Tag: کپاس

  • پاکستانی زرعی ماہر کا بڑا کارنامہ، 50 ڈگری تک گرمی برداشت کرنے والی کپاس کی نئی قسم تیار کر لی

    پاکستانی زرعی ماہر کا بڑا کارنامہ، 50 ڈگری تک گرمی برداشت کرنے والی کپاس کی نئی قسم تیار کر لی

    پاکستانی زرعی ماہر جاوید سلیم قریشی نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، انھوں نے کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے جدید مختلف جنیاتی خصوصیات کا حامل بیج تیار کر لیا، جو بغیر سپرے کیڑوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ موسم کی شدت کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    لاہور کے زرعی ماہر جاوید سلیم قریشی نے 50 ڈگری تک گرمی برداشت کرنے اور 7 مختلف خصوصیات کی حامل کپاس کی نئی قسم تیار کر کے ایک کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ نئے بیج سے پیداوار 50 من فی ایکڑ تک پہنچ جائے گی، وفاقی وزیر پلاننگ کمیشن احسن اقبال نے نئی فصل کا معائنہ کیا۔

    پچیس سال تک کپاس کی فصل پر ریسرچ کرنے والے ماہر زراعت انجنیئر جاوید سلیم قریشی نے بتایا یہ پچاس ڈگری درجہ حرارت کو بھی برداشت کر سکتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لاہور میں ہی کامیابی سے یہ بیج تیار کیا، کپاس کے طرز ہی پر ہمیں کنولا، چاول، مکئی، پھل اور سبزیوں کی پیدوار کو بڑھانا اور لاگت کو کم کرنا ہوگا۔

    وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی اس کامیاب تجربے کو سراہا اور کہا کہ زراعت کو فروغ دینے لیے ایک قومی سطح کی مشاورتی کمیٹی بنا رہے ہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • سندھ میں کپاس، گنے اور دھان کی کاشت متاثر ہونے کا خدشہ

    سندھ میں کپاس، گنے اور دھان کی کاشت متاثر ہونے کا خدشہ

    کراچی: دریائے سندھ میں سکھر اور کوٹری بیراج پر پانی کی قلت برقرار ہے، جس سے صوبے میں کپاس، گنے اور دھان کی کاشت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی قلت برقرار ہے، جس سے سندھ کے زراعتی شعبے پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، محکمہ آب پاشی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1420.7 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ پانی کی آمد 39300 کیوسک اور اخراج 20000 کیوسک ہے۔

    کابل ندی سے دریائے سندھ میں 31600 کیوسک پانی آ رہا ہے، سکھر بیراج پر پانی کی آمد 24860 کیوسک جب کہ اخراج صرف 6630 کیوسک ہے، جب کہ یہاں پانی کی ضرورت 28855 کیوسک ہے، اسی طرح سکھر بیراج پر پانی کی قلت 37 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔


    پاکستانی صنعتوں کی پیداوار میں کمی آ گئی


    دوسری جانب کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 4365 کیوسک اور اخراج صرف 190 کیوسک ہے، جہاں ضرورت 6800 کیوسک ہے، یوں قلت 36 فی صد تک جا پہنچی ہے، سندھ کے تینوں بڑے بیراجوں پر پانی کی مجموعی ضرورت 35655 کیوسک ہے، جب کہ موجودہ دستیابی صرف 27799 کیوسک ہے، جو کہ 22.03 فی صد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

    نہری نظام پر بھی پانی کی قلت کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں، روہڑی کینال کو 12500 کیوسک کی بجائے صرف 8000 کیوسک، نارا کینال کو 12600 کیوسک کی جگہ 8000 کیوسک، جب کہ خیرپور ایسٹ اور ویسٹ کینال کو بالترتیب 1220 اور 1010 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو زرعی پیداوار اور پینے کے پانی کی فراہمی میں شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

  • کپاس کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان سے بچانے کے لیے جلدی کاشت بہتر ہے، ای پی بی ڈی

    کپاس کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان سے بچانے کے لیے جلدی کاشت بہتر ہے، ای پی بی ڈی

    پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ ہر سال بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بدلتے ہوئے بارش کے پیٹرن ہمارے کسانوں، خاص طور پر کپاس کے کاشت کاروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    کپاس ایک حساس فصل ہے، جو تاخیر سے کاشت ہونے کی صورت میں کم پیداوار، زیادہ کیڑوں کے حملے (جیسے پنک بول ورم) اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک آسان اور مؤثر حل موجود ہے – جلد کاشت!

    مارچ اور اپریل میں کپاس کی کاشت سے کسان 14 سے 35 فی صد تک زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ پھول بڑے، نشوونما بہتر اور بیماریوں کا دباؤ کم ہوتا ہے۔ جو کسان 15 اپریل تک کپاس کاشت کرتے ہیں، وہ فی ایکڑ 1,50,000 روپے تک کما سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت پہلے ہی ان کسانوں کے لیے 25,000 روپے کی مالی امداد فراہم کر رہی ہے جو 15 فروری سے 31 مارچ کے درمیان کپاس کاشت کریں گے۔

    ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضرورت


    لیکن یہ صرف کسانوں کی مدد کا معاملہ نہیں – یہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کا موقع ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری – جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے – مکمل طور پر کپاس پر منحصر ہے۔ جلد کاشت ہونے والی کپاس اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے، جو ہماری ٹیکسٹائل ملوں کو بہترین خام مال فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطلب زیادہ برآمدات، زیادہ روزگار، اور مضبوط زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ اس سے ہماری کپاس کی درآمد پر انحصار بھی کم ہوگا۔

    کپاس صرف ایک فصل نہیں – یہ ہماری زمین، ہماری فیکٹریوں اور ہماری معیشت کی جان ہے۔ آج فیصلہ کریں – جلد کاشت کریں، زیادہ کمائیں، اور پاکستان کی معیشت کو سپورٹ کریں!

    معاشی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ


    معاشی تحقیقاتی ادارے اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل کے وسط تک اپریل کی کاشت بہتر پیداوار دے سکتی ہے، کپاس کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان سے بچانے کےلیے جلدی کاشت بہتر ہے، اور کپاس کی دیر سے بوائی کے موسمیاتی اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں۔

    ای پی بی ڈی کے مطابق کپاس کی دیر سے بوائی سے گلابی سنڈی کے حملوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اور یہ فی ایکڑ پیداوار متاثر کر سکتی ہے، کپاس کی بوائی 15 اپریل تک کی جائے تو پیداوار میں 14 سے 35 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے، اور کسان ڈیڑھ لاکھ روپے فی ایکڑ تک منافع حاصل کرسکتا ہے۔

    ای پی بی ڈی کے مطابق کپاس کی بروقت بوائی کے لیے پنجاب حکومت کا 25 ہزار روپے کا اعلان خوش آیند ہے، کپاس کی بہتر پیداوار معاشی ترقی کے لیے بہتر ہے، اس سے روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور کپاس کی بہتر پیداوار غربت میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

  • مختلف شہروں میں کپاس کی کاشت متاثر

    مختلف شہروں میں کپاس کی کاشت متاثر

    کراچی: درجہ حرارت میں کمی کے باعث مختلف شہروں میں کپاس کی کاشت متاثر ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے کاٹن ایئر 26۔2025 کے لیے کپاس کی کاشت اور پیداواری ہدف ابھی تک مختص نہیں کیا گیا ہے۔

    چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کے مطابق کاٹن ایئر 2024-2025 میں 31 لاکھ 18 ہزار ہیکٹر پر کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔

    رواں کاٹن ایئر کے لیے ہدف مقرر نہیں کیا جا سکا ہے، جب کہ حال ہی میں سندھ کے ساحلی شہروں میں بھرپور جب کہ پنجاب کے چند اضلاع میں کپاس کی جزوی کاشت شروع ہوئی تھی، تاہم درجہ حرارت گرنے کے باعث کپاس کی کاشت متاثر ہو گئی ہے۔

    مختلف شہروں میں کپاس کی جزوی کاشت شروع

    سندھ کے جن ساحلی اضلاع میں کپاس کی کاشت شروع ہوئی تھی ان میں بدین، ٹھٹھہ، میر پور خاص، حیدر آباد اور سانگھڑ شامل تھے، جب کہ پنجاب کے اضلاع بہاولنگر، رحیم یار خان، وہاڑی اور بہاولپور میں کپاس کی جزوی کاشت شروع ہوئی تھی۔

    چیئرمین احسان الحق نے متنبہ کیا تھا کہ اگر روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم نہ کی گئی تو کپاس کی کاشت میں ریکارڈ کمی کے خدشات ہیں۔

    پاکستان میں آج سونے کی قیمت

  • مختلف شہروں میں کپاس کی جزوی کاشت شروع

    مختلف شہروں میں کپاس کی جزوی کاشت شروع

    ملک کے مختلف شہروں میں کپاس کی جزوی کاشت شروع ہو گئی ہے۔

    چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کے مطابق سندھ کے ساحلی اضلاع بدین، ٹھٹھہ، میر پور خاص، حیدر آباد اور سانگھڑ میں کپاس کی کاشت شروع ہو گئی ہے۔

    پنجاب کے اضلاع بہاولنگر، رحیم یار خان، وہاڑی اور بہاولپور میں بھی کپاس کی جزوی کاشت شروع ہو گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کاٹن ایئر 26۔2025 کے لیے کپاس کی کاشت اور پیداواری ہدف ابھی تک مختص نہیں کیا گیا ہے۔

    چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم نہ کی گئی تو کپاس کی کاشت میں ریکارڈ کمی کے خدشات ہیں۔

    زرعی اجناس والے ملک پاکستان نے 7 ماہ میں کتنی غذائی اشیا درآمد کیں؟

  • 2024 کے چاروں موسموں کے دوران کپاس کی پیداوار میں کتنی کمی آئی؟

    2024 کے چاروں موسموں کے دوران کپاس کی پیداوار میں کتنی کمی آئی؟

    کراچی: 2024 کے چاروں موسموں کے دوران پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں 33 فی صد سے زائد کی کمی آئی ہے۔

    دو ہزار چوبیس کے دوران 54 لاکھ 52 ہزار گانٹھوں کا کاروبار ہوا جب کہ 2023 میں دسمبر تک 81 لاکھ 71 ہزار گانٹھوں کا کاروبار ہوا تھا۔

    دو ہزار چوبیس میں 27 لاکھ 19 ہزار گانٹھوں کی کمی آ چکی ہے، نمایاں کمی پنجاب اور سندھ میں دیکھی گئی ہے، پنجاب میں 26 لاکھ 59 ہزار جب کہ سندھ میں 27 لاکھ 93 ہزار گانٹھوں کا کاروبار ہوا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹریز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رواں سال تقریبا 2 ارب ڈالر سے زائد کی کپاس درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی۔

    واضح رہے کہ کپاس ایک نازک ریشہ ہے جو پھٹی کی شکل میں کپاس کے پودے پر بیجوں کے ارد گرد پیدا ہوتا ہے۔ کپاس کے ریشے کو روئی یا دھاگے کی شکل دے کر کپڑا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کے بیج سے تیل نکال کر بناسپتی گھی اور دیگر اشیا بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    کپاس پاکستان کی معیشت کا بنیادی جزو ہے، یہ ایک اہم نقد آور فصل ہے اور زراعت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس سے ٹیکسٹائل کی بے شمار مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، قیمتی زر مبادلہ کمانے اور ملکی ٹیکسٹائل کی صنعت کے فروغ میں کپاس نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/dollar-currency-rate-pakistan-today/

  • کپاس کی آمد میں سالانہ بنیادوں پر 33.5 فی صد کمی ریکارڈ

    کپاس کی آمد میں سالانہ بنیادوں پر 33.5 فی صد کمی ریکارڈ

    کراچی: پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے کپاس کی فیکٹریوں کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 لاکھ 62 ہزار 748 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں کم آئی ہے، کمی کی شرح 33.05 فی صد رہی۔

    30 نومبر 2024 تک ملک کی جننگ فیکٹریوں میں 51 لاکھ 90 ہزار 725 گانٹھ کپاس آئی، 30 نومبر 2023 تک 77 لاکھ 53 ہزار 473 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں آئی تھی۔

    صوبہ پنجاب کی فیکٹریوں میں 24 لاکھ 59 ہزار 684 گانٹھ کپاس آئی، گزشتہ سال فیکٹریوں میں آنے والی فصل 37 لاکھ 36 ہزار 749 گانٹھ کپاس سے 12 لاکھ 77 ہزار 65 گانٹھ کم ہے۔ پنجاب میں کمی کی شرح 34.18 فی صد رہی۔

    صوبہ سندھ کی فیکٹریوں میں 27 لاکھ 31 ہزار 41 گانٹھ کپاس آئی ہے، گزشتہ سال فیکٹریوں میں آنے والی فصل 40 لاکھ 16 ہزار 724 گانٹھ کپاس سے 12 لاکھ 85 ہزار683 گانٹھ کم ہے، یوں صوبہ سندھ میں کمی کی شرح 32.01 فی صد رہی۔

    30 نومبر 2024 تک فیکٹریوں میں آنے والی کپاس سے 49 لاکھ 53 ہزار 991 گانٹھ روئی تیار کی گئی، ملک میں 406 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں، ایکسپورٹرز/ٹریڈرز نے رواں سیزن میں 41 ہزار 900 گانٹھ روئی خرید کی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر نے 44 لاکھ 71 ہزار 578 گانٹھ روئی خرید کی ہے، جب کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) نے کاٹن سیزن 2024-25 میں خریداری نہیں کی۔

    صوبہ پنجاب میں 251 جننگ فیکٹریاں آپریشنل ہیں اور 23 لاکھ 39 ہزار 781 گانٹھ روئی تیار کی گئی ہے، ضلع ملتان میں 30 نومبر 2024 تک 46 ہزار 711 گانٹھ کپاس، ضلع لودھراں میں 60 ہزار 478 گانٹھ کپاس، ضلع خانیوال میں 1 لاکھ 41 ہزار 848 گانٹھ کپاس، ضلع مظفر گڑھ میں 63 ہزار 320 گانٹھ کپاس، ضلع ڈیرہ غازی خان میں 2 لاکھ 20 ہزار 889 گانٹھ کپاس، ضلع راجن پور میں 16 ہزار 144 گانٹھ کپاس، ضلع لیہ میں 98 ہزار 106 گانٹھ فیکٹریوں میں آئی۔

    ضلع وہاڑی میں 1 لاکھ 45 ہزار 707 گانٹھ کپاس، ضلع ساہیوال میں 1 لاکھ 16 ہزار 506 گانٹھ کپاس، ضلع رحیم یار خان میں 3 لاکھ 39 ہزار 708 گانٹھ کپاس، ضلع بہاولپور میں 4 لاکھ 3 ہزار 595 گانٹھ کپاس، ضلع بہاولنگر میں 6 لاکھ 20 ہزار 860 گانٹھ کپاس فیکٹریوں میں آئی ہے۔

    کینو کی ایکسپورٹ میں بڑی کمی کا خدشہ

    ضلع سانگھڑ میں 12 لاکھ 37 ہزار 718 گانٹھ کپاس، ضلع میرپورخاص میں 56 ہزار 100 گانٹھ کپاس، ضلع نواب شاہ میں 52 ہزار 199 گانٹھ کپاس، ضلع نوشہرو فیروز میں 2 لاکھ 2 ہزار 432 گانٹھ کپاس، ضلع خیرپور میں 2 لاکھ 30 ہزار 900 گانٹھ کپاس، ضلع سکھر میں 3 لاکھ 39 ہزار 13 گانٹھ کپاس، ضلع جام شورو میں 37 ہزار 380 گانٹھ کپاس اور ضلع حیدرآباد میں 1 لاکھ 33 ہزار 13 گانٹھ کپاس اور صوبہ بلوچستان میں 1 لاکھ 55 ہزار 800 گانٹھ فیکٹریوں میں آئی ہے۔

    کراچی کی فیکٹریوں میں غیر فروخت شدہ اسٹاک 6 لاکھ 77 ہزار 247 گانٹھ کپاس اور روئی موجود ہے۔

  • امریکا سے معیاری روئی کی درآمد بڑھ گئی

    امریکا سے معیاری روئی کی درآمد بڑھ گئی

    کراچی: پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث اسپننگ ملوں کی جانب سے معیاری روئی کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کے مطابق پاکستانی درآمد کنندگان کی جانب سے امریکا سے معیاری روئی کی درآمد بڑھ گئی ہے، پاکستان کی امریکا سے روئی درآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔

    صرف ایک ہفتے کے دوران امریکا سے لاکھوں ڈالر مالیت کے 72 ہزار بیلز کے درآمدی معاہدے ہوئے ہیں، اور رواں سال پاکستان امریکی روئی کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔

    30 لاکھ سے زائد بیلز کے روئی درآمدی معاہدے مکمل ہو چکے ہیں، اندرون ملک کپاس کی کم پیداوار اور معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث روئی کی درآمدات میں اضافہ ہوا۔

    روئی کی قیمتیں بھی 200 روپے فی من اضافے سے 18 ہزار 200 روپے فی من تک پہنچ گئی ہیں۔

  • ملک میں آدھی سے زیادہ جننگ فیکٹریاں کیوں بند ہو گئیں؟

    ملک میں آدھی سے زیادہ جننگ فیکٹریاں کیوں بند ہو گئیں؟

    کراچی: ملک میں کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی کے سبب آدھی سے زیادہ جننگ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں۔

    کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی 614 کے مقابلے میں رواں سال ملک بھر میں صرف 302 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں، باقی بند ہو گئی ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کپاس کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹی سے ساتویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔ پاکستان میں اب ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے نجی شعبے کے تحت روئی درآمد کی جائے گی۔

    15 ستمبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں روئی کی 14 لاکھ 34 ہزار بیلز کی آمد ریکارڈ کی گئی، پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال کپاس کی ملکی پیداوار میں 64 فی صد کی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

    کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 65 فی صد جب کہ سندھ میں 62 فی صد کمی آ گئی ہے۔

  • کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی، ملک پر درآمدات کا بوجھ مزید بڑھنے لگا

    کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی، ملک پر درآمدات کا بوجھ مزید بڑھنے لگا

    کراچی: ملک میں کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی آ گئی ہے، جس کی وجہ سے ملک پر درآمدات کا بوجھ مزید بڑھنے لگا ہے۔

    چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کے مطابق کپاس کی ملکی پیداوار میں امسال غیر معمولی کمی دیکھی گئی ہے، 15 اگست تک کپاس کی ملکی پیداوار 10 لاکھ 75 ہزار بیلز رہی، یہ پیداوار پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 49 فی صد کم ہے۔

    صوبہ سندھ اس لحاظ سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، پنجاب میں کپاس کی پیداوار 38 فی صد جب کہ سندھ میں 54 فی صد کم رہی ہے، اس کی بڑی وجہ منفی موسمی حالات (جیسا کہ مون سون کی بارشیں اور سیلاب) بتائی جا رہی ہے، اس کے علاوہ زراعت کے لیے درکار اشیا مہنگی ہونے کے سبب بھی کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے، ان مسائل کی وجہ سے کسانوں نے بہت کم کپاس کاشت کی۔

    پاکستان میں آج ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی قیمت

    چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ اس صورت حال میں ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے بیرون ملک سے روئی درآمدی معاہدوں میں تیزی آ گئی ہے، اور دس لاکھ سے زائد روئی کی بیلز کے درآمدی معاہدے طے پا جانے کی اطلاعات ہیں۔