Tag: کوکیز

  • کوکیز کیا ہوتی ہیں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں؟

    کوکیز کیا ہوتی ہیں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں؟

    اکثر اوقات انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس کھولتے ہوئے آپ کے سامنے کوکیز قبول کرنے کا آپشن دیا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ کوکیز کیا ہوتی ہیں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

    کوکیز کمپیوٹر کی کچھ چھوٹی فائلیں ہیں جن میں ذاتی ڈیٹا ہوتا ہے، جس کا براہ راست اثر انٹرنیٹ براؤزنگ کے تجربے پر پڑتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ وائرس نہیں ہیں اور ان کی موجودگی بالکل قانونی ہے۔

    کوکیز ویب سائٹس کو سرفنگ کے دوران یا بعد میں صارفین کو ٹریک کرنے کی اجازت دیتی ہیں، اگر صارف کے پاس ان کے ٹی پی ایڈریس، آپریٹنگ سسٹم اور براؤزر ہو تو اس طرح سے جمع اور ذخیرہ شدہ ڈیٹا بنیادی طور پر صارف کا یوزر نیم ہوتا ہے۔

    زیادہ تر معاملات میں، کوکیز صارف اور ان کی ترجیحات کو پہچاننے میں کارآمد ثابت ہو سکتیہیں، جو مثال کے طور پر ای کامرس سائٹس کے معاملے میں سفارشات کے لیے بھی مفید ہے۔

    لیکن کچھ کوکیز زیادہ قابل اعتراض ہو سکتی ہیں، یہ فریق ثالث (تھرڈ پارٹی) کوکیز ہیں، جو اصل میں وزٹ کی گئی سائٹس اور خدمات سے باہر جنریٹ ہوئی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر سوشل نیٹ ورکس اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کا دائرہ ہے۔

    یہ کوکیز کسی انٹرنیٹ صارف کی براؤزنگ ہسٹری کے کچھ حصے کو مؤثر طریقے سے ٹریک کر سکتی ہیں اور اس وجہ سے وہ مستقبل میں جو بھی اشتہارات دیکھ سکتے ہیں اسے نشانہ بنانے میں مدد کرتی ہیں۔

    کوکیز کے حوالے سے قانون

    یورپی یونین اور کچھ امریکی ریاستوں میں، کسی بھی کوکی کو بنانے سے پہلے انٹرنیٹ صارفین کی رضا مندی ضروری ہے۔

    یورپی یونین کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) کا تقاضہ ہے کہ صارف معلومات جمع کرنے کی شرائط سے اتفاق کرے اور نئی ویب سائٹ پر جانے پر کوکیز کی تخلیق کو قبول یا انکار کرے۔

    یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اس طرح کے ڈیٹا کو کب تک ذخیرہ کیا جائے گا۔

    یہ صارفین کی اسکرینز پر ان کے ذاتی ڈیٹا کے استعمال (یا نہیں) سے متعلق اب ہر جگہ کی جانے والی درخواستوں کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، جو کہ ایک تکلیف دہ لیکن لازمی قدم ہے۔

    ڈیلیٹ کیسے کریں؟

    چاہے وہ بے ضرر ہوں یا بہت زیادہ دخل اندازی کرنے والی ہوں، عام طور پر کوکیز کو فوراً ڈیلیٹ کرنا بہتر ہے، زیادہ تر براؤزر اب آپ کو کوکیز کو فعال یا غیر فعال کرنے کے لیے ترتیبات کو تبدیل کرنے کی سہولت دیتے ہیں۔

    وہ عام طور پر ہر سیشن کے اختتام پر کوکیز سمیت ذاتی ڈیٹا کو مکمل طور پر حذف کرنے کی تجویز بھی پپیش کرتے ہیں، جو اکثر آسان اور مؤثر انتخاب ہوتا ہے۔

    نوٹ کریں کہ بہت ساری ایکسٹینشنز بھی آپ کو سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے تیار کردہ تھرڈ پارٹی کوکیز کو بلاک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

  • مزیدار کوکیز جنہیں دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھر آئے

    مزیدار کوکیز جنہیں دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھر آئے

    گندم، دودھ اور چینی سے بنے بسکٹ جنہیں کوکیز بھی کہا جاتا ہے چائے کے ساتھ لازمی سمجھے جاتے ہیں۔

    چائے کے علاوہ بھی مختلف اقسام کے بسکٹ مختلف اوقات میں بھوک مٹانے کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔

    کوکیز کو سادہ اور مختلف رنگوں اور ذائقوں میں پیش کیا جاتا ہے جو بہت ہی لذیذ معلوم ہوتے ہیں۔

    ان میں مختلف رنگوں کے استعمال کے لیے فوڈ کلرز استعمال کیے جاتے ہیں جو بازار میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔

    نیچے ویڈیو میں آپ کو کوکیز کے نہایت مزیدار ڈیزائن دکھائے جارہے ہیں جو آپ کے منہ میں پانی بھر دیں گے۔ یہ بچوں اور بڑوں سب کو اپنی طرف لبھا سکتے ہیں۔

  • حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والی لذیذ اشیا

    حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والی لذیذ اشیا

    دنیا میں بہت سے واقعات حادثاتی یا اتفاقی طور پر ہوجاتے ہیں اور اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ غذائی اشیا ایسی بھی ہیں جو حادثاتی طور پر ایجاد ہوگئیں؟ ان کے بارے میں جاننا آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔


    چاکلیٹ چپ کوکی

    سنہ 1930 میں امریکی ریاست میسا چوسٹس کے ایک ریستوران میں رتھ وک فیلڈ نامی ایک شیف چاکلیٹ کوکیز (بسکٹ) تیار کر رہی تھی جب اچانک اسے اندازہ ہوا کہ اس کے پاس موجود چاکلیٹ ختم ہونے والی ہے۔

    رتھ نے اپنے پاس موجود چاکلیٹ بار کو ننھے ننھے ٹکڑوں میں توڑ کر اسے بسکٹ کے آمیزے میں ملا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ٹکڑے پگھل جائیں گے اور بسکٹ کو چاکلیٹ کا ذائقہ دے دیں گے۔

    تاہم جب اس نے بسکٹس کو بیک کر کے باہر نکالا تو اسے علم ہوا کہ چاکلیٹ کے ٹکڑے پگھلے نہیں بلکہ جوں کے توں رہے۔

    حادثاتی طور پر تیار ہونے والی ان کوکیز کو بہت پسند کیا گیا جس کے بعد رتھ نے مستقل بنیادوں پر یہ کوکیز بنانی شروع کردیں۔


    پوٹاٹو چپس

    یہ ایجاد سنہ 1853 میں ہوئی جب نیویارک کے ایک ریستوران میں ایک گاہک نے فرنچ فرائز کھانے سے انکار کردیے کیونکہ وہ بہت زیادہ موٹائی کے حامل تھے۔

    ریستوران کے ایک شیف جارج کرم نے اسے دوبارہ فرائز بنا کر دیے لیکن گاہک کو وہ بھی پسند نہ آئے۔

    مزید پڑھیں: ہم پوٹاٹو چپس کیوں کھاتے چلے جاتے ہیں؟

    اب جارج نے گاہک کو سبق سکھانے کے لیے آلو کے بے حد پتلے ٹکڑے کاٹے لیکن جب اس نے انہیں تلا تو وہ اس قدر سخت ہوگئے کہ انہیں کانٹے کی مدد کے بغیر کھانا ممکن نہیں رہا۔

    گاہک کو وہ چپس بے حد پسند آئے اور اس نے نہایت شوق سے کھائے۔ ساتھ ہی دوسرے گاہکوں نے بھی انہی چپس کی فرمائش کر ڈالی۔


    قلفیاں

    سنہ 1905 کی سردیوں کے ایک دن فرینک اپرسن نامی 11 سالہ بچہ پانی میں سوڈا پاؤڈر ڈال کر سوڈا ڈرنک بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    اس دوران اس نے آمیزے کو کھلی فضا میں رکھا ور اندر کسی کام سے چلا گیا۔

    سرد درجہ حرارت کی وجہ سے آمیزہ جم گیا۔ فرینک نے اسے چکھا تو یہ بہت ذائقہ دار تھا جس کے بعد اس نے اسے 5 سینٹ میں بیچنا شروع کردیا۔

    ابتدا میں اس کا نام فرینک کے نام پر اپرسن آئیسکلز رکھا گیا تاہم بعد میں یہ پاپسیکلز میں تبدیل ہوگیا۔


    سینڈوچ

    سنہ 1700 عیسوی میں انگلینڈ کے شاہی خاندان کا ایک شخص جسے ارل آف سینڈوچ کا خطاب دیا گیا تھا، جوئے کا بے حد شوقین تھا۔

    وہ جوئے کا اس قدر دھتی تھا کہ چاہتا تھا کہ کھانے کے دوران بھی اسے جوئے سے ہاتھ نہ روکنا پڑے، چنانچہ اس کے حکم پر ڈبل روٹی کے درمیان گوشت اور سبزیاں رکھ کر ایک ڈش تیار کی گئی جسے کھاتے ہوئے بھی وہ کھیل سکے۔

    اس کے نام پر سینڈوچ مشہور ہونے والی یہ شے جلد ہی عوام و خواص میں مقبول ہوگئی۔


    آئس کریم کون

    سنہ 1904 میں ارنسٹ ہموی نامی ایک شخص ایک میلے میں پیسٹری بیچ رہا تھا۔ اس کے برابر میں آئس کریم بیچنے والا ایک شخص موجود تھا۔

    جب آئس کریم بیچنے وال شخص کے پاس ڈشز ختم ہوگئیں جن میں وہ آئس کریم رکھ کر دے رہا تھا تو ارنسٹ نے اسے کون کی شکل میں پیسٹری دی جس کے اندر آئس کریم ڈال کر وہ بیچ سکے۔

    یہیں سے آئس کریم کون وجود میں آئی۔


    کوک

    حادثاتی طور پر کوک ایجاد کرنے والا شخص نشے کا عادی تھا۔

    وہ اپنی اس عادت کو ختم کرنا چاہتا تھا چنانچہ سنہ 1886 میں اس نے ایسا ٹانک تیار کیا جس میں معمولی سی کوکین کے ساتھ بہت ساری کیفین شامل تھی۔

    تھوڑے ہی عرصے بعد ایک دولت مند شخص نے اس فارمولے کو خرید لیا اور کامیاب اشتہاری حکمت عملی کی وجہ سے صرف چند سال میں یہ دنیا کا مقبول ترین مشروب بن گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔