Tag: کوویڈ 19

  • ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز کی تیاری پر کام جاری ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے آغاز سے لے کر اسے منظور کیے جانے تک کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    امریکی فوج کا والٹر ریڈ کا تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کا کلنیکل آزمائشی تجربات کا مرکز، کوویڈ 19 کی ویکسینز کے کئی ٹرائلز کر رہا ہے۔ اس مرکز کی ڈائریکٹر، لیفٹننٹ کرنل میلنڈا ہیمر کہتی ہیں، ویکسین کے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے کلینیکل آزمائشی تجربات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ویکسین کی جانچ پڑتال کے عمل میں ہم انہیں انتہائی اہم قدم یا حتمی قدم کہتے ہیں۔

    ان سے خوراک اور دواؤں کا ادارہ یہ جان سکتا ہے کہ آیا کوئی ویکسین اتنی زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے کہ اسے وسیع پیمانے کے عوامی استعمال کی اجازت دی جائے۔

    ماڈرینا کی کوویڈ 19 کے آزمائشی تجربات پر تحقیق کی سربراہ، میامی یونیورسٹی کی ڈاکٹر سوزین لوئس کہتی ہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ ویکسین ہر ایک کے لیے مؤثر ہو، یا اگر مؤثر نہیں ہے تو ہم سمجھ سکیں کہ کیوں نہیں ہے۔

    امریکا میں اگر یہ نتائج اس کے متعلق کافی معلومات فراہم کریں کہ ویکسین کس طرح کام کرتی ہے، کیا یہ محفوظ ہوگی اور متعدی بیماری کے خلاف انسانوں میں اچھی طرح کام کرے گی، تو ویکسین تیار کرنے والے ویکسین کے کلینیکل آزمائشی تجربات کے لیے ایف ڈی اے سے اجازت کی درخواست کرتے ہیں۔

    انسانوں پر کلینیکل آزمائشی تجربات اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ہے یا نہیں۔ عام طور پر اس کے 3 مراحل ہوتے ہیں۔

    پہلے مرحلے میں رضا کاروں کے ایک چھوٹے گروپ کو ویکیسن لگائی جاتی ہے تاکہ محققین ویکسین کی مختلف خوراکوں سے اس کے محفوظ ہونے کا جائزہ لے سکیں۔

    محققین یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا ویکسین کی خوراکوں کے بڑھانے سے منفی ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی حد کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

    دوسرے مرحلے میں بے ترتیب اور محدود جائزوں میں کئی سو رضا کاروں کو یا تو ویکسین یا پلیسبو (نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی جاتی ہے۔

    اس مرحلے پر محققین سلامتی پر نظر رکھے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مختصر مدت کے ذیلی اثرات یا خطرات اور ویکسین کے مؤثر پن کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تیسرے مرحلے میں عام طور پر ہزاروں افراد کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ویکسین کے بعض کلینیکل تجربات میں کئی ہزار افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کوویڈ 19 ویکسین کے جاری تجربات ہیں جس میں لاکھوں کے حساب سے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

    اس مرحلے پر توجہ مؤثر پن یا بیماری کو روکنے کی استعداد پر مرکوز ہوتی ہے اور اس میں ویکسین لگوانے والے لوگوں کا موازنہ ان لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کو پلیسبو ( نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    ماڈرینا کی تیارکردہ ایم آر این اے ویکسین کے ایلی نوائے یونیورسٹی کے تیسرے مرحلے کے تجربات کی سربراہی کرنے والے، رچرڈ ایم نواک کہتے ہیں، ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے پلیسبو لگوائی ہوتی ہے، ہمیں ایسے لوگوں میں کم سے کم تر تعداد میں قابل تشخیص بیماریوں کی توقع ہوتی ہے جن کو ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    نواک کہتے ہیں کہ متنوع قسم کے افراد کو کوویڈ 19 کی ویکسین کے آزمائشی تجربات میں شامل کرنا ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہاں امریکا میں رنگ دار لوگوں میں کرونا وائرس کے انفیکشن غیر متناسب طور پر زیادہ رونما ہو رہے ہیں، لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ویکسین کے آزمائشی تجربات لوگوں کے متنوع گروہوں پر کریں۔

    جب ویکسین بنانے والی کمپنی ویکسین کی تیاری کا اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیتی ہے اور سلامتی اور مؤثر پن کا معقول مقدار میں ڈیٹا جمع کر لیتی ہے تو کمپنی ویکسین کو امریکا میں تقسیم کرنے اور مارکیٹ میں لانے کے لیے ایف ڈی اے کو درخواست کر سکتی ہے۔

    ایف ڈی اے یہ وضع کرنے کے لیے کہ ویکسین کا محفوظ اور مؤثر استعمال عملی طور پر ثابت ہو چکا ہے، مقررہ مدت میں ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔

    کوویڈ 19 کی ویکسینز کے معاملے میں محققین ہنگامی استعمال کے اجازت نامے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔ مگر بعض حالات میں انہیں اس کی تائید میں عوامی صحت کی ہنگامی حالت جیسی دلیل پیش کرنا ہوتی ہے۔

    ایسے حالات میں ایف ڈی اے کے ثابت شدہ فوائد کے مقابلے میں ویکسین کے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے سے پہلے قانونی تقاضے ہر حال میں پورے کرنا ہوتے ہیں۔

    ہیمر کا کہنا ہے کہ جس تیز رفتاری سے کوویڈ 19 کی ویکسینز تیار کی جا رہی ہیں اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم کئی ایک ویکسینز کو ابتدائی آزمائشی تجربات سے، پہلے انسانی تجربات اور پھر تیسرے مرحلے کے بنیادی آزمائشی تجربات تک ایک سال سے بھی کم عرصے میں جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک حیران کن بات ہے۔ ایف ڈی اے نے ان ٹیموں کی کام کرنے میں حقیقی معنوں میں مدد کی ہے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے آزمائشی تجربات کے طریقہ کار نہ صرف محفوظ ہوں اور ان سے مطلوبہ ڈیٹا جمع ہوتا ہو بلکہ وہ محفوظ ترین ممکنہ طریقوں سے کیے بھی جا سکتے ہوں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب واسع چوہدری اور شفاعت علی اب بھی مکمل صحت یاب نہیں

    کرونا وائرس سے صحت یاب واسع چوہدری اور شفاعت علی اب بھی مکمل صحت یاب نہیں

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے اداکار واسع چوہدری اور میزبان شفاعت علی کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 سے صحت یاب ہوجانے کے کئی ہفتوں بعد بھی وہ تھکاوٹ کا شکار رہے اور انہیں اپنے معمول کی طرف لوٹنے میں وقت لگا۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں ماریہ میمن کے ساتھ کوویڈ سے صحت یاب ہونے والے اداکار واسع چوہدری اور میزبان شفاعت علی نے شرکت کی اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔

    دونوں افراد کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران اس سے متاثر ہوئے اور اس مرض کو شکست دی۔

    واسع چوہدری نے بتایا کہ وہ اے سمپٹمٹک تھے اور اس دوران انہیں صرف سانس لینے میں معمولی دشواری پیش آئی، وہ 14 دن قرنطینہ میں رہے اور کوویڈ سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک تھکاوٹ محسوس کرتے رہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے لیے یہ جسمانی سے زیادہ اعصابی جنگ تھی۔ قرنطینہ میں وہ کتابیں پڑھتے رہے، ٹی وی دیکھتے رہے اور اپنے ذہنی دباؤ سے نمٹتے رہے۔

    میزبان شفاعت علی نے بتایا کہ جب کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو انہوں نے اپنی قوت مدافعت بڑھانے پر کام کیا، روزانہ کی 5 کلو میٹر واک کو 7 کلو میٹر کردیا، روزانہ ناشتے میں ان کی کلونجی کھانے کی روٹین تھی جس کی مقدار انہوں نے بڑھا دی، لیکن اس سب کے باوجود انہیں کوویڈ 19 ہوگیا۔

    شفاعت نے بتایا کہ انہیں سانس لینے میں شدید دشواری تھی اور اس دوران انہوں نے گھر میں 2 آکسیجن سیلنڈر استعمال کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ دماغی طور پر بھی بے حد متاثر ہوئے اور ساتویں دن اکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہوگئے۔

    شفاعت نے بتایا کہ انہیں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے میں 29 روز لگے، اس کے 50 روز کے بعد وہ واکنگ ٹریک پر واپس آسکے، لیکن اس کے بعد بھی پرانی رفتار سے واک کرنے کے لیے انہیں مزید کئی ہفتے لگے۔

    ان کے مطابق کوویڈ سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی ان کی توانائی کافی عرصے تک بحال نہیں ہوئی۔

    شفاعت نے بتایا کہ ان کا کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن کھانا ضروری تھا، بعد میں بے تحاشہ بھوک لگنے لگی اور انہوں نے 8 کلو وزن بڑھایا۔

    واسع چوہدری نے کہا کہ کرونا وائرس کو معمولی سمجھنا چھوڑ دیں اور حکومت بھی کوشش کرے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔

  • کرونا وائرس: پنجاب اسمبلی سے مزید 10 کیسز رپورٹ

    کرونا وائرس: پنجاب اسمبلی سے مزید 10 کیسز رپورٹ

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں کی جانے والی کرونا وائرس ٹیسٹنگ کے دوران عملے کے مزید 10 افراد میں انفیکشن کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد پنجاب اسمبلی سے رپورٹ شدہ کوویڈ 19 کیسز کی مجموعی تعداد 17 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ جاری ہے، اسمبلی کے عملے میں سے مزید 10 افراد کا رزلٹ مثبت آیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی سے رپورٹ شدہ کرونا وائرس کیسز کی مجموعی تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    خیال رہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے پھیلاؤ کے بعد کوویڈ کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ملک میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 3 لاکھ 59 ہزار 32 ہوچکی ہے۔

    صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 2 ہزار 128 کرونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    گزشتہ روز کرونا وائرس کے مزید 19 مریض جاں بحق ہوئے جس کے بعد کرونا سے مجموعی اموات ک تعداد 7 ہزار 160 ہوگئی ہے۔

    ملک میں کوویڈ 19 کے فعال کیسز کی تعداد 28 ہزار 48 ہے جن میں سے 1 ہزار 379 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ اب تک 3 لاکھ 23 ہزار 824 افراد کوویڈ 19 سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • مشیر تجارت کی برآمد کنندگان کو اہم ہدایت

    مشیر تجارت کی برآمد کنندگان کو اہم ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، عالمی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کی طلب میں کمی آئے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کرونا وائرس کی وبا انسانی تاریخ کا ایسا بحران ہے جس کی مثال نہیں ملتی، وبا کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

    عبد الرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر کی معیشتیں سکڑ گئیں، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت بڑی مغربی معیشتوں کی گروتھ منفی رہے گی۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی شدت بڑھنے سے بیشتر ممالک پھر لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں۔

    مشیر تجارت کا مزید کہنا تھا کہ عالمی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کی طلب میں کمی آئے گی، برآمد کنندگان عالمی مارکیٹس میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کوششیں تیز کریں۔

  • بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے مزید کیسز رپورٹ

    بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے مزید کیسز رپورٹ

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد تعلیمی اداروں سے سامنے آنے والے کوویڈ کیسز کی تعداد 550 ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت بلوچستان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی تعداد 550 ہوگئی ہے۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کیسز کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار 984 ہوچکی ہے جن میں سے فعال کیسز  8 ہزار 884 ہیں۔

    ملک میں اب تک 6 ہزار 507 مریض کرونا وائرس کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 2 لاکھ 98 ہزار 593 ہوچکی ہے۔

    صرف بلوچستان میں رپورٹ کرونا کیسز کی تعداد 15 ہزار 281 ہوچکی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 24 نئے کیسز سامنے آئے۔

    صوبے میں کرونا وائرس سے گزشتہ روز ایک ہلاکت ہوئی جس کے بعد صوبے میں کرونا وائرس سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 146 ہوچکی ہے۔

  • بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کیا جانے لگا

    بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کیا جانے لگا

    گزشتہ کچھ عرصے میں کرونا وائرس کے بے شمار خود ساختہ علاج اور دوائیں سامنے آئیں تاہم ابھی تک کسی بھی شے کو باقاعدہ طور پر کرونا وائرس کے علاج کے طور پر منظور نہیں کیا گیا۔

    ان میں کچھ پروڈکٹس ایسی بھی تھی جو زہریلی اور مضر صحت تھیں تاہم انہیں بھی خریدا جاتا رہا۔ حال ہی میں ایک صنعتی بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق خرید و فرخت کی ایک ویب سائٹ پر انڈسٹریل بلیچ کو کوویڈ 19 کا معجزاتی علاج قرار دے کر فروخت کیا جارہا ہے۔

    کلورین ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل اس بلیچ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ گھر میں استعمال ہونے والے پانی کو ٹریٹ کرنے کے لیے ہے جس سے جراثیموں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    مذکورہ بلیچ کی صرف بیرونی استعمال کی ہدایت دی گئی ہے۔

    ویب سائٹ پر پروڈکٹ کے ریویو سیکشن میں کچھ صارفین نے لکھا کہ انہوں نے اسے خریدا اوراس کی معمولی مقدار کے ذریعے خود کو بھی ڈس انفیکٹ کیا۔

    مذکورہ بلیچ کو مختلف صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے ٹیکسٹائل مینو فیکچرنگ اور کاغذ کو بلیچ کرنے کے لیے، اس سے پانی کو ڈس انفیکٹ بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کے لیے بہت کم مقدار استعمال کی جاتی ہے۔

    بلیچ کے برانڈ مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے اسے ویب سائٹ پر بطور کلیننگ ایجنٹ فروخت کرنے کے لیے تو دیا گیا ہے، تاہم اس کے علاوہ اسے کس طرح فروخت کیا جارہا ہے، وہ اس معاملے سے لاعلم ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کرونا وائرس سے بچنے کے لیے بلیچ کو بطور ڈس انفیکٹنٹ استعمال کرنے کا بیان دیا تھا، ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے لوگوں نے واقعی بلیچ کا استعمال شروع کردیا اور امریکی اسپتالوں میں بلیچ سے متاثر بے شمار کیسز رپورٹ ہوئے۔

    امریکی ایسوسی ایشن آف پوائزن کنٹرول کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 16 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جنہوں نے کلورین ڈائی آکسائیڈ استعمال کیا یا اسے پیا، ان میں سے ڈھائی ہزار کمسن بچے بھی تھے۔

  • ابو ظہبی: طلبہ کا ہر 2 ہفتے بعد کرونا وائرس ٹیسٹ ہوگا

    ابو ظہبی: طلبہ کا ہر 2 ہفتے بعد کرونا وائرس ٹیسٹ ہوگا

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں اسکول آنے والے طلبہ کا کرونا وائرس ٹیسٹ ہر 2 ہفتے بعد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، امارات میں نیا تعلیمی سال 5 ستمبر سے شروع ہو رہا ہے۔

    اماراتی ویب سائٹ کے مطابق ابو ظہبی میں وزارت تعلیم و تربیت نے اسکولوں کے طلبہ کا کووڈ 19 (پی سی آر) ٹیسٹ 2 ہفتے میں ایک بار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    وزارت تعلیم و تربیت کے ماتحت اسکول آپریشن ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر لبنی الشامسی نے بتایا کہ ابو ظہبی کے طلبہ کا ٹیسٹ اسکولوں میں ہوگا جبکہ دیگر ریاستوں کے طلبہ کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہیں ایس ایم ایس کے ذریعے ٹیسٹ سینٹر کے حوالے سے مطلع کیا جائے گا۔

    ڈائریکٹر کے مطابق ایس ایم ایس ان کے سرپرستوں کے نام بھیجے جائیں گے، پی سی آر ہر 2 ہفتے میں ایک بار ضرور ہوگا۔

    الشامسی نے بتایا کہ طلبہ کی تدریجی واپسی کے فیصلے کی بدولت کرونا وائرس ٹیسٹ آسانی سے ممکن ہوسکے گا۔۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات میں 5 ستمبر سے نیا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے، اسکول 12 برس سے کم عمر طلبہ یعنی تیسری سے چھٹی جماعت تک کے لیے اتوار سے کھلیں گے۔

    اسی روز سے طلبہ کے کرونا وائرس ٹیسٹ کی بھی شروعات کردی جائیں گی۔

  • متحدہ عرب امارات: جاسوس کتے کرونا وائرس کا پتہ لگائیں گے

    متحدہ عرب امارات: جاسوس کتے کرونا وائرس کا پتہ لگائیں گے

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں جاسوس کتوں کو کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کا پتہ لگانے کی تربیت دے دی گئی۔ کتے، انسانوں سے براہ راست رابطے میں آئے بغیر پسینے کی بو سے کرونا وائرس کے ہونے یا نہ ہونے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

    اماراتی نیوز ایجنسی کے مطابق متحدہ عرب امارات نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں نئی کامیابی حاصل کی ہے۔ امارات جاسوس کتوں کے ذریعے کرونا وائرس کا پتہ لگانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

    دنیا کے دیگر ممالک میں ابھی تک یہ طریقہ کار تجربے اور تربیت کے مرحلے میں ہے۔

    اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ کتا چند سیکنڈ میں اس بات کا پتہ لگا سکتا ہے کہ کوئی شخص وائرس سے متاثر ہے یا نہیں، اس طریقہ کار کے باعث انٹرنیشنل ایئرپورٹسں پر مسافروں کی حفاظت میں اضافہ ہوجائے گا۔

    یہ تربیت یافتہ جاسوس کتے سونگھنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کتے پولیس کے ہیں جو اہم مقامات کی حفاظت، تجارتی مراکز اور غیر معمولی تقریبات کو خطرات سے بچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    اب ان جاسوس کتوں کو کرونا وائرس کے متاثرین کا پتہ لگانے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔

    پولیس کے مطابق کسی بھی انسان کے پسینے کا نمونہ لے کر تربیت یافتہ کتے کو سنگھایا جاتا ہے، اس میں کتے کا انسان سے براہ راست واسطہ نہیں پڑتا۔ کتا سونگھتے ہی بتا دیتا ہے کہ متعلقہ شخص کرونا وائرس میں مبتلا ہے یا نہیں۔

    اماراتی وزارت داخلہ کی جانب سے جاسوس کتوں کی تربیت کے لیے جو قومی ٹیم تشکیل دی گئی ہے اس میں فرانس کے الفور اسکول کی نمائندگی بھی شامل ہے۔

    یہ اسکول یورپی ممالک میں مویشیوں پر کام کرنے والا سب سے پرانا ادارہ ہے، ٹیم میں وزارت صحت، محکمہ کسٹم اور پولیس کی نمائندگی بھی شامل ہے۔

  • فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور ایسے میں کمزور قوت مدافعت رکھنے والے، بزرگ اور دیگر بیماریوں کا شکار افراد اس کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں۔

    کرونا وائرس کے آغاز سے ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ فربہ افراد کو کوویڈ 19 کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس کی ممکنہ وجوہات سے آگاہ کیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضا جیسے دل کے ارد گرد چربی جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دل کو خون پمپ کرنے میں دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بلڈ پریشر کی شکایت ہوسکتی ہے۔

    اسی وجہ سے موٹاپا جسم کو دیگر بیماریوں جیسے ذیابیطس، امراض قلب، جگر اور گردوں کے مسائل کا تحفہ دے سکتا ہے۔ یہ تمام بیماریاں کرونا سمیت ہر طرح کے وائرسز کو جسم میں دعوت دے سکتی ہیں۔

    موٹاپے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ جسم کی نالیوں میں موجود چکنائی کی وجہ سے آکسیجن کی آمد و رفت مشکل ہوتی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سوزن جیب کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے دراصل تمام اعضا کو اپنے افعال ادا کرنے کے لیے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ اعضا جو پہلے ہی دگنا کام کر رہے ہوں وہ جسم میں داخل ہونے والے کسی نئے وائرس سے مزاحمت کس طرح کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے اور کرونا وائرس میں تعلق کی ایک اور وجہ جسم میں فیٹی ٹشوز کا ہونا بھی ہے جو موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ان ٹشوز میں ایک خاص قسم کے انزائم پیدا ہوتے ہیں۔ کرونا وائرس ان انزائم کو جسم میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    لندن کے کنگز کالج کے ماہر فرانسسکو روبینو کہتے ہیں کہ موٹاپے اور کرونا وائرس کے تعلق کو دو پینڈیمکس کا ٹکراؤ کہا جاسکتا ہے۔

    روبینو کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ موٹاپے کا تدارک کرنے کی جتنی ضرورت اب ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب وقت ہے کہ صحت مند طرز زندگی اپنایا جائے، فعال اور متحرک زندگی گزاری جائے اور موٹاپے سے چھٹکارہ پایا جائے۔

  • یورپی یونین کا کرونا ویکسین کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    یورپی یونین کا کرونا ویکسین کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    برسلز: یورپی یونین کی کوشش ہے کہ وہ کرونا وائرس کی ویکسین کو 40 ڈالر سے کم قیمت میں حاصل کرے اور اس کے لیے یونین عالمی ادارہ صحت کی سربراہی میں کرونا ویکسین کے لیے قائم کردہ اتحاد سے خریداری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

    یورپی یونین کے 2 آفیشلز کے مطابق یونین دوا ساز کمپنیوں سے 40 ڈالرز سے بھی کم قیمت میں ویکسین حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

    یورپی یونین اس بات کا حامی ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین تمام ممالک کو یکساں طور پر فراہم کی جائے تاہم اس کی کوشش ہے کہ اس موقع پر یورپی ممالک کو ترجیح دی جائے۔

    یونین کے ایک آفیشل کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس (عالمی طور پر ویکسین کی تیاری کا مکینزم) کے ذریعے ویکسین کے حصول سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ اس کی ترسیل میں تاخیر ہوگی۔

    مذکورہ آفیشل کے مطابق کوویکس میکینزم کے ذریعے ویکسین پیشگی طور پر خریدنی ہوگی، اور امیر ممالک کے لیے ویکسین کی ممکنہ قیمت کا ٹارگٹ 40 ڈالر رکھا گیا ہے، تاہم یورپی یونین اپنے میکنزم کے تحت ویکسین اس سے کم قیمت میں خرید سکتی ہے۔

    یونین ممکنہ ویکسین کی ادائیگی اپنے ایمرجنسی سپورٹ انسٹرومنٹ کے 2 ارب یورو کے فنڈ سے کرے گی۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی حکومت نے فائزر اور جرمن بائیوٹک کمپنی کے ساتھ 2 ارب ڈالرز کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کووڈ 19 کی ویکسین کے لیے قیمت کا معیار طے کیا تھا۔

    صنعتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے قیمتوں کے معیار طے ہونے کا دباؤ دیگر مینو فیکچررز پر بھی پڑے گا کہ وہ بھی یہی قیمتیں مقرر کریں۔

    یہ معاہدہ 5 کروڑ امریکیوں کے لیے ویکسی نیشن کا موقع فراہم کرے گا اور فی امریکی کو ویکسین 40 ڈالر میں پڑے گی، یا اتنے میں جتنے میں وہ سالانہ طور پر فلو ویکسین خریدتے ہیں۔