Tag: کوپ 29

  • کوپ 29: معاہدہ ہو گیا، امیر ممالک 1.3 کھرب ڈالر دینے کے لیے تیار ہو گئے

    کوپ 29: معاہدہ ہو گیا، امیر ممالک 1.3 کھرب ڈالر دینے کے لیے تیار ہو گئے

    باکو: کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالیاتی معاہدے پر اتفاق ہو گیا۔

    کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالیاتی معاہدے پر اتفاق ہو گیا، امیر ملکوں نے 1.3 ٹریلین ڈالر فنڈ دینے کی یقین دہانی کرا دی۔

    امیر ممالک نے کوپ 29 کانفرنس وعدہ کیا کہ ترقی پذیر ملکوں میں موسمیاتی تبدیلی سے تباہی روکنے کے لیے 2035 تک ریکارڈ 300 ارب ڈالر دیں گے، یہ فنڈ گرانٹ اور پراجیکٹس کے لیے دیے جائیں گے، نجی سطح پر سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے کے سربراہ سائمن اسٹیل نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا، تاہم سماجی تنظیمیں اس معاہدے کو دھوکا سمجھ رہی ہیں۔

    پاور شفٹ افریقا نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ امیر ملکوں نے فوری فنڈ دینے کی بجائے مستقبل کے وعدے کیے ہیں، جو موسمی تغیر سے متاثرہ ملکوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں میں زندگیاں ختم ہو رہی ہیں اور یہ پیسے بعد میں دیں گے۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ فنانس پر مرکزی توجہ کے ساتھ کوپ 29 نے باکو، آذربائیجان میں تقریباً 200 ممالک کو اکٹھا کیا، جو آخرکار اس معاہدے پر پہنچ گئے کہ: ترقی پذیر ممالک کو تین گنا پبلک فنانس دیا جائے گا، یعنی پچھلے ہدف 100 ارب امریکی ڈالر سالانہ سے اب 2035 تک سالانہ 300 ارب امریکی ڈالر فنڈ دیا جائے گا، سرکاری اور نجی ذرائع سے 2035 تک ہر سال 1.3 ٹریلین امریکی ڈالر کی رقم ترقی پذیر ممالک کو بہ طور مالی اعانت دی جائے گی.

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی تغیر کے ایگزیکٹو سیکریٹری سائمن اسٹیل نے کہا ’’یہ نیا مالیاتی ہدف انسانیت کے لیے ایک انشورنس پالیسی ہے، اس لیے ہر انشورنس پالیسی کی طرح یہ بھی اسی وقت کام کرے گی جب پریمیم بروقت اور مکمل طور پر ادا کیے جائیں، اور اربوں جانوں کے تحفظ کے لیے وقت پر وعدے پورے کیے جائیں۔‘‘

  • ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    باکو: آذربائیجان میں جاری کوپ 29 اجلاس کے دوران سماجی تنظیم نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک کو آستین کے سانپ قرار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آذربائیجان میں جاری کوپ ٹوئنٹی نائن میں سماجی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ امیر ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈگ بڑھائیں، باکو میں جاری اجلاس کے دوران سماجی کارکنان کا بین الاقوامی برادری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مظاہرین نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کے ساتھ انصاف کریں اور ان کی مدد کریں۔ کوپ ٹوئنٹی نائن میں ایک سماجی تنظیم نے فوسل فیول پیدا کرنے والوں کو آستین کا سانپ قرار دیا اور ہال میں دیوہیکل غبارے سے بنا سانپ بھی لے کر آئے۔

    مظاہرین نے کہا کہ فوسل فیول پیدا کرنے والی کمپنیاں کلائمٹ ایکشن میں رکاوٹ ڈال کر پیسہ کما رہی ہیں۔ دریں اثنا مظاہرین نے اس بار اجلاس میں اپنے مظاہرے کے لیے پیدا کیے گیے مشکل حالات کا بھی ذکر کیا، مظاہروں میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کے منتظمین کی جانب سے سخت قوانین کے رجحان کو محسوس کیا ہے، جن میں COPs کا انعقاد ایسے ممالک میں کیا جانے لگا ہے جہاں کی حکومتیں مظاہروں اور سول سوسائٹی کی شرکت کے خلاف سخت طرز عمل اپناتی ہیں۔

  • کوپ 29: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 2024 کو موسمیاتی تباہی کی ’ماسٹر کلاس‘ قرار دے دیا

    کوپ 29: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 2024 کو موسمیاتی تباہی کی ’ماسٹر کلاس‘ قرار دے دیا

    باکو: آذربائیجان میں منعقدہ ’کوپ 29‘ کے اجلاس میں یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے 2024 کو موسمیاتی تباہی کی ’ماسٹر کلاس‘ قرار دے دیا۔

    موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس آف پارٹیز کا انتیسواں اجلاس آج منگل کو باکو میں شروع ہو گیا ہے، پاکستانی وزیر اعظم میاں شہباز شریف، ترک صدر رجب طیب اردوان، برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر، یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان اور تاجک صدر امام علی رحمانوف سمیت دیگر عالمی سربراہان شرکت کر رہے ہیں، امریکا اور چین کی جانب سے اجلاس میں شرکت کے لیے وفود بھیجے گئے ہیں۔

    عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں انتونیو گوتریس نے کہا ’’2024 آب و ہوا کی تباہی کی ایک ماسٹر کلاس ہے، اگلے سمندری طوفان سے پہلے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے والے خاندان؛ کارکنان اور زائرین ناقابل برداشت گرمی کا شکار ہو رہے ہیں، سیلاب کمیونٹیز کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے، اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتا ہے۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’بچے بھوکے سو رہے ہیں کیوں کہ فصلیں خشک سالی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں، یہ تمام آفات اور تباہیاں محض انسان کے ہاتھوں لائی گئی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہو رہی ہیں۔‘‘

    سیکریٹری جنرل نے یاد دلایا کہ پچھلے سال Cop28 میں اقوام عالم نے فوسل فیول سے دست بردار ہونے کا وعدہ کیا تھا، اب اس وعدے پر عمل کرنے کا وقت ہے، اس کے لیے پوری انسانیت آپ کے پیچھے کھڑی ہے۔ انھوں نے کہا ’’سولر اور وِنڈ انرجی تقریباً ہر جگہ اب بجلی کا سب سے سستا ذریعہ بن چکا ہے، ایسے میں فوسل فیول کو دوگنا کرنا مضحکہ خیز ہے، صاف توانائی کا انقلاب آ چکا ہے، کوئی گروہ، کوئی کاروبار اور کوئی حکومت اسے روک نہیں سکتی، بس آپ کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ منصفانہ اور تیز رہے۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’گلوبل وارمنگ روکنے کے لیے دنیا کے پاس آخری موقع ہے، اس سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا، اس کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے باعث مسائل نا انصافی کی وجہ سے ہیں، امیر ممالک مسائل پیدا کر رہے ہیں اور غریب ممالک قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘

    انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز میں اضافہ کیا جانا چاہیے، اور موسمیاتی تبدیلی سے دوچار ترقی پذیر ممالک کو خالی ہاتھ نہیں لوٹنا چاہیے، کوپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ڈیل ہونی چاہیے، مطلوبہ نتائج کے لیے مالیاتی ہدف طے کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔

    اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے عالمی رہنماؤں کے سامنے 3 ترجیحات رکھیں: پہلی یہ کہ ہنگامی طور پر نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائی، اور اس کے لیے G20 ممالک آغاز کریں، دوسری ترجیح لوگوں کو موسمیاتی بحران کی تباہ کاریوں سے بچانا ہے، خاص طور پر سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو، جس کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ تیسری ترجیح مجموعی مالیاتی ہدف کی فراہمی ہے جو کم از کم ایک کھرب ڈالر سالانہ ہونا چاہیے اور یہی Cop29 کا کلیدی ہدف ہے۔

    گوتیرس نے حکومتی فنڈنگ، ترقیاتی بینکوں اور دیگر جدید ذرائع سے سستے قرضوں کے حصول، اور خاص طور پر جہاز رانی، ہوا بازی، اور فوسل فیول نکالنے پر عائد ٹیکسوں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’’آلودگی پھیلانے والوں کو ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘ انھوں نے کہا ’’دنیا کو اس کی قیمت چکانی ہوگی، ورنہ انسانیت اس کی قیمت ادا کرے گی۔‘‘ یو این سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی مالیات کوئی خیرات نہیں ہے، یہ ایک سرمایہ کاری ہے۔ آب و ہوا کے لیے اقدامات اختیاری نہیں ضروری ہیں۔‘‘

    واضح رہے کہ کوپ 29 میں ’’گلوبل کلائمیٹ فنانس فریم ورک‘‘ اہم توجہ کا مرکز ہے، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے۔ دریں اثنا کوپ 29 کے اجلاس کے مقام پر سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا، اور عالمی سربراہان سے دنیا کو محفوظ اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

  • کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    مجتبیٰ بیگ

    کہنے کو تو یہ ایک کانفرنس ہوتی ہے مگر اِس میں ہونے والی سرگرمیاں کسی میلے سے کم نہیں ہوتیں۔ ہرسال ساری دنیا سے حکومتی، سول سوسائٹی، درس و تدریس، تحقیق، سائنسی علوم، صحافت اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی ایک ملک کے بڑے شہر میں جمع ہوکر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    دس دن تک روزانہ صبح سے شام تک کانفرنس، اس دوران چھوٹے چھوٹے کئی ذیلی اجلاس، کھانا پینا اور ساتھ ساتھ گپ شپ، گفت و شنید اور کانفرنس گاہ سے باہر پرجوش موسمیاتی کارکنوں کے موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف مظاہرے اور دھرنے جاری رہتے ہیں۔ چند ہزار لوگ اس میں حکومتی خرچے پر شامل ہوتے ہیں جبکہ کثیر تعداد اپنے نجی اداروں کی مالی معاونت سے اور ایک بڑی تعداد اپنے خرچے پر بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔

    کانفرنس ہال کے سبز پنڈال میں سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی، دنیا کی قدیم تہذیبوں کے پیروکار، ماہرین تعلیم، موسمیاتی و ماحولیاتی کارکنان اور مبصرین جبکہ نیلے پنڈال میں ہر قسم اور ہر سطح کے بابو لوگ یعنی حکومتی نمائندے، سرکاری اہلکار، سرکاری تیکنیکی ماہرین و نمائندے اور وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی ملک کے حکومتی وفد کے ساتھ ہوں وہ سب بڑی شان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔

    دونوں پنڈالوں میں بیٹھے لوگوں کا مقصد ایک یعنی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام جبکہ راستہ الگ الگ ہوتا ہے۔ سبز پنڈال والے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کے حامی ہوتے ہیں جبکہ نیلے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کی کوشش کسی کو ناراض کیے بغیر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اقدامات کرنا ہوتی ہے جو قدرے مشکل اور وقت طلب ہے۔

    گزشتہ تیس سال میں کل اٹھائیس کانفرنسیں ہوچکی ہیں جبکہ انتیسویں کانفرنس اگلے ماہ کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہونے جارہی ہے۔ اسی کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی جانب موسمیاتی تبدیلی کے رسمی انکشاف کے بعد 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت سارے ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے یو این ایف سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج) کہتے ہیں جس پر عملدرآمد کے سیکریٹریٹ نے ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے جائزے کے لیے کانفرنس آف پارٹیز کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب کوپ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی کوپ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مستقل ہر سال یہ کانفرنس ہورہی ہے جس میں 2019 اور 2020 میں کویڈ کی وجہ سے تعطل آیا تھا۔ سب سے پہلی کوپ میں بمشکل بارہ سو لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال ہونے والی کوپ 28 میں 80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت ریکارڈ تھی اور قیاس ہے کہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔

    1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ہونے والی کوپ 3 اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیوٹو پروٹوکول نام سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ 2009 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15 میں ترقی یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے 2020 تک 100 ارب ڈالر کا موسمیاتی مالیات کا فنڈ قائم کریں جس کا ہدف بڑی مشکلوں سے 2022 تک پورا ہو پایا تھا، اس میں بھی ترسیلات سے زیادہ مالی وعدوں اور عزائم کی اکثریت ہے۔

    سال 2015 میں کوپ 21 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس میں عزائم اور وعدوں کے بجائے باقاعدہ اہداف رکھے گئے ہیں جن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کا عالمی اخراج نصف تک لانا ہے اور 2050 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو کر عالمی اخراج صفر تک پہنچا دینا ہے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ترجیحاً 1.5 ڈگری تک روکا جاسکے۔

    دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کوپ 27 میں معمول کی موسمیاتی امداد کے فنڈ کے علاوہ موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے ہنگامی امداد کا فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان ہوا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موسمیاتی آفات سے ہونے والی تباہیوں کا فوری طور پر ازالہ کیا جاسکے۔ اس فنڈ کو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے قیام میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے کلید ی کردار اد کیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ مکمل طور پر اب تک فعال نہیں ہوسکا ہے حالانکہ دبئی میں ہونے والی کوپ 28 میں بھی اس پر کافی بات ہوئی تھی۔

    اگلے ماہ باکو میں ہونے والی کوپ 29 میں 100 ارب ڈالر کے موسمیاتی فنانس کے فنڈ کو سالانہ بنیادوں پر فعال کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کے سرٹیفکیٹس جنہیں کاربن کریڈٹ کہتے ہیں اس کی تجارت کو پوری دنیا میں پھیلانے، لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کو فوری طور پر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے اقدامات کی ہر طرح کی سپورٹ کرنے جیسے اہم نکات پر پیش رفت ہونے کا بھی امکان ہے۔

    کوپ 29 پاکستان کے لیے بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح یکساں اہم ہے کیونکہ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جن کا گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ تو ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اس کا پانچواں نمبر ہے۔ 2022 کے سیلابوں میں سندھ میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا ہے کیونکہ لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی ہے۔ اسی طرح موسمیاتی فنانس کی مد میں بھی اب تک موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ پاکستان کو ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے اور جو سب کی سب گرانٹ نہیں بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔

    کاربن کریڈٹ کے ذریعے ایسے کاموں کی تلافی کی جاتی ہے جن سے گرین ہاؤس گیسیں لازمی نکلتی ہیں اس لیے تلافی کے طور پر کاربن جذب کرنے کے ایسے کاموں کی مالی سپورٹ کی جاتی ہے جو کہیں اور کیے جارہے ہوں اس طرح کاربن جذ ب کرنے والے کو اپنے کام کا معاوضہ مل جاتا ہے اور کریڈٹ خریدنے والے کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی ہوجاتی ہے۔ کاربن کریڈٹ کی خرید وفروخت کی مارکیٹ بھی اب تک پوری دنیا میں پھیل نہیں سکی ہے جس کا کوپ 29 میں واضح لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ کاربن کے اخراج کی تلافی کرنے والے اس بڑے ذریعے کو فروغ دیا جاسکے۔ پاکستان میں اگر سنجیدگی سے کاربن مارکیٹ قائم اور اسے پیشہ وارانہ انداز سے چلایا جائے تو اس میں 2 ارب ڈالر سالانہ تک کمانے کی گنجائش ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے دو بڑے ذریعے تخفیف اور موافقت ہیں۔ تخفیف کا مطلب ہے فوسل فیول کا استعمال ختم یا کم کرکے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جبکہ موافقت کا مطلب ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مقابلے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھانا اور اپنے انفرااسٹرکچر، صنعت، زراعت اور آمدو رفت کے وسائل کو پائیداراور مستحکم بنانا تاکہ موسمیاتی آفات سے کم سے کم نقصان ہو۔ اب تک دنیا میں موسمیاتی تخفیف کے لیے تو معقول اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم موافقت کے نتائج جانچنے کا کوئی پیمانہ نہ ہونے کے باعث موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کم کی جارہی ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے بھی کوپ 29 میں عملی اقدامات تجویز کیے جانے کی امید ہے۔ پاکستان کو سندھ اور بلوچستان میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے موافقت قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

    الغرض پاکستان سمیت موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ تمام ممالک کی نظریں کوپ 29 پر لگی ہوئی ہیں تاکہ اگر وہ اپنے ایجنڈا میں شامل نصف نکات پر بھی کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے پاس موسمیاتی فنانس اور لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اپنا پورا حصہ ڈالنے سے بچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور اسی طرح کاربن مارکیٹ کے پھیلاؤ اور موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو قابل پیمائش اہداف دینے ہوں گے تاکہ مل جل کر دنیا کے شمالی اور جنوبی حصے سیارہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا سکیں۔

    (ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں مجتبیٰ بیگ کا موضوع ہیں جس پر وہ مضامین لکھتے رہتے ہیں، ماحولیاتی انسائیکلوپیڈیا کے عنوان سے ان کی ایک تصنیف اور بطور مترجم دو کتابیں شایع ہوچکی ہیں)

  • ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    جب رومینہ خورشید عالم نے اپریل 2024 میں عہدہ سنبھالا تو وہ اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی کوپ 27 میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نقصان اور تباہی فنڈ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کی تاریخی قیادت اور دیگر پیشروؤں کی اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اس عہدے سے وابستہ توقعات کافی زیادہ ہیں۔ رحمان سے پہلے، سابق وزیر ماحولیات اور معروف موسمیاتی وکیل، ملک امین اسلم، پہلے ہی پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کو عالمی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔

    پاکستان نقصان اور تباہی فنڈ کے معاوضے کا منتظر ہے، اس دوران موسمیاتی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ملک کے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور کوپ 29 کے حوالے سے تیاری کے بارے میں اپنے وژن پر گفتگو کی

    رومینہ خورشید عالم اپنے پیشروؤں کی طرف سے رکھی گئی بنیادوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ آگے ایک طویل سفر ہے۔ نمایاں پیش رفت کے باوجود، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار مملک میں سے ایک ہے۔ شدید اور متواتر موسمی واقعات کے ساتھ، قوم کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مالیاتی بجٹ میں مالی سال 2024-25 کے لئے موسمی طور پر حساس علاقوں کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور ملک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے احتیاط سے منصوبہ بند پالیسیوں اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔

    ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی رابطہ کار (کلائمیٹ کوآرڈینیٹر) رومینہ خورشید عالم نے اپنے پیشروؤں کو سراہا اور اپنے کیریئر کے سفراوراہداف کا خاکہ پیش کیا۔ وہ اپنا تعارف بطور ایک پر عزم موسمیاتی کارکن کراتی ہیں جوکہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے کا جذبہ رکھتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا، ” میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2005 میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سے کیا۔ 2008 تک میں مسلم لیگ ن کے گوجرانوالہ چیپٹر کی سیکرٹری جنرل رہی۔ بطور مسیحی اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پارٹی سے میری وابستگی برقرار رہی‘‘۔

    انہوں نے اپنے عہدے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا، “ وزیر اعظم میرے باس ہیں؛ مجھے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کی تعریف اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ میں اپنے اہداف کو جارحانہ طریقے سے حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک غیر فعالیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔”

    ڈائیلاگ ارتھ: آپ نے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے کی بات کی ہے۔ اپنے موجودہ کردار میں آپ کے پاس کس قسم کا اختیار ہے؟ آپ اصل میں کتنی طاقت رکھتی ہیں؟

    رومینہ خورشید عالم: موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن پر وزیر اعظم کی رابطہ کار کی حیثیت سے، میں نے پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کی قیادت کی ہے۔ میرے کام میں موسمیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا، ماحولیاتی نظم و نسق کو بڑھانا، اور لچکدار منصوبوں کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔ میری توجہ پلاسٹک کے فضلے، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔

    تاہم، میرا کردار مشاورت اور سہولت کار کا ہے، ایگزیکٹو نہیں ہے۔ میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہوں اور رابطے وضع کرسکتی ہوں لیکن پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم کے لئے وزارتوں اور محکموں پر انحصار کرتی ہوں۔

    آپ کی توجہ اس وقت کن اہم مسائل پر مرکوز ہے اور کون سے بڑے اقدامات پائپ لائن میں ہیں؟

    ہماری توجہ فعال صوبائی تعاون کے ساتھ، موسمیاتی اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی مطابقت بڑھانے کے لئے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر عملدرآمد کی قیادت پرمرکوز ہے۔ کوششوں میں پائیدار ترقی کے لئے موسمیاتی مالیات کو متحرک اور استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا اور کاربن ٹریڈنگ کے لئے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ اخراج کو کم کیا جا سکے اور گرین ماحول دوست ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ آلودگی کو روکنے کے لئے پلاسٹک پر پابندی کے ضوابط کو نافذ کرنا بھی ایک ترجیح ہے۔ مزید برآں، ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانا جو ماحولیاتی پائیداری کو صنعتی کاموں میں ضم کریں اور عوامی بیداری بڑھانے اور اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی اقدامات میں شامل کرنے کے لئے میڈیا کی حکمت عملی تیار کرنا اہم اقدامات ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور پاکستان کا اس پر کافی انحصار ہے۔ سربراہی اجلاس کے لئے ملک کے بنیادی اہداف کیا ہیں اور آپ انہیں پیش کرنے کی کیا تیاری کررہی ہیں؟

    کوپ 29 کے لئے پاکستان کے اہداف میں موسمیاتی مالیات میں اضافہ یقینی بنانا ہے، خاص طور پر کمزور خطوں میں موافقت اور لچک کے منصوبوں کے لئے۔ ملک کا مقصد اپنے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ازالہ کرنا اور پائیدار منصوبوں میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کاربن مارکیٹ کی پالیسی کو حتمی شکل دینا ہے۔ ہم محدود افرادی قوت کے باوجود فنڈنگ ​​کی منظوری اور اربوں ڈالرز کے لئے 25 سے 30 پروجیکٹس تیار کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی انصاف کی وکالت، بشمول مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔

    تیاری میں وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ، موسمیاتی اثرات پر ڈیٹا اور تحقیق کو مرتب کرنا، اعلیٰ سطح کی سفارت کاری، اور کوپ 29 میں پاکستان کے اہداف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کےلئے ایک جامع مواصلاتی حکمت عملی تیار کرنا شامل ہے۔

    سابقہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان نے 2022 کے سیلاب کے بعد نقصان اور تباہی کے فنڈ کی وکالت میں اہم پیش رفت کی۔ کیا پاکستان کو اس اقدام سے کوئی مالی مدد ملی ہے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟

    پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کوپ 27 میں نقصان اور تباہی کے فنڈ کے قیام کی پرزور اپیل کی۔ اس فنڈ کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہیں۔

    کوپ 27 کے دوران نقصان اور نقصان کے فنڈ پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا گیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ تاہم، فنڈ کو فعالیت کی رفتار سست ہے ،اس کی ساخت، حکمرانی، اور فنڈز تک رسائی کے معیار کے حوالے بات چیت جاری ہے۔ پاکستان، اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے ان مذاکرات میں فعال طور پر شامل رہا ہے، تاکہ کمزور ممالک کو بروقت امداد مل سکے۔

    پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حکومت موسمیاتی خدشات کو اپنی وسیع تر توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں کیسے ضم کر رہی ہے؟

    پاکستان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود بتدریج آب و ہوا کے مسائل کو اپنی توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (2019) کا مقصد 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی حاصل کرنا ہے، جس میں شمسی، ہوا اور پن بجلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی فضائی آلودگی اور معدنی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ گرین فنانسنگ کے اقدامات، جیسے قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم اور پاکستان کے پہلے گرین بانڈ کا اجراء ، پائیدار توانائی کی سرمایہ کاری کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    اقتصادی منصوبہ بندی میں بشمول موسمیاتی کارروائی (ایس ڈی جی 13)، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز شامل ہیں، اور کمزور گروہوں پر موسمیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی ) اور موسمیاتی لچکدار زراعت کے اقدامات ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔ احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز میں موسمیاتی اثرات سے پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے پر ہیں۔ محدود وسائل اور نفاذ کے مسائل سمیت چیلنجز برقرار ہیں، لیکن جامع اور مساوی آب و ہوا کی پالیسیوں کے لئے عزم بھی برقرار ہے۔

    فضائی آلودگی سے متعلق پاکستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کتنا اہم ہے اور اس تعاون کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟

    ماحولیاتی چیلنجوں جیسے فضائی آلودگی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کے انتظام، اور آبی وسائل کے مسائل سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔

    فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کو متاثر کرتی ہے، جس کی نگرانی، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور اخراج کے معیارات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا انتظام، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لئے اہم ہے، اور مشترکہ تحقیق اور تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ قلت اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ پانی کے وسائل کا انتظام ضروری ہے۔

    پاکستان علاقائی اقدامات میں فعال طور پر مصروف ہے جیسے ماحولیاتی انتظام کے لئے ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) میں شرکت، انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کے ساتھ بات چیت کا انعقاد کررہا ہے، اور تحقیق اور تعاون کے لئے ہمالین یونیورسٹی کنسورشیم (ایچ یو سی) کا رکن ہے۔ دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاہدے بھی ماحولیاتی مسائل میں مددگار ہیں۔ ان تعاون پر مبنی کوششوں کو مضبوط بنانا خطے میں پائیداری اورمطابقت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔

    (یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)