Tag: کوہ نور

  • شاہ بیگم نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟

    شاہ بیگم نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟

    شاہ شجاع افغانستان کا حکم راں تھا، جو آسمان کے تیور بدلے تو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوا۔ قسمت تھی کہ نواب مظفر خان نے اس پر احسان کیا اور تلمبہ (پنجاب کا ایک تاریخی قصبہ) میں تھوڑی جاگیر دے دی تاکہ عزّت سے گزر بسر کرے۔ یوں وہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آکر بس گیا۔

    تاریخی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ یہ شاہ شجاع ایک مہم پر کشمیر گیا، لیکن اس کی وہاں سے بخیر و عافیت واپسی کا امکان نظر نہیں‌ آرہا تھا۔ اس کی بیوی یہ جان کر پریشان ہوئی۔ اس نے اپنا قاصد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کے شوہر کی بحفاظت واپسی یقینی بنائے۔ اس کے عوض اسے کوہِ نور ہیرا پیش کروں گی۔

    مہاراجہ نے اپنے کارندوں کو دوڑایا جو کسی طرح‌ بحفاظت شاہ شجاع کو کشمیر سے واپس لے آئے اور لاہور پہنچا دیا۔

    مشہور ہے کہ شاہ شجاع نے لاہور پہنچ کر تلمبہ کا قصد کیا تو مہاراجہ نے اسے چند روز وہیں قیام کو کہا اور مبارک حویلی میں اس کے ٹھہرنے کا بندوبست کر کے اس کی بیوی کو بھی پیغام بھیج کر لاہور بُلا لیا۔

    اب شاہ شجاع اور اس کی بیگم کو وعدہ پورا کرنا تھا، لیکن ان کا ارادہ بدل گیا تھا۔ انھوں نے مہاراجہ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کی دل چسپ تفصیل کنہیا لال کی زبانی جانیے۔ انھوں‌ نے اپنی کتاب ’تاریخِ پنجاب، میں لکھا ہے:

    ’’جب ایک ماہ کا عرصہ گزرا تو مہاراجہ نے کوہِ نور ہیرا طلب کرنے ایک وکیل کو شاہ شجاع کے پاس بھیجا اور پیام دیا کہ ہم نے جو وعدہ شاہ بیگم سے کیا تھا، وہ پورا ہو چکا۔ اب آپ کی طرف سے وعدہ وفائی ہونی چاہیے۔

    یہ سن کر شاہ بہت گھبرایا اور ہرگز منظور نہ کیا کہ وہ کروڑوں روپے مالیت کا جواہر رنجیت سنگھ کو دے دے۔ اگرچہ کوہِ نور اس کے پاس تھا، شاہ نے بہانہ کر کے بیان کیا کہ وہ الماس بعوض تین کروڑ روپیہ کے کابل میں رہن ہے۔

    مہاراجہ بہت ناراض ہوا اور شاہ کی حویلی پر سخت پہرہ لگا کر اُسے مقید کر دیا اور کہلا بھیجا کہ شاہ کو بہرحال یہ جواہر ہم کو دینا ہو گا۔ ہم اس کے عوض پنجاہ ہزار روپیہ نقد اور تین لاکھ روپیہ کی جاگیر دے سکتے ہیں۔

    شاہ نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ یہاں میرے پاس جواہر کوہِ نور نہیں، دو ماہ کے عرصے میں کابل سے منگوا دوں گا۔ جب وہ میعاد بھی گزر گئی اور جواہر کوہِ نور نہ ملا تو مہاراجہ کی طرف سے سخت تشدد دیکھنے کو ملا۔ یہاں تک کہ تین روز تک شاہ کے باورچی خانے میں کھانا پکانے کی اجازت نہ ملی اور نہ کوئی سامان کھانے پینے کا شاہ کے پاس پہنچنے پایا۔ اس باعث شاہ اور تمام نوکر چاکر بھوک کے عذاب سے نیم جان ہو گئے۔

    جب شاہ نے دیکھا کہ اب جان بچنا محال ہے تو کوہِ نور دینے پر راضی ہوا مگر یہ کیا کہ جواہر کوہِ نور جس زمرد کے خانے میں نصب کر کے بازو بند بنایا ہوا تھا، اس سے اکھڑوا کر سونے کا خانہ بنوایا، کوہِ نور اس میں نصب کر دیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کہلا بھیجا کہ خود آ کر جواہر کوہ نور لے جائے۔

    چناں چہ مہاراجہ خود بمقام مبارک حویلی گیا۔ شاہ نے وہ قیمتی جواہر نہایت افسوس و حسرت کے ساتھ مہاراجہ کو دے دیا۔

    راجہ نے دریافت کیا کہ وہ جواہر کس قدر قیمت کا ہو گا؟

    جواب دیا کہ اس کی قیمت لاٹھی ہے۔ میرے بزرگوں نے لوگوں کو لاٹھیاں مار کر ان سے یہ ہیرا چھینا تھا۔ تم نے مجھ کو لاٹھی مار کر چھینا ہے۔ کوئی اور زبردست ایسا آئے گا کہ وہ تم کو لاٹھی مار کر چھین لے گا۔‘‘

    (تاریخِ پنجاب از کنہیا لال)

  • حیدر آباد دکن: گئے دنوں کی بات ہے….

    حیدر آباد دکن: گئے دنوں کی بات ہے….

    قدیم حیدر آباد (دکن) کی رسومات جن میں شادی بیاہ کی رسومات اہم ہیں، اس موقع پر کئی روز قبل تیاریوں کا آغاز ہوا کرتا تھا، عروس کو ایک ہفتہ قبل ہی سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا۔

    پیلا لباس اس کے لیے مخصوص ہوتا تھا بلکہ آج بھی ہے۔ وہ کام کاج سے دست بردار ہو جایا کرتی تھی۔ خاندان کی ایک سن رسیدہ خاتون اس کے ہمراہ ہوا کرتی تھی جو نئے ماحول کے لیے اسے ذہنی طور پر تیار کرتی تھی۔ ہر گھر میں صحن ہوتا تھا اور مکان وسیع اور کشادہ ہوا کرتے تھے جس میں بے حساب مہمان سما جاتے تھے۔

    میدانوں میں شامیانے ڈالے جاتے اور خاندان کے بزرگ، نوجوان نسل سے کام لیا کرتے تھے۔

    آج بزرگوں کی آواز صدا بہ صحرا بن گئی ہے اور فلیٹ کی زندگی نے جذبات اور احساسات کا خون کر دیا ہے۔

    پولیس ایکشن کے دوران بعض اضلاع میں پولیس یا فوج کی زیادتیاں رہیں۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا اور لوگ تیز رفتاری سے نقل مکانی کرنے پر مجبور تھے۔ ایسی کوئی شخصیت بھی نہیں تھی جو مسلمانوں کی صحیح راہ نمائی کرسکے۔

    پرانے حیدر آباد (دکن) کو یاد کریں تو فضاؤں میں گھوڑوں کی ٹاپ ابھرتی ہے، اس زمانے کی سواریوں میں تانگے، بنڈیاں اور سائیکل رکشے ہی تھے۔ شکرام بھی ہوا کرتا تھا جس میں بیٹھنے کا انتظام فرشی ہوا کرتا تھا۔ اکثر طلبا شکرام ہی کے ذریعہ مدرسہ جایا کرتے تھے، کیوں کہ اس میں اپنے بستے رکھنے کی انھیں کافی سہولت حاصل ہوتی تھی۔

    ہاتھ سے چلنے والے رکشے، پھر پیڈل والے رکشے بھی اہم سواریوں میں شامل تھے۔ گرد و غبار اور دھول سے پاک حیدر آباد من کو بہت بھاتا تھا۔

    (’حیدر آباد جو کل تھا‘ کے موضوع پر پروفیسر یوسف سرمست کی تحریر سے خوشہ چینی)