Tag: کوہ پیمائی

  • دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما کا اعزاز رکھنے والی پاکستانی طالبہ کا ایک اور کارنامہ

    دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما کا اعزاز رکھنے والی پاکستانی طالبہ کا ایک اور کارنامہ

    اسلام آباد: پاکستان کی ننھی کوہ پیما سلینہ خواجہ نے ایک اور چوٹی سر کر کے پاکستان کا نام روشن کردیا، وہ اس سے قبل پاکستان کی متعدد برفانی چوٹیاں سر کر چکی ہیں۔

    دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما کا اعزاز رکھنے والی سلینہ خواجہ نے قراقرم سلسلے کی مشکل ترین چوٹی اسپنٹک بھی سر کر کے نیا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا، یہ چوٹی 7 ہزار 27 میٹر بلند ہے۔

    وہ اس چوٹی کو سر کرنے والی دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما بن چکی ہیں۔

    اس سے قبل سلینہ 5 ہزار 765 میٹر بلند کوزہ سر چوٹی بھی سر کر کے عالمی ریکارڈ بنا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ منگلی اور ولیوسر چوٹی بھی سر کر چکی ہیں۔

    سلینہ کا خواب دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ہے جس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ اب ان کی کوہ پیمائی کا اگلا قدم براڈ پیک کو بھی تسخیر کرنا ہے۔ براڈ پیک 8 ہزار 47 میٹر بلند چوٹی ہے۔

    اس ننھی پری کا بچوں کے نام اپنے پیغام میں کہنا ہے کہ ہمیشہ بڑا ہدف چنیں، سخت محنت کریں اور اپنا ہدف حاصل کریں۔

  • چیتے کی طرح پہاڑوں پر چڑھنے کا خطرناک کھیل

    چیتے کی طرح پہاڑوں پر چڑھنے کا خطرناک کھیل

    کوہ پیمائی ایک نہایت مشکل اور جانبازی کا کھیل ہے جسے نہایت باحوصلہ افراد ہی انجام دے سکتے ہیں یا پھر وہ سرپھرے جو کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔

    لیکن کوہ پیمائی کا ایک کھیل ایسا بھی ہے جسے عام طور پر موت کا سامنا کرنا کہا جاتا ہے۔

    فری سولو کلائمبنگ نامی اس کھیل میں پہاڑی چٹانوں اور چوٹیوں پر چڑھنے کے لیے رسیوں اور دیگر آلات کوہ پیمائی کے بغیر صرف ہاتھ پاؤں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فلک بوس پہاڑوں کے درمیان رسی پر چلنے والے مہم جو

    حتیٰ کہ اگر کوہ پیمائی کے دوران کوہ پیما کا ہاتھ پھسل جائے، یا توازن بگڑ جائے تو صرف موت ہی اس کا مقدر بنتی ہے کیونکہ ہزاروں فٹ نیچے زمین پر گرنے سے بچانے کے لیے اس کے پاس کوئی حفاظتی سامان نہیں ہوتا۔

    آپ بھی اس فری سولو کلائمبنگ کا مظاہرہ دل تھام کر دیکھیں۔

    ویڈیو میں موجود کوہ پیما ایلکس اونلڈ ہے جو چٹانوں پر تیز رفتاری سے چڑھنے کے متعدد ریکارڈز قائم کر چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے نئی تاریخ رقم کردی

    پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے نئی تاریخ رقم کردی

    گلگت بلتستان کے دشوار گذار وادی شمشال سے تعلق رکھنے والی ثمینہ بیگ یوں تو روزانہ ہی اپنے علاقائی پہاڑوں اور گھاٹیوں کو عبور کیا کرتی تھیں تاہم انہوں نے بلند ترین ماؤنٹ ایورسٹ چوٹی کو سر کر کے شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے یہ معرکہ سر کرنے والی پہلی مسلمان خاتون بننے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔

    بہادر کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ شمشال میں کوہ پیماؤں کی تربیت کے لیے اسکول کا قیام بھی عمل میں لائیں تو دوسری جانب آٹھ شمشالی خواتین کو کوہ پیمائی کی تربیت دینے کے بعد موسم سرما کی مہم برائے منگلخ سرائے ترتیب دیا جو 6065 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور جہاں تک پہنچنے کے لیے دشوار گذار و خطرناک راستوں کو ہی عبور نہیں کرنا تھا بلکہ جان لیوا موسم کو بھی شکست دینا تھی۔

    آٹھ بہادر شمشالی خواتین در بیگ، فرزانہ فیصل، تخت بی بی، شکیلہ ، میرا جبیں، گوہر نگار، حفیظہ بانو اور حمیدہ بی بی نے یہ معرکہ سر کرنے کی ٹھانی جس کے لیے اپر ہنزہ میں 4100 میٹر کی بلندی پر ایک گلیشیئر پر واقع کوہ پیماؤں کی تربیت گاہ میں ان خواتین کو ثمینہ بیگ اور قدرت علی نے خصوصی تربیت دی جس کی تکمیل کے بعد اس مہم کا باقاعدہ آغاز 29 دسمبر کو ہوا۔

    samina-baig-post-3

    ابتدائی طور پر ثمینہ بیگ اور ان کے ساتھیوں کی منزل 60650 میٹر کی بلندی پر واقع چوٹی منگلخ تھی تا ہم سفری سہولیات اور سامان رسد پہنچانے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے منگلخ کے بجائے ایک انجان اور اب تک سر نہ ہونے والی چوٹی بوئیزم کو سر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو منگلخ چوٹی سے بھی مزید 1750 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

    samina-baig-post-4

    samina-baig-post-6

     

    مہم جوئی کے آغاز سے ہی موسم سرد اور طوفانی ہوتا چلا گیا لیکن با ہمت کوہ پیما خواتین نے اپنے عزم اور حوصلے کو جواں رکھتے ہوئے سفر جاری رکھا یہاں تک کہ مہم کے آخری دن صرف چوبیس گھنٹے میں منگلخ سے مزید 1750 میٹرز کی بلندی، 45 کلو میٹر فی گھنٹہ کے حساب سے چلنے والے طوفان اور منفی 38 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے باوجود کامیابی سے طے کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔

    samina-baig-post-7

     

    یہی نہیں بلکہ ان آٹھ بہادر خواتین میں شامل 16 سالہ حفیظہ بانو نے یہ چوٹی سر کر کے ” کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما” ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔

    samina-baig-post-5

     

    samina-baig-post-1

    ممتاز کوہ پیما ثمینہ بیگ نے کامیاب مہم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر خواتین کے اہل خانہ نے برف باری اور سرد ترین موسم ہونے کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تا ہم مشترکہ میٹنگ میں گفت و شنید اور انسٹرکٹرز و کچھ خواتین کی ہمت اور حوصلہ افزائی کرنے پر خواتین نے اس تاریخی معرکے کو سر کرنے کی ٹھانی۔

    samina-baig-post-2

  • عالمی شہریت یافتہ کوہ پیما حسن سد پارہ انتقال کر گئے

    عالمی شہریت یافتہ کوہ پیما حسن سد پارہ انتقال کر گئے

    راولپنڈی: دنیا کی بلند ترین اور قاتل برفانی چوٹیوں کو اپنے عزم و ہمت سے شکست دینے والے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما حسن سد پارہ موت سے شکست کھا گئے، خون کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد آج سہ پہر وہ چل بسے، عمران خان اور دیگر شخصیات نے ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

    حسن سد پارہ کا منفرد اعزاز دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو بغیر مصنوعی آکسیجن کے سر کرنا تھا، وہ اسکردو میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی کوہ پیمائی کا باقاعدہ آغاز سنہ 1999 میں نانگا پربت کو سر کر کے کیا تھا۔

    hassan-1

    hussain-post-1

    سنہ 2004 میں انہوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کی۔

    حسن سد پارہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے 8 ہزار میٹر سے بلند 6 چوٹیوں کو سر کیا ہے جن میں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سمیت براڈ پیک، گشابرم ون، ٹو اور نانگا پربت شامل ہیں۔

    hussain-post-2

    hussain-post-3

    حسن سد پارہ گزشتہ کچھ عرصے سے خون کے سرطان میں مبتلا تھے اور راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں زیرعلاج تھے، ان کے اہل خانہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔

    ان کے انتقال پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی کوہ پیما حسن سدپارہ کا انتقال ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہے، مرحوم نے صحیح معنوں میں دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا، مرحوم ایک پر عزم اور نڈر کوہ پیما تھے جنہوں نے خود کومنوایا،نوجوان ان کی زندگی سے سبق سیکھیں۔

    انہوں نے مرحوم کے اہل خانہ اور لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا بھی کی۔

  • بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان رسی پر چلنے والے مہم جو

    بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان رسی پر چلنے والے مہم جو

    آپ نے اس کرتب باز کو تو دیکھا ہوگا جو بغیر کسی سہارے کے ایک تنی ہوئی رسی پر چلتا ہے۔ دیکھنے والوں کی سانسیں اس کے ہر قدم کے ساتھ گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہیں لیکن وہ سب سے بے نیاز اپنے پیروں پر توجہ مرکوز رکھتا ہے اور بالآخر دوسرے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔

    اس کھیل میں سارا کمال توازن اور یکسوئی کا ہے۔ برسوں کی محنت اور مشق کے بعد ایک معمولی رسی پر اپنا توازن قائم رکھنا اور پیروں کو اس طرح حرکت دینا کہ توازن نہ بگڑنے نہ پائے یقیناً ایک محنت طلب کام ہے۔ اسی طرح تنی ہوئی رسی پر چلنے کے دوران اگر توجہ بھٹک جائے تو پاؤں لڑکھڑا بھی سکتے ہیں اور چلنے والا زمین پر گر اپنی ہڈیاں بھی تڑوا سکتا ہے۔

    لیکن کیا آپ نے تصور کیا ہے کہ یہ کرتب دنیا کے دو بلند ترین پہاڑوں کے درمیان رسی باندھ کر سر انجام دیا جائے؟

    یقیناً آپ کی سانسیں رک گئی ہوں گی۔ لیکن دنیا میں ایسے سرپھروں کی کمی نہیں جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خطرناک کام سر انجام دیتے ہیں۔

    flying-3

    دو پہاڑوں کے درمیان رسی باندھ کر اس پر چلنے کا کارنامہ بھی فرانس سے تعلق رکھنے والی ’فلائنگ فرنچز‘ نامی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے انجام دیا۔

    کئی ارکان پر مشتمل یہ ٹیم صرف پہاڑوں کو سر نہیں کرتی بلکہ پہاڑوں کی چوٹی پر پہنچ کر ایسے ایسے کام سر انجام دیتی ہے جنہیں دیکھ کر آپ کی سانس رک جائے۔

    یہ ٹیم پہاڑوں کی چوٹی پر پہنچ کر دو پہاڑوں کے درمیان رسیاں اور تاریں باندھتی ہے اور ان پر بغیر کسی سہارے کے چلنا شروع کردیتی ہے۔ اس کام کے لیے یہ ہفتوں تک محنت اور پریکٹس کرتے ہیں۔

    flying-5

    بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان رسیوں پر چلنے کی شوقین یہ ٹیم خود کو اسکائی لائنرز کہتی ہے۔

    اس ٹیم کی جانب سے کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح یہ ٹیم پہلے تنی ہوئی تاروں پر چلنے کی مشق کرتی ہے، اس کے بعد پہاڑوں کو سر کرنے جاتی ہے۔

    وہاں پہنچ کر بھی یہ دو تین دن تک سہاروں کے ساتھ ان تاروں پر چلنے کی مشق کرتے ہیں۔ اس دوران تار پر چلنے والا گرتا بھی ہے، اس کا ہاتھ بھی چھوٹتا ہے اور اس کا توازن بھی بگڑتا ہے لیکن اس کی کمر کے گرد لپٹے کوہ پیمائی کے بیلٹ اسے بچا لیتے ہیں۔

    flying-4

    اس کے بعد اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ خوب مشق کرنے کے بعد بالآخر ایک روز ٹیم کا ایک رکن بغیر سہاروں کے تار پر چلتا ہوا ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی طرف جاتا ہے۔ ذرا سی لغزش اسے سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں گرا سکتی ہے، لیکن وہ اپنے پاؤں پر اپنی توجہ مرکوز کیے چلتا جاتا ہے یہاں تک کہ دوسرے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔

    یہ ٹیم پہاڑوں پر پہنچ کر اسی طرح کے اور بھی کئی کرتب دکھاتی ہے۔ انہی میں سے ایک کرتب فضا میں اڑنے کا بھی ہے جس کے لیے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے مصنوعی پر تیار کیے ہیں۔

    flying-2

    آئیے آپ بھی وہ دل دہلا دینے والی ویڈیو دیکھیں جسے دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ویڈیو میں دکھائے گئے پہاڑ اٹلی اور فرانس کی سرحد پر واقع الپس کے پہاڑ ہیں۔

  • گلگت بلتستان: خراب موسم کے باعث 2 امریکی کوہ پیما لاپتہ

    گلگت بلتستان: خراب موسم کے باعث 2 امریکی کوہ پیما لاپتہ

    اسلام آباد: گلگت بلتستان میں ایک غیر معروف پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لیے جانے والے 2 امریکی کوہ پیما لاپتہ ہوگئے۔ حکام کے مطابق خراب موسم کے باعث ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    امریکی کوہ پیما کیلے ڈمپسٹر اور اسکاٹ ایڈمسن گلگت بلتستان میں چکتوئی گلیشیئرز کی 7 ہزار 285 میٹر چوٹی اوگر دوئم سر کرنے کے لیے اتوار کو نکلے تھے۔

    mount-3

    ان کے ریسکیو کے لیے قائم کی جانے والی ویب سائٹ کے مطابق دونوں کوہ پیماؤں کا پروگرام 5 دن کا تھا جس کے بعد انہیں واپس آنا تھا لیکن پیر کے دن ان کے پاکستان باورچی عبدالغفور نے ان کے سر پر لگائے جانے والے لیمپ دیکھے۔ یہ لیمپ چوٹی کی طرف جانے والے راستے میں پڑے ہوئے تھے۔

    حکام کے مطابق علاقہ کا موسم ٹھیک تھا لیکن منگل سے اچانک طوفان اور برفباری شروع ہوگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خراب موسم میں ہیلی کاپٹر نہیں بلائے جاسکتے۔ موسم کے باعث ریسکیو کا عمل تعطل کا شکار ہے اور جیسے ہی موسم بہتر ہوگا دوبارہ ان کی تلاش شروع کردی جائے گی۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام *

    اس سے قبل 3 کوہ پیماؤں کی ٹیم انہیں ڈھونڈنے کے لیے روانہ کی گئی لیکن خراب موسم کے باعث وہ زیادہ بلندی تک نہیں جاسکے۔ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے آرمی سے بھی رابطہ کیا جاچکا ہے۔

    mount-1

    واضح رہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کوہ پیماؤں کے لیے ایک پرکشش مقام ہیں جہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور دیگر بے شمار چوٹیاں کوہ پیماؤں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔