Tag: کووڈ 19

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس کے جسم پر تباہ کن اثرات کی فہرست طویل ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی کئی مریض بیمار ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی سنگین شدت کے باعث زیر علاج مریضوں میں سے متعدد کو ایک سال بعد بھی منفی اثرات کا سامنا ہے۔

    ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے مگر اکثر مریض اس وقت اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جب بیماری کے نتیجے میں پھیپھڑوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے لیے کووڈ 19 نمونیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کووڈ 19 نمونیا کے علاج کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر اب تک اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مریضوں کی مکمل صحت یابی میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کے اندر کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ 19 نمونیا کے مریضوں کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔

    اس مقصد کے لیے 83 مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کا شکار ہو کر اسپتال میں زیر علاج رہے تھے، ان مریضوں کا 3، 6، 9 اور 12 ماہ تک جائزہ لیا گیا یعنی ہر 3 ماہ بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔

    ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال کی گئی، جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

    ایک سال بعد اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم 5 فیصد افراد تاحال سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔

    ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور معمول کی سطح پر نہیں آسکے تھے، بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں آکسیجن کو منتقل کرنے کی صلاحیت زیادہ متاثر نظر آئی۔

    ایک چوتھائی مریضوں کے سی ٹی اسکینز میں دریافت کیا گیا کہ ان کے پھیپھڑوں کے کچھ چھوٹے حصوں میں تبدیلیاں آرہی تھیں اور یہ ان افراد میں عام تھا، جن کے پھیپھڑوں میں اسپتال میں زیر علاج رہنے کے دوران سنگین تبدیلیاں دریافت ہوئی تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ 12 ماہ کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسی لیے تحقیق کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس: جسمانی وزن کے حوالے سے ایک اور تشویش ناک تحقیق

    کرونا وائرس: جسمانی وزن کے حوالے سے ایک اور تشویش ناک تحقیق

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی ریسرچز جاری ہیں، ماہرین نے موٹاپے کو کرونا وائرس کے حوالے سے اہم خطرہ قرار دیا تھا تاہم اب ماہرین نے کہا ہے کہ معمولی سا زیادہ وزن بھی کرونا وائرس کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی وزن کووڈ 19 کے شکار افراد میں بیماری کی شدت پر اثر انداز ہونے والا عنصر ہے۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرونولوجی جرنل میں شائع تحقیق میں 20 ہزار سے زیادہ کووڈ 19 کے مرریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا، یہ مریض کووڈ 19 کی پہلی لہر کے دوران اسپتال میں زیر علاج رہے یا ہلاک ہوگئے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ کم جسمانی وزن بھی کووڈ 19 کے مریضوں میں سنگین نتائج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 20 سے 39 سال کی عمر کے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کے نتیجے میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے تاہم 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں کم ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن میں معمولی اضافہ بھی کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے اور وزن میں جتنا اضافہ ہوگا، خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ 40 سال سے کم عمر افراد میں اضافی وزن سے خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے تاہم 80 سال کی عمر کے افراد میں اس سے بیماری کے نتائج پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن پالیسیوں میں موٹاپے کے شکار افراد کو ترجیح دی جانی چاہیئے۔

    اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باڈی ماس انڈیکس میں 23 کلو گرام یا اس سے زیادہ جسمانی وزن والے افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ نہیں جانتے کہ جسمانی وزن میں کمی لانا کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ کم کرسکتا ہے یا نہیں مگر یہ قابل قبول محسوس ہوتا ہے، جبکہ اس کے دیگر طبی فوائد بھی ہوتے ہیں۔

  • بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے، روزانہ 3 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم بی 117 کی دریافت کے بعد حکومتی سطح پر ملٹی لیبارٹری نیٹ ورک (آئی این ایس اے سی او جی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔

    24 مارچ کو اس نیٹ ورک نے ایک ڈبل میوٹنٹ قسم دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے علامتی ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔

    زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام کا ابھرنا عالمی سطح پر نگرانی کے محدود نظام کی جانب نشاندہی کرتا ہے جو دور دراز علاقوں میں کام نہیں کر رہا۔

    آئی این ایس اے سی او جی کی جانب سے توقع تھی کہ تمام ریاستوں کے مثبت کیسز کے 5 فیصد کے جینیاتی سیکونسز تیار کرے گی مگر 15 اپریل تک محض 13 ہزار سیکونس ہی تیار ہوسکے۔

    ڈبل میوٹنٹ کیا ہے؟

    وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نققول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیکشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر اقسام سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں دریافت نئی قسم کو بی 1617 کا نام دیا گیا ہے جس میں 2 میوٹیشنز موجود ہیں۔ پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔

    ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔

    یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔ وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بھارتی قسم میں موجود میوٹیشنز پر الگ الگ تو تحقیقی کام ہوا ہے مگر اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہوا، اہم بات یہ ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔

    میوٹیشنز کی تعداد نہیں ان کا مقام اہمیت رکھتا ہے

    ماہرین کے مطابق وائرسز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، سرفیس پروٹینز بہت تیزی سے ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے بالخصوص کسی نئے وائرس میں، تاکہ وہ خلیات کو زیادہ بہتر طریقے سے جکڑ سکے۔

    چونکہ اسپائیک پروٹین نئے کرونا وائرس کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام کا بنیادی ہدف ہوتا ہے، مدافعتی خلیات ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو اسے شناخت کر کے وائرس کو ناکارہ بنادیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسین میں اسپائیک پروٹین کو استعمال کر کے جسم کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری سے بچا جاسکے۔

    اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیاات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔

    اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    بھارت میں دریافت قسم بی 1617 میں یہ دونوں میوٹیشنز موجود ہیں اور اس وجہ سے یہ ممکنہ طور پر بہت زیادہ مشکل میں ڈال دینے والی قسم ہوسکتی ہے، جس پر زیادہ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

    عالمی سطح پر پھیلاؤ

    بی 1618 بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچی ہے اور اب تک 1 ملک میں اسے دریافت کیا جاچکا ہے۔

    چونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں تو اس وقت بھارت میں وبا کی لہر میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے مگر اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

    کچھ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کو اکثر دھونا بھی اس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

  • کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر کام شروع

    کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر کام شروع

    امریکی فارما سیوٹیکل کمپنی فائزر کی کرونا ویکسین دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہے، فائزر نے اب کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر بھی کام شروع کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی فارما سیوٹیکل کمپنی فائزر کووڈ 19 کی بیماری کے علاج کے لیے دوا کی تیاری پر کام کر رہی ہے، فائزر کی گولی کی شکل میں اس دوا کے پہلے مرحلے کا کلینیکل ٹرائل بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں جاری ہے۔

    یہ دوا وائرس کے ایک مخصوص انزائمے کو ہدف بنائے گا جو انسانی خلیات میں وائرس کی نقول بنانے کا کام کرتا ہے۔ فائزر کو توقع ہے کہ یہ گولی بیماری ظاہر ہوتے ہی اس کے خلاف مقابلہ کرسکے گی۔

    فائزر کے چیف سائنٹیفک آفیسر اور ورلڈ وائیڈ ریسرچ، ڈویلپمنٹ اینڈ میڈیکل شعبے کے صدر مائیکل ڈولسٹن نے ایک بیان میں بتایا کہ کووڈ 19 کی وبا پر قابو پانے کے لیے ویکسین کے ذریععے اس کی روک تھام اور وائرس کے شکار افراد کے لیے علاج دونوں کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سارس کووڈ 2 جس طرح اپنی شکل بدل رہا ہے اور عالمی سطح پر کووڈ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی اور وبا کے بعد علاج تک رسائی بہت اہم ہے۔

    مائیکل ڈولسٹن کے مطابق مذکورہ دوا منہ کے ذریعے کی جانے والی تھراپی ثابت ہوگی جو بیماری کی پہلی علامت کے ساتھ ہی تجویز کی جاسکے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس تھراپی کے باعث مریضوں کو اسپتال میں داخلے یا آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ فائزر کی جانب سے اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے لیے علاج کے لیے بھی نوول ٹریٹمنٹ انٹرا وینوس اینٹی وائرل پر بھی کام کیا جارہا ہے۔

    مائیکل ڈولسٹن کے مطابق ان دونوں سے ان مقامات پر مریضوں کا علاج ہوسکے گا جہاں کیسز موجود ہوں گے۔

    یہ دوا براہ راست وائرل ذرات بننے کی روک تھام کرنے والی گولی ہے، اگر وائرس اپنی نقول بنا نہیں سکے گا تو بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکے گا اور نقصان نہیں ہوگا۔

    اب تک تجربات میں کووڈ 19 اور دیگر کرونا وائرسز کے خلاف اس کے مؤثر ثابت ہونے پر بھی ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ انسانوں میں محفوظ اور مؤثر ہے۔

  • کرونا ویکسی نیشن کروانے والوں کے لیے خوشخبری

    کرونا ویکسی نیشن کروانے والوں کے لیے خوشخبری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسی نیشن کروانے والوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ بالکل نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ جسے طبی زبان میں بریک تھرو انفیکشنز کہا جاتا ہے، نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں راک فیلر یونیورسٹی کے 417 ملازمین کو فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی 2 خوراکیں دی گئی تھی، جن میں سے 2 یا اعشاریہ 5 فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ تحقیق کا مقصد ویکسین بریک تھرو انفیکشنز کی جانچ پڑتال کرنا تھا۔

    راک فیلر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین نے دریافت کیا کہ اوریجنل وائرس کے بجائے اس کی مختلف نئی اقسام ویکسی نیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد میں کووڈ کا باعث بنتی ہیں۔

    تحقیق میں جن افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی، ان میں سے ایک میں میوٹیشن ای 484 کے کو دیکھا گیا جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کرونا کی قسم میں دیکھنے میں آیا تھا، جسے اسکیپ میوٹنٹ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میوٹیشن ویکسین سے پیدا ہونے والی کچھ اینٹی باڈیز سے گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح دونوں مریضوں میں ایک میوٹیشن ڈی 614 جی کو بھی دیکھا گیا جو وبا کے آغاز میں منظرعام پر آئی تھی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن افراد میں کووڈ کے امکان کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کرونا کی کونسی اقسام یہ خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔

    تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کووڈ 19 ویکسینز استعمال کرنے والے کچھ افراد میں بیماری کا امکان ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی ویکسین 100 فیصد تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو دوبارہ بیمار کرنے کا ٹرائل

    کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو دوبارہ بیمار کرنے کا ٹرائل

    دنیا بھر میں کووڈ 19 کے حوالے سے مختلف تحقیقات اور مطالعات کا سلسلہ جاری ہے، اب حال ہی میں ایک اور ایسا ٹرائل شروع کیا جارہا ہے جس میں کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو دوبارہ اس وائرس کا شکار بنایا جائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا میں پہلی بار کرونا وائرس کو شکست دینے والے افراد کو دانستہ طور پر دوسری بار کووڈ 19 کا شکار بنانے کے ٹرائل کا آغاز ہورہا ہے۔

    برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا اپنی طرز کا یہ منفرد ٹرائل بنیادی طور پر یہ جاننے کے لیے ہے کہ لوگوں میں ری انفیکشن سے بچانے کے لیے کس طرح کے مدافعتی ردعمل کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح محققین زیادہ مؤثر ویکسینز تیار کرسکیں گے۔

    اس ٹرائل میں 18 سے 30 سال کی عمر کے 64 صحت مند کووڈ 19 کو شکست دینے افراد کو شامل کیا جائے گا اور ان کو کم از کم 17 دن تک ایک کنٹرول، قرنطینہ ماحول میں رکھا جائے گا۔

    ان افراد کو ووہان میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی اصل قسم سے بیمار کیا جائے گا اور پھر ان کا جائزہ ایک سال تک لیا جائے گا۔

    ٹرائل کا ابتدائی ڈیٹا چند مہینوں میں جاری کیا جائے گا تاکہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ کووڈ سے دوبارہ بچانے کے لیے کس حد تک مدافعتی ردعمل درکار ہوگا اور کس طرح اس تحفظ کو طویل عرصے تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

    اگرچہ ویکسینز اور ماضی میں بیماری کا شکار رہنے سے لوگوں میں کرونا وائرس کے خلاف کسی حد تک مدافعتی تحفظ پیدا ہوجاتا ہے، مگر اس کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے، اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔

    ایک حالیہ تحقیق میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 10 فیصد جوان افراد دوبارہ اس بیماری کا شکار ہوگئے جبکہ فائزر کے چیف ایگزیکٹو نے خیال ظاہر
    کیا تھا کہ ممکنہ طور پر لوگوں کو ہر سال اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے ویکسین کے بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہوگی۔

    اس ٹرائل کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے ویلکم ٹرسٹ کی محقق شوبھنا بالاسنگم نے کہا کہ آکسفورڈ کی تحقیق سے دوسری بار بیماری کے حوالے سے ہمارے مدافعتی ردعمل کے بارے میں اعلیٰ معیاری ڈیٹا مل سکے گا، جو نہ صرف ویکسینز کی تیاری میں مددگار ہوگا بلکہ زیادہ مؤثر علاج کو تشکیل دینے میں بھی مدد مل سکے گی۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس حوالے سے بتایا کہ تحقیق کا مقصد یہ جاننا ہے کہ اوسطاً وائرس کی کتنی مقدار کسی کو دوبارہ کووڈ 19 کا شکار بناتی ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں مریضوں میں ری انفیکشن پر مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

  • کرونا ویکسین: کوویڈ 19 سے صحتیاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کرونا ویکسین: کوویڈ 19 سے صحتیاب افراد کے لیے اچھی خبر

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو کوویڈ 19 کا شکار ہو کر اس سے صحت یاب ہوگئے انہیں اب کرونا ویکسین کی صرف ایک خوراک کافی ہوگی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی ویکسین کے اثرات کے حال ہی میں مختلف تحقیقی مطالعات سامنے آئے ہیں۔ ان کے نتائج کے مطابق کووِڈ 19 کے مرض کا شکار افراد میں صحت یاب ہونے کے بعد قوت مدافعت بہتر ہو جاتی ہے اور انہیں ایم آر این اے ویکسین کی صرف ایک خوراک کی ضرورت ہوگی۔

    ان کے مقابلے میں عام تندرست افراد کو ویکسین کی دونوں خوراکیں ہی لگانی ہوں گی۔

    گزشتہ سال دسمبر میں کرونا وائرس کی ویکسین جب تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچی تھیں تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے اثرات اور نتائج کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقی مطالعات بھی شروع ہو گئے تھے۔

    لاس اینجلس میں سیڈارس سینائی میڈیکل سینٹر کے عملے کے ایک ہزار سے زیادہ ارکان نے رضا کارانہ طور پر ایک مطالعے میں حصہ لیا، اس میں انہیں ویکسین لگانے کے بعد ان کے مدافعتی نظام کا جائزہ لیا گیا۔

    اس تحقیقی مطالعے کی انچارج سوسن چینگ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا میں ایک واضح رجحان ملاحظہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ کووِڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہوگئے تھے، ان میں ویکسین کا پہلا ٹیکا لگوانے کے بعد بہتر رد عمل ظاہر ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ اب تک کووِڈ 19 کا شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے دونوں خوراکیں لگوائی ہیں، ان میں کم قوت مدافعت پیدا ہوئی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا پیغام بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ کووڈ 19 سے صحت یاب ہو گئے ہیں تو آپ کو کرونا کی کسی ایک ویکسین کی صرف ایک خوراک لگانے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا کی ویکسینز کے ضمنی اثرات سامنے آنے کے بعد کووِڈ 19 کا شکار ہونے والے افراد کو صرف ایک خوراک لگانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

  • بھارت میں کنبھ میلے کے اثرات، کرونا کیسز کی یومیہ تعداد 2 لاکھ تک پہنچ گئی

    بھارت میں کنبھ میلے کے اثرات، کرونا کیسز کی یومیہ تعداد 2 لاکھ تک پہنچ گئی

    نئی دہلی: بھارت میں دھوم دھام سے کنبھ کا میلا منانا رنگ لانے لگا، ملک بھر میں کرونا وائرس کے روزانہ کیسز کی تعداد 1 لاکھ سے بڑھ کر 2 لاکھ تک پہنچ گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق چند روز قبل ہونے والے کنبھ کے میلے میں 14 لاکھ سے زائد افراد نے مذہبی رسومات ادا کیں جس کے بعد بھارت میں سامنے آنے والے کرونا وائرس کیسز کی روزانہ تعداد 1 سے 2 لاکھ پر پہنچ گئی۔

    ریاست اتر کھنڈ کے علاقے ہردوار میں جاری کنبھ میلے میں 30 سادھوؤں سمیت 2 ہزار سے زائد افراد کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید 1 ہزار 185 کووڈ 19 مریض دم توڑ گئے۔

    بھارت میں کرونا متاثرین کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 42 لاکھ 91 ہزار 917 ہوچکی ہے جن میں سے فعال کیسز کی تعداد 15 لاکھ 69 ہزار 716 ہے۔

    ملک میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 1 لاکھ 74 ہزار 335 ہوچکی ہے جبکہ صحت یاب مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 25 لاکھ 47 ہزار 866 ہے۔

    بھارت میں کرونا ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے اور متعدد ریاستوں میں ویکسین کی کمی کی شکایات بھی ملی ہیں جس کے بعد بھارت نے کرونا وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے ویکسین کی برآمد روک دی ہے۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔