Tag: کووڈ 19

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو یوں تو کئی ماہ تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، تاہم ایسے افراد میں ذہنی امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد مختلف دماغی امراض کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 2 لاکھ 36 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کے الیکٹرونک ہیلتھ ریکارڈز کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 34 فیصد افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد ذہنی اور نیورولوجیکل امراض کا تجربہ ہوا جن میں سب سے عام ذہنی بے چینی یا اینگزائٹی ہے۔

    نیورولوجیکل امراض جیسے فالج اور ڈیمینشیا کی شرح کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں میں بہت کم ہے، مگر کووڈ سے سنگین حد تک بیمار ہونے والوں میں یہ غیرمعمولی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کے جو مریض آئی سی یو میں زیرعلاج رہے، ان میں سے 7 فیصد میں فالج اور لگ بھگ 2 فیصد میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہوئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ سائیکٹری میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ یہ ذہنی و دماغی امراض کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں زیادہ عام نظر آتے ہیں جو فلو یا سانس کی نالی کی دیگر بیماریوں کا سامنا کووڈ کے ساتھ کرتے رہے۔

    پہلے سے امراض، عمر، جنس اور نسل سمیت دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے تخمینہ لگایا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری سے صحت یابی کے بعد ذہنی و دماغی امراض کا خطرہ فلو کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر پال ہیریسن کا کہنا تھا کہ یہ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کا ڈیٹا ہے اور اس سے کووڈ 19 کے بعد ذہنی امراض کی بڑھتی شرح کی تصدیق ہونے کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سنگین امراض (جیسے فالج اور ڈیمینشیا) اعصابی نظام کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    اگرچہ یہ بہت زیادہ عام نہیں مگر پھر بھی کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں ان بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر امراض کا خطرہ مریضوں میں زیادہ نہیں، مگر ہر عمر کی آبادی پر اس کے اثرات ضرور نمایاں ہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کو شکست دینے کے بعد جن ذہنی و دماغی امراض کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ان میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (17 فیصد مریضوں کو)، مزاج پر منفی اثرات (14 فیصد)، سکون کے لیے ادویات یا دیگر کا زیادہ یا غلط استعمال (7 فیصد) اور بے خوابی (5 فیصد) نمایاں ہیں۔

    اعصابی امراض کی شرح بہت کم ہے جیسے برین ہیمرج کا خطرہ 0.6 فیصد اور ڈیمینشیا کی شرح 0.7 فیصد ہوسکتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 6 ماہ کے بعد مریضوں کی حالت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

  • اب لوگ اپنی عمر نہیں چھپا سکتے: کرونا ویکسین لگواتے ہوئے بشریٰ انصاری کی دلچسپ گفتگو

    اب لوگ اپنی عمر نہیں چھپا سکتے: کرونا ویکسین لگواتے ہوئے بشریٰ انصاری کی دلچسپ گفتگو

    کراچی: معروف اداکارہ بشریٰ انصاری کووڈ 19 کی ویکسین لگانے پہنچیں تو دلچسپ انداز میں تبصرے کیے اور کہا کہ لوگ اب مزید نہیں چھپا سکیں گے کہ وہ 60 سال کے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق معروف پاکستانی اداکارہ بشریٰ انصاری کرونا وائرس ویکسین لگوانے پہنچیں اور اس موقع کی ویڈیو انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر شیئر کی۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں ویکسین لگائی جارہی ہے۔ اس دوران وہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ میں یہ سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ ویکسین ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    بشریٰ دلچسپ انداز میں کہتی ہیں کہ آج سے پہلے سینیئر سٹیزن ہونے کا اتنا مزہ کبھی نہیں آیا جتنا اب آرہا ہے۔

    وہ مزید کہتی ہیں کہ اب تک جو لوگ مان نہیں رہے تھے کہ وہ 60 سال کے ہوگئے انہیں اب ماننا پڑے گا، لوگ اب دوڑ دوڑ کر مان رہے ہیں کہ تاکہ ویکسین لگوائی جاسکے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Bushra Bashir (@ansari.bushra)

    ویکسین لگانے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسی نیشن مہم ملک بھر میں جاری ہے، پہلے مرحلے میں فرنٹ لائن ورکرز بشمول طبی عملے، ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرز کو ویکسین لگائی گئی۔

    دوسرے مرحلے میں ملک بھر میں 60 برس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جارہی ہے۔

  • پاکستان میں ویکسین کی 4 کروڑ سے زائد خوراکیں آرہی ہیں: یاسمین راشد

    پاکستان میں ویکسین کی 4 کروڑ سے زائد خوراکیں آرہی ہیں: یاسمین راشد

    فیصل آباد: صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ویکسین کی 4 کروڑ 40 لاکھ خوراکیں پاکستان آرہی ہیں، پنجاب میں کرونا ویکسی نیشن کے 114 مراکز قائم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ کیا، وزیر صحت نے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ اجلاس کی صدارت کی۔

    دوران اجلاس صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ 55 سال سے زائد عمر کے افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں، کرونا وائرس سے صوبے میں 5 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں، عوام میں ایس او پیز پر عملدر آمد کا شعور بیدار کر رہے ہیں۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ 22 نئی لیبز قائم کی ہیں، کووڈ ٹیسٹنگ کی تعداد بھی بڑھا دی ہیں۔ پنجاب میں کرونا ویکسی نیشن کے 114 مراکز قائم ہیں۔ سول اسپتال میں ویکسی نیٹرز کی تعداد بھی بڑھا دی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 4 کروڑ 40 لاکھ ویکسین کی خوراکیں پاکستان آرہی ہیں۔

    اپوزیشن کے حوالے سے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر الیکشن اصلاحات کرے، اپوزیشن رہنما کے کرونا لاک ڈاؤن پر نامناسب تبصرے پر افسوس ہوا۔

  • بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی کرونا ٹیسٹنگ کے لیے اہم اقدام

    بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی کرونا ٹیسٹنگ کے لیے اہم اقدام

    لاہور: صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ پنجاب کے مختلف ایئرپورٹس پر کرونا وائرس ٹیسٹنگ بوتھ کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جو بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لیے ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی آسانی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، پنجاب کے مختلف ایئرپورٹس پر کرونا وائرس ٹیسٹنگ بوتھ کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

    یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ بوتھ کے قیام کے سلسلے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ عوام کو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر سختی سے اختیار کرنا ہوں گی۔ تمام ویکسی نیشن سینٹرز پر تربیت یافتہ عملہ فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

    گزشتہ روز یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ برطانیہ سے شہریوں کی واپسی کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لوگوں کی جانب سے بھی احتیاط میں کمی آئی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ صوبے میں بھرپور طریقے سے کرونا ویکسی نیشن شروع کردی ہے، ایکسپو سینٹر ویکسی نیشن کے حوالے سے سب سے بڑا مرکز بنایا گیا ہے۔ 1 لاکھ سے زائد ہیلتھ کیئر ورکرز اور 4 ہزار سے زائد بزرگوں کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے۔

  • پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک دنیا بھر کی آبادی کو ویکسین لگ سکتی ہے، تاہم ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک پہلے ہی اپنے لیے مختص کرچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق معروف بین الاقوامی ہیلتھ کیئر ماہرین نے ایک ورچوئل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں ویکسی نیشن کے یکساں مواقعوں کی فراہمی پر زور دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک نے مختص کرلی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں ویکسین کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک عالمی سطح پر ویکسی نیشن کا مناسب امکان ہے۔

    سیشن کے شرکا میں سینی گال کے صدر میکی سال، ڈی پی ورلڈ کے گروپ چیئرمین اور سی ای او سلطان احمد بن سلیم، یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینرئیٹا ہولسمین فور اور عالمی ادارہ صحت کے کرونا وائرس سے متعلق خصوصی ایلچی ڈاکٹر ڈیوڈ نابارو شامل تھے۔

    شرکا نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہر کسی کو ویکسین تک یکساں رسائی حاصل ہونی چاہیئے جس کے بعد ہی سنہ 2022 تک سب کو ویکسی نیشن کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

    شرکا کے مطابق جب عالمی سطح پر خسرہ، پولیو، ایبولا اور سارس جیسی بیماریوں کے خلاف کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیوں نہیں کیا جاسکتا۔

  • برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا اور متعدی ہے۔ ماہرین نے کرونا کی اس قسم سے اموات کی شرح کا تعین بھی کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

    برسٹل، لنکا شائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی اس مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کرونا وائرس کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

    یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اصل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

    اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

    برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

    امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

    اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

  • کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز لگوانے کے بعد بعض افراد میں الرجی کی شکایت سامنے آئی تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے حوصلہ افزا پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز سے الرجی کا شدید ردعمل کبھی کبھار سامنے آسکتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

    میسا چوسٹس جنرل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایم آر این اے ویکسینز اپنی طرز کی اولین ویکسینز ہیں اور ان کی افادیت حیران کن ہے جبکہ تمام افراد کے لیے محفوظ ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ان ویکسینز سے متعلق الرجک ری ایکشن کے بارے میں مستند تفصیلات جمع کی جائیں، کیونکہ یہ ویکسین پلیٹ فارم مستقبل میں وباؤں سے متعلق ردعمل کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا۔

    اس تحقیق کے دوران 52 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ایم آر این اے کووڈ ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کروایا گیا تھا، ان میں سے 2 فیصد میں الرجی ری ایکشن نظر آیا جبکہ اینافائیلیکس کی شرح ہر 10 ہزار افراد میں 2.47 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اینافائیلیکس کی اس شرح کا موازنہ عام بائیوٹیکس ادویات کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے، فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی کووڈ 19 ویکسینز کی تیاری کے لیے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔

    اینافائیلیکس سے مراد ایسا شدید الرجک ری ایکشن ہے جس میں مختلف علامات جیسے جلد پر نشانات، نبض کی رفتار کم ہوجانا اور شاک کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن سے الرجی کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن میں لوگوں کو ویکسین کے استعمال سے قبل اینافائیلیکس کا سامنا ہوا تھا۔

    تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شدید الرجی کے تمام کیسز جلد صحت یاب ہوگئے اور کسی کو بھی شاک یا سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والی نالی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

  • شام کے صدر بشار الاسد اور اہلیہ کووڈ 19 کا شکار

    شام کے صدر بشار الاسد اور اہلیہ کووڈ 19 کا شکار

    دمشق: شام کے صدر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، دونوں اپنے گھر میں قرنطینہ میں چلے گئے۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق شام کے ایوان صدارت نے اعلان کیا ہے کہ صدر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ اسما الاسد کرونا وائرس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

    ایوان صدارت سے جارہ کردہ بیان میں کہا گیا کہ شامی صدر اور ان کی اہلیہ کووڈ 19 کا شکار ہوئے ہیں تاہم دونوں کی صحت مستحکم ہے۔

    بیان کے مطابق صدر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ اسما نے ابتدائی علامتیں محسوس کرتے ہی کرونا وائرس ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا ہے، دونوں اپنے گھر میں قرنطینہ میں ہیں اور 2 سے 3 ہفتے تک الگ تھلگ رہیں گے۔

    خیال رہے کہ شام میں اب تک کرونا وائرس کے 16 ہزار 42 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ 1 ہزار 68 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، اب تک 10 ہزار 454 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • کیا سال 2021 بھی کرونا وائرس کی زد میں رہے گا؟

    کیا سال 2021 بھی کرونا وائرس کی زد میں رہے گا؟

    کوپن ہیگن: عالمی ادارہ صحت یورپ کے ڈائریکٹر ہینز کلوج کا کہنا ہے کہ رواں برس کرونا وائرس کی وبا جاری رہ سکتی ہے، اس کے خاتمے کا امکان سنہ 2022 کے آغاز تک ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے لیے ڈائریکٹر ہینز کلوج نے کہا ہے کہ کرونا وائرس وبا کو ختم ہونے میں 10 ماہ لگیں گے لیکن تب بھی یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا۔

    ہینز نے کہا کہ میرے خیال میں سنہ 2021 بھی کووِڈ 19 کا سال ہوگا، اس وقت ہمارے پاس وائرس کی تشخیص اور علاج کے لیے زیادہ بہتر وسائل موجود ہیں، میرے کام میں پہلے سے پلاننگ کرنے کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس وجہ سے میرے اندازے کے مطابق یہ وبا سال 2022 کے آغاز تک ختم ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ وبا کا خاتمہ وائرس کے خاتمے کا مفہوم نہیں رکھتا لیکن امید ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ختم ہو جائے گی، اس معاملے میں یورپ کا باہمی اتحاد کی حالت میں رہنا ضروری ہے۔

    ہینز کا کہنا تھا کہ وبا کے خلاف جدوجہد میں رواں سال کے دوران 3 موضوعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پہلا موضوع ویکسین مہم پروگرام میں تیزی لانا، دوسرا تبدیل شدہ وائرس کے مقابل ویکسین میں تبدیلی کرنا اور تیسرا سماجی فاصلے اور دیگر حفاظتی تدابیر کو برقرار رکھنا ہے۔

  • وہ ماسک جو کرونا وائرس کی تشخیص کر سکے گا

    وہ ماسک جو کرونا وائرس کی تشخیص کر سکے گا

    کرونا وائرس فی الحال ہماری دنیا سے جاتا نظر نہیں آتا اور فی الحال طب اور سائنس کا رخ اسی طرف ہے، دنیا بھر میں کرونا وائرس کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف ایجادات کی جارہی ہیں۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین نے ایسے سنسر بنائے ہیں جو یہ جاننے کے لیے کسی بھی ماسک پر لگائے جا سکتے ہیں کہ اسے پہننے والا کرونا وائرس کا شکار ہوا ہے یا نہیں۔ جب سانس یا لعاب میں وائرس کی موجودگی کی نشاندہی ہوگی تو سنسر کا رنگ تبدیل ہو جائے گا۔

    ماہرین نے ماسک پر رنگ بدلنے والی ایسی پتریاں لگائی ہیں جو کسی شخص کے سانس یا لعاب میں کووڈ 19 کا باعث بننے والے کرونا وائرس کی موجودگی کا پتہ لگا سکتی ہیں۔

    اس سنسر کا مقصد کووڈ 19 ٹیسٹ کا نعم البدل ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد وائرس کا علم ہونے کے بعد علاج کے لیے رجوع کرنا ہے۔

    امریکا کے صحت کے قومی اداروں نے کیلیفورنیا یونیورسٹی کو اس پروجیکٹ کے لیے 13 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں۔

    تحقیقی ٹیم کرونا وائرس کے حوالے سے خطرناک ماحول میں کام کرنے والوں کے لیے سنسر بنانے کے لیے ایک مصنوعات ساز کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرے گی، روزمرہ ٹیسٹنگ میں آسانی کے لیے ان سنسرز کی قیمت کر رکھی جائے گی۔

    دوسری جانب ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا کی ٹیم نے ایسا ماسک بنایا ہے جو سانس لینے میں آسانی پیدا کرتے ہوئے وائرس سے محفوظ رکھتا ہے۔

    اسے بنانے سے قبل طلبا نے ماسک پہننے میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے والے لوگوں کا سروے کیا، ان میں سے بہت سے افراد خاص طور پر ورزش کے دوران سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔

    ان طلبا کا بنایا ہوا فلو ماسک نامی ماسک منہ سے سانس باہر نکالتے وقت بننے والی دھند اور گرمی کو ختم کرتا ہے جس سے ماسک پہننے سے پیدا ہونے والی مشکل میں کمی آتی ہے۔

    کیونکہ زیادہ تر لوگ ناک کے راستے سانس لیتے ہیں، اس لیے اس ٹیم نے ناک اور منہ سے سانس لینے کے لیے علیحدہ علیحدہ خانے بنائے ہیں۔

    الی نوائے یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی کووڈ 19 کی تشخیص کے لیے لعاب کا ایک سستا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو کم وقت میں نتائج فراہم کرتا ہے۔

    ایری زونا یونیورسٹی کے ہی اساتذہ نے استعمال شدہ پانی کو استعمال کرتے ہوئے ایک اور کرونا وائرس ٹیسٹ وضع کیا ہے جبکہ اسی یونیورسٹی کے طلبا نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی نگرانی کرنے کے لیے ایک موبائل ایپ بھی تیار کی ہے۔