Tag: کووڈ 19

  • بھارت: کووڈ 19 کی خطرناک لہر کے بعد نئے کیسز میں کمی

    بھارت: کووڈ 19 کی خطرناک لہر کے بعد نئے کیسز میں کمی

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی خوفناک لہر کے بعد کووڈ کیسز میں کمی آنے لگی، 2 ماہ کے دوران پہلی بار یومیہ کیسز کی شرح 1 لاکھ سے کم ہوگئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں کرونا کیسز میں بتدریج کمی دیکھی جارہی ہے، بھارت میں 2 ماہ کے دوران پہلی بار 1 لاکھ سے کم کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 86 ہزار سے زائد کرونا کیسز رپورٹ ہوئے، ایک دن میں کووڈ سے 2 ہزار 123 افراد ہلاک ہوئے۔

    اس سے قبل بھارت میں کرونا کیسز کی یومیہ شرح 2 سے 3 لاکھ تک جا پہنچی تھی۔

    اس وقت بھارت میں کرونا وائرس کے مجموعی مریضوں کی تعداد 2 کروڑ 89 لاکھ 96 ہزار 949 ہوچکی ہے جن میں سے فعال کیسز کی تعداد 13 لاکھ 4 ہزار 143 ہے۔

    بھارت میں کرونا وائرس سے اب تک 3 لاکھ 51 ہزار 344 اموات ہوچکی ہیں، جبکہ 2 کروڑ 73 لاکھ 41 ہزار 462 افراد اس مرض سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور اچھی خبر

    کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور اچھی خبر

    لندن: حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے ہوں، اگلے 10 ماہ تک وہ اس مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ایک بار کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں اگلے 10 ماہ تک کووڈ 19 سے دوبارہ بیمار ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اکتوبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران کیئر ہوم کے عملے اور وہاں رہنے والے 2 ہزار سے زیادہ افراد میں کووڈ 19 کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ان افراد کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں سے ایک کو 10 ماہ پہلے کووڈ 19 کی تشخیص ہوچکی تھی جبکہ دوسرا اس وبائی بیماری سے محفوظ رہا تھا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ جن افراد کو ماضی میں کووڈ 10 کا سامنا ہوچکا ہوتا ہے ان میں صحت یابی کے بعد اگلے 4 ماہ میں دوبارہ بیمار ہونے کا امکان اس کا شکار نہ ہونے والے کے مقابلے میں 85 فیصد کم ہوتا ہے۔

    اسی طرح کیئر ہومز کے کووڈ سے متاثر ہونے والے عملے کے افراد میں یہ خطرہ اس عرصے میں 60 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس میں بیماری سے دوبارہ متاثر ہونے سے ٹھوس تحفظ کو دریافت کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی خبر ہے کہ قدرتی بیماری سے دوبارہ بیمار ہونے سے کافی عرصے تک تحفظ ملتا ہے، آسان الفاظ میں ایک بار بیماری کے بعد ری انفیکشن کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے سے کیئر ہوم کے رہنے والوں کو ٹھوس تحفظ ملتا ہے حالانکہ معمر ہونے کی وجہ سے ان میں مضبوط مدافعتی ردعمل کا امکان ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ کووڈ سے زیادہ خطرے سے دوچار اس عمر کے گروپ میں اب تک زیادہ تحقیقی کام نہیں ہوا۔

    اس تحقیق میں شامل کیئر ہوم کے 682 رہائشیوں کی اوسط عمر 86 سال تھی جبکہ عملے کے 14 سو 29 افراد کے اینٹی باڈی بلڈ ٹیسٹس گزشتہ سال جون اور جولائی میں لیے گئے تھے، بعد ازاں عملے کے ہر ہفتے جبکہ رہائشیوں کے ہر مہینے پی سی آر ٹیسٹ ہوئے۔

    ری انفیکشن کے لیے پی سی آر کے مثبت ٹیسٹ کو اسی وقت مدنظر رکھا گیا جب وہ پہلی بیماری کو شکست دینے کے 90 دن سے زیادہ دن کے بعد سامنے آیا ہو۔

    اس عرصے میں ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے 14 افراد میں ری انفیکشن کی تصدیق ہوئی جبکہ کبھی بیمار نہ ہونے والے افراد میں یہ 2 سو سے کچھ زیادہ تھی۔

    تحقیق میں ان افراد کو نکال دیا گیا تھا جن کو ویکسین استعمال کروائی گئی تھی اور ان پر ویکسینیشن کی افادیت کے لیے ایک الگ تحقیق کی جارہی ہے۔

  • کرونا وائرس سے جسم کو ایک اور تباہ کن نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس سے جسم کو ایک اور تباہ کن نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے انسانی جسم پر تباہ کن اثرات کے بارے میں تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

    کئی ماہ سے دنیا بھر کے طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بنا ہوا تھا جسے سائلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

    ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

    اب ایک تحقیق میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ آخر کیوں کووڈ کے متعدد مریضوں کے خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے چاہے انہیں اسپتال میں داخل ہونا نہ بھی پڑے۔

    کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں آکسیجن کی کمی کی سطح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے ہمارا خیال تھا کہ کووڈ 19 سے خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

    اس کی جانچ پڑتال کے دوران محققین نے کووڈ 19 کے 128 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔

    ان میں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے اور آئی سی یو میں داخل ہونے والے افراد میں سات ایسے مریض بھی تھے جن میں بیماری کی شدت معتدل تھی مگر انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا جبکہ کچھ ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور انہیں چند گھنٹوں کے لیے اسپتال جانا پڑا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ بیماری کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ خون کے ناپختہ سرخ خلیات، دوران خون میں بھرنے لگتے ہیں، کئی بار تو ان کی تعداد مجموعی خلیات کے 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں صحت مند افراد کے خون میں ان ناپختہ خلیات کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ خلیات بون میرو میں رہتے ہیں اور خون کی گردش میں نظر نہیں آتے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس ان خلیات کے ماخذ پر اثرانداز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون میں ان ناپختہ خلیات کی تعداد نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ناپختہ خلیات آکسیجن فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف میچور خلیات کرتے ہیں، ان ناپختہ خلیات کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    وائرس کے حملے سے یہ خلیات تباہ ہوتے ہیں اور جسم کی دوران خون سے آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    محققین نے کہا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس کے ساتھ 2 اہم نتائج کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ ناپختہ خون کے سرخ خلیات وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور جب وائرس ان کو ختم کرتا ہے تو جسم آکسیجن کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مزید ایسے خلیات بون میرو سے خارج کرتا ہے، مگر وہ بھی وائرس کا ہدف بن جاتے ہیں۔

    دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خون کے یہ سرخ خلیات ایسے مدافعتی خلیات کو دبا دیتے ہیں جو اینٹی باڈیز بناتے ہیں اور وہ وائرس کے خلاف ٹی سیلز کی مدافعت بھی کچلتے ہیں، جس سے صورتحال بدتر ہوجاتی ہے۔

    آسان الفاظ میں خون میں ان سرخ خلیات کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل اتنا ہی کمزور ہوگا۔

  • کرونا وائرس: ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس: ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کووڈ 19 کی اہم علامت سونگھنے اور ذائقے کی حس سے عارضی محرومی ہے اور اب اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق اگر آپ سے مختلف غذاؤں کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو آپ ممکنہ طور پر سپر ٹیسٹر ہیں اور اس سے کووڈ 19 سے کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔

    سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ 1 کی علامات اوسطاً محض 5 دن تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطاً 23 دن تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی 2 آر 38 زبان کے ذائقہ کا احساس دلانے والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک آکسائیڈ بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔

    یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کرونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دلانے والے ریسیپٹرز سے کووڈ 19 و بالائی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

    اس تحقیق میں 2 ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی آزمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔ ان لوگوں کو 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک نان ٹیسٹرز، دوسرا سپر ٹیسٹرز اور تیسرا ٹیسٹرز۔

    نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کر پاتے، سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی اسے شناخت کرلیتے ہیں، جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔

    تحقیق کے دوران 266 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت معمولی سے معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

  • کرونا ویکسین: نوبل انعام یافتہ سائنس داں کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے؟

    کرونا ویکسین: نوبل انعام یافتہ سائنس داں کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے؟

    گزشتہ دنوں ایک غلط خبر اور فرانس کے نوبل انعام یافتہ سائنس داں کے کرونا ویکسین سے متعلق دعوؤں نے دنیا بھر میں خاص طور پر اُن لوگوں کو خوف زدہ کردیا جو ویکسینیشن کروا چکے ہیں۔

    فرانسیسی سائنس داں لک مونٹاگنیئر (Luc Montagnier) سے منسوب کردہ من گھڑت خبر میں سب سے پریشان کُن اور افراتفری پھیلانے والی بات ویکسین لگوانے کے دو سال کے اندر موت واقع ہوجانے کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ کرونا ویکسین اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔

    دنیا بھر میں سائنس دانوں نے اس من گھڑت خبر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مونٹاگنیئر کی مختصر دورانیے کی ویڈیو میں بیان کردہ مفروضے درست نہیں ہیں۔ یہ بات کہ ویکسین لگوانے والے دو سال کے اندر موت کا شکار ہوسکتے ہیں، ان سے غلط منسوب کی گئی ہے اور مکمل طور پر غلط ہے، لیکن ان کے بیان کردہ چند مفروضوں کی وضاحت ضروری ہے جو ویکسین اور ویکیسینشن کے حوالے سے غلط فہمی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔

    یہ جان لیں‌ کہ سائنس کی دنیا میں کوئی بھی مفروضہ یا تحقیق اسی صورت لائقِ توجہ اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے جب وہ بنیادی اصولوں اور قاعدے کے مطابق ہوں۔ ایسے دعوؤں کی پرکھ اور انھیں لائقِ توجّہ ثابت کرنے کے لیے ٹھوس حقائق پیش کرنا جب کہ کسی مفروضے پر بحث چھیڑنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر دلیل اور اس کا جواز فراہم کرنا پڑتا ہے۔

    کرونا وائرس کے خلاف تجربہ گاہوں میں‌ متحرک اور فعال سائنس دانوں اور ماہرین کے مطابق مذکورہ بحث قیاس آرائیوں پر مبنی اور انٹرویو سے متعلق عوامی سطح پر پھیلنے والی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ مونٹاگنیئر نے ہرگز نہیں کہا کہ ویکسین لگوانے والے دو سال کے اندر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یہ اُن سے منسوب کردہ جھوٹی بات ہے۔

    اس انٹرویو کی بنیاد پر دوسری بڑی غلط فہمی یہ پیدا کی گئی کہ مارچ سے مئی کے دوران حفاظتی ٹیکہ لگوانے کے باوجود امریکا میں 70 ہزار افراد موت کے منہ میں‌ چلے گئے جب کہ ویکسینیشن سے پہلے تین مہینوں کے دوران 25000 اموات ہوئی‌ تھیں اور یہ تعداد وبا کی شدّت کے باوجود بہت کم ہے۔ یہ اعداد و شمار یکسر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ویکسینیشن سے پہلے برطانیہ، امریکا، جنوبی افریقا، برازیل اور بھارت جیسے ممالک میں کووڈ 19 کا وائرس اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے تیزی سے پھیل رہا تھا، لیکن انہی ممالک میں ویکسین لگانے کے کرونا کے کیسز میں بڑی حد تک کمی دیکھی گئی۔ اسی طرح انسانی جسم پر وائرس کے مختلف شکلوں میں حملہ آور ہونے میں بھی حفاظتی ویکسین رکاوٹ بنی ہے۔

    فرانسیسی سائنس داں کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ویکسین اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، جسے ماہرین نے بے بنیاد اور مکمل طور پر غلط قرار دیا ہے۔

    سائنس دانوں اور طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ اور اموات سے متعلق حقائق اور تازہ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے اور دنیا کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کا واحد اور مؤثر ذریعہ اس کی ویکسین ہے۔

    پاکستان میں کرونا وائرس کی مفت ویکسینیشن کا عمل جاری ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔ ویکسین لگوائیں اور اس وبائی مرض سے محفوظ رہیں۔

  • کووڈ 19: پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل کس طرح انجام پارہا ہے، جانیے

    کووڈ 19: پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل کس طرح انجام پارہا ہے، جانیے

    پاکستان میں مرحلہ وار کووڈ 19 کی ویکسینیشن جاری ہے۔ ملک بھر میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں مفت ویکسین لگائی جا رہی ہے، لیکن ویکسینیشن سے متعلق لوگ خدشات کا شکار بھی ہیں۔

    ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں ہر عمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والے، ناخواندہ اور تعلیم یافتہ افراد بھی ویکسینیشن کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کا سبب ویکسین اور ویکسینیشن سے متعلق بعض افواہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی غیرمصدقہ خبریں اور غیر مستند معلومات ہیں۔ تاہم متعلقہ سائنس داں اور ماہرین ویکسینیشن کو مؤثر اور محفوظ عمل قرار دیتے ہیں۔

    یہاں ہم آپ کو ویکسینیشن کے بارے میں بنیادی اور ضروری معلومات فراہم کررہے ہیں۔

    پاکستان میں ویکسینیشن کا نظام اور طریقہ کار کیا ہے؟

    کرونا کا پھیلاؤ روکنے اور ہر فرد کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے مفت ویکسین لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔

    کرونا ویکسین کی رجسٹریشن اور اس کے انتظام کی نگرانی نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کررہا ہے اور اس کے لیے ایک باقاعدہ نظام وضع کیا گیا ہے۔ ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن اسی نظام کے تحت ایک طریقۂ کار کے مطابق کی جارہی ہے۔

    یاد رکھیے!

    امراض کی ادویّہ اور ویکسین کی تیّاری کے بعد اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ یہ مرض کے خلاف مؤثر اور انسانی جسم کے لیے محفوظ بھی ہوں۔ اس کے لیے ماہرین لیبارٹری کی سطح پر تجربات کرتے ہیں اور سب سے پہلے جانوروں یا انسانی خلیوں پر کسی بھی دوا کا اثر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے مؤثر اور مثبت نتائج سامنے آنے کے بعد ہی کوئی دوا انسانوں پر استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

    کووڈ 19 کی ویکسین لگوانا کیوں‌ ضروری ہے؟

    یہ ایک وبائی مرض ہے جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے جن میں اجتماعات اور میل جول سے گریز، ماسک کا استعمال شامل ہے، وہیں ویکسین لگانے سے اس وائرس سے محفوظ رہنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

    خصوصی مراکز پر ویکسینیشن کا عمل کیسے انجام دیا جارہا ہے؟

    کرونا ویکسین سرنج(ٹیکے) کی مدد سے بازو پر لگائی جاتی ہے۔ مستند ڈاکٹر کی نگرانی میں ویکسینیشن سینٹروں پر ماہر طبّی عملہ یہ کام انجام دیتا ہے۔ یہ عمل چند ہفتوں کے وقفے سے دہرایا جاتا ہے۔ ویکسین کی پہلی ڈوز لینے والے کو متعلقہ عملہ یہ بتا دیتا ہے کہ اسے اگلی ڈوز کس تاریخ کو لگوانی ہے۔

    ویکسینیشن سے قبل کون سی باتیں متعلقہ عملے کو ضرور بتانا چاہییں؟

    آپ کو شدید الرجی ہو یا آپ کسی دوسرے خطرناک مرض میں مبتلا ہوں، جیسے ذیابیطس، گردے یا جگر کی خرابی، یا حال ہی میں‌ کوئی بڑا آپریشن اور سرجری وغیرہ کروائی ہو۔ عورت اگر حاملہ ہو یا کوئی بھی فرد جسے شدید بخار ہو، اس کے علاوہ وہ افراد جو کرونا کا شکار ہوچکے ہیں، ان سب کو چاہیے کہ ویکسین لگوانے سے پہلے اس بارے میں طبّی عملے کو آگاہ کریں۔

    کیا ویکسینیشن کے بعد کسی قسم کا طبّی مسئلہ یا کوئی جسمانی تکلیف لاحق ہوسکتی ہے؟

    یہ ایک عام بات ہے کہ آپ کو ویکسینیشن کے بعد بازو پر معمولی درد اور اس کی وجہ سے بے چینی کا احساس ہوگا۔ طبّی ماہرین کے مطابق تھکن، سَر یا جسم میں درد کے علاوہ کچھ لوگوں کو بخار بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہ کیفیت جلد دور ہوجاتی ہے۔ اگر آپ کو غیرمعمولی تکلیف اور شدید بخار کی شکایت ہو تو فوراً کسی مستند معالج سے رجوع کریں یا کسی بھی قریبی ویکسینیشن سینٹر کو اس سے آگاہ کریں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مرض سے صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم 3 ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    شیفیلڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت یابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔

    مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو اسپتال میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ان کے پھیپھڑوں کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں 3 ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا، کچھ کیسز میں اسپتال سے نکلنے کے 8 ماہ بعد بھی مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ شی ایم آر آئی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں آکسیجن کے استعمال کی صلاحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی، حالانکہ سی ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی متعارف کروائی جائے گی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے حالانکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کرتے نظر آتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا جبکہ اس سے دوران خون میں آکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر لانگ کووڈ کے شکار 70 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کا نقصان پہنچا ہوگا، مگر اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو فروری سے اپریل 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی، جبکہ سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100 فیصد تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں 6 ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90 فیصد تک تھی۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی، ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6 بعد گھٹ کر 85 فیصد اور ایک سال بعد 79 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا، ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    تحقیق میں صرف 3 مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔

  • جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کرونا وائرس سے متاثر مسافروں کی تعداد میں اضافہ

    جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کرونا وائرس سے متاثر مسافروں کی تعداد میں اضافہ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مزید 5 مسافروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوگئی، ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے کرونا مریضوں کی تعداد 30 ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مسافروں میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    غیر ملکی ایئر لائن کے ذریعے دبئی سے کراچی پہنچنے والے 5 مسافروں کے کرونا ٹیسٹ مثبت نکلے، 100 سے زائد مسافروں کے ریپڈ ٹیسٹ کیے گئے تھے جن میں سے 5 مسافر کرونا وائرس سے متاثر نکلے۔

    ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسافروں کو قرنطینہ میں منتقل کیا جائے گا۔

    ذرائع نے مزید بتایا کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مجموعی طور پر 30 مسافروں کے کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

    دوسری جانب ملک بھر میں کرونا کیسز اور اموات میں اضافہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 104 اموات ریکارڈ کی گئیں جبکہ 3 ہزار 200 سے زائد کیسز سامنے آئے۔

    این سی او سی کے مطابق کرونا وائرس سے اموات کی مجموعی تعداد 19 ہزار 856 تک پہنچ گئی ہے جبکہ مجموعی مریضوں کی تعداد 8 لاکھ 80 ہزار 362 ہوچکی ہے۔

    ملک بھر میں کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 66 ہزار 377 ہے جبکہ اب تک 7 لاکھ 99 ہزار 951 افراد کرونا وائرس سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • زیر تربیت نرس نے خاتون کو کرونا ویکسین کی پوری بوتل لگا دی

    زیر تربیت نرس نے خاتون کو کرونا ویکسین کی پوری بوتل لگا دی

    روم: یورپی ملک اٹلی میں غلطی سے ایک خاتون کو کرونا ویکسین کی 6 ڈوزز لگا دی گئیں، خاتون کو بعد ازاں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا اور ان کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یورپی ملک اٹلی میں ایک نوجوان صحت مند لڑکی کو کرونا وائرس ویکسین کی 6 ڈوزز لگا دی گئیں، اٹلی کے وسطی علاقے تسکانہ کے ایک ہسپتال میں نئی بھرتی ہونے والی نرس نے غلطی سے نوجوان لڑکی کو بیک وقت 6 ڈوز لگا دیے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرینی نرس نے پہلے نوجوان لڑکی کو پیراسٹامول اور دیگر بخار اور درد کی ادویات دینے کے بعد فائزر و بائیو این ٹیک کے ویکسین کی پوری بوتل لگا دی جو 6 ڈوز کے برابر ہوتی ہے، یعنی ایک بوتل سے 3 افراد کو ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔

    تاہم جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے سینئر افسران کو مطلع کیا، جس کے بعد ڈوز لگوانے والی لڑکی کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔

    مذکورہ واقعہ 10 مئی کو پیش آیا اور فوری طور پر بیک وقت 6 ڈوزز لگوانے والی لڑکی کی طبیعت میں کوئی نمایاں اور بڑی تبدیلی نہیں دیکھی گئی، البتہ ان کی جانب سے بخار اور جسم میں درد کی شکایات کی گئیں۔

    اسی حوالے سے ڈاکٹرز نے بھی تصدیق کی کہ جس لڑکی کو کرونا سے تحفظ کی ویکسین کی پوری بوتل لگائی گئی، ان میں کوئی بڑی شکایات سامنے نہیں آئیں۔

    رپورٹ میں ڈاکٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ لڑکی کو حفاظتی انتظامات کے تحت، بخار، الرجی اور سوزش سے محفوظ رکھنے والی ادویات دی جا رہی ہیں اور ان کی صحت کو مانیٹر کرنے کے لیے بار بار ان کے بلڈ ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں۔

    ڈاکٹرز کے مطابق بیک وقت حد سے زیادہ ڈوز لینے والے افراد کا مدافعتی نظام متاثر ہوسکتا ہے، اس لیے خاتون کو انتہائی نگہداشت میں رکھ کر ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے تاہم تاحال ان میں کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں امریکی ریاست لووا کی جیل میں بھی درجنوں قیدیوں کو بیک وقت حد سے زیادہ ڈوز لگائے گئے تھے، جس کے بعد قیدیوں کی ویکسی نیشن کرنے والے افراد کو معطل کردیا گیا تھا لیکن زائد ڈوز لگوانے والے قیدیوں میں کسی بڑی خرابی کی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔