Tag: کوہ پیما

  • نیپالی کوہ پیما نرمل پُرجا نے نانگا پربت سر کر کے تاریخ رقم کر دی

    نیپالی کوہ پیما نرمل پُرجا نے نانگا پربت سر کر کے تاریخ رقم کر دی

    نیپال سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما نرمل پُرجا نے دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک نانگا پربت کو سر کرکے سر کر کے تاریخ رقم کر دی۔

    رپورٹس کے مطابق نیپال سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما نرمل پُرجا دنیا کے پہلے کوہ پیما بن گئے ہیں جنہوں نے 8 ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں 50 مرتبہ سر کی ہیں۔

    اُن کا اپنی کامیابی کو زندگی کی سب سے خطرناک مہم قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چڑھائی کے دوران برفانی تودوں اور پتھروں کے گرنے جیسے خطرات کا سامنا رہا۔

    نیپالی کوہ پیما نے نانگا پربت (8,126 میٹر) پر کامیابی سے سر کرنے کے بعد یہ سنگِ میل عبور کیا۔

    اس شاندار ریکارڈ کی انوکھی بات یہ تھی کہ انہوں نے اس دوران بغیر اضافی آکسیجن کے 22 چڑھائیاں مکمل کیں، جو بذاتِ خود ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔

    اُنہوں نے اپنی کامیابی کو نیپال اور برطانیہ کے درمیان 200 سالہ دوستانہ تعلقات کے نام کرتے ہوئے دونوں ممالک کے پرچموں کو لہرایا۔

    گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آنے والی جرمن کوہ پیما کی لاش مل گئی

    نرمل پُرجا پہلی بار 2019ء میں پروجیکٹ پاسیبل کے تحت عالمی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے، انہوں نے صرف 6 ماہ اور 6 دن میں دنیا کی تمام 14 آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کو سر کر لیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق نیپالی نرمل پُرجا برطانوی اسپیشل فورسز اور گورکھا رجمنٹ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

  • کے ٹو پر مہم جوئی کے دوران کوہ پیما ٹیم برفانی تودے کی زد پر آ گئی، افتخار سد پارہ جاں بحق

    کے ٹو پر مہم جوئی کے دوران کوہ پیما ٹیم برفانی تودے کی زد پر آ گئی، افتخار سد پارہ جاں بحق

    اسکردو: کے 2 پر مہم جوئی کے دوران 4 رکنی کوہ پیما ٹیم برفانی تودے کی زد میں آ گئی ہے، حادثے میں افتخار سدپارہ جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کے ٹو پہاڑ پر مہم جوئی کرنے والی کوہ پیما ٹیم برفانی تودے کی زد میں آ گئی، تین کوہ پیماؤں کو بچا لیا گیا تاہم ایک کوہ پیما اور مقامی پورٹر لاپتا ہو گئے تھے۔

    بعد ازاں ریسکیو حکام نے کوہ پیما کی لاش ڈھونڈ لی، جو افتخار سدپارہ کی تھی، ڈی سی شکر کا کہنا ہے کہ ان کی میت بذریہ ہیلی کاپٹر اسکردو منتقل کی جائے گی۔

    اس حادثے میں 3 کوہ پیما زخمی ہو گئے تھے، تاہم ریسیکیو کا کہنا تھا کہ کوہ پیماؤں کو معمولی خراشیں آئیں، یہ حادثہ کیمپ 1 سے واپسی پر بیس کیمپ سے تقریباً 500 میٹر آگے پیش آیا، ریسکیو ٹیم نے 3 زخمی کوہ پیماؤں کو بہ حفاظت ایڈوانس بیس کیمپ منتقل کیا۔


    ساجد سدپارہ نے بغیر آکسیجن 7 ویں بلند ترین چوٹی سر کر لی


    ریسکیو ذرائع کے مطابق معروف کوہ پیما افتخار سدپارہ برفانی تودے کی زد میں آ گئے تھے، جاں بحق کوہ پیما کی آبائی گاؤں سدپارہ میں تدفین کی جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر شگر کے مطابق برفانی تودہ گرنے کا واقعہ گزشتہ روز پیش آیا تھا، حادثے میں 3 غیر ملکی کوہ پیما زخمی ہوئے تھے۔

  • ساجد سدپارہ نے بغیر آکسیجن 7 ویں بلند ترین چوٹی سر کر لی

    ساجد سدپارہ نے بغیر آکسیجن 7 ویں بلند ترین چوٹی سر کر لی

    پاکستان کے نوجوان اور باہمت کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے بغیر آکسیجن کے 7ویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری Dhaulagiri سر کرکے ایک اور تاریخی کارنامہ سر انجام دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے دنیا کی ساتویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری (8167 میٹر) کو بغیر اضافی آکسیجن اور کسی مدد کے کامیابی سے سر کرکے ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق پاکستانی کوہ پیما نے جس چوٹی کو سر کیا ہے وہ نیپال میں واقع ہے اور کوہ پیمائی کی دنیا میں اسے ایک خطرناک اور چیلنجنگ پہاڑ سمجھا جاتا ہے۔

    سدپارہ کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ الحمدللّٰہ دھولاگیری سر کرلی ہے، بغیر آکسیجن اور بغیر کسی مدد کے، اس مہم کو 10 مئی کو کامیابی سے مکمل کیا۔

    اس اہم کامیابی کو الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے پاکستان اور عالمی کوہ پیمائی برادری کیلیے فخر کا لمحہ قرار دیا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ساجد کی اس مہم میں سیون سمٹ ٹریکس نیپال اور سبروسو پاکستان نے تعاون کیا جبکہ ٹیکنیکل گیئر کیلاس کمپنی نے فراہم کیا۔

    یاد رہے کہ ایسا پہلا مرتبہ نہیں ہوا کہ ساجد نے بغیر اضافی آکسیجن چوٹی سر کی ہو، 2023ء میں انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن کے سر کرلیا تھا، جو ایک نایاب عالمی کارنامہ ہے۔

    پاکستانی کوہ پیما نے رواں سال جون میں بھی نانگا پربت کو انہی مشکل حالات میں سر کرکے اہم کارنامہ سر انجام دیا تھا، جبکہ اس سے قبل وہ کے-ٹو، گیشربرم-1، گیشربرم-2 اور مانسلّو کو بھی بغیر آکسیجن کے سر کر چکے ہیں۔

    پاکستانی کوہ پیما ساجد سد پارہ نے تاریخی کارنامہ انجام دے دیا

    واضح رہے کہ ساجد عظیم کوہ پیما محمد علی سدپارہ شہید کے بیٹے ہیں جنہوں نے اپنی جان دیتے ہوئے بھی دنیا کو بتایا کہ پاکستانی پہاڑوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ دنیا کی بلندیوں کو چھونے سے نہیں ڈرتے۔

  • پاکستانی کوہ پیما محمد مراد سدپارہ کو ریسکیو کرنے کیلئے آپریشن جاری

    پاکستانی کوہ پیما محمد مراد سدپارہ کو ریسکیو کرنے کیلئے آپریشن جاری

    پاکستانی کوہ پیما محمد مراد سدپارہ براڈ پیک کی مہم جوئی کے دوران شدید زخمی ہوگئے تھے، مراد سدپارہ کو ریسکیو کرنے کے لئے آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

    پاک آرمی کی مدد سے دوسرے روز بھی آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، ریسکیو آپریشن ٹیم میں مزید 2 ممبران شامل کئے گئے ہیں۔

    ریسکیو ٹیم ممبران کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے براڈ پیک پر پہنچایا گیا ہے، مراد سدپارہ کو آج بیس کیمپ لانے کی کوشش کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ محمد مراد سد پارہ نے کے ٹو کی انتہائی بلندی سے گزشتہ سال جان کی بازی ہارنے والے حسن شگری کی میت کو بھی اتارا تھا۔

    ارشد ندیم مسلسل انجریز کا شکار رہا، اولمپکس سے پہلے ری ہیب مکمل کرایا، ڈاکٹر اسد

    مراد حسن پرتگالی خاتون کوہ پیما کے ہمراہ گزشتہ ہفتے براڈ پیک کی مہم جوئی کیلئے روانہ ہوئے تھے، جہاں ہفتے کے روز کیمپ ون کے مقام پر سر پر پتھر لگنے کے باعث شدید زخمی ہوگئے۔

  • کے ٹو مہم جوئی برفباری سے متاثر، خواتین کوہ پیما ثمینہ بیگ، آمنہ شگری بیمار پڑ گئیں

    کے ٹو مہم جوئی برفباری سے متاثر، خواتین کوہ پیما ثمینہ بیگ، آمنہ شگری بیمار پڑ گئیں

    کے ٹو پر مہم جوئی شدید برفباری کے باعث متاثر ہو گئی ہے، مہم جوئی میں شریک پاکستانی خواتین کوہ پیما ثمینہ بیگ اور آمنہ شگری بیمار پڑ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسکردو میں شدید برفباری کے باعث کے ٹو مہم جوئی متاثر ہو گئی ہے، کیوں کہ خواتین کوہ پیماؤں کی صحت خراب ہو گئی ہے۔

    ڈپٹی کمشنر شگر ولی اللہ کا کہنا ہے کہ شدید برفباری سردی اور موسم کی مسلسل خرابی سے خواتین کی صحت متاثر ہوئی ہے، دونوں کوہ پیما اس وقت بیس کیمپ میں موجود ہیں، جنھیں واپس لانے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کوہ پیماؤں کی واپسی کے لیے گاڑیوں کی روانگی کے لیے این او سی جاری کر دی گئی ہے، بیس کیمپ سے ماہر ریسکیو ٹیم خواتین کو واپس لائے گی، بیس کیمپ سے نیچے پہنچنے کے بعد گاڑیوں کی مدد سے کوہ پیماؤں کو شگر پہنچایا جائے گا۔

    ڈپٹی کمشنر کے مطابق ثمینہ بیگ اور آمنہ شگری کی مہم جوئی منسوخ کر دی گئی ہے، واضح رہے کہ کے ٹو پر مہم جوئی کے لیے یہ خواتین 21 جون کو روانہ ہوئی تھیں، ثمینہ بیگ پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں کی سربراہی کر رہی تھیں، کوہ پیماؤں کی اس ٹیم میں 4 پاکستانی اور 4 اطالوی خواتین شامل تھیں۔

  • کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    کوہ پیماؤں کے لیے بڑی خوش خبری

    بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کے تحفظ کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے، تاہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلی ڈرون ڈیلیوری کامیاب ہو گئی ہے، نیپالی ڈرون سروس کمپنی نے بیس کیمپ سے 3 آکسیجن سلنڈر کوہ پیماؤں تک پہنچائے۔

    ماؤنٹ ایورسٹ نے تقریباً 20,000 فٹ کی بلندی پر کوہ پیماؤں نے دنیا کی پہلی ڈرون ڈیلیوری حاصل کی، ڈرون واپسی پر کچرا لانے کے کام بھی آئے گا، یہ ڈرون انتہائی بلندی پر 15 کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    اس کامیابی کو بلند چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کی بہتر حفاظت اور پائیداری کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، یہ ڈیلیوری رواں برس اپریل میں کی گئی تھی۔ کوہ پیماؤں کو سامان پہنچانے کے لیے ڈرون کا استعمال کرنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا مشن تھا، اپریل میں ہونے والی پہلی ڈرون ترسیل دراصل اس خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کی گئی تھی کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں۔

    اس ترسیل میں فلائی کارٹ 30 نامی ڈرون کا استعمال کیا گیا، جسے ٹیکنالوجی کمپنی DJI نے تیار کیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ لمبی دوری تک پندرہ کلو گرام وزن کے ساتھ اڑان بھر سکتا ہے۔

  • پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی کا ایک اور اعزاز

    پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی کا ایک اور اعزاز

    پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے 2 روز بعد چوتھی بلند ترین چوٹی لوٹسے کو بھی سر کر لیا۔

    نیپال میں موجود ماؤنٹ لوٹسے 27 ہزار 940 فٹ بلند ہے جسے نائلہ نے نیپالی وقت کے مطابق 8 بج کر 13 منٹ پر سر کیا۔

    نائلہ کیانی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں جنہوں نے 2 سال میں 6 بلند ترین چوٹیاں سر کیا اور وہ ماؤنٹ لوٹسے کو سر کرنیوالی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں۔

    انہوں نے 2 دن قبل بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ کو سر کیا تھا اور وہ اس سے قبل کے ٹو، اناپورنا، گیشر برم ون اور گیشر برم ٹو بھی سر کر چکی ہیں۔

  • کوہ پیما نائلہ کیانی کا ایک اور کارنامہ

    کوہ پیما نائلہ کیانی کا ایک اور کارنامہ

    پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی نے ایک اور کارنامہ انجام دے دیا، اس بار انھوں نے دنیا کی گیارہویں بلند ترین چوٹی گاشر برم وَن (Gasher Burm One) سر کر لی۔

    نائلہ کیانی پہلی کوشش میں 8 ہزار میٹر سے زیادہ بلندی والی 3 چوٹیاں سر کرنے والی پہلی پاکستانی بھی بن گئی ہیں، انھوں نے یہ اعزاز جمعہ کی علی الصبح 7 بجے حاصل کیا۔

    نائلہ کیانی جو پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر اور کوہ پیمائی کی شوقین ہیں، نے کہا: "یہ میری زندگی میں ہونے والے مشکل کاموں میں سے ایک تھا۔”

    نائلہ کیانی نے مہم جوئی کی کامیابی پر بارڈ فاؤنڈیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔

    نائلہ کیانی جس گروپ میں تھی اس میں 6 پاکستانی کوہ پیما سرباز خان، شہروز کاشف، ساجد سدپارہ، سہیل سخی اور امتیاز سدپارہ شامل تھے، واضح رہے کہ گاشر برم کو ہیڈن پیک یعنی چھپی ہوئی اور مشکل ترین چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔

    پہلی بار پاکستانی خواتین نے K2 سر کر لیا

    نائلہ کیانی کی آفیشل اسپانسر معروف فلاحی تنظیم بلقیس اینڈ عبدالرزاق داؤد فاؤنڈیشن کے چیئرمین نے کہا کہ نائلہ کیانی پاکستان کا فخر ہیں، وہ کامیاب مہم جوئی کے ساتھ تاریخ میں اپنا نام رقم کر رہی ہیں۔

    عبدالرزاق داؤد نے کہا بارڈ فاؤنڈیشن پاکستانی نوجوانوں باالخصوص خواتین کا ٹیلنٹ سامنے لانے میں اپنا کردا ر ادا کرتی رہے گی۔

  • وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    وہ مشہورِ زمانہ مہم جس میں ایک غریب نیپالی نوجوان نے سَر ایڈمنڈ ہلاری کا ساتھ بھرپور دیا

    1953ء میں کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری (Sir Edmund Hillary) اور ان کے نیپالی مددگار تینزنگ نورگے (Tenzing Norgay) نے ایورسٹ کی چوٹی سَر کی تھی، اور بعد میں برطانوی کوہ پیما ایڈمنڈ ہلاری نے اس خطرناک مہم کا احوال رقم کیا تھا جس کے چند پاروں کا ترجمہ مشہور ہفت روزہ ‘آئینہ’ (نئی دہلی) میں شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    27 مئی کو صبح میں جلدی ہی اٹھ بیٹھا، سخت سردی کے باعث تمام رات مشکل سے ہی نیند آئی تھی، اور میری حالت بہت ہی خستہ ہو رہی تھی۔

    میرے ساتھی لو، جارج اور تینزنگ مخروطی خیمہ میں پڑے ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے تاکہ سخت سردی کے احساس میں کچھ کمی ہو سکے۔ ہوا بہت تیز تھی اور پوری طاقت سے چل رہی تھی۔ ہوا کی زور دار آواز کے باعث تمام رات گہری نیند سونا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ بستر میں سے ہاتھ نکالنے کو دل تو نہیں چاہتا تھا، لیکن بادلِ ناخواستہ ہاتھ نکالا اور گھڑی دیکھی صبح کے چار بجے تھے۔ دیا سلائی جلائی اور اس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں تھرما میٹر دیکھا۔ درجۂ حرارت 35 ڈگری تھا، یعنی نقطۂ انجماد سے 25 ڈگری کم، ہمارا کیمپ کوہِ ایورسٹ کے جنوبی درّہ میں تھا۔

    ہمیں امید تھی کہ ہم اس دن جنوب مشرقی پہاڑی بلندی پر اپنا کیمپ قائم کر سکیں گے، لیکن سخت ہوا کے باعث اس مقام سے روانہ ہونا ہی ناممکن تھا، لیکن ہمیں تیار رہنا تھا تاکہ جوں ہی ہوا کا زور ختم ہو ہم اپنے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ میں نے تینزنگ کو بلایا اور اس سے کھانے پینے کے متعلق چند باتیں کہیں، تینزنگ کی عجیب عادت یہ ہے کہ اس کو کبھی کوئی شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا گیا، تینزنگ سے باتیں کرنے کے بعد پھر میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ جلد ہی اسٹوو جلنے کی آواز آئی اور خیمہ کی ہوا میں گرمی پیدا ہوگئی۔ ہم اٹھ بیٹھے۔ ہمارے اندر تازگی پیدا ہوگئی اور ہم بسکٹ کھانے اور گرم پانی پینے لگے جس میں شکر اور لیموں ڈالا گیا تھا۔ گریگوری اور میں اپنے دن کے پروگرام کے متعلق گفتگو کرنے لگے، لیکن ہم پر مایوسی کی ایک کیفیت چھائی ہوئی تھی۔

    9 بج چکے تھے، لیکن ہوا کا زور و شور بدستور تھا۔ میں اپنے گرم کپڑے پہنے ہوئے خیمہ سے باہر نکلا اور اس چھوٹے سے خیمہ کی طرف چلا تھا جس میں جان ہنٹ چارلس ایون اور ٹام بورڈیلن تھے۔ ہنٹ نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ایسے خراب موسم میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ آنگ ٹیمبا بیمار ہو چکا تھا اور اس کو آگے لے جانا بظاہر ممکن نہیں آتا تھا، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایونس اور بورڈ ویلن کے ساتھ نیچے کیمپ میں بھیج دیا جائے۔ دوپہر کے قریب یہ لوگ ساتویں کیمپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ آخری لمحے ہنٹ نے بورڈ ویلن کی کمزور حالت کے باعث اس جماعت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اور وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے درّہ کے اوپر تک گئے اور وہاں کھڑے ہوکر ہم نے ان لوگوں کو ساتویں کیمپ کے لیے نیچے جاتے ہوئے دیکھا۔

    تمام دن ہوا کا زور نہیں ٹوٹا اور ہم نے مایوس ہوکر اگلے دن درّہ سے نکل کر اوپری حصہ میں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ اگر ہم اس درّہ میں پڑے رہتے تو نتیجہ حالات کے اور زیادہ خراب ہونے اور ہماری کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا۔

    دوسرے دن صبح بھی ہوا کا وہی زور تھا لیکن آٹھ بجے کے قریب اس کے زور میں کمی ہو گئی اور ہم نے روانہ ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک اور مصیبت آن پڑی۔ پیمبا سخت بیمار ہوگیا، وہ آگے نہیں جا سکتا تھا۔ اب صرف ایک قلی رہ گیا ، جو ہمارا سامان لے جا سکتا تھا وہ تھا آنگ نائمبا۔ ہمارے ساتھ تین قلی تھے، اب ان میں سے صرف ایک رہ گیا تھا۔ لیکن ہم آگے بڑھنے کی کوشش کو ترک بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ہم نے خیمہ خود ہی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سامان باندھ لیا، البتہ غیر ضروری چیزوں کو وہیں چھوڑ دیا، یہاں تک کہ بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ہمیں آکسیجن کے ذخیرے میں بھی کمی کرنی پڑی۔

    پونے نو بجے گریگوری، آنگ نائمبا روانہ ہوگئے، ہر ایک کے پاس چالیس پونڈ وزن تھا اور ہر شخص چار لیٹر فی منٹ کے حساب سے آکسیجن سانس کے ساتھ جذب کر رہا تھا، تینزنگ اور میں بعد کو روانہ ہونے والے تھے تاکہ ہم اس راستے پر جو ہم سے آگے جانے والے بنائیں آسانی سے چل سکیں اور اس طرح ہماری طاقت بھی برقرار رہے اور ہم آکسیجن کا استعمال بھی کم کریں۔ ہم نے اپنے کپڑے، بستر، خوراک اور آکسیجن سیٹ باندھے اور دس بجے روانہ ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ طویل ڈھالوں پر چڑھتے رہے، اور برفانی چشمے کے نچلے حصہ تک پہنچ گئے، اس کے بعد ہم اس زینہ پر چڑھنے لگے جو لو نے برف کے چشمہ کے ڈھال پر بنایا تھا، جب ہم اس زینہ پر چڑھ رہے تھے تو برف کے ٹکڑے ہمارے اوپر گر رہے تھے، کیوں کہ ہم سے اوپر لو اور گریگوری برف کو کاٹ کر سیڑھیاں بنا رہے تھے، ہم دوپہر کے وقت جنوب مشرقی پہاڑی پر پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں اپنی جماعت کے وہ لوگ مل گئے جو ہم سے آگے جا چکے تھے۔ قریب ہی ہمیں ٹوٹا پھوٹا خیمہ نظر آیا جو سوئزر لینڈ کے کوہ پیماؤں نے گزشتہ سال قائم کیا تھا اور جہاں سے تینزنگ اور لیمبرٹ نے چوٹی پر پہنچنے کی بہادرانہ کوشش کی تھی۔

    یہ جگہ بہت ہی حیرت انگیز تھی۔ چاروں طرف خوب صورت مناظر تھے۔ ہم نے اس مقام پر بہت سے فوٹو لیے، یہاں ہم بہت خوش تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہم جنوب مشرقی پہاڑی پر اپنا خیمہ نصب کرسکیں گے۔ ذخیرہ 27350 فٹ بلندی پر تھا لیکن چوٹی کے مقابلہ میں پھر بھی بہت نیچے تھا اور ہمیں زیادہ اوپر جانا تھا، اس لیے اپنے سامان کے علاوہ ہم نے اس ذخیرے سے بھی کچھ سامان لیا۔ گریگوری نے کچھ آکسیجن بھی لی، لو نے خوراک اور تیل وغیرہ لیا اور میں نے ایک خیمہ لیا، آنگ نائمبا کے پاس تقریبا چالیس پونڈ وزن تھا لیکن ہمارے پاس 35 یا 36 پونڈ وزن تھا۔ ہم آہستہ آہستہ پہاڑی پر چڑھتے رہے، وزن کے باوجود ہم برابر آہستہ آہستہ اوپر چڑھ رہے تھے۔ چٹان بہت ڈھلوان تھی اور لو نے پچاس فٹ تک زینہ بنادیا تھا۔

    تین بجے ہم تھک گئے اور کیمپ قائم کرنے کے لیے جگہ کی تلاش کرنے لگے۔ لیکن کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی اور ہم اوپر چڑھنے پر مصروف ہوئے۔ ہم آہستہ آہستہ چڑھتے رہے لیکن ہمیں پھر بھی کیمپ کے واسطے مناسب جگہ نہیں ملی۔ ہم ناامید ہوتے جارہے تھے کہ تینزنگ کو یکایک خیال آگیا کہ اس مقام پر گزشتہ سال اس نے کہیں کوئی چوڑ اخطہ دیکھا تھا چنانچہ اس نے ہم کو بائیں طرف چلنے کو کہا اور ہم بالآخر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کیمپ قائم کیا جا سکتا تھا۔

    ڈھائی بج چکے تھے۔ ہم نے یہاں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تمام دن لوہسٹے کی شان دار چوٹی کو دیکھتے رہے تھے لیکن اب یہ چوٹی ہمیں اپنے نیچے نظر آرہی تھی، اس وقت ہم 27900 فٹ کی بلندی پر تھے۔ لو، گریگوری اور آنگ نائمبا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے وزن زمین پر ڈال دیے۔ وہ تھکے ہوئے تھے لیکن انہیں یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کافی بلندی تک پہنچ چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے دن کی کام یاب چڑھائی ان کی ہی کوششوں کے باعث عمل میں آئی، انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا اور وہ جنوبی درّہ کے عقب میں چلے گئے۔

    ہم نے اپنے ساتھیوں کو خوش خوش واپس جاتے ہوئے دیکھا، گو ہم تنہا رہ گئے۔ پھر بھی ہمیں اس کام یابی پر مسرت تھی، ہمیں بہت کام کرنا تھا، ہم نے آکسیجن سیٹ علیحدہ کردیے اور کدالوں سے اس جگہ کو صاف کرنے لگے۔ ہم تمام برف کھودنے میں کام یاب ہوگئے، چٹان نظر آنے لگی اور ہم خیمہ کے نصب کرنے کے لیے دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے دو ٹکڑے بنا سکے۔ لیکن ان دونوں کی سطح میں ایک فٹ کا فرق تھا، یہاں ہم نے اپنا خیمہ نصب کر دیا، سورج غروب ہونے پر ہم اپنے خیمہ میں داخل ہوگئے، تمام گرم کپڑے پہن لیے اور بستروں میں گھس گئے۔

    چار بجے ہوا خاموش تھی۔ میں نے خیمہ کا دروازہ کھولا اور باہر دیکھا۔ وہاں نیپال کی وادیاں نظر آئیں۔ برفیلی چوٹیاں ہمارے نیچے صبح کی ہلکی روشنی میں چمک رہی تھیں، تینزنگ نے تھیانگ بوش کے بت خانے کی طرف اشارہ کیا۔ جو ہم سے 16 ہزار فٹ نیچے دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔

    ساڑھے چھے بجے صبح ہم خیمہ سے نکل کر برف پر آئے، آکسیجن سیٹ اپنی پیٹھ پر لادا اور آکسیجن جذب کرنے لگے۔ چند گہری سانسیں لینے کے بعد ہم پھر چلنے کو تیار ہوگئے۔

    ہم آہستہ آہستہ مستقل بڑھتے چلے جارہے تھے ہمیں رک کر سانسیں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں راستہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور تینزنگ میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔

    جس مقام سے ہم گزر رہے تھے وہ نہایت خطرناک تھا۔ آٹھ ہزار فٹ نیچے ہمیں چوتھا کیمپ نظر آرہا تھا۔ لیکن ہم نے نہ محنت میں کمی اور نہ احتیاط کو ہاتھ سے چھوڑا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا تینزنگ کے قدم آہستہ پڑنے لگے اور اس کے لیے سانس لینا مشکل ہورہا ہے، تینزنگ کو آکسیجن کے اثرات کا بہت کم احساس تھا، میں نے اس کی حالت دیکھ کر محسوس کیا کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی، میں نے اس کی آکسیجن ٹیوب دیکھی تو اس کو برف سے بند پایا، میں نے اس ٹیوب کو صاف کیا اور تینزنگ آکسیجن سانس کے ذریعہ جذب کرسکا، میں نے اپنی ٹیوب دیکھی وہ بھی برف کے باعث بند ہوگئی تھی اس کو بھی میں نے صاف کیا۔

    اسی طرح ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہمیں ایسی مشکل پیش آئی جو بظاہر حل ہوتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی تھی، ہمارے سامنے تقریباً چالیس فٹ اونچی ایک چٹان کھڑی تھی جس پر چڑھنا بالکل ناممکن معلوم ہوتا تھا، اس چٹان کو میں ہوائی جہاز کے ذریعے لیے ہوئے فوٹو میں دیکھ چکا تھا، نیز اس کو اپنی دور بین کے ذریعے بھی دیکھ چکا تھا۔ میں نے ہمّت کی اور تینزنگ کو نیچے چھوڑ کر اس نکلی ہوئی برف کو پکڑ کر اور اس شگاف میں اپنے پاؤں کاندھے اور ہاتھ جماتا ہوا آگے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ اوپر چڑھتے ہوئے میں یہ دعا بھی کرتا جاتا تھا کہ یہ برف کے چھجے ٹوٹیں نہیں ورنہ سوائے موت کے اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔

    آخر کار میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا، تینزنگ بھی اسی طرح اوپر آیا، میں نے پھر سیڑھیاں بنانی شروع کر دیں۔ ایک دوسرا موڑ آیا اور جب میں برف کاٹنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ ہم اس طرح کہاں تک بڑھتے چلے جائیں گے اس وقت چوٹی پر پہنچنے کا ہمارا جوش ختم ہوچکا تھا، اور ہم اپنے آپ کو موت سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ میں نے اوپر دیکھا اور ایک تنگ حصہ چوٹی تک جاتا ہوا نظر آیا، سخت جمی ہوئی برف میں میں نے تھوڑی دیر اور راستہ بنایا اور ہم دونوں چوٹی پر پہنچ گئے۔

    چوٹی پر پہنچ کر مجھے بڑا سکون محسوس ہوا، ہمارا سفر ختم ہوچکا تھا۔ اب ہمیں نہ برف کو کاٹنا تھا، نہ چٹانوں کو عبور کرنا تھا اور نہ ٹیلوں کو پار کرنا تھا، میں نے تینزنگ کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ آکسیجن نقاب اور برف سے چھپا ہوا تھا۔ پھر بھی وہ مجھے چمکتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا، ہم دونوں نے ہاتھ ملائے، تینزنگ نے اپنے ہاتھ میرے گلے میں ڈال دیے، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو تھپتھپایا، یہاں تک کہ ہم تھک گئے، ساڑھے گیارہ بجے تھے اور ڈھائی گھنٹہ میں ہم نے پہاڑ کے اس ابھرے ہوئے حصہ کو طے کیا تھا جو چوٹی سے نیچے واقع تھا۔

    میں نے آکسیجن سیٹ اتار دیا، میرے پاس کیمرہ تھا جس میں رنگین فلم چڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کو نکالا اور تینزنگ کو کھڑا کر کے اس کا فوٹو لیا۔ تینزنگ کے ہاتھ میں کدال تھی جس پر جھنڈے لہرا رہے تھے، یہ جھنڈے برطانیہ، نیپال ،اقوامِ متحدہ اور ہندوستان کے تھے۔

    تب میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا چوٹی سے اردگرد کا ملک صاف نظر آرہا تھا۔ مشرق میں مکالو کی چوٹی تھی، جس پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر میری ہمتیں بڑھ گئی تھیں اور میں یہ دیکھنے لگا کہ مکالو کو جانے والا کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔ بہت دور پہاڑوں میں کنچن جنگا کی چوٹی افق پر دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں سے نیپال کا علاقہ صاف نظر آرہا تھا۔ شمال کی طرف وہ مشہور راستہ دکھائی دے رہا تھا جس پر سے میں 1920 اور 1930 میں ایورسٹ پر چڑھنے کی کوشش کی گئی تھی۔

    میں نے اپنے آکسیجن سیٹ کی پھر جانچ کی اور اس کے مطابق واپسی کے سفر کا حساب لگایا۔ اور بالآخر واپس ہو گئے۔

    جب ہم کام یابی سے ڈھلوان حصہ سے اتر کر چٹانی حصہ پر پہنچ گئے تو ہم دونوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہم بہت تھک چکے تھے۔ ہمیں اب جنوبی درّے تک پہنچنا تھا۔

    یہاں ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے جانے کے بعد جو سخت ہوا چلی تھی اس کے باعث ہماری بنائی ہوئی سیڑھیاں ختم ہوچکی تھیں۔ برف بغیر کسی نشان کے تھی، اس لیے ہمیں مجبوراً پھر راستہ بنانا پڑا، بڑی ناخوش گواری سے میں نے پھر برف کاٹنی شروع کی۔ ہوا سخت تیز تھی اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ ہمیں اڑا کر لے جائے گی، دو سو فٹ تک میں نے راستہ بنایا، پھر تینزنگ راستہ بنانے لگا۔ سو فٹ تک اس نے یہ کام کیا۔ کچھ دور کے بعد نرم برف آگئی جس میں چلنا نسبتاً آسان ہوگیا اور ہم جنوبی درّہ پہنچ گئے۔

    ہم ایورسٹ کی چوٹی پر صرف 15 منٹ ٹھہرے، اس وقت ہم پر اپنے سفر کا رد عمل شروع ہو چکا تھا، ہم تیزی کے ساتھ پہاڑوں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ ہمارا کام ختم ہو چکا تھا، لیکن ہمیں واپس ہونا تھا اور ان ہی خطرات سے پھر گزرنا تھا، جن سے گزر کر ہم چوٹی تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے تھے۔

  • کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آسیب یا کوئی اور حملہ آور

    کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آسیب یا کوئی اور حملہ آور

    چند دن قبل ہی نیپالی کوہ پیماؤں نے پہلی بار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 کو موسم سرما میں سر کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا، کوہ پیمائی کے دوران بے شمار سنگین واقعات پیش آسکتے ہیں، ایسا ہی کوہ پیمائی کے دوران ہونے ایک واقعہ اب تک دنیا کے لیے معمہ بنا ہوا تھا جسے آسیب زدہ بھی مانا جاتا تھا۔

    روس کے کوہ اورال میں پیش آنے والے واقعے کو ڈیالٹو پاس واقعے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

    سنہ 1959 کے موسم سرما میں کوہ اروال کے اس مقام پر 9 جوان کوہ پیما پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد سے یہ سائنسدانوں کو دنگ کررہا ہے اور اسے خلائی مخلوق سے لے کر جوہری دھماکے کی آزمائش سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

    مگر اب سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ معمہ حل کرلیا ہے۔

    جریدے جرنل کمیونیکشن ارتھ اینڈ انوائرمنٹ میں شائع تحقیق میں ان تجربہ کار کوہ پیماؤں کی موت کی وضاحت کی گئی، جن کی منجمد لاشیں کوہ اورال میں مختلف جگہوں سے دریافت کی گئی تھیں۔

    جنوری 1959 میں روس کے تجربہ کار 9 کوہ پیماؤں کی ٹیم کوہ اروال پر ٹریکنگ کررہی تھی، جہاں وہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔ اس مقام سے کوہ پیماؤں کی ڈائریز اور فلم دریافت ہوئی، جس سے تصدیق ہوئی کہ اس ٹیم نے ڈیڈ ماؤنٹین نامی مقام پر کیمپ لگایا تھا۔

    تاہم آدھی رات کو کچھ ایسا ہوا جس کے باعث وہ افراد خیمے سے باہر نکلے اور کوہ اورال کے چاروں طرف بھاگنے لگے، شدید سردی اور برف کے باوجود ان کے جسموں پر مناسب لباس نہیں تھا۔

    کئی ہفتوں بعد امدادی ٹیم نے ان کی لاشوں کو کوہ اروال کے مختلف مقامات پر دریافت کیا، جن میں سے 6 کی موت ہائپوتھرمیا (بہت کم درجہ حرارت) کے باعث ہوئی جبکہ باقی 3 کی ہلاکت شدید جسمانی نقصان کے باعث ہوئی۔

    ان کے جسم کے اعضا غائب تھے، جیسے ایک کی آنکھیں، دوسرے کی زبان جبکہ ان تینوں کی کھوپڑیوں اور سینے کے ہڈیوں کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

    یہ ساری صورتحال نہایت غیر متوقع اور پراسرار تھی کیونکہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی یہ حالت کس وجہ سے ہوئی یا ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔

    اس وقت تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کسی نامعلوم مگر طاقتور قدرتی عنصر نے کوہ پیماؤں کو خیمے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ کچھ حلقوں کے مطابق برفانی انسان کے حملے یا کسی اور جانور کی وجہ سے ایسا ہوا، مگر ان کی اموات کی وضاحت کرنے والی ٹھوس وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔

    تاہم اب نئی تحقیق میں ان کوہ پیماؤں کی موت کی وجہ ایک چھوٹے مگر طاقتور ایوا لاانچ کو قرار دیا گیا ہے، جس کے لیے شواہد بھی پیش کیے گئے۔

    یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح کا خیال سامنے آیا ہے، درحقیقت اس سے پہلے بھی ایوالانچ کا خیال پیش کیا گیا مگر کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔ سنہ 2019 میں روسی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بھی نتیجہ نکالا تھا کہ ایک ایوالانچ اس واقعے کی وجہ بنا، مگر اس وقت اس خیال کو سپورٹ کرنے والا ڈیٹا سامنے نہیں آیا تھا۔

    دراصل واقعے کے بعد جائے حادثہ پر کسی قسم کے ایوالانچ کے آثار نہیں ملے تھے۔

    تاہم سوئٹزرلینڈ کے اسنو ایوانچ سمولیشن لیبارٹری کی ٹیم نے تجزیاتی ماڈلز، سمولیشنز اور ڈزنی انیمیشن اسٹوڈیو کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے وضاحت کی کہ کس طرح ایک ایوا لانچ اپنے پیچھے شواہد چھوڑے بغیر تباہی مچا سکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایوالانچ اتنا چھوٹا ہوسکتا ہے جس میں برف ایک ٹھوس ڈھلان کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وقت اور برفباری کے ساتھ تمام تر ملبہ اوجھل ہوجتا ہے مگر ہائیکرز کے لیے خطرہ ضرور ہوتا ہے۔

    مگر اس سے یہ وضاحت نہیں ہو سکی کہ 3 کوہ پیماؤں کے جسموں کو نقصان کیسے پہنچا۔

    تو اس سوال کے جواب کے لیے تحقیقی ٹیم نے ڈزنی کی فلم فروزن کو دیکھا اور انیمیشن ماڈلز کے سمولیشن ٹولز کے ذریعے تجزیہ کیا کہ ایوالانچ سے جسموں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس سمولیشن کے ذریعے تحقیقی ٹیم نے تعین کیا کہ ایوالانچ اتنا طاقتور ہوسکتا ہے کہ کھوپڑیوں اور سینے کی ہڈیوں کو توڑ سکے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا اس کے حوالے سے شواہد نہ ہونے کے برابر تھے، کیونکہ وہ سب کوہ پیما خیمے سے باہر نکل کر مختلف حصوں کی جانب بھاگ گئے تھے۔

    مگر محققین کا خیال یہ ہے کہ جب یہ افراد ایوالانچ سے بچ کر بھاگنے اور اپنے زخمی ساتھیوں کی مدد کی کوشش کر رہے تھے، ان کے زخموں اور شدید سردی ان کے لیے جان لیوا عناصر ثابت ہوئے۔

    اس واقعے کے اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو ابھی بھی حل طلب ہیں۔