے اقدامات کے بارے میں مدد ملے گی، لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع مل سکے گا کہ اس طرح کی سرگرمیاں کس طرح وائرس کے پھیلاؤ کو بدترین بناسکتی ہیں، نتائج سے لوگوں کے اجتماع کے خطرات کے خیال کو بھی تقویت ملتی ہے، جس کا پہلے سے ہمیں علم ہے

    تحقیق کے لیے امریکا بھر میں لگ بھگ 30 لاکھ گھرانوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ 2020 کے اولین 45 ہفتوں کے دوران مختلف علاقوں میں کووڈ کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا، جن گھرانوں میں سالگرہ کی تقاریب ہوئیں وہاں پر ایسی تقاریب کے انعقاد سے گریز کرنے والے خاندانوں کے مقابلے میں 10 ہزار افراد میں 8.6 فیصد زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    ماہرین کے مطابق سالگرہ والے فرد کی عمر سے خطرے میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ایسے گھرانے جہاں کسی بچے کی سالگرہ ہوئی، وہاں یہ اثر زیادہ تھا، جہاں ہر 10 ہزار میں سے کووڈ کے کیسز کی شرح 15.58 فیصد رہی۔

    بالغ افراد کی سالگرہ کی تقاریب میں یہ شرح ہر 10 ہزار افراد میں 5.8 فیصد رہی۔

  • کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس انسانی جسم کے جس عضو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ پھیپھڑے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے طبی ماہرین نے پہلی بار ایسا تفصیلی ماڈل تیار کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    امریکا کے محکمہ توانائی کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے ماہرین کی تحقیق طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئی۔ تحقیق سے وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور کیسے وہ وہاں سے دیگر اعضا تک پھیل جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ گہرائی میں جاکر تفصیلات سے وضاحت ہوتی ہے کہ اس وائرس سے جسم کو اتنا نقصان کیوں پہنچتا ہے اور اس کی بنیاد پر روک تھام کے ذرائع کی تلاش آسان ہوسکتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک مالیکیولر ماڈل تیار کیا تھا جس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی وائرل پروٹینز کی تحقیق کے لیے بہت زیادہ کارآمد ہے جو دیگر تکنیکوں سے بہت مشکل ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس میں ایسا پروٹین ہوتا ہے جو وائرس کی باہری جھلی میں اسپائیک پروٹین کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ پروٹین ای اس وائرس کو خلیات کے اندر نقول بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے جبکہ انسانی پروٹینز کو ہائی جیک کرکے وائرس کے اخراج اور منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل وائرس کے لیے بہترین ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے بدترین، بالخصوص کووڈ 19 کے معمر اور پہلے سے مختلف امراض کے شکار افراد کے لیے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب پھیپھڑوں کے خلیات میں خلل پیدا ہوتا ہے تو مدافعتی خلیات آ کر نقصان کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے پروٹینز سائٹو کائینز کا اخراج ہوتا ہے، یہ مدافعتی ردعمل ورم کو متحرک کر کے زیادہ بدتر کرتا ہے، جس کو سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے۔

    اس صورتحال میں وائرسز کے لیے پھیپھڑوں سے نکل کر دوران خون کے ذریعے دیگر اعضا بشمول جگر، گردوں اور شریانوں کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس منظر نامے میں مریضوں کو دیگر وائرسز سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا ہے جبکہ زیادہ ای پروٹینز بننے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ایک بار بار ہونے والا سائیکل بن جاتا ہے، یعنی مزید وائرسز ای پروٹٰنز بناتے ہیں اور خلیات کے پروٹینز کو ہائی جیک کرکے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، زیادہ پھیلتے ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم اس تعلقق پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔

    ماہرین نے ای پروٹین اور پھیپھڑوں کے پروٹین پی اے ایل ایس 1 کے درمیان تعلق کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا اور اس کی تصاویر بنائیں اور ان کو علم ہوا کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے، جس کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔

  • کرونا وائرس کے حملے سے بچنا ہے تو ان غذاؤں سے دوستی کرلیں

    کرونا وائرس کے حملے سے بچنا ہے تو ان غذاؤں سے دوستی کرلیں

    ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ غذاؤں کے ذریعے قوت مدافعت بڑھا کر کسی حد کرونا وائرس سے تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے، تاہم حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں۔

    حال ہی میں 6 ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ پھلوں، سبزیوں اور مچھلی پر مشتمل غذاؤں کا استعمال کووڈ 19 کا شکار ہونے پر اس کی شدت کو بڑھانے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل غذا سے کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ 73 فیصد جبکہ مچھلی یہ خطرہ 59 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔

    اس سے قبل بھی متعدد تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ غذا ممکنہ طور پر کووڈ 19 کی علامات کی شدت اور دورانیے میں کردار ادا کرسکتی ہے، مگر اس حوالے سے شواہد زیادہ ٹھوس نہیں تھے۔

    اس کی جانچ پڑتال کے لیے اس نئی تحقیق میں محققین نے 3 ہار کے قریب ڈاکٹروں اور نرسوں سے فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، برطانیہ اور امریکا میں سروے کیا۔ یہ سب سروے ہیلتھ کیئر گلوبز نیٹ ورک کا حصہ تھے اور ماہرین نے نیٹ ورک کو استعمال کر کے ڈاکٹروں میں کووڈ 19 کے خطرے کو شناخت کیا۔

    یہ سروے جولائی اور ستمبر 2020 میں ہوا اور رضاکاروں سے غذائی رجحانات سے 47 سوالات پر مشتمل سوالات کی مدد سے جانا گیا۔ سروے میں ان کے پس منظر، طبی تاریخ، ادویات کے استعمال اور طرز زندگی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئیں۔

    تحقیق میں شامل 568 افراد نے بتایا کہ ان میں کووڈ 19 کی علامات یا بغیر علامات والی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی، 2 ہزار 316 افراد اس بیماری سے محفوظ رہے تھے۔ 568 میں سے 138 افراد نے بتایا کہ ان میں بیماری کی شدت معتدل سے سنگین رہی جبکہ باقی افراد کو معمولی بیماری کا سامنا ہوا تھا۔

    مختلف عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت کیا گیا کہ جن افراد کی غذا میں پھلوں، سبزیوں، گریوں اور مچھلی کا زیادہ استعمال ہوتا تھا ان میں کووڈ 19 کی متعدل سے سنگین شدت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں بالترتیب 73 اور 59 فیصد تک کم ہوا۔

    اسی طرح کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین استعمال کرنے والے افراد میں یہ خطرہ لگ بھگ 4 گنا کم دریافت ہوا۔